کیوں لگتی ہے پیاس؟
واپس چلیں

ایس ایس علی
فروری 2018

پانی پی لینے کی خواہش یا طلب پیاس کہلاتی ہے۔ پیاس دو وجہوں سے لگتی ہے:
  1. بین سالماتی مائع کے حجم میں کمی واقع ہونا
  2. پلازمہ میں اوسمولیٹری(Osmolarity) کا بڑھ جانا

ہمارا جسم لاتعداد خلیات سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ خلیات ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے۔ اس خالی جگہ کو بین سالماتی خلاء (Extracellular Space) کہتے ہیں۔ بین سالماتی خلاء کاخاص قسم میں مائع ہوتا ہے۔ اس مائع کے حجم میں کمی واقع ہونے پر پیاس کا احساس ہوتا ہے

ہمارے جسم کے خلیات ایک پتلی جھلّی سے گھرے ہوتے ہیں جسے میمبرین (Membrane) کہتے ہیں۔ یہ جھلی نیم نفوذ پذیر (Semipermeable) ہوتی ہے۔ اگر دو محلولوں کے درمیان نیم نفوذ پذیر جھلی حائل ہو تو محلِّل (Solvent) کم ارتکاز والے محلول سے زیادہ ارتکاز والے محلول کی جانب سفر کرتا ہے، یہاں تک کہ دونوں محلولوں کا ارتکاز یکساں ہوجائے۔ یہ عمل اوسموسِس (Osmosis) کہلاتا ہے۔ اس عمل میں نیم نفوذ پذیر جھلی صرف محلل کے سالمات کو گزرنے دیتی ہے، منحل (Solute) کے سالمات اس میں سے نہیں گزر سکتے اسی لئے اسے نیم نفوذ پذیر جھلّی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر نیم نفوذ پذیر جھلی کی ایک جانب شکرکا محلول اور دوسری جانب پانی ہو تو پانی کے سالمات شکر کے محلول کی طرف چلیں گے۔

ہمارے جسم میں موجود مائعات، پلازمہ کہلاتے ہیں مثلاً لِمف اور خون۔ پلازمہ میں پروٹین اور غیر نامیاتی نمکیات موجود ہوتے ہیں۔ پلازمہ میں موجود اشیاء کے تناسب کو اوسمولیرِٹیکہتے ہیں۔ پلازمہ میں پانی کی مقدار کم ہوجانے کی وجہ سے پروٹین اور نمکیات کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔ یہ مظہرہائپرٹونک اوسمولیرِٹی (Hypertonic Osmolarity) کہلاتا ہے۔ جب خلیات کی اوسمولیرٹی ہائپر ٹونک ہوجاتی ہے تو پیاس کا احساس ہوتا ہے اور آدمی پانی یا دوسرے مشروبات پی کر پلازمہ کی اوسمولیرٹی کو نارمل کرلیتا ہے۔

پیاس کا میٹر؟

پیا ہوا پانی فوراً ہی ہمارے جسم کا حصہ نہیں بن جاتا۔ اسے جذب ہونے اوراوسمولیرٹی کو نارمل کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پانی کی ایک خاص مقدار حلق سے اتارتے ہی ہمیں پیاس کے بجھ جانے کا احساس ہوجاتا ہے اور ہم پانی پینا بند کردیتے ہیں۔ یہ مظہر اونٹ کے پانی پینے کے عمل میں زیادہ وضاحت کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک پیاسا اونٹ بڑی تیزی کے ساتھ پانی کی ایک بڑی مقدار پی لیتا ہے اور اچانک پانی پینا بند کردیتا ہے۔ انسانوں اور حیوانات کے اس انوکھے برتاؤ کی وجہ کیا ہے؟ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ غذائی نالی کے حلق کے علاقے میں کسی جگہ ایک پر اسرار ”پیمائشی آلہ“ (Meter) موجود ہوتا ہے جو پانی کی مطلوب مقدار کوکنٹرول کرتا ہے۔ اس ”میٹر“ کا وجود اور اس کی کارکردگی ابھی تک ایک راز ہی ہے۔ پیاس لگنے پر پانی پینے کے عمل میں انسان اور حیوانات کے برتاؤ میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ حیوانات میں پانی کی مطلوب مقدارکو کنٹرول کرنے والا میٹر زیادہ نمایاں طور پر کام کرتا ہے جب کہ انسانوں میں سماجی زندگی کے تانوں بانوں کے تحت اس ”میٹر“ کی کارکردگی زیادہ واضح نہیں ہے۔

جسم میں پانی کا توازن

جسم میں پانی دو طریقوں سے بہم پہنچایا جاتا ہے:
  1. کاربوہائیڈریٹ کے تحوّل (Metabolism) کے نتیجے میں پانی کا تیار ہونا۔
  2. پانی یا دیگر مشروبات پینا۔
جسم سے پانی کے اخراج کے کئی مقامات ہیں:
  1. جلد
  2. پھیپھڑے
  3. غذائی نالی
  4. گردے

عام جسمانی حالت میں جسم میں جتنا پانی داخل کیا جاتا ہے تقریباً اتنا ہی جسم سے خارج ہوجاتا ہے اور جسم میں پانی کی ایک خاص مقدار مستقل رہتی ہے۔ ہمارے جسم کا تقریباً 65 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ بچوں میں پانی کی مقدار 75 فیصد ہوتی ہے۔

دو طرح کے نظام جسم میں پانی کی مقدار کو برقرار رکھتے ہیں:
  1. پانی کی نخامی تحصیل (Pituitary intake of water)۔ یہ میکنیزم پیاس کا احساس کراتا ہے۔
  2. پیشاب کے اخراج کی شکل میں جسم سے پانی کا اخراج۔ یہ نظام بھی پیاس کا احساس کراتا ہے۔

دوسرے کنٹرول میکنیزم بھی اس عمل میں مدد کرتے ہیں مثلاً توانائی کو کنٹرول کرنے والا کاربوہائیڈریٹ تحوّلی میکنیزم اور جسمانی تپش کو کنٹرول کرنے والے پسینے کے اخراج کا میکنزم۔

پیاس کا میکینزم

پیاس لگنے کامیکنیزم بہت اہمیت کا حامل ہے۔پانی پینے کا عمل ہی جسم میں پانی کی کمی کو دور کرتا ہے۔ انسانوں میں پانی پینے کا عمل پیاس میکینزم سے زیادہ عادت اور سماجی تقاضوں کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ آدمی اکثر بے ضرورت پانی، چائے، کافی اور دیگر مشروبات پیتا ہے یا پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن کسی بھی حیوان کو زبردستی پانی نہیں پلایا جاسکتا۔ مثل مشہور ہے: ”آپ گھوڑے کو پانی تک تو لے جاسکتے ہیں لیکن اسے پانی پینے کے لئے مجبور نہیں کرسکتے“ مخصوص حالات اور موقعوں پر پیاس کو دبانا بھی پڑتا ہے۔

دماغ کے پچھلے حصے میں موجود ہائپوتھیلامس ہمارے بہت سے اعمال و افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس سے خارج ہونے والے محرکاب (Hormones) بھوک، پیاس، نیند، تنفس وغیرہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ غدّہئ نخامیہ (Pituitary Gland) بھی ہائپوتھیلامس کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ ہائپوتھیلامس کو نقصان پہنچنے پر پیاس کا احساس متاثر ہوتا ہے۔

پیاس کے نظام کو سمجھنے کے لئے سائنسدانوں نے مختلف حیوانات پر تجربات کئے جن کا خلاصہ ذیل کے مطابق ہے:
جسم میں موجود مائعات کے اوسمولیرٹی میں اضافے، بین سالماتی مائع کے حجم میں کمی، چوٹ یا زخم لگنے پر یا سرجری کے نتیجے میں ہونے والی خون کی کمی، قے اور دست کے نتیجے میں ہونے والی پانی کی کمی ہائپوتھیلامس میں موجود Osmoreceptors کو تحریک دیتی ہے جس کی وجہ سے پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ ہائپوتھیلامِس کا وہ مقام جہاں پیاس کا احساس جاگتا ہے، اس علاقے کے قریب ہوتا ہے جو ADH نامی مرکبات تیار کرتا ہے۔ اس ADH یعنی Antidiuretic Hormone کا نام ویسوپریسِن Vasopressin))ہے۔ یہ پیاس کے احساس کو انگیز کرتا ہے۔ اسی طرح گردے بھی ایک دوسرا ویسوپریسِن تیار کرتے ہیں جسے Angiotensin کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ محرکاب بھی ہائپوتھیلامس کو تحریک دے کر پیاس کے احساس کو جگاتا ہے۔

دماغ کو چوٹ لگنے پر اگر ہائپوتھیلامس مجروح ہوجائے تو مریض میں پیاس کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پیدائشی طور پر دماغی مریضوں کو بھی پیاس کا احساس نہیں ہوتا۔ انہیں وقتاً فوقتاً پانی پلاتے رہناپڑتا ہے ورنہ جسم میں پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بروقت پانی کی کمی کا تدارک نہ کیا گیا تو مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ ڈائریا کے مریضوں میں بھی پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ ان تمام حالات میں فوراً بین وریدی طریقے پر یعنی سلائن کے ذریعے پانی کی کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔

جسم میں موجود کُل پانی میں 0.5 فیصد کی کمی ہوتے ہی پیاس لگ جاتی ہے۔ اور زیادہ کمی ہونے پر گلے میں موجود لعاب دہن کے غدود کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور لعاب کی کم مقدار تیار ہوتی ہے جس کی وجہ سے حلق، تالو اور زبان خشک ہوجاتی ہے۔ بہت زیادہ پسینے کا اخراج، تیز بخار، ڈائریا اور شراب کی زیادہ مقدار استعمال کرنے پر فوراً پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اگر یہ کمی جسمانی وزن کے 15 سے 20 فیصد تک ہوجائے تو مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

اعتدال ضروری

ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔ پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہائپر ہائیڈریشن کہلاتا ہے یعنی پانی کی زیادتی۔ اسے ”آبی زہر آلودگی“ بھی کہتے ہیں۔ لیکن ایسا بہت کم مواقع پر دیکھا جاتا ہے مثلاً کوئی شخص بہت مختصر عرصے میں پانی کی بہت بڑی مقدار پی جائے یا کئی دنوں تک بے تحاشا پانی پیتا رہے۔ پانی کی ضرورت سے زیادہ مقدار جسم میں پانی اور نمکیات کے تناسب کو بگاڑ دیتی ہے۔اوسموسِس کے نتیجے میں خلیات کے نمکیات کا ارتکاز نہایت کم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے افعال انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ ADH کی تخلیق بھی متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے گردے اپنا کام ٹھیک طور پر نہیں کرسکتے۔ ”پانی کی زہر آلودگی“ کی وجہ سے دماغ کی سوجن، فِٹ، کوما۔۔۔۔یہاں تک کہ موت واقع ہوسکتی ہے۔

کون سا پانی پئیں؟

کشید کیا ہوا پانی (Distilled Water) گرچہ خالص ہوتا ہے لیکن پیاس بجھانے کے لئے نامناسب ہے۔ اس کا استعمال بھی آبی زہر آلودگی کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ ا س میں اچھی صحت کے لئے درکار ضروری نمکیات نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں نل کا پانی یا معدنی پانی (Mineral Water) صحت بخش ہے۔

لمحہئ فکریہ

پیاس اللہ کی ایک ”آیت“ ہے جو ہمیں اس کی پہچان کراتی ہے۔ پیاس اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے جو ہمیں ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے۔ لیکن یہی پیاس ایک حد سے بڑھ جائے تو عذاب کی شکل بھی اختیار کرلیتی ہے۔ ایک طویل حدیث میں وارد ہے کہ اللہ ربّ العزت نماز قائم کرنے والوں کا پانچ طرح سے اکرام فرماتا ہے اور نماز ترک کرنے والوں کو پندرہ طرح سے عذاب دیتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ بے نمازی کوپیاس کی حالت میں موت آتی ہے، پیاس اتنی شدید ہوتی ہے کہ سمندر بھی پی جائے سیرابی نہیں ہوتی:

پی کے دریا بھی پیاسا ہوں
تشنگی ہائے رے تشنگی!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371923
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development