موسم ہماری لائف لائن
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
فروری 2017


انسان ہزاروں، لاکھوں سال تک بے بسی اور تذبذب کے عالم میں بدلتے ہوئے موسمی حالات سے مقابلہ کرتا رہا۔ سخت گرمی کے بعد بارش کیوں آتی ہے؟ پھر سردی کا موسم کیسے آجاتا ہے؟ پھر گرمی کا موسم واپس کیسے آجاتا ہے؟ ایک عام آدمی اس مسئلے پر صرف سوچتا رہا لیکن سائنسدانوں نے بدلتے ہوئے موسموں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھناشروع کیا۔ اس کے نتیجے میں موسموں کا میکیینزم ان کی سمجھ میں آنے لگا اور انہیں اس بات کا علم ہوا کہ سورج موسموں کو کنٹرول کرتا ہے۔
زمین کی ساخت کرّہ نما ہے۔ یہ ہوا کے غلاف سے لپٹی ہوئی ہے۔ لہذا زمین کے اطراف کی ہوا کرۂ ہوا کہلاتی ہے۔ کسی خاص مقام کی کسی خاص وقت میں ہوا کی کیفیت کو موسم (Weather) کہتے ہیں۔ کرۂ ہوا کو فضا (Atmosphere) بھی کہتے ہیں۔ موسم اور فضا کا مطالعہ سائنس کی جس شاخ میں کیا جاتا ہے وہ علم موسمیات (Meteorology) بھی کہلاتی ہے۔ وہ سائنسداں جو موسم اور آب و ہوا کا مطالعہ کرتے ہیں، ماہرینِ موسمیات (Meteorologists) کہلاتے ہیں۔
فضا کی کیفیت ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس بدلتی کیفیت کا اندراج تپش پیما، بادپیما، بارش پیما، رطوبت پیما اور بار پیما سے کیا جاتا ہے۔ درجۂ حرارت، ہوائیں، رطوبت کسی مقام کی ہوا پر اثر انداز ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے فضا کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔ کسی مقام کی روزانہ کی کیفیت کا کئی سال مشاہدے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے اسے اس مقام کی آب و ہوا (Climate) کہتے ہیں۔آب و ہوا کو متعین کرنے کے لئے 25 تا 35 سال کی مدت درکار ہوتی ہے۔

موسم پر اثر انداز ہونے والے عوامل
بہت سارے عوامل موسموں کے آنے جانے کے ذمہ دار ہیں، مثلاً

1۔ شمسی توانائی
سورج کی تپش اور روشنی زمین پر زندگی کے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح شمسی توانائی موسموں کو بھی کنٹرول کرتی ہیں۔ زمین کی سطح گرم ہوتی ہے اور اس کے اوپر نسبتاًسرد ہوائیں ہوتی ہیں۔ سورج انتہائی گرم گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے اندرونی حصے میں ہائیڈروجن کے ہیلیَم میں تبدیل ہونے کے عمل میں سورج اپنے اطراف ہر سو توانائی خارج کرتا ہے۔ یہ توانائی حرارت اور روشنی کی شکل میں ہوتی ہے۔ اسے شمسی توانائی کہتے ہیں۔ شمسی توانائی زمین تک چھوٹی چھوٹی لہروں کی صورت میں پہنچتی ہے۔ سورج کی شعاعیں زمین تک پہنچنے کے دوران کرہ ہوا کی مختلف تہوں سے ہوکر گزرتی ہیں۔ اس لئے حرارت کا کچھ حصہ ہوا میں جذب ہوجاتا ہے۔ فضا میں موجود اوژون کی تہہ بالائے بنفشی شعاعوں (Ultra Violet Rays) کو جذب کرکے ان کے اثرات کو کم کردیتی ہے۔ اس طرح سورج سے خارج شدہ حرارت کا 51 فیصد حصہ ہی زمین پر پہنچتا ہے۔ زمین پر حرارت اشعاع کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ موسموں کے بدلنے میں شمسی توانائی سب سے اہم محرک ہے۔ زمین کی محوری اور مداری گردش کے سبب سطح زمین پر درجۂ حرارت کے منطقے (Zones) وجود میں آتے ہیں۔ خط استوا سے قطبین کی جانب درجۂ حرارت کم ہوتا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سطح زمین پر حرارت کے تین منطقے وجود میں آئے ہیں:

(i) منطقہ حارّہ (Tropical Zone)
سورج اپنی شمالی اور جنوبی روش کے دوران خطِ سرطان اور خطِ جدّی کے درمیان سفر کرتا ہے۔ یعنی یہ سفر ْ 23.5شمالی اور ْ 23.5 جنوبی عرض البلد کے درمیان تک ہی محدود ہے۔ اسی سبب سے خط استوا کے اطراف کے علاقوں میں حرارت سال بھر زیادہ رہتی ہے۔ اس بناء پر اس خطے کو منطقۂ حارّہ کہتے ہیں۔

(ii) منطقہ معتدلہ (Temperate Zone)
دونوں نصف کروں میں ْ 23.5تا ْ 66.5عرض البلد کے مابین سورج کی شعاعیں ترچھی پڑتی ہیں، اس لئے یہاں گرمی کی شدت کم ہوتی ہے۔ لیکن جو علاقے خطِ استوا کی جانب واقع ہیں وہاں حرارت قدرے زیادہ ہوتی ہے، اور جو علاقے قطبین کی جانب واقع ہیں وہاں حرارت کافی کم ہے۔ ان علاقوں میں سردیوں کے زمانے میں قطبین کی سرد ہواؤں کے زیر اثر درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے۔ یہاں سورج کی شعاعیں کبھی عموداً نہیں پڑتیں۔


(iii) منطقہ باردہ (Frigid Zone)
یہ علاقے دونوں نصف کروں میں ْ 66.5عرض البلد سے قطبین تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں درجۂ حرارت عام طور پر نقطۂ انجماد سے نیچے رہتا ہے۔ گرمیوں میں 20 گھنٹے کا دن ہونے کے باوجود سورج کی ترچھی شعاعوں کی وجہ سے شعاعوں کی تمازت بہت ہی کم رہتی ہے۔ قطبین کے آس پاس بارہ مہینے برف باری ہوتی رہتی ہے۔ اس خطے میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے۔

2۔ درجۂ حرارت (Temperature)
درجۂ حرارت موسم کا ایک اہم رکن ہے جس کی پیمائش کے لئے عام تپش پیما (Thermometer) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی بھی مقام کا درجۂ حرارت خطِ استوا سے دوری، سمندر سے فاصلہ، سطح سمندر سے بلندی جیسے عوامل سے متأثر ہوتا ہے۔ سطح زمین سے ہر 160 میٹر کی بلندی پر درجۂ حرارت ایک ڈگری سنٹی گریڈ گرجاتا ہے۔ ایک دن کے اعظم اوراقل درجۂ حرارت کے فرق کو ’’درجۂ حرارت کا تفاوت‘‘ کہتے ہیں۔ درجۂ حرارت پر ہوا کے دباؤ اور اس کے رخ کا بھی اثر پڑتا ہے۔ نقشے میں تمام یکساں درجۂ حرارت رکھنے والے مقامات کو جوڑنے والے فرضی خطوط کو ’’خطوطِ مساوی حرارت‘‘ (Isotherms) کہتے ہیں۔

3۔ ہوا کا دباؤ (Air Pressure)
کرۂ ہوا مختلف گیسوں کا آمیزہ ہے۔ گیسیں وزن رکھتی ہیں، اس لئے زمین پر ہوا کا دباؤ پڑتا ہے۔ ہوا کے دباؤ کا تعلق اس مقام کی سطح سمندر سے بلندی اور درجۂ حرارت پر مبنی ہوتا ہے۔ درجۂ حرارت کے بڑھ جانے سے ہوا کا دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ سطح زمین سے بلندی پر جائیں تو ہوا کا دباؤ کم ہوتا جاتا ہے۔ سطح زمین سے 108 میٹر کی بلندی پر ہوا کا دباؤ ایک سم کم ہوجاتا ہے۔ ہوا کے دباؤ کو ناپنے کے لئے باربیما (Barometer) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ مفروضہ خطوط جو نقشے میں ایسے مقامات کو ملاتے ہیں جہاں ہوا کا دباؤ یکساں ہوتا ہے، ’’خطوطِ مساوی بار‘‘ (Isobars) کہلاتے ہیں۔

4۔ ہوا ئیں (Winds)
ہوائیں زیادہ دباؤ سے کم دباؤ کی طرف چلتی ہیں۔ ہوائی رفتار کو ناپنے کے لئے بادپیما (Airometer) کا استعمال کیا جاتا ہے ہوا کی سمت بتانے والے آلے کو مرغِ باد پیما (Weather Cock) کہتے ہیں۔

5۔ رطوبت (Humidity)
پانی کرۂ ہوا میں بخارات کی شکل میں موجود رہتا ہے۔ بارش کا انحصار کرۂ ہوامیں موجود بخارات کی مقدار پر ہوتا ہے۔ ہوا کی رطوبت خشک و تر رطوبت پیما سے معلوم کی جاتی ہے۔ رطوبت کو فی مکعب گرام کی مقدار میں ناپا جاتا ہے۔

6۔ عملِ تبخیر (Evaporation)
پانی جب حرارت کے زیر اثر گیس کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو اس عمل کو عملِ تبخیر کہتے ہیں۔ درجۂ حرارت کے بڑھ جانے سے تبخیر کی شرح بڑھ جاتی ہے اور ہوا میں بخارات کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ ہوا اگر مرطوب ہو تو تبخیر کی شرح گھٹ جاتی ہے۔ استوائی علاقوں میں سمندر کی بہ نسبت خشکی پر عمل تبخیر زیادہ ہوتا ہے۔

زمین کی ساخت سے چھیڑ چھاڑ
موسم زمین کی ساخت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔ موسم چٹانوں اور زمین کو توڑکر انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔ پھر یہ ٹکڑے کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں اپنے بنیادی اجزا میں بٹ جاتے ہیں۔ بارش کے دوران پانی کے قطرے فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے کاربونک ایسڈ تیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے پانی تیزابی ہوجاتا ہے۔ تیزابی بارش (Acid Rain) اس عمل کا نتیجہ ہے۔ تیزابی بارش زمین کی سطح کو نقصان پہنچاتی ہے کیوں کہ اس میں گلا دینے (Erose) کی خاصیت ہوتی ہے۔

انسانوں پر موسموں کے اثرات
علم الانسان (Anthropology) کے تناظر میں دیکھا جائے تو انسان لاکھوں برسوں سے موسموں کو جھیل رہا ہے۔ اس کے حواس موسموں کی شدت، موسموں کی تبدیلی، کسی موسم کی آمد اور رخصتی کا واضح احساس کراتے ہیں۔ موسم کی کیفیت کا صحیح اندازہ آدمی گھر سے باہر نکل کر کرسکتا ہے۔
موسم نے انسانی تاریخ میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ مثلاً جب 1281 میں قبلائی خان کی منگول فوجوں نے جاپان پر حملہ کیا تو اسے Kamikaze ہواؤں نے روک دیا اور اس طرح جاپان محفوظ رہا۔ فلوریڈ فرانس کا دعویٰ 1565 میں اس وقت ختم ہوگیا جب طوفانی آندھی Hurricane نے فرانس کی فوجوں کو تہس نہس کردیا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسپین نے کیرولین کے قلعہ پر قبضہ کرلیا ۔ حال ہی میں کیٹرنا طوفان (Hurricane Katrina) نے مرکزی خلیج کے باشندوں کو امریکہ اور دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ برف کے مختصر زمانے Little Ice Age) نے یوروپ میں فصلوں کو تباہ کردیا۔ جس کے نتیجے میں زبردست قحط سالی واقع ہوئی۔ 1690 میں فرانس میں زبردست قحط سالی بھی موسموں کے بگڑے تیور کا نتیجہ تھی۔ موسم کی قہرمانی کے نتیجہ میں 1969-97 میں فِن لینڈ میں ایسا زبردست قحط پڑا کہ وہاں کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہوگئی۔
موسم اور آب و ہوا کا اثر انسان کی بنیادی ضرورتوں غذا، لباس اور مکان کے علاوہ انسانوں کے پیشوں پر بھی پڑتا ہے۔ حتی کہ انسان کی جسمانی بناوٹ، رنگ، آنکھ ، ناک، بالوں پر بھی موسم اور آب و ہوا کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اسطوائی خطے کے لوگ عام طور پر پستہ قد ہوتے ہیں ان کے بال چھوٹے اور گھنگھویالے ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔ معتدل آب و ہوا کے علاقوں کے لوگوں کا رنگ صاف اور نکھرا ہوا ہوتا ہے۔ آب و ہوا کے زیر اثر نقلِ مقام (Transport) کے ذریعے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ زراعتی ممالک میں بارش کا فصلوں سے گہر ا تعلق ہے۔ سیلاب اور طوفان سے انسان کی جان ومال، فصلوں اور راستوں کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔

موسم کی پیش گوئی
پیش گوئی (Forecasting) سائنس اور ٹکنالوجی کا وہ علاقہ ہے جس میں ماہرین موسمیات کسی مخصوص علاقے میں مستقبل قریب میں فضائی حالات کی تبدیلی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ موسم کی پیش گوئی ہزاروں برس سے لوگ کرتے آئے ہیں۔ اپنے تجربات، احساسات اور چھٹی حس کے بل بوتے پر لوگ پیش گوئی کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح عوام میں مقبول گیتوں (Folklores) میں بھی موسم کی پیش گوئی کی جاتی رہی ہے جو حیرت انگیز طور صحیح ثابت ہوتی رہی۔
موسم کی پیش گوئی کی پیش رفت میں سائنس اور ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بارپیمائی دباؤ، موجودہ موسمی حالات اور آسمان کے حالات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان سے نتائج اخذ کرکے پیش گوئی کی جاتی ہے۔ موسم کی پیش گوئی کے نتیجے میں انسانی جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔

موسم کو قابو میں کرنے کی کوشش
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ موسموں کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہر دور میں کی گئی اور آج بھی کی جارہی ہے۔ قدیم زمانے میں پینے اور عام استعمال کے پانی اور فصلوں کے لئے درکار پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے محتلف رسمیں ادا کی جاتی تھیں مثلاً ندیوں، تالابوں اور دریاؤں کی پوجا کرنا، ان میں جلتے ہوئے دئے چھوڑنا، سوانگ رچانا وغیرہ۔ اسلام نے پانی کی قلت سے نجات پانے اور بارش لانے کے لئے ایک انوکھا اور پاکیزہ طریقہ بصورت صلاتِ استسقاء عطا کیا۔ امریکہ کا ملٹری آپریشن Popeye ، شمالی ویتنام مانسون کو طول دینے کے لئے تھا تاکہ اس کی سپلائی لائن کو تباہ کیا جاسکے۔
بارش لانے کے لئے بادل بُوائی (Cloud Seeding) کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بارش میں تبدیل نہ ہوسکنے والے سفید ہلکے بادلوں میں ہوائی جہاز کے ذریعہ کیمیائی مادّے چھوڑے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہلکے بادل کثیف ہوکر بارش میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کہر (Fog) کو ہٹانے کے لئے بھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ موسم کو قابو میں کرنے کی ایک تازہ مثال 2008 کے بیجنگ میں ہونے والے اولمپک کھیل ہیں۔ بارش کو روکنے کے لئے چین کے بیجنگ کے 21 مقامات سے 1104 بارش کو بھگانے والے راکٹ (Rain Dispersal Rockets) فضا میں چھوڑے گئے تھے تاکہ 8 اگست کو اولمپک کے افتتاح میں خلل نہ پڑے۔ چین کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔
ایک طرف انسان موسم کو قابو میں کرنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف زراعت، صنعت اور رہائش کے لئے جنگلوں کو بے تحاشہ صاف کرتا چلا جارہا ہے۔ ان کرتوتوں سے موسم میں قدرتی طور پر ایسی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں کہ انسان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے اور موسم کو قابو میں کرنے کے سارے منصوبے اور ساری تکنیکیں ناکام ہوجائیں گی۔

زمین پر موسم کی شدّت
زمین پر سالانہ اوسط تپش C ْ + 40 ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی موسم کی شدت ان حدوں کو توڑ بھی دیتی ہے۔ زمین پر سب سے کم درجۂ حرارت C ْ -89.2 انٹارکٹیکا کے Vestock Station پر 21 جولائی 1983 کو درج کیا گیا۔ اسی طرح زمین پر زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارتC ْ 57.7 لیبیا کے عزیزی میں 13 ستمبر 1922 کو نوٹ کیا گیا۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371908
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development