سیدحامد
فروری 2018
محمد اسلم پرویز صاحب نے جس کام کا بیڑا اُٹھایا ہے اُس کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ اُن کا ایک مقصد ہے اردو دانوں کو سائنس کے قریب لانا اور اُن کے درمیان سائنسی مزاج کو رائج کرنا۔ مذکورہ مزاج کو پروان چڑھانے کے فیوض بے شمار ہیں۔ اس مزاج کے زیر اثر فرد کی ساری صلاحیتیں چمک جاتی ہیں۔ پوری شخصیت کا ارتقا منحصر ہوتا ہے غور وفکر پر۔ وہ طبقہ یا وہ انسان کتنا محروم ہوتا ہے جو غور وفکر ترک کردیتا ہے گویا وہ یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ ہم جہاں تک پہنچ گئے ہیں اس سے اب آگے ہمیں بڑھنا ہی نہیں ہے۔ جو کچھ ہمیں یاد ہوگیا ہے یا ہم نے یاد کرلیا ہے یاہمارے ذہن نشین ہوگیا ہے وہی مُدّت العُمر کے لئے ہماری انتہا ہے۔ کسی انسان بلکہ کسی ذی حیات کے لئے بہت بڑی محرومی ہے اگر وہ جمود پر قناعت کر بیٹھے اور حرکت سے ناطہ توڑلے۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے اردو دانوں میں سائنس کی اشاعت کے لئے جو تدبیریں اختیار کیں ان میں تحریر اور تقریر دونوں برابر کی شریک ہیں۔ تحریر کا سب سے مؤثر ذریعہ ماہنامہ سائنس ہے۔ اور تقریر اور تدریس پر بھی اُنہیں غیر معمولی قدرت ہے۔ ان کے مضامین کا قاری اور تقاریر کا سامع قائل ہوکر اٹھتا ہے کہ یہ کائنات ایک ہمہ گیر نظم کی تابع ہے جس سے انحراف مضر بلکہ مہلک ہوتا ہے۔
سید حامد(مرحوم)