لے میرے تجربوں سے سبق اے مرے رقیب!
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
اپریل 2016


ہومیوپیتھتی (علاج بالمثل) اور ایلوپیتھی (علاج بالضِّد) کے رقیبانہ تعلقات کی تاریخ دوسو برسوں پرانی ہے۔ 1790 میں ڈاکٹر سیموئیل ہینی میں (Dr. Samuel Hahnemann) نے ہومیوپیتھی ایجاد کی تھی۔ تب ہی سے ہومیوپیتھی اور ایلوپیتھی میں ٹکراؤ کا ماحول بنا ہوا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ دونوں کا طریقۂ کار ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہے۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ایمرجنسی کیسوں میں ہومیوپیتھ اپنے مریضوں کو ایلوپیتھوں کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے ایلوپیتھ خود اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاج کے لئے ہومیوپیتھوں سے رجوع کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ زیادہ تر ہومیوپیتھ ایلوپیتھی کے راستے ہومیوپیتھی میں آتے ہیں! خود ہینی مین ہومیوپیتھی کی ایجاد سے قبل ایک ایلوپیتھ تھا۔ برسہا برس ایلوپیتھی علاج کروانے والے مریض جب ہومیوپیتھی میں پناہ تلاش کرتے ہیں تو پھر اسی کے ہورہتے ہیں:
آنکھ تو اٹھی پھول کی طرف
دل الجھ گیا حُسن خار میں!
ہومیو پیتھی دراصل ایک قدرتی، نفسیاتی، معجزاتی اور روحانی طریقۂ علاج ہے۔ اس کی باریکیاں اور لطافتیں ایک عام آدمی تو کیا ایک ایلوپیتھ کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آپ کسی کیمیائی مادے کو ہلکاتے (Diluteکرتے) چلے جائیں اور اس کی خصوصیات، طاقت اور تاثیر (Efficacy) میں اضافہ ہوتا جائے؟ عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی۔ عام مشاہدہ کی بات تو یہ ہے کہ ہلکانے (Dilution) سے کیمیائی مادے کی قوت اور تاثیر میں کمی آتی ہے۔ بار بار ہلکانے سے اس مادے کا ایک جوہر بھی محلول میں باقی نہیں رہتا۔ پھراس میں تاثیر ہی کہاں باقی رہے گی؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف تاثیر باقی رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے! ہومیو پیتھی کا یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو اکثر ہومیوپیتھوں کی بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ لیکن قتیل شفائی نے شاید اس راز کو بھانپ لیا تھا:
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گِرے زخم آئے مجھے
ہومیو پیتھی کے طریقۂ کار کو سمجھنے میں روزمرہ کی ایک کہاوت مدد کرسکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ لوہا لوہے کاٹتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے لوہے سے لوہے کو کاٹنے کے عمل پر اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کاٹنے والے لوہے کی طبعی خصوصیات میں کچھ تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔ اسے کاربن کی آمیزش سے یا پختہ کرنے کے عمل (Tempering) سے گزارکر سخت بنادیا گیا ہے۔ اس کی ایک سطح پر دندانے بنادئے گئے ہیں۔ اب اس لوہے نے اتنی قوت حاصل کرلی ہے کہ وہ سادہ لوہے کو کاٹ سکتا ہے۔ بس یہی طریقۂ کار ہومیوپیتھی کا ہے۔ ایک ڈرگ جو ایک تندرست شخص میں مرض پیدا کرتا ہے، Dilution کے ذریعے اس کی قوت (Potency) کو بڑھا دیا جائے تو اب اس میں یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اس مرض کو دور کرسکے! (ویسے کانٹے سے کانٹا نکالنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟)۔ اسی کو ہومیوپیتھی کی زبان میں کہتے ہیں:
"Similia Similibus Curantur."
یہ لاطینی زبان کا جملہ ہے جس کے معنی ہیں:
"Likes are cured by likes."
یعنی بیماریوں کا ملتی جلتی بیماریاں پیدا کرنے والے مادوں سے علاج۔
اس کے بالمقابل ایلوپیتھی کا طریقۂ کار مار دھاڑ کا ہے۔ آگ کو بجھا نے کے لئے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال ہے۔ تیزابیت (Antacid) یعنی الکلی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر دشمن سے چھٹکارا پانے کے لئے بھائی لوگوں کو اس کے نام کی سپاری دی جاتی ہے!!!
آکسفورڈ ایڈوانسڈلرنرس ڈکشنری ہومیوپیتھی کی تعریف اس طرح بیان کرتی ہے:
"Treatment of diseases by very small amounts of drugs that, if given to a healthy person, would produce symptons like those of the disease itself."
(ایسی دوا کی قلیل مقدار سے مرض کا علاج کہ یہی دوا اگر تندرست شخص کو دی جائے تو وہ اس میں یعنی تندرست شخص میں ویسے ہی مرض کی علامات پیدا کردے)۔
ہومیوپیتھی کا برطانوی انگریزی میں املا یہ ہے:
Homoeopathy
جب کہ امریکی انگریزی میں یہ ہے:
Homeopathy
ہومیوپیتھی یونانی سے مشتق مرکب لفظ ہے۔ Homo یعنی یکساں، ایک جیسا اور Pathy کا مطلب طریقۂ علاج۔
اس لفظ میں قلیل مقدار کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ہینی مین نے اسے "Like to Like" کے معنوں میں استعمال کیا ہے، یعنی
"Likes are cured by likes"

ڈاکٹر ہینی مین
ہومیوپیتھی کا موجد Samuel Christian Friendrich Hahnemann (Saxony)، جرمنی میں 1755 ء میں پیدا ہوا۔ ہینی مین کو زبانیں سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کم عمری میں ہی اس نے کئی زبانیں سیکھ لی تھیں۔ انگریزی، اطالوی، فرانسیسی، عربی، لاطینی اور یونانی پر اسے عبور حاصل تھا۔ صرف 12 سال کی عمر میں وہ یونانی زبان کا استاد بن چکا تھا۔
ہینی مین نے Leipzig میں طب کا مطالعہ شروع کیا، Vienna میں کچھ عرصہ گزارا، پھر وہاں سے Erlangen گیا جہاں 1779 ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا اور Dresden میں پریکٹس شروع کردی۔ ظاہر ہے کہ اس وقت میڈیکل پریکٹس روایتی انداز کی ایلوپیتھی ہی تھی۔
ہینی مین میں جذبۂ ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ غریبوں کا بڑا محسن تھا۔ لہذا اس نے

اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے میڈیکل پریکٹس کے ساتھ ساتھ زبانوں کے ترجمے کا کام شروع کردیا۔
ایلوپیتھک ڈاکٹر بننے کے گیارہ سال بعد 1790 ئمیں اُس نے ہومیوپیتھی طریقۂ علاج دریافت کیا۔ 6 سال تک وہ خود اپنے آپ پر اور اپنے قریبی لوگوں پر تجربے کرتا رہا اور پھر 1796 ء میں پہلی مرتبہ میڈیکل رسالوں میں اپنے عالمانہ اور فلسفیانہ مضامین شائع کرواکر دنیا کو ہومیوپیتھی سے آگاہ کیا۔ 1810 ئمیں اس نے پہلی مرتبہ اپنی مشہور زمانہ کتاب Organon of Rational Medicine شائع کی، جسے عام طور پر ہینی مین کی آرگانن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب ہومیو پیتھی کی بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ 28 مارچ 1833 میں ا س نے اس کا چھٹا ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ شائع کیا۔ ہومیو پیتھی کے حلقوں میں یہی ایڈیشن سب سے زیادہ زیرِ مطالعہ رہتا ہے۔
ہینی مین نے 1811 ء اور 1821 ء کے دوران ہومیوپیتھی دوائیوں کی مکمل معلومات پر مبنی Materia Medica ترتیب دی۔ اسی وقت سے روایتی معالجین کی جانب سے باقاعدہ طور پر اس کی مخالفت کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ لہذا مخالفین کے دباؤ کے نتیجے میں حکومت نے اس کے طریق�ۂ علاج کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ لیکن قبل اس کے کہ اس پر قانونی چارہ جوئی کی جاتی اس نے آسٹریا کے شہزادہ Karl Schwarzenberg کو Leipzig بلاکر کامیابی سے اس کا علاج کیا۔ (آسٹریا میں ہومیوپیتھی غیر قانونی قرار دی جاچکی تھی)۔ بدقسمتی سے شہزادہ صحت یاب ہونے کے بعد اپنے وطن جاکر شراب نوشی اور عیاشی میں حد درجہ ملوث ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ سخت بیمار ہوا اور فوری طور پر ایلوپیتھی کا علاج شروع کرنے کے باوجود وہ بہت جلد فوت ہوگیا۔ آسٹریا کی حکومت نے شہزادے کی موت کا ذمہ دار ہینی مین کو ٹھہرایا اور عوام نے بھی سخت ردّ عمل کا مظاہرہ کیا۔ ہینی مین اپنے ملک سے فرار ہوکر Cothen میں پناہ گزیں ہوا۔یہاں Duke of Cothen نے اس کی سرپرستی کی۔ وہ 14 سال تک Cothen میں رہا۔ اس عرصے میں اس نے مزمن امراض (Chronic Diseases) ، کا خوب گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اپنے اس تحقیقی کام کو اس نے 1828 میں The Chronic Diseases کے عنوان سے شائع کیا۔
31مارچ 1830 کو ہینی مین کی بیوی کا انتقال ہوا۔ اس وقت ہینی مین کی عمر 75 سال تھی۔ اس کی بیوی نے اپنے پیچھے شوہرہینی مین کے علاوہ گیارہ بچے چھوڑے، 2 لڑکے اور 9 لڑکیاں۔ 1835 میں ہینی مین نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کرلی۔ مادام ہینی مین کے نام سے مشہور اس خاتون کی عمر اس وقت 35 سال تھی۔ ہینی مین اپنی اس دوسری بیوی کے ساتھ پیرس منتقل ہوگیا اور ہومیوپیتھی کے ذریعہ لوگوں کا علاج کرتا رہا۔ پیرس میں ہی 2 جولائی 1843 ء، بروز اتوار اس نے آخری سانس لی۔
ہینی مین کی طوفانی زندگی کا یہ بہت ہی مختصر خاکہ ہے۔

علاج بالمثل: ایک معما، ایک راز
کشش ثقل کا قانون ،فطرت میں ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ نیوٹن کے غوروخوض کرنے سے پہلے بھی سیب زمین پر ہی گرتا تھا۔ اسی طرح حرکت بھی قوانین فطرت میں پہلے سے موجود تھے۔ نیوٹن نے البتہ انہیں دریافت کیا۔ اسی طرح علاج بالمثل کا قانون (Likes are cured by likes) بھی ہینی مین سے پہلے بھی موجود تھا اور معالجین اس طور پر مریضوں کا علاج کرتے تھے مثلاً Ipecac اور Opium کی خفیف مقدار کو الکوحل میں ملاکر متلی اور قے کے رجحان کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔لیکن معالجین یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی مقدار میں اضافہ کرنے پر یہ دوائیں خود متلی اور قے کے رجحان کو پیدا کرتی ہیں۔ ہینی مین نے اپنی ایلوپیتھی کی پریکٹس کے دوران اس نکتہ کو نوٹ کیا۔ وہ ہمیشہ سوچتا رہتا تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک مادّہ تندرست شخص میں مرض پیدا کرے اور اُسی کی قلیل مقدار اس مرض کو دور بھی کرے؟ بہت غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس معمے کا حل انسان کے دفاعی نظام (Defence Mechanism) میں پوشیدہ ہے۔ ایلوپیتھی میں اس دفاعی نظام کو Immunity کہا جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی کے مطابق کسی بھی قسم کا ڈرگ انسان کے دفاعی نظام کو متاثر کرتا ہے اور وہ اس ڈرگ کے خلاف حرکت میں آجاتا ہے۔ لیکن اگر ڈرگ کے مقابلے میں دفاعی نظام کمزور پڑجاتا ہے تو مرض کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس صورت میں دفاعی نظام خاموش تماشائی بنارہتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دفاعی نظام کسی ڈرگ کو نظر انداز (Ignore) کردیتا ہے۔
اس صورت میں بھی مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اب اگر مریض کو اسی ڈرگ کی انتہائی خفیف مقدار دی جائے تو اس کا دفاعی نظام اس ڈرگ کو پہچان لیتا ہے۔ بار بار Dilution کے عمل سے گزارنے کے بعد ڈرگ اتنا لطیف ہوجاتا ہے کہ محلول میں اس کی بس ایک ’’یاد‘‘ اس کا بس اک ’’سایہ‘‘ سا باقی رہتا ہے!! حقیقت میں ڈرگ کا کچھ بھی اتا پتا نہیں ہوتا۔ پھر بھی مریض کی ’’روح‘‘ اس موہوم کی یاد کے پیغام کو سمجھ لیتی ہے!! وہ پکار اٹھتی ہے:
میرے ہمدم تجھے پاکر قرار آیا ہے
دھڑکنوں میں امنگ جاگی ہے، آرزو پہ نکھار آیا ہے
اور بس مریض کا خوابیدہ دفاعی نظام حرکت میں آجاتا ہے اور مریض کو شفا سے ہم کنار کردیتا ہے۔ ہومیوپیتھی کو اسی لئے روحانی اور معجزاتی طریقۂ علاج کہا جاتا ہے۔ روح، یاد، سایہ، کشش وغیرہ کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہومیوپیتھی ان ہی خطوط پر کام کرتی ہے۔
ہومیوپیتھی میں مریض کی دفاعی حالت کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک نفسیاتی طریقۂ علاج ہے۔ اس ضمن میں خوابوں کی تفصیل اور تجزیہ ضروری قرار پاتا ہے۔ بیلاڈونا (Belladonna) میں مریض کے دماغ پر خون کا دباؤ ہوجانے کی صورت میں اسے عجیب عجیب طرح کی شکلیں اور نظارے نظر آتے ہیں، جن اور بھوت کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ ڈراؤنے خواب مثلاً آگ لگنے کے خواب بھی نظر آتے ہیں۔ بیلاڈونا کی علامتوں میں جلن بہت نمایاں ہوتی ہے۔ یہی جلن آگ کے خوابوں میں ڈھل جاتی ہے۔ ایسے مریض کو بیلاڈونا دینے پر یہ شکایتیں دور ہوجاتی ہیں۔
ہینی مین کی آرگانن 291 جامع کلمات (Aphorisms) پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلا اور سب سے اہم Aphorism جو آرگانن کی بنیاد کا پتھر کہا جاسکتا ہے، یہ ہے:
"The physician's high and only mission is to heal the sick to cure as it is termed."
(معالج کا پہلا اور واحد وظیفہ مریض کو صحت یاب کرنا ہے)۔
ہومیوپیتھی دراصل ایک طریقۂ علاج نہ ہوکر مریض کو صحت سے ہم کنار کرنے کا فن (Art of Healing) ہے۔

ہینی مین کے چند فضائل
* 10اپریل 2016 ہینی مین کا 261 واں یومِ پیدائش ہے۔ اس کی انسان دوستی، ہمدردی اور جذبۂ ایثار کے اعتراف میں ہر سال دنیا بھر میں 10 اپریل کو عالمی یومِ ہومیو پیتھی منایا جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ 10 سے 16 اپریل کے دوران World Homeopathy Awareness Week منایا جاتا ہے۔
* بی ،کے، سرکار نامی ایک دانشور کا کہنا ہے:
’’ہینی مین کے لئے سنکونا درخت کی چھال وہی درجہ رکھتی ہے جو نیوٹن کے لئے درخت سے گرتا ہوا سیب اور گیلی لیو کے لئے جھولتا ہوا لیمپ۔
* ہینی مین کے 80 ویں یوم پیدائش (10 اپریل 1835 ) کے موقع پر Dr. Hering نے امریکہ میں دنیا کے سب سے پہلا ہومیو پیتھک میڈیکل کالج قائم کیا۔ اس کالج کا نام تھا:
The North American Academy of Homeopathic Healing Art, Allentown, USA
* فرانس میں میڈیکل پریکٹس کرنے والی پہلی خاتون ایک ہومیوپیتھ تھی جس کا نام Melonie d' Hervilly Gohier تھا۔ وہ کوئی اور نہیں، ہینی مین کی دوسری بیوی مادام ہینی مین تھی۔ مادام ہینی مین کے بعد Madeleine Bres دوسری خاتون تھی جسے 1875 ء میں MD کی ڈگری عطا کی گئی۔
* جرمن ریلویز نے ہینی مین کی خدمات کے اعتراف میں 27 اگست 2015 کو ایک جدیدٹرین"Samuel Hahnemann" کے نام سے جاری کی۔

ہومیو پیتھی کی جدید تعبیر
ہینی مین Father of Homeopathy,
Father of human Pharmacology اور Father of Nano Medicine کہلاتا ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہومیو پیتھی ڈرگز کے ذرات کا سائز Dilution کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں Dilution کے طریقے کو سمجھ لینا ضروری ہے۔ سب سے پہلے دوا کے اصل جزو کو الکوحل میں ملاکر کچھ عرصے تک رکھا جاتا ہے۔ پھر اسے چھان لیا جاتا ہے۔ حاصل شدہ محلول مدرٹنکچر (Mother Tincture) کہلاتا ہے۔ مدرٹنکچر میں Potency ایک ہوگی۔ اب اس محلول کا ایک قطرہ محلل کے 100 قطروں میں شامل کرکے وہی عمل دہرایا جائے تو حاصل شدہ محلول کی Potency نہیں ہوتی۔ بعض امراض میں مریض کا علاج مدر ٹنکچر سے ہی کیا جاتا ہے۔ مدرٹنکچر سے ہومیودوا بنانے کے لئے ایک شیشی میں 100 قطرے کسی محلل (Solvant) مثلاً پانی یا الکوحل کے لے کر اس میں ایک قطرہ مدرٹنکچر کا ڈالا جاتا ہے اور شیشی کو دوچار زوردار جھٹکے دئے جاتے ہیں تاکہ ہم جنس محلول تیار ہوجائے۔ حاصل شدہ محلول کی Potency دو ہوگی۔ اسی طرح Dilution کا یہ عمل چلتا رہتا ہے اور محلول کی Potency میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ Dilution کا عمل جاری رکھنے پر ڈرگز کے ذرات کا سائز Nano اسکیل تک پہنچ جاتا ہے۔ اتنے مہین ذرات جسمانی خلیوں کی خلوی جھلی (Cell Membrane) میں آسانی سے نفوذ کرجاتے ہیں۔ جتنا زیادہ Dilution ہوگا، ذرات کا سائز اتنا ہی کم ہوگا اور دوا کی Potency یعنی طاقت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ خلوی جھلی کی نفوذ پذیری میں اضافہ ہوگا اور ڈرگ کی تاثیر بڑھے گی۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371913
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development