مدیر
دسمبر 2017
اگرچہ ہماری اکثریت اس حقیقت پر عمل نہیں کرتی تاہم یہ کہتی ضرور ہے کہ اسلام ایک نظامِ حیات کا نام ہے ایک طریقہ زندگی یا لائف اسٹائل ہے۔ اب اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس نظامِ حیات میں ہمارے قدرتی ماحول سے متعلق کیا احکامات ہیں اور ہمارا دین ہمیں اِس رُخ کیا ہدایت دیتا ہے تو ہم ’’رفع دفع‘‘ کی کوشش کرکے موضوع بدل دیتے ہیں۔ ہمارے اِس رویّے اور اِس کم علمی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دیگر علوم کے تعلق سے یا اُن کی مدد سے قرآن کا مطالعہ خال خال ہی کیا ہے۔ جن علماء نے یہ کوشش کری انہوں نے اِن عصری مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی اور اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا لیکن یہ مستثنیات ہیں روشِ عام نہیں۔ اس کے برخلاف آج ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر سبھی اہم مذاہب جدید مسائل کے تناظر میں اپنے مذہبی نقطۂ نظر پیش کررہے ہیں۔ آج ماحولیاتی مسائل پر سب سے زیادہ سرگرمی عیسائی اور یہودی مذہبی رہنماؤں میں نظر آتی ہے جو باقاعدہ ماحولیاتی تحریکوں میں شامل ہیں اور اپنے خطبات اور تعلیمات میں ماحول کے مسائل کو سرِ فہرست رکھ رہے ہیں۔ اُس کے بعد ہمارے ہندو، سکھ اور جینی بھائی بھی اس میدان میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ دینیات (Theology) اور ماحولیات (Ecology) کے علوم کو باہم ملاکر علم کی ایک نئی شاخ وجود میں آچکی ہے جِسے ایکو تھیولوجی (Ecotheology) کہا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ یونان (Greece) کے ایک شہر خانیہ (Chania) میں کریٹ آرتھوڈوکس اکادمی (Crete Orthodox Academy) نے ایک چار روزہ کانفرنس ’’ایکولوجیکل تھیولوجی اور اینورونیمنٹل ایتھکس‘‘ (Ecological Theology & Environmental Ethics) پر منعقد کی جس میں احقر کو مدعو کیاگیا ۔ خاکسارنے’’ قدرتی نظم کی بحالی۔ اسلامی نقطۂ نظر‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی جس کو نہ صرف بے حد سراہاگیا بلکہ کچھ شرکاء نے تو اس حیرت کا بھی اظہار کیا کہ اسلامی نظام میں ماحولیاتی تحفظ اور وسائل کے متوازن استعمال پراتنا کچھ مواد موجود ہے۔ ایسے تمام اجلاسوں میں شرکت کے بعد میرا یہ کرب ہمیشہ بڑھ جاتا ہے کہ ہم اپنے دین کا حق ادانہیں کررہے۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن ایک مکمل کتابِ ہدایت ہے جس میں ہر دور کے مسائل کا حل ہے تاہم ہم کبھی قرآن کی آیتوں پر، اللہ کے احکامات پر اس طرح عمل نہیں کرتے ہیں کہ دنیا کے سامنے آج کے مسائل کا کوئی حل عملاًپیش کرکے دکھائیں۔ ہم نے عمل کے ہر میدان میں’’ذکر‘‘ کے دیوتا کھڑے کردئے ہیں۔ آج بھٹکتی انسانیت مسائل کے حل چاہتی ہے لیکن ہم نے کتابِ ہدایت سے وہ نمونے اور وہ ہدایات اپنائی ہی نہیں جوآج کے مفسدانہ دور کی اصلاح کرسکیں۔ ہمارے ’’اسلامی ممالک‘‘ سے لے کر اسلامی اداروں تک قرآن پر علمی گفتگو اور مباحث ناپید ہیں۔ ہم نئی روشنی کی موجودگی میں بھی قرآنِ کریم کو پرانے اجالوں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہمیں یہ خوف کیوں نہیں آتا کہ ہم عقل و فہم کا استعمال نہ کرکے، قرآن پر تدبّر نہ کرکے، اس کے اصلاحی ماڈل کو عمل میں نہ لاکر قرآن کی تکذیب کررہے ہیں اور جانے انجانے میں حق کو باطل کے پردوں میں چھپا رہے ہیں۔
(ڈاکٹر محمد اسلم پرویز)