چڑیوں کی چہچہاہٹ ایک بھولی بسری یاد
واپس چلیں

ایس ایس علی
مارچ 2017

چڑیوں کی چہچہاہٹ :ایک بھولی بسری یاد!
انگریزی میں کہاوت ہے: "Change is the law of nature" یعنی تبدیلی قدرت کا قانون ہے۔ تبدیلی کا لازمی نتیجہ ترقی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں انسان نے ترقی کی ہے۔ ترقی کے نام پر انسان نے اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اس نے فطرت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ فطرت پر انسان کی بالادستی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔ انسان کی ان غیر انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں بہت سے حیوانات اور نباتات ناپید (Extint) ہوچکے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کرۂ ارض کو خیر باد کہنے کے لئے مجبور کی جارہی ہے۔ چڑیوں کا چہچہانا، بھنوروں کا گنگنانا، جھرنوں کے نغمے، کویل کی کوک اور خوبصورت قدرتی نظارے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) جسے مختصراً AI کہا جاتا ہے، کے ساتھ مشینی انسانوں کی آمد آمد ہے۔ یہ مشینی انسان ہم سے زیادہ قوی اور ذہین ہونگے لیکن جذبات سے عاری! روبوٹک سائنسداں اپنے اس حسین (خبیث) خواب کی تعبیر آئندہ دو صدیوں میں حاصل کرنے کی امید کررہے ہیں۔ تو کیا آئندہ دو صدیوں میں فطرت بالکل ختم ہوکر رہ جائے گی؟ جس طرح آج انسان نے دوسری ذی روح انواع کا دائرۂ حیات تنگ کررکھا ہے، کیا اسی طرح یہ مشینی انسان ہمارا استحصال کریں گے؟ ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے؟ یا پھر اس کرۂ ارض پر قبضہ کرکے نسل انسانی کو ہی ناپید کردیں گے؟ انسان ہمیشہ ہی اس شاخ کو کاٹتا آیا ہے جس پر وہ بیٹھتا ہے۔ اپنے ہی گلے کے لئے تلوار مانگتا آیا ہے۔ یہ ایک طویل بحث ہے اور امکانات بے شمار۔ اس طویل بحث کا ایک چھوٹا سا علاقہ، اس کی ایک چھوٹی سی اکائی چڑیوں کا وجود ہے۔
چڑیوں نے صدیوں سے ہمارے ساتھ رشتہ بنائے رکھا ہے۔ وہ ہمارے گھروں، صحنوں، آنگنوں اور درختوں پر بسیرا کرتی آئی ہیں۔ صبح اور شام کے اوقات ان کا چہچہانا، ان کا یہ ترنم ریز شور جو ہماری عادت بن چکا تھا ، اب شہروں اور قصبوں میں سننے کو نہیں ملتا۔ نئی نسل تو خیر اس نعمت سے ناآشنا ہی ہے، لیکن عمر دراز لوگوں کی آنکھیں چڑیوں کے دیدار، اور کان ان کے مترنم نغمے سننے کے لئے ترس گئے ہیں۔ اب یہ لوگ اپنے دل میں چڑیوں کی جدائی کی ٹیس لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوں گے، کیوں کہ بقول شاہد کبیرؔ :
یہ بھی سچ ہے کہ یہاں ایک زمانے سے رہے
جانے والے تو مگر لوٹ کے آنے سے رہے
چڑیا جسے گوریا بھی کہتے ہیں، 1980 سے دنیا کے بیشتر علاقوں سے غائب ہونا شروع ہوگئی۔ ماہرین طیور (Ornithologists) اور محققین نے دنیا کے کئی مقامات کا سروے کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چڑیوں کی تعداد میں یہ ڈرامائی گراوٹ ایک دکھ بھری حقیقت ہے اور اس صورت حال کے ذمہ دار عوامل ذیل کے مطابق ہیں:
* چڑیوں کو گھونسلہ بنانے کے لئے جگہ نہ ملنا۔
* غذا کی کمی یا بالکل غذا کا نہ ملنا۔
* کھیتوں کھلیانوں میں فصلوں پر زہریلی دواؤں کا چھڑکاؤ۔
* انسانوں کے طرز زندگی میں تیز رفتار تبدیلی۔
* انسانوں کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ۔
* موبائل فون کے ٹاوروں سے برق مقناطیسی اشعاع۔
* چڑیوں کو لاحق ہونے والی بیماریاں۔
ان میں سب سے طاقتور عامل شہری اور نیم شہری علاقوں میں گھونسلوں کے لئے جگہ نہ ملنا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں چڑیوں کے تحفظ (Conservation) کی جانب توجہ مرکوز کی جارہی ہے اور سنجیدہ اقدام کی ابتدا ہوچکی ہے۔ گھونسلہ بنانے کے لئے مخصوص سائز اور بناوٹ کے لکڑی کے ڈبے فراہم کرنا اس جانب ایک عملی قدم ہے۔

گھریلو چڑیا (House Sparrow)
انسانی آبادی میں بسنے والی چڑیا گھریلو چڑیا (House Sparrow) کہلاتی ہے۔ یہ پستہ قد ہوتی ہے اور اس کا جسم موٹائی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ گنگنانے والا پرندہ (Song Bird) کہلاتی ہے۔ اس کی چونچ موٹی ہوتی ہے۔ پیر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ چونچ سے دم تک کی لمبائی 14 سے 16 سنٹی میٹر ہوتی ہے۔ اس کا وزن 26 سے 32 گرام ہوتا ہے۔ بازو (Wing) کی لمبائی 19 سے 25 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ گھریلو چڑیا دو ساختی (Dimorphic) ہوتی ہے یعنی نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔ نر کی چونچ کے نیچے گلے پر سیاہ پر ہوتے ہیں جو مادہ میں نہیں پائے جاتے۔ چڑیا کی آنکھیں سیاہ ہوتی ہیں۔ چڑیا کے چوزے مادہ چڑیا جیسے نظر آتے ہیں۔
چڑیا کا عرصۂ حیات 3 سے 13 برس ہوتا ہے۔ چڑیا اپنا گھونسلہ بنانے کے لئے چھپّر کے گھروں کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ بنگلوں اور کانکریٹ کی عمارتوں میں بھی یہ گھونسلا بنالیتی ہے۔ مناسب جگہوں پر یہ چھوٹی سی کالونی بناکر رہتی ہے جس میں 10 سے 20 جوڑے پائے جاتے ہیں۔
چڑیا حیوانی اور نباتی دونوں طرح کی غذا استعمال کرتی ہے۔ یہ کیڑے مکوڑوں کو کھانا زیادہ پسند کرتی ہے۔ بیج، دانے، سخت خول والے پھل (Nuts) اور دوسرے پھل وغیرہ کو بھی غذا کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ چڑیا بنیادی طور پر دانہ خور ہے۔ ثانوی غذا کے طور پر یہ کیڑوں کا استعمال کرتی ہے۔
چڑیا نقصان دہ کیڑوں سے چھٹکارا دلاتی ہے۔ یہ اپنے چوزوں کو Alfa-Alfa Weevil اور Cut-worms کے لاروے کھلاتی ہے جو فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے ہیں۔ یہ Grasshopper (ناک توڑ/ آنکھ پھوڑ ٹڈا)، مچھر اور کئی نقصان دہ کیڑوں اور لارووں کا شکار کرتی ہے۔
چڑیا کی ایک خصوصیت مٹی کا غسل (Dust Bath) ہے۔ پانی مہیا ہونے کے باوجود وہ مٹی کا غسل پسند کرتی ہے۔ وہ مٹی میں اپنے جسم کو رگڑتی ہے اور پروں میں مٹی لے لیتی ہے، پھر پروں کو پھڑپھڑا کر مٹی جھاڑ دیتی ہے۔ اس سے اس کے پروں کا اضافی تیل اور جراثیم وغیرہ صاف ہوجاتے ہیں۔ چڑیوں کا پانی میں ڈبکی لگانا اور پھر پانی سے باہر نکل کر پروں کو پھڑپھڑانا ایک خوبصورت نظارہ ہے۔

چڑیاکی قسمیں
چڑیا دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ چڑیوں کے مقام بودوبوش کے لحاظ سے ان کی کئی قسمیں ہیں مثلاً:
1۔ سنہری عربی گوریا (Arabian Golden Sparrow)
2۔ بھوری گوریا (Chestnut Sparrow)
3۔ گھریلو گوریا (House Sparrow)
4۔ سندھی گوریا (Sind Sparrow)
5۔ سادہ پشت گوریا (Plain Backed Sparrow)
6۔ بحرمیت کی گوریا (Dead Sea Sparrow)
7۔ لاگو گوریا (Lago Sparrow)
8۔ بڑی گوریا (Great Sparrow)
9۔ کینیائی گوریا (Kenya Sparrow)
10۔ شیلی گوریا (Shelley's Sparrow)
11۔ طوطا چونچ گوریا (Parrot-billed Sparrow)
وغیرہ۔

چڑیوں کی عالمی صورتِ حال
حالیہ دہوں میں چڑیوں کی آبادی میں زبردست گراوٹ آئی ہے۔ برطانیہ اور بہت سے مغربی یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ بُرا حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے برطانوی تحفظاتی سرخ فہرست(UK Conservation Red List) میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جرمنی میں چڑیا کو ’’وجود کے خطرے سے قریب‘‘ (Near Threatened) کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
ہندوستان میں چڑیوں کی صورتِ حال
انڈین کاؤنسل آف ایگریکلچرل ریسرچ کے پرندوں کے سروے کے مطابق آندھراپردیش میں چڑیوں کی آبادی میں 80 فیصد کی تخفیف نوٹ کی گئی۔ دوسری ریاستوں جیسے کیرالا، گجرات اور راجستھان میں یہ تخفیف 20 فیصدی ہے۔ ملک کے ساحلی علاقوں میں یہ گراوٹ 70 سے 80 فیصد تک ہوچکی ہے۔ ماہرین طیور کے مشاہدوں کے مطابق اتر پردیش، مغربی بنگال، پنجاب، راجستھان اور بڑے شہروں مثلاً دہلی، بنگلور، ممبئی اور حیدر آباد میں چڑیوں کی آبادی میں بہت تیز گراوٹ آئی ہے۔ کیرالا کے شہرتھروونٹ پورم میں رضا کاروں نے 1998 میں 6 سے 8 چڑیوں کا ایک جھنڈ دیکھا تھا جو 2003 میں کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوگیا۔ لکھنؤ میں ہوئے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 2013 میں شہر کے کئی علاقوں سے چڑیوں کا بالکل صفایا ہوگیا ہے۔

چڑیوں کو لاحق خطرے
چڑیوں کے ننھے سے وجود کو بہت سارے خطروں کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم انسان کا بدلتا ہوا طرزِ زندگی ہے۔
بقول غنی اعجاز:
حال دیگر ہوا اپنا سحرو شام کے ساتھ
ہم بھی گردش میں رہے گردش ایام کے ساتھ
غنی اعجاز نے چڑیوں کے حالِ زار کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
ہم بے کسوں پے وقت کے احساں ہوئے تو ہیں
کچھ التفات گردش دوراں ہوئے تو ہیں
فلک بوس عمارتوں کے پر شکوہ فلیٹوں میں اب چڑیوں کے گھونسلوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جھگی جھونپڑیوں میں تو خیر انسانوں کے لئے ہی جگہ تنگ ہے۔ چڑیوں کے لئے دوسرا بڑا خطرہ شکاری پرندوں اور بلیوں وغیرہ کا ہے۔ جدید طرزِ زندگی کے سبب چڑیوں کے لئے غذا کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے۔ ماضی میں بچا کھچا کھانا باہر پھینک دیا جاتا تھا جس پر چڑیاں گزارہ کرلیتی تھیں۔ اب بچا ہوا کھانا ریفری جریٹر میں محفوظ کرلیا جاتا ہے تاکہ ضرورت کے وقت استعمال کرلیا جائے۔

چڑیوں کا تحفظ
چڑیاں قدرتی طور پر موقع پرست ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں انہیں زندگی گزارنے کے لئے سازگار ماحول مل جائے، وہ وہیں بس جاتی ہیں۔ انسانوں کے درمیان رہنا ان کو پسند ہے۔ اسی لئے ان کو سائنس کی زبان میں Passer Domesticus کہاجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بر وقت ان کے تحفظ کی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ قبل اس کے کہ وہ شدید خطرے میں (Critically Endangered) قراردی جائیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہو۔ 2006 میں ناسک (مہاراشٹر) کے محمد دلاور نامی شخص نے Nature Forever Society (NFS) کی بنیاد رکھی جو پورے ملک میں چڑیوں کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے۔ این ایف ایس کی سرگرمیوں میں چڑیوں کے علاوہ دوسرے پرندوں، حیوانات اور نباتات کا تحفظ بھی شامل ہے۔ این ایف ایس کی کوششیں رفتہ رفتہ رنگ لارہی ہیں۔ ان کی ترجیحات میں ذیل کے امور شامل ہیں:
۔ اندرونِ ہند عام پرندوں کی نگرانی
۔ عالمی یومِ چڑیا
۔ گوریا بچاؤ منصوبہ
۔ این ایف ایس چڑیا ایوارڈ
۔ کھلانا بسانا پروگراماپناؤ
علاوہ ازیں لکھنؤیونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف زولوجی کی حیاتی تنوع اور جنگلاتی حیاتیات کے تنوع کی تجربہ گاہ نے یوپی اسٹیٹ بایوڈائیورسٹی بورڈ کے ساتھ مل کر چڑیوں کے تحفظ کے لئے کچھ پروگرام طے کئے ہیں مثلاً چڑیوں کو گھونسلہ بنانے کے لئے ڈبے مہیا کرنا، چڑیوں کی گفتی (Sparrow Census) اور چڑیوں کے تحفظ کے تعلق سے عوام میں واقفیت (Awareness) پیدا کرنا۔ طلبہ کو بھی بڑے پیمانے پر اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔ طلبہ کے لئے کچھ انعامی مقابلے بھی رکھے جاتے ہیں مثلاً اپنے علاقے میں چڑیوں کی نشاندہی کرنا، اشتہار شائع کرکے عوام میں واقفیت پیدا کرنا، بڑے بڑے پورسٹر تیار کرکے عوامی مقامات پر لگانا، کیلنڈروں پر چڑیوں کی تصاویر اور ان کے بارے میں معلومات شائع کرنا وغیرہ۔ محلّوں میں گھوم پھر کر لوگوں سے گفتگوکرنا اور ان کو لکڑی کے ڈبے مفت مہیا کرنا اور ڈبوں کے استعمال کا طریقہ سکھانا۔
15اگست 2012 کو دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے چڑیا کو ’’دہلی کا ریاستی پرندہ‘‘ (State Bird of Delhi) کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس ملک گیر پروگرام کا ایک حصہ تھا جس کا نام ہے ’’چڑیوں کے لئے اٹھ کھڑے ہوں‘‘ (Rise for the Sparrow) ۔ 9 جنوری 2013 کو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی چڑیا کو ’’بہار کا ریاستی پرندہ‘‘ کا درجہ دینے کااعلان کیا۔
انجمن برائے فطرت تا ابد(Nature Forever Society)نے پہلا ’’یوم چڑیا‘‘ 20 مارچ 2009 کو منایا تھا۔ تب سے ہر سال یوم چڑیا ملک بھر میں 20 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ یومِ چڑیا منانے کا خاص مقصد فطرت میں موجود حیاتی تنوع کو تحفظ مہیا کرنا ہے تاکہ فطرت کی خوبصورتی اور افادیت ہمیشہ بنی رہے۔ اس مہم میں سب سے اہم قدم چڑیوں کے لئے رہائش کا انتظام کرنا ہے۔ لکڑی کے ڈبے اور جوتوں کے خالی ڈبے گھر کے باہر دیواروں پر آویزاں کرکے اور مٹی کے برتنوں کو مناسب جگہوں پر رکھ کر ہم چڑیوں کی رہائش کا انتظام کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں یقیناًان کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔

چڑیوں کی انسان دوستی
چڑیاکو گھریلو چڑیا کا خطاب یونہی نہیں دیا گیا۔ گھوڑے اور کتے کی انسان دوستی اور وفاداری تو مشہور ہے ہی، لیکن انسانوں سے چڑیوں کا یک طرفہ پیار قابلِ ستائش ہے۔ عظیم انشا پرواز مولانا ابوالکلام آزاد نے تو اپنے ذاتی تجربے سے گویا اس دعوے پر مہر ثبت کردی ہے۔ ان کی کتاب ’’غبار خاطر‘‘ میں ان کا ایک خط حبیب الرحمٰن شیروانی کے نام شامل ہے جس میں انہو ں نے قلعۂ احمد نگر کی اسیری کے دوران چڑیوں کے ساتھ کچھ عرصہ گزارنے اور ان سے دوستی کرنے کا ذکر ہے۔ اس مراسلہ میں مولانا آزاد نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ چڑیوں سے دوستی کیا کرتے، چڑیوں نے ان کو دوستی کرنے پر مجبور کردیا! اپنے اس تجربے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا:
’’محبت کا افسوں جو انسانوں کو رام نہیں کرسکتا، وحشی پرندوں کو رام کرلیتا ہے۔‘‘

اے حبیب میرا تجھ کوسلام
اب وقت آگیا ہے کہ چڑیوں کی آبادی بحال کرنے کے لئے ہم سب مل کر کچھ کریں۔ کچھ ایسا کریں کہ علی الصبح مرغے کی بانگ کے ساتھ چڑیوں کے نغمے بھی ہمارے کانوں میں رس گھولیں۔ یہ نہ ہو کہ دو ایک دہائیوں بعد کہیں چڑیا کا ذکر چھڑ جائے تو مخاطب حیرت سے پوچھے: ’’یہ کس چڑیا کا نام ہے؟‘‘ ان حالات میں اتفاقاً اگر آپ کو کوئی بھولی بھٹکی چڑیا یا چڑیوں کا چھوٹا سا جھنڈ نظر آجائے تو آپ کا ردّ عمل کیا ہوگا؟ عین ممکن ہے کہ آپ کا ہاتھ ان کو سلام کرنے کے لئے اٹھ جائے، اور آپ گنگنا اٹھیں:
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ تم گھنا سایا

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   372040
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development