قاتل مثلث
واپس چلیں

ڈاکٹر غلام کبریا خاں شبلی
نومبر 2014


مثلث! علمِ ہندسہ کا بنیادی پتھر!! اور قاتل ! ؟ صبر کیجئے۔ یہ چانڈو، حانہ سے اُڑی بے پر کی افواہ نہیں۔ یہ برسوں کے مشاہدات پر مبنی اور سائنسی منطقی دلائل سے روشن ناقابلِ انکار حقائق ہیں،کہ یہ ’’پتھر‘‘ دنیا کے تمام قاتلوں سے زیادہ سنگ دل ہے۔
آئی وان ۔ٹی۔سٹینڈرسن (Ivon.T.Standrson) نے دنیا کے سمندروں میں انتہائی خطرناک بھنوروں اور گردابوں کے بارہ مرکزوں کی نشاندہی کی ہے۔ جن میں سے ایک مغربی ’’برمیودہ مثلث‘‘ (Bermuda Triangle) اور دوسرا مشرقی ’’عفریتی مثلث‘‘ (Dragon Triangle) ہے، جسے ’’بحرِ شیطان ‘‘ (Devil's Sea) یا جاپانی زبان میں ’’ما۔نو امی‘‘ (Ma-no-umi) بھی کہا جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ دونوں مثلث شمالی کرّہ میں 140 تا 150 طول البلد اور 15 تا 35 عرض البلد کے درمیان واقع ہیں؟ البتہ برمیودہ مثلث رقبہ کے اعتبار سے بہت بڑا ہے۔ اس کا رقبہ 1140000 مربع کلومیٹر ہے۔ لیکن خطرناکی میں عفریتی مثلث بڑھا ہوا ہے۔ جو جدید ایٹمی آبدوزوں کو بھی ’’ہڑپ‘‘ کرلیتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کچھ قارئین برمیودہ مثلث کے متعلق کچھ جانتے ہوں۔ مگر اکثریت عفریتی مثلث کی خطرناکی سے ناواقف ہے۔ جس سے شدید نقصانات سے دوچار ہونے کے بعد جاپانی حکومت نے اس علاقہ کو انتہائی خطرناک قرار دے دیا۔ مشکل یہ ہے کہ ان دونوں علاقوں میں اس قدر گہری مماثلت ہے کہ ’’معلوم سے نہ معلوم کی طرف ’’کے اصول کے تحت پہلے برمیودہ مثلث کے متعلق تفصلات کا جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں صدیوں پہلے بر اعظم ’’ایٹلانٹک‘‘ (Atlantic)واقع تھا۔ جو زلزلوں اور آتش فشانوں کی وجہ سے غرقِ آب ہوگیا۔ یہاں کے باشندے باقی تمام دنیا کے باشندوں، جنہیں وہ ڈرویڈ (Dreveds) (جاہل) کہتے تھے، سے سائنسی اور تکنالوجی میں صدیوں آگے تھے۔
پانچ سو سال پہلے کا ایک مشاہدہ کرسٹو کولمبس (1451تا 1506)کا رکارڈ پر موجود ہے کہ وہ جب اس علاقہ کے قریب سے گزرا تو اس نے آگ کے گولوں کو سمندر میں داخل ہوتے دیکھا، اس کا قطب نما خراب ہوگیا، اور اس نے سمندر پر سفید چمکدار لکیریں ابھرتی دیکھیں۔
1813ء میں تھیوڈوسیا (Theodosia) جو سیاسی طور پر اس لئے اہم تھی کہ امریکہ کے تیسرے نائب صدر آرون بڑ (Aarvin Burr) کی بیٹی اور جنوبی کیرولینا کے گورنر جوزف اسٹون کی بیوی تھی اور شخصی طور پر حسین اور ذہین تھی۔ جنوبی کیرولینا جو 80 تا 85 طول البلد اور 30 تا 35 عرض البلد پر واقع ہے شمال میں نیویارک جو 70 تا 75 طول البلد کے درمیان تقریباً 42 عرض البلد پر واقع ہے، اپنے والد سے ملنے پیٹریاٹ (Patriot) نامی کشتی کے ذریعہ نکلی، جو اپنے زمانہ کی مضبوط اور محفوظ کشتی تھی۔ کشتی راں بھی اپنے دور کا مشہور اور ماہر ملاح تھا۔ کشتی کے عملہ کے علاوہ تھیوڈوسیا کا اپنا بھی عملہ تھا جس میں اس کا ذاتی ڈاکٹر بھی تھا ۔ جیسے ہی کشتی 35 عرض البلد پر پہنچی غائب ہوگئی۔ کشتی اور اس کے سوار کبھی نیویارک نہ پہنچ سکے۔ نائب صدر امریکہ اور ریاست کیرولینا کے گورنر نے تھیوڈوسیا کی تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہوگی۔ مگر بے سود۔برمیودہ مثلث انہیں نگل گیا۔
جدید ترین حادثہ مارچ 1973 ء کا ہے جب جرمنی کا مال بردار جہاز ’’انیٹا‘‘ (Aneta) برمیودہ مثلث میں غائب ہوا۔
مولانا عاصم عمر نے ’’برمیودہ تکون اور دجّال‘‘ میں اگست 1800 تا 1973 مختلف ممالک کے اٹھارہ بحری جہازوں اور دسمبر 1945 تا جنوری 1947 محض دو سال کے عرصہ میں پندرہ واقعات میں 26 گمشدہ طیاروں کی فہرست دی ہے۔ یہ تو صرف معلوم حادثات ہیں۔ نامعلوم حادثات کی تعداد سیکڑوں ہو سکتی ہے۔
برمیودہ مثلث کا موازنہ عفریتی مثلث سے کیا جاتا ہے۔ یہاں پر اسرار طور پر غائب ہوئے بحری جہازوں اور طیاروں کے علاوہ اس مثلث کا تعلق بھوتوں کے جہازوں (Ghost Ships) ناقابلِ یقین وتوضیح و تشریح واقعات، وقت میں تبدیلی، آلات کی ناکارگی وغیرہ سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اور جہاز رانوں کی انسانی کمزوریوں اور غلطیوں سے بھی مصنفین اور محققین کی ایک قابلِ لحاظ فہرست ہے۔ جنہوں نے اپنے اپنے طور پر ان دونوں مثلثوں کے غیر فطری واقعات کی وضاحت کی کوشش کی۔ انمیں چارلس برلٹز کا نام سرِ فہرست ہے۔ جس کی تحقیقات کو غیر جانبدارانہ تاریخی اور سائنسی کہا جاسکتا ہے۔
چارلس برلٹز کی کتاب ’’عفریتی مثلث‘‘ (The Dragon Triangle) مطبوعہ 1989 ء ،کے مطابق 1952 تا 1954 صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں جاپان نے پانچ بڑے فوجی جہاز اور سات سو سے زیادہ افراد یہاں کھودئے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کو پانچ طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ 340 طیارے، 10 جنگی جہاز، 10 جنگی کشتیاں، 9 اسپیڈ بوٹس اور 400 خودکش طیارے اور ایک بحری دستہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور یہ سب حالت جنگ میں تباہ نہیں ہوئے کیونکہ اس وقت تک اتحادی فوجیں یہاں پہنچی بھی نہیں تھیں۔ اپریل 1968 ء میں روس کی جدید ایٹمک آبدوز ’’جولف۔1‘‘ 86 افراد اور 800 کلوگرام ایٹمی وار ہیڈز کے ساتھ لا پتہ ہوگئی۔فرانسیسی آبدوز ’’چارلی‘‘ ستمبر 1984 میں 90 افراد سمیت غائب ہوگئی۔ روسی آبدوز ’’وکڈ۔1‘‘ 1984 مارچ میں، اسی سال ستمبر میں روسی آبدوز ’’ایکو۔1‘‘۔ جنوری 1986 ء روسی آبدوز ’’ایکو۔2‘‘ اور برطانوی آبدوز ’’فوکسٹرول‘‘ اس مثلث کی نذر ہوئیں۔ کیا یہ سب اتفاقی حادثات تھے؟
اب تو ان شیطانی مثلثوں کی تباہ کاریاں سمندروں سے باہر زمین پر بھی ہونے لگی ہیں۔ مثلاً پہلی عالمی جنگ کے دوران گیلی پولی کے میدان میں ترکوں اور انگریزوں کے درمیان شدید جنگ ہورہی ہے۔ یہاں ایک سڑک کے کنارے ایک پہاڑی ’’ہل سکسٹی‘ مرکز کار زار تھی۔ 28 اگست 1915 کو موسم بڑا صاف تھا کہ یکایک میدان جنگ پر بادل چھا گئے اور اس کا ایک آٹھ سوفٹ لمبا اور دو سو فٹ چوڑا ٹکڑا سڑک پر چھا گیا جس پر سے برطانوی رجمنٹ (800تا 4000 سپاہی) پہاڑی پر موجود دستے کی کمک کے لئے بڑھتی ہوئی اس بادل میں داخل ہوگئی۔ مگر اس رجمنٹ ’’دی فرسٹ فورتھ نارفوک‘‘ کاایک بھی سپاہی ’’ہل سکسٹی‘‘ پہنچ نہ پایا۔ بادل کا ٹکڑا بادلوں سے جا ملا اور بلغاریہ کی جانب چلا گیا۔ ترکی نے تو ایسی کسی رجمنٹ کے وجود سے انکار کردیا۔ مگر حیرت تو یہ ہے کہ برطانوی دفتر جنگ نے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔ کیوں؟؟
اڑن طشتریوں کے ذریعہ لوگوں اور ان کی سواریوں تک کا اغوا، لوگوں کے انٹرویوز، واپسی اور چند ایک کی صلاحیتوں میں بعد از اغوا ترقی کی بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً 1976 ء میں امریکی ریاست ’’مین ہیٹن‘‘ کے جنگل ’’’’آلا گاش‘‘ سے اغوا کئے گئے چار طلباء کا اغوا جو ’’آلاگاش اغوا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ان میں سے ایک جیک نامی غبی طالب علم بعد میں ریاضی کا ماہر ثابت ہوا۔ اغوا کے بعد واپسی پر اسکے پیر پر ایک نشان دیکھا گیا۔ تمام سائنسی ذرائع سے تحقیقات کے باوجود اس نشان کی تشریح نہ ہوسکی۔
مثلثوں کے یہ علاقے آسمانوں کے تاریک روزنوں سے بھی مختلف ہیں۔ جہاں روشنی کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں ہے۔ گویا ’’ہرچہ آید در گھسیٹ‘‘ والا معاملہ ہے۔ دوسرے یہ کہ یہاں داخل شدہ اشیاء پھر کبھی واپس نہیں آتیں۔ ویسے ہم تو ابھی اپنے نظام شمسی کے بندھن بھی توڑنہ سکے۔ کجایہ کی تاریک روزن (Black Hole) تک پہنچ کر اس کا سائنسی مطالعہ کرتے۔ جبکہ یہ قاتل مثلث بے انتہا روشنی ، چمکدار بادل اور آگ کے گولے بھی خارج کرتے ہیں۔ جنہیں ان مثلثوں سے باہر آتے اور اندر جاتے بھی دیکھا گیا ہے۔ یہی بات اڑن طشتریوں کے متعلق چشم دید گواہوں کے بیانا ت سے بھی ثابت ہوئی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ افراد غائب اور جہاز دور کسی ساحل پر موجود۔ مثلاً جی۔ جی۔ ڈیرنگ آف پورٹ لینڈ جہاز راں کمپنی کا جہاز "Caroll Deerind" جس کا اگلا سرا ساحل کی ریت میں مع اپنے مال وزر اور درست آلات دھنساہوا ملا۔ کس نے اسے یہاں لا پٹخا اور مسافر کہاں گئے؟؟ واقعات کے بغور مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جو بھی طاقت ان حادثات کی ذمہ دار ہو اسے مال و زر کی ضرورت نہیں۔ اور یہ کہ اس کا انجذابی عمل ’’انتخابی‘‘ (Selective) ہوتا ہے۔ جو چیز ان کے مفید مطلب ہو مثلاً حربی سامان، ایٹمی وارہیڈز، ایٹمی آبدوزیں، مختلف فنوں کے ماہرین ، ذہین افراد، سائنسداں وغیرہ ’’جذب‘‘ کرلئے جاتے ہیں۔ گویا آج ذہین ہونا اور کسی فن کا ماہرہونابھی قابلِ سزا جرم ٹھہرا۔ دیکھئے غالبؔ مرحوم کیسا الہامی شعر کہہ گئے ہیں کہ ؂
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے!؟
ہوا کیوں بے سبب غالبؔ یہ دشمن آسماں اپنا
یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ یہ دونوں مثلث ’’خطِ اذیت‘‘ (Agonic Line)پر واقع نہیں ہیں جہاں زمین کا مقناطیسی اور جغرافیائی شمالی ایک دوسرے پر منطبق ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آلات متاثر ہوکر غلط معلومات دینے لگتے ہیں۔ یہ ایک متحرک خط ہے جو زمین کی حرکت کے ساتھ اپنا مقام تبدیل کرتا رہتا ہے۔
یہ حالات صاف اشارہ کرتے ہیں کہ مثلثوں کا نظام کسی انتہائی منظّم طاقت کے قابو میں ہے۔ مگر وہ ہے کون؟ کو ئی آسمانی مخلوق؟ ایٹلانٹس کے باشندے؟ یا پھر ’’وہ خدا جس کا انتظار ہے’’یعنی دجّال؟ (نعوذ باللہ) ضرور ’’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘‘ جو اپنی سفاک قاتل اداؤں کی تسکین کی خاطر قتل گاہیں سجا رہا ہے۔
اب رہی توجیہات کی بات تو جتنے محققین اور مصنفین اتنے ہی نظریات۔ ان میں سے چند تو نہایت بے بنیادہیں۔ مثلاً صدیوں پرانے جاپانی قصّہ کہانیوں کے مطابق یہ علاقہ عفریتوں کا مسکن ہے۔ جب وہ لڑتے ہیں تو ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں اور زمین ہلنے لگتی ہے۔ اس زمانہ میں یہ باتیں دیومالائی پس منظر میں آتش فشانی اور زلزلوں کا جواز رکھتی تھیں۔ یا حکومتوں اور حکومتی اداروں کے ذمہ داروں کے یہ بیانات کہ یہ سب قدرتی آفات ہیں۔ ہم یہاں صرف وہی نظریات پیش کررہے ہیں جن کی بنیاد میں کوئی سائنسی حقیقت ہو۔
لیڈز یونیورسٹی کے ڈاکٹر بین کلینل (Ben Clennel) کے نظریات کی بنیاد پر لیری کُشے نے 1995 ء اپنی کتاب ’’برمیودہ مثلث راز حل ہوا‘‘ (The Bermud Triangle Mystry Solved) شائع کی۔ جس کے مطابق ان تما م حادثات کی وجوہات تمام تر فطری تغیرات ہیں۔ مثلاً ان علاقوں میں سمندر کی تہہ میں موجود تلچھٹ سے کثیر مقدار میں ’’میتھین ‘‘ (Methane) گیس کا فضا میں رساؤ۔ جس کی وجہ سے پانی اور ہوا کی کثافت خطرناک حد تک کم ہوجاتی ہے۔ جو طیاروں اور بحری جہازوں کو تھامے رکھنے کی صلاحیت ختم کردیتی ہے۔ اپنی اشتعال انگیزی کی وجہ سے جہازوں کے انجن اور ایندھن کو جلا دیتی ہے۔ اور انسانی حواس کو پراگندہ کرکے حادثات کا سبب بنتی ہے۔ لیکن اس کے خلاف شواہد موجود ہیں کیونکہ یونائٹیڈ اسٹیٹس جیوگرافیکل سروے (USGS) کے مطابق گذشتہ 15000 برسوں کے دوران برمیودہ مثلث میں کثیر مقدار میں میتھین گیس کے رساؤ کا کوئی ثبوت نہیں۔ عفریتی مثلث کے متعلق اس کا خیال ہے کہ یہ علاقہ زیر بحر آتشفشانوں اور زلزلوں کی آما جگاہ ہے۔
خلیج میکسیکو سے نکلنے والی سرد اور گرم پانی کی رویں برمیودہ مثلث سے 5 تا 6 ناٹ(Knot) یا 6080 = Nautical Mile فیٹ یعنی 30400 تا 36480 فیٹ کی رفتار سے گزرتی ہیں اورعفریتی مثلث میں بھی یہ سرد اور گرم پانی کی روئیں ٹکراتی ہیں اور زبر دست برقاطیسی طوفان پیدا کرتی ہیں،جس کی طاقت ہماری معلوم توانائیوں سے لاکھوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بالخصوص امریکہ کے مشرقی ساحل پر موسمِ گرما میں طوفاں بادوباراں اور جنگلات کی آتش زدگی مزید تباہی کا باعث بنتی ہے۔
ایک سائنسداں ایڈسنے ڈیکر (Ed Snedaker) کا نظریہ سائنسی نقطۂ نظر سے، حقیقت سے قریب ترمعلوم ہوتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ان دونوں علاقوں کے پانی میں اور ان کے اوپر کی فضا میں نظرنہ آنے والی ایسی سرنگوں (Tunnels) کا جال ہے جو جہازوں اور طیاروں کو چوس (Suck) لیتی ہیں۔ اسی طرح کا خیال چارلس برلٹرز کا بھی ہے کہ یہاں ’’برقاطیسی بھنور‘‘ (Electro Magnetic Vortices) ہیں جو ہر چیز کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں۔اس سلسلہ میں کلرک (1873)کی سو چ بھی یہی ہے۔
ایڈ سنے ڈیکر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’’کیپٹن پاورس کی بیوی کہتی ہے کہ اغوا کنددگان میں سے کچھ کے ساتھ وہ رابطے میں ہے۔ 1945 ء میں غائب ہونے والے پچاس سالہ پائلٹ سے 1969 میں جب کہ اس کی عمر تقریباً 74 سال ہونی چاہئے اس نے بات کی لیکن کہاں؟ زمین کے اندر ہی کہیں۔‘‘
تمام مصنفین، محققین اور سائنسدانوں کی اکثریت اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور ہے کہ ان مثلثوں میں تمام توانائیوں کے ناقابل قیاس ذخیرے ہیں۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کبھی جہاز غائب اور مسافر موجود یا افراد غائب اور جہاز موجود اور کبھی دونوں غائب۔ یہ انتخاب (Selection) کون کرتاہے، کون ہے یہ Selector ؟ ٹیپ کے مصرعہ کی طرح ہر نظریہ کے ساتھ ایک ہمالیائی سوالیہ نشان’’؟ ‘‘بطور تحدّی (Challenge) ابھر کر سامنے آتاہے۔ جس کا کوئی جواس کسی بھی نظریہ کے پاس نہیں۔ واللہ اعلم۔
ہم ’’ایمان مفصل‘‘ میں اور بہت سے حقائق کے ساتھ یہ ٹکڑا بھی پڑھتے ہیں کہ ’’خیرہ و شرہ‘‘ بے شک اللہ تمام خیروشر کا مالک ہے۔ ایرانیوں کی سمجھ میں یہ نکتہ نہ آسکا اور انہیں ثنویت کی طرف مائل کرکے ’’خدائے نور‘‘ اور ’’خدائے ظلمت‘‘ کا عقیدہ گھڑنے پر مجبور کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ ’’وھوعلی کُلِّ شیئ قدیر‘ ‘کہاں رہا؟لاریب کہ ہر خیروشر کا خالق و مالک بھی اللہ قادر و قدیر، عزیزلحکیم، قوی و تواناہی ہے ’’لاحول ولا قوّۃ الا باللّٰہ‘‘۔یہ اور بات ہے کہ اس کے شر میں بھی خیر پوشیدہ ہوتا ہے۔ (عدد شرے بر انگیز کہ درآں خیر بے ماباشد)
مولانا عاصم عمر کا یہ قول بھی دل کو لگتا ہے کہ پانی پر مثلث بن ہی نہیں سکتا۔ لہذا ان خطرناک علاقوں کا رقبہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ بتایا جارہا ہے۔
ان واقعات سے ذہن مرحوم ابن صفی کے ناول ’’تاریک وادی۔زیر ولینڈ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ وہی چمکدار کہر، ٹی تھری بی کے وہی سائنسی شعبدے، وہی انتہائی محیر العقول سائنسی آلات۔ دوسری طرف ڈان براؤن (Dan Brown) کا ناول Miles Below The Earth بھی2000 آرہا ہے۔ کہ زمین کی اوپری پرت کے نچلے خول اور مرکزکے اوپری خول کے درمیان کے خلاء میں سائنسی اعتبار سے ایک انتہائی ترقی یافتہ تہذیب پروان چڑھ رہی ہے۔ غالباً Atlantions کی، جنہوں نے غرقابی کے بعدیہاں اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ واللہ اعلم العلم عند اللہ

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360341
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development