محرکات
احقر کی ابتدائی تعلیم اردو میں ہوئی۔ جہاں ایک طرف مادری زبان میں مختلف مضامین اور موضوعات کو سمجھنا آسان رہا وہیں اردو میں سائنسی مواد کی کمی نے اُسی وقت یہ احساس کرادیا کہ اردو میں عام سائنسی مواد یا پھر سائنسی ناول اور کہانیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اِسی ضرورت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے خاکسار نے عوامی دلچسپی کے سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر قلم اُٹھایا۔ پہلی تحریر 1982ء میں قومی آواز (دہلی) میں شائع ہوئی۔ ریڈیو سے نشریات کا سلسلہ بھی جبھی سے شروع ہوگیا۔
انجمن فروغ سائنس
اِس ذاتی خدمت کو ایک تحریک کی شکل دینے کے واسطے 1992ء میں ’’انجمن فروغِ سائنس‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے سرپرستوں میں حکیم عبدالحمید، سید حامد، پروفیسر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ)، پروفیسر آل احمد سرور اور آنند سروپ جیسے ناموران شامل تھے۔
ماہنامہ
سائنس کے طلباء اور اساتذہ کو اردو میں سائنسی موضوعات پر لکھوانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی اشد ضرورت تھی لہٰذا 1994ء سے اردو ماہنامہ سائنس جاری کیا۔ اللہ کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ عام فہم سائنس اور ماحولیات کا یہ ماہنامہ 2018ء میں اپنی عمر کے پچیسویں سال میں داخل ہوگیا اور اس طرح اردو میں علمی صحافت کی ایک نئی تاریخ وجود میں آگئی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ’’سائنس‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی پرچہ انجمن ترقی اردو کے تحت جنوری 1928ء میں جاری کیا تھا۔ اگست 1948ء میں اس کا آخری شمارہ آیا گویا اس سہ ماہی نے جو آخیر میں ماہنامہ ہوگیا تھا، 21 سال کی عمر پائی۔ اردو ماہنامہ سائنس، اِس برِّصغیر کا واحد سائنسی ماہنامہ ہے جس کی بلاناغہ اشاعت پچیسویں سال تک پہنچی ہے۔
اردو سائنس کانگریس
گزشتہ سالوں میں اِس رسالے میں مختلف سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر ہزاروں مضامین شائع ہوکر اردو کے چمن میں علمی شگوفے چٹکاگئے۔ اردو سائنس سے باہم جُڑے افراد کو مزید مربوط کرنے کی غرض سے ’’اردو سائنس کانگریس‘‘ کاسلسلہ شروع کیا گیا۔ پہلی اردو سائنس کانگریس دہلی کے تاریخی اور قدیم ترین علمی ادارے ذاکر حسین دہلی کالج میں 20 تا 21 مارچ 2015ء کو منعقد ہوئی۔ خاکسار اُس وقت اِسی کالج میں پرنسپل کی خدمات انجام دے رہا تھا۔ دوسری کانگریس کی ذمہ داری انجمن فروغِ سائنس کے علی گڑھ چیپٹر کے انچارج ڈاکٹر عبدالمعز شمس نے قبول کی۔ لہٰذا 20 تا 21 فروری 2016ء کے درمیان اِس کا انعقاد علی گڑھ میں ہوا۔ اِسی دوران راقم نے مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد وہاں ’’اردو مرکز برائے فروغِ علوم‘‘ قائم کیا اور ڈاکٹر عابد معز کو اُس کی ذمہ داری سپرد کی۔ اِس مرکز کے تحت ہر سال قومی اردو سائنس کانگریس اور قومی اردو سماجی سائنس کانگریس کے انعقاد کی تجویز کو یونیورسٹی کی ایگزیکوٹیو نے منظور کرلیا اور اس طرح یہ کانگریسس یونیورسٹی کے تعلیمی کیلنڈر کا حِصّہ بن گئیں۔ تیسری قومی اردو سائنس کانگریس 16 تا 17 فروری 2017ء اور چوتھی 8 تا 9 فروری 2018ء منعقد ہوئی۔ 4؍ مارچ 2018ء کو غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں ماہنامہ اردو سائنس کے پچیسویں سال کا جشن منعقد ہوا جس میں شمس الرحمن فاروقی صاحب، بحیثیت مہمان خصوصی اور پروفیسر شمیم حنفی اور ڈاکٹر شاہد جمیل (مشہور جینیاتی سائنسداں) مہمانانِ ذی وقار کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ گزشتہ چار ’’اردو سائنس کانگریسوں‘‘ میں سائنسی قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو انعامات اور اسناد سے نوازا گیا۔ اس سلور جوبلی پروگرام میں ہم نے اپنے اُن ساتھیوں کی خدمات کا اعتراف کیا جو رسالے کو وجود میں لانے کا سبب بنتے ہیں۔
رسالہ کے معاونین
اِس رسالے کی شروعات کتابت کے دور سے ہوئی تھی اور کفیل احمد نعمانی صاحب ہمارے پہلے کاتب تھے جنہوں نے یہ خدمت انجام دی تھی۔ اِسی طرح رسالے کے ابتدائی دور کے ٹائٹل صبیحہ آرٹسٹ نے بنائے تھے۔ کمپیوٹر کا دور آنے کے بعد فرح ناز صاحبہ رسالے کی کمپوزنگ کا کام کررہی ہیں۔ صبیحہ صاحبہ کے بعد رسالے کے ٹائٹل جاوید اشرف صاحب نے بنائے جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اُن کے وصال کے بعد رسالے کو ایک اور جاوید ملے جو رسالے کی چھپائی، ٹائٹل اور ڈیزائننگ کا کام نہایت خلوص اور محنت سے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد طارق ندوی معاون مدیر کی حیثیت سے ایک عرصے سے اِس خاکسار کا بار برداشت کررہے ہیں۔ محمد نسیم صاحب رسالے کے سرکولیشن اور دیگر انتظامی معاملات سنبھالتے ہیں۔ ہمارے آفس ورک کی ذمہ داری محمد خورشید نہایت مستعدی سے نبھا رہے ہیں۔ مذکورہ پروگرام میں ہم نے اپنے اِن تمام ساتھیوں کو اسناد اور میمینٹو سے نوازا۔
ویب سائٹ
ایک عرصے سے ہم سبھی کی خواہش اور قارئین کی فرمائش تھی کہ رسالے کی ویب سائٹ بننی چاہئے۔ ہمارے ایک اور رضاکار ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے رفیق محمد مکرم صاحب کے ساتھ یہ کام بھی انجام دے ڈالا اور اِسی پروگرام میں اِس ویب سائٹ (www.urduscience.org) کا اجراء بھی عمل میں آگیا۔ اب ہماری کوشش ہوگی کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ہمارا بامعنی اور بامقصد وجود قائم ہوجائے تاکہ ہم نئی نسلوں تک بہ آسانی اپنا پیغام لے جاسکیں۔