جو عالم ا یجاد میں ہے صاحب ا یجاد
واپس چلیں

سیدہ فاطمہ النساء
اگست 2018

پوری تاریخ کے دوران ہم انسانوں نے اپنے فہم وادراک اور تفکر و تدبر سے مادی دنیا کے بنیادی حقائق کو سمجھنے کی جدوجہد کی ہے۔ ہم نے ہمہ وقت ان قواعد و ضوابط کی تلاش کی کوشش کی ہے جو ہمارے اردگرد اشیاء کی خصوصیات اور ان کے پیچدہ تعلقات کا تعین کرتے ہیں۔ ہماری دنیا نقوش و نمونے (Patterns) اور ترتیبات سے بنی ہے اور یہ ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دن رات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور رات دن میں۔ زمینی حالات و حرارت مسلسل تبدیل ہوتے ہیں۔ موسمی تغیرات کی وجہ سے جانور زمین میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ ریاضی کی ابتدا کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ ہمیں ان بدلتے ہوئے قدرتی تغیرات یا (Patterns) کو سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ ریاضی کا سب سے بنیادی تصور خلاء (Space) اور مقدار (Quantitiy)ہے جو کی ہمارے ذہن میں بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ جانوروں کو بھی دوری اور اعداد و شمار کی سمجھ ہوتی ہے۔ یہ اندازہ لگانا کہ کب ان کے جھنڈ کی تعداد دوسرے جھنڈ سے کم رہ گئی ہے؟ لڑنا ہے یا بھاگ جانا ہے؟ یہ طئے کرنا کہ ان کا شکار وار کرنے کے لائق فاصلے کے اندر ہے یا نہیں؟ یہاں ریاضی کی سمجھ زندگی اور موت کے درمیان کا فرق ہے۔

لیکن یہ حضرت انسان ہے جس نے ان بنیادی تصورات کو لیا اور ان ابتدائی اصولوں پر کام کرنا شروع کیا۔ جس وقت انسان نے پیٹرنس سمجھنا شروع کر دیا اور اسے جوڑ کر گننا اور اپنے آس پاس کی دنیا کو ترتیب میں لانے کا کام کیا اسی وقت ریاضی کائنات کے منظر نامہ پر ابھرنے لگی۔

ہماری کائنات ایک آئینہ خانہ ہے۔ یہاں ہر شئے کا عکس بہ یک وقت مستعد آئینوں میں پڑنے لگتا ہے۔ اگر ایک شئے پر بھی غبار آجائے گا تو سیکڑوں اشیاء غبار آلود ہوجائیں گی۔ دنیا بھر میں ہزاروں سالوں سے معاشرے نے ایک دوسرے کے باہم ثقافت میں ایک ہی طرح کا نظم و ضبط پایا ہے، اسی دوران ہم نے ایک ایسی زبان کا اختراع کیا جو زمانہ قدیم سے رائج ہے۔ جسے ہم ریاضی کہتے ہیں۔ دنیا کی تمام قدیم تہذیبیں کسی نہ کسی اہم دریا کے کنارے ابھری، پھیلی اور پھلی پھولی ہیں۔ انہیں میں قدیم مصری تہذیب بھی ہے۔ مورخین کا خیال ہے کہ مصری تہذیب ہی (جو دریائے نیل کے آس پاس قائم ہوئی) دنیا کی سب سے پرانی تہذیب ہے۔ اس کی باقیات جو کہ ایک لازوال میراث ہے وہاں کی عظیم کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ نہ صرف اسکا فن تعمیر وسیع پیمانے پر نقل کیا گیا بلکہ اس کے آثار قدیمہ اور دیگر برباد ہونے والے کھنڈرات نے صدیوں کے لئے مسافروں اور مصنفین کے تصورات کو متاثر کیا ہے۔

عظیم اہرام زمانہ قدیم کا وہ لافانی شاہکار ہے جو دنیا کے سات عجائبات کی فہرست میں آج بھی باقی ہے، جس کی تعمیر مصریوں نے 2630ق م میں شروع کی تھی اور تقریباً 2504 ق م میں مکمل کی۔ یہ ایک ایسی یادگار ہے جسے وقت کا بہاؤ بھی ختم نہی کرسکا۔ 455 فٹ بلند اور13 ایکڑ پھیلاؤ کے اس عظیم اہرام کو اتنی عمدگی سے تعمیر کیا گیا ہے کہ موجودہ دور کی ٹکنالوجی بھی ایسے شاہکار کی نقل تعمیر کرنے سے قاصر ہے۔ بقول علامہ اقبال علیہ الر حمہ

اہرام کی عظمت سے نگُوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی اَبدِ یّت کی یہ تصویر!

کیا ایسا ممکن تھا کہ قدیم مصریوں کو ٹھیک ٹھیک اعداد کے استعمال، ان کے ذریعے مقداروں کے خواص، ان کے درمیان تعلقات اور اس کے علاوہ شمار و پیمائش اور اشیاء کے اشکال و حرکات کے بنیادی عوامل کا علم ہوگا؟

آئیے قدیم مصریوں کی ابتدائی جدید دور تہذیب اور ثقافتی ورثہ کے ذریعے ریاضی کی اختراع پر غور کریں۔

مصر کا دریائے نیل جو کہ صدیوں سے فراوانی نعمت کی علامت مانا جاتا ہے وہ جگہ ہے جہاں سے ریاضی کی اولاً ابتدائی علامتیں ظہور پذیر ہوئیں جنہیں ہم آج جانتے ہیں۔ لوگوں نے خانہ بدوش زندگی ترک کر کے یہاں 6000 ق م کی ابتدا میں بسنا شروع کیا۔ یہاں کاشتکاری کے لئے حالات بہت ہی عمدہ تھے۔ مصری زراعت کے لئے سب سے اہم واقعہ ہر سال نیل کا سیلاب تھا۔ سیلاب کو ہر نیا سال شروع کرنے کے لئے علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ مصری ہمیشہ دو سیلابوں کا درمیانی وقفہ قلمبند کیا کرتے تھے۔ موسموں کے پیٹرنس کی قلمبندی نہ صرف ان کی زمین کے لئے بلکہ انکے مذہبی عقائد کے لئے بھی ضروری تھی۔ دریائے مصر کے کناروں پر بسنے والے قدیم مصری ہر سال دریا میں سیلاب لانے کے لئے دریا کے خدا حاپی کو ذمہ دار مانتے تھے اور زندگی بخشنے والے پانی کے خدا کو بدلے میں شہری اپنی پیداوار کا ایک حصہ شکریہ کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جیسے جیسے بستیوں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا شہریوں کے لئے زمین کے علاقوں کو شمار کر نا،پیداوار کی پیشن گوئی کرنا اور حکومت کے لئے محصول عائد کرنا دشوار ہوگیا یعنی ایک نئے انتظامی طریقے کار کی تلاش ضروری ہوگئی۔ مختصر یہ کہ شمار اور پیمائش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پیمائش کے لئے مصریوں نے اپنے جسم کا استعمال کیا اور اس طرح پیمائش کی اکائیاں تیار ہوئیں۔ ایک ہاتھ کی چوڑائی ایک بالشت تھی۔ ایک ذراع (Cubit) کہنی سے انگلیوں کے سرے تک کا ہاتھ تھا۔ مصری عدد کا نظام بنیادی طور پر غلط تھا ان کے یہاں مقامی قیمت (Place Value) کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لہذا ایک لکیر صرف ایک اکائی (Unit) کی نمائندگی کر سکتی تھی۔10 کے لئے ایڑی کی ہڈی کی شکل، 100کے لئے رسی کا لچھا اور1000 کے لئے کمل کے پھول کی شکل بنائی جاتی۔ لیکن اگر کسی کو دس لاکھ سے ایک عدد کو گھٹانا ہو تو؟ بیچارے مصری اسکے لئے9 لکیریں، 9 ایڑی کی ہڈی،9 رسی کے لچھے وغیرہ وغیرہ لکھتے اور اس طرح جملہ 54 شکلوں کا استعمال ہوتا۔اس قدیم مصری تحریری نظام کو ہائروگلِف (Hieroglyph) کہا جاتا ہے۔ اس عددی نظام کی خرابیوں کے باوجود مصریوں کا شمار شاندار مسائل سلجھانے والوں میں کیا جاتا تھا۔

قدیم مصر سے اب تک دریافت کیا گیا قدیم ترین ریاضیاتی متن ماسکو پیپرس (Moscow Papyrus) ہے جو کہ (1800-2000) ق م کے ارد گرد قلمبند کیا گیا تھا۔ اس کے مطالعہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مصریوں نے ابتدائی طور پر تقریباً2700 ق م یا اس سے بھی پہلے ترقی یافتہ 10 کا بنیادی عددی نظام (Numerical System) متعارف کرایا تھا۔

1720 ق م میں مصریوں نے اپنے حساب کتاب میں صفر(Zero) کی علامت کا استعمال کیا تھا۔ علامت "Symbol nfr" جس کا مصری معنی 'خوبصورت' ہے اصل میں صفر (Zero) کا ہی کام کرتا ہے،جو کہ اہرام کی تعمیر کے دوران نقشہ تیار کرتے وقت بنیادی سطح کی نشاندہی کرنے کے لئے اور اہرام کی عمودی لمبائی ناپنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا تھا۔

مصریوں نے اپنی تمام تر کھوج کو رینڈ پیپرس (Rhind Papyrus) میں قلمبند کیا۔ رینڈ پیپرس تقریباً 1650 ق م تاریخ سے متعلق ایک ہدایتی متن ہے جو کہ ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ اس وقت ضوابط اور تقسیم کیسے کئے گئے تھے۔ ان کے مطابق حساب علم الاعداد کی ایک شاخ ہے جو کہ ایک علمی صنعت ہے جس کے بنیادی مسائل جمع (+)،تفریق (-)، ضرب (x) اور تقسیم (÷) ہیں۔ اگر اعداد تنہا تنہا جمع اور تفریق کئے جائیں تو اسے جمع کہتے ہیں۔ اگرتخفیف کے ساتھ جمع کئے جائیں کہ دوسرے افراد میں ایک عدد کو دگنا کردو تو یہ ضرب ہے۔ دراصل ضرب بھی جمع ہی کی ایک نوع ہے۔ اسی طرح اعداد میں تفریق یا تو تنہا تنہا دو عددوں میں ہوتی ہے کہ کسی مخصوص عدد سے کوئی مخصوص عدد گھٹا دیا جائے اور باقی معلوم کرلیا جائے اسے تفریق کہتے ہیں۔ اسی طرح گھٹانے کی ایک نوع تقسیم ہے جس میں متساوی اجزاء جن کی تعداد معلوم ہوتی ہے گھٹائے جاتے ہیں۔ پھر یہ دونوں یا چاروں قاعدے صحیح اعداد (Real Number) میں برتے جاتے ہیں اور کسروں (Fractions) میں بھی۔ کسر کسی صحیح عدد کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں۔ مصریوں نے اسے روزمرہ کے حساب لین دین خرید و فروقت بازاروں میں ملنے والی گندم کی روٹی کی تقسیم وغیرہ کے لئے استعمال کیا تھا۔ اسی طرح یہ قاعدے جذروں (Squares) میں برتے جاتے ہیں۔ جذر اس عدد کو کہتے ہیں جسے اس کے ہم مثل میں ضرب دیا جائے جیسے 16 کا جذر 4 ہے کیونکہ (16=4x4)میں اور16 ،4 کا مربع (Square Root)ہے۔

اسکے علاوہ اس پرچہ میں ہندسہ (Geometry)، اعداد صماء نہ(Prime Numbers)، اعداد متنافقہ(Composite Numbers) ،اعداد متداخلہ(Concordant Numbers) ، علم الحساب (Arithmetic)، الجبرا جس میں لکیری مساوات Equations) (Linear کو حل کرنے کا طریقہ کار بتایا گیا ہے۔ جو کہ دو یا دو سے زیادہ مختلف چیزوں میں مساوات قائم کر کے حل کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک چیز کا دوسری چیز سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسر ہو تو انہیں صحیح عدد میں لایا جاتا ہے اور مقدور (Power) پھر درجات مجہول (Unknown) کو گھٹا کر صرف تین درجوں (عدد شے مال) پر لایا جاتا ہے جن پر جبر موقوف ہوتا ہے۔ اگر دو مساوات پیدا ہوگئیں تو سمجھیں کہ سوال حل ہوگیا۔ آج بھی ہم اسی طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں۔ برلن پیپرس (Berlin Papyrus) جس میں تقریباً 130 ق م کی تاریخ موجود ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم مصری دو درجی مساواتیں (Quadratic Equation) حل کرنے کی قابلیت رکھتے تھے۔ یہ صنعت مصریوں میں کاشتکاری کے مسائل ومعاملات حل کرتے وقت رائج ہوئی۔

مصری بائنیری (Binary) کی اہمیت کو بہت پہلے ہی سمجھ چکے تھے یعنی Leibnitz سے3000 سال قبل وہ اس اصول کو نہ صرف ایجاد کر چکے تھے بلکہ اس میں خاصی مہارت بھی حاصل کر چکے تھے۔ آج پوری تکنیکی دنیا قدیم مصر میں استعمال کئے گئے ایک ہی اصول پر منحصر ہے۔ اہرام کی تعمیر کے دوران آرکیٹکٹ اور انجینیر ایک ایسے قاعدہ (Formula) کی تلاش میں تھے جو تعمیر کے مواد کی صحیح مقدار کا حساب لگا سکے اور وہ اس طرح کی ایک خوبصورت طریقہ کار جسے ہم اہرام کا حجم (Volume of Pyramid) کہتے ہیں ایجاد کرنے میں کامیاب رہے۔ بلکہ مصری تناسب (Symmetry) کے اصول کو بھی بخوبی جانتے تھے۔ ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ اگر چہ قدیم مصریوں کو مناسب طریقے سے پائی کی قدر کی وضاحت نہیں تھی مگر عملی طور پر انھوں نے اہرام کی تعمیر کے دوران اسکا استعمال کیا تھا۔

دلچسپ سوال یہ ہے کہ انہوں نے کیوں اس عظیم اہرام کی تعمیر کے لئے اس مخصوص شکل کی جیومیٹری اور تین اہرام کی ترتیب کو منتخب کیا؟ جو کہ باقی سے نہ صرف بالکل مختلف ہے بلکہ واضح طور پر ارادے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ کیا یہ خالص طور پر جمالیاتی نہ کہ ریاضیاتی وجوہات کی وجہ سے ہے جس نے اس نوعیت کو فطرت اور خوبصورتی سے منسلک کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مصری سنہرے تناسب (Golden Ratio) جو کہ 1.61803398875 ہے کا مشاہدہ پہلے ہی کر چکے تھے۔

مصریوں کے بعد جو شہر علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا بہت بڑا مرکز تھا وہ سلطنت بابل تھا یعنی بیبلونیا جو کہ اپنے عہد کا مہذب ترین ملک تھا۔ یہ دو سلطنتوں کا نام ہے جو جنوبی میسوپوٹیمیہ (موجودہ عراق) میں واقع ہیں۔ قدیم بیبلونیا(1200-1700) ق م کا بانی حمورابی تھا۔ میسوپوٹیمیہ میں کھدائیوں نے ایسے افراد کا خاکہ کھینچا جو حیرت انگیز طور پر جدید تھے۔ وہ تہذیب جو دریائے فرات کے نشیبی علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی "سمیرین" (Sumerian) تہذیب کہلاتی تھی اور یہی تہذیب بنی نوع انسان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔

مقصودِ ہنر سوزِ حیاتِ ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا

بابل کے شہریوں کو مذہب سے زیادہ دنیا میں دلچسپی تھی یہ فن تعمیر میں مہارت رکھتے تھے۔ بخت نصر کا تعمیر کردہ شاہی محل اور معلق باغات قدیم فن تعمیر کے بہترین نمونے ہیں۔ موخر الذکر جس کا شمار دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر ہوتا ہے اس قوم کی علم مساحت (Mensuration) میں ہنرمندی، باریک بینی اور ذہانت کا پتہ دیتا ہے جو کہ ایک مشکل ترین صنعت ہے جس میں جنگل یا آبادی،دریا اور پہاڑ جیسا بھی علاقہ ہو اسکی صحیح صحیح پیمائش کرنا،فاصلہ معلوم کرنا،زمین کے نشیب و فراز کو سمجھنا اور کاغذ پر نقشہ بنا کر صحیح صحیح اندراج کرنا ہوتا ہے۔ تاریخ میں ان کے ابھرنے اور ان کی دولت مندی کی اہم وجہ اس علاقہ کی زرخیز زمین تھی۔ طویل دریا دجلہ اور فرات اپنے اپنے مبدے سے 170 کلومیٹر (100میل) کی دوری سے ایک ساتھ بہتے تھے جس کے باعث ساحل سے دور میدانوں کے نشیبی حصوں میں زرخیز مٹی جمع ہو جاتی تھی۔ بے قاعدہ سیلاب وغیرہ ہمیشہ ہی خطرناک ثابت ہوتے تھے لیکن لوگوں نے جب کنال،باڑھ اور ذخائر آب میں پانی کو روک کر اپنا بچاؤ شروع کیا تو یہاں کی معیشت بھی تبدیل ہوگئی۔ تین بنیادی و اہم ایجادات سے اس علاقے کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے میدانوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے ہل، اشیاء درآمد و برآمد کے لئے پہئے والی گاڑیوں کی ایجاد اور پروٹین کی مستقل سپلائی کے لئے جانوروں کا دودھ دوہنا۔

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!

مصریوں کی طرح بابل کے لوگوں نے ماپنے اور وزن کرنے کی عملی پریشانیوں کو سلجھانے میں دلچسپی دکھائی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بابل کے لوگ 60 کی گھات کا استعمال کرتے تھے نہ کہ مصریوں کی طرح 10 کی گھات کا۔ یہاں کے لوگوں نے مصریوں کی طرح اپنی انگلیوں کا استعمال کرتے ہوئے اعداد و شمار کا اختراع کیا۔ اپنے ہاتھ کی10 انگلیوں کی گنتی کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے ہاتھ کے بارہ پوروں کا استعمال کیا۔ اس طرح انہوں نے گنتی کا ایک انوکھا اور دلچسپ طریقہ ایجاد کیا تھا۔

60 کی گنتی کے لئے انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کے بارہ پوروں اور دوسرے ہاتھ کی پانچ انگلیوں کا استعمال کیا۔ 60 کا عدد خاصہ طاقتور عدد ہے۔ اسے کئی طریقوں سے پوری طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اسے آپ 30 کی دو قطار میں تقسیم کر سکتے ہیں یا 20 کی تین قطار میں یا پھر 10 کی 6 قطار میں یا 6 کی 10 قطار میں اسے آپ 15 کی4 قطار میں بھی ترتیب دے سکتے ہیں یا پھر 12 کی 5 قطار میں وغیرہ وغیرہ۔ دنیا میں گھڑی (ساعت) کا نظریہ 60کے کامیاب بنیادی نظام سے ہی ایجاد ہوا۔ اسلئے بیبلونیا کا پیمائشی زاویہ نظام 360 ڈگری تھا جو کہ ایک مکمل دائرہ ہے۔ جہاں ہر درجہ کو 60 منٹ میں تقسیم کیا گیا اور مزید ہر منٹ کو 60 سیکنڈ میں۔ لہذا انکی پیمائش کے نظام باقاعدہ طور پر اعداد و شمار کے نظام کے ساتھ مفید ہم آہنگی رکھتے تھے جو کہ نہ صرف مشاہدے بلکہ حساب کے لئے بھی مفید ہے۔ تقریباً 8000 ق م سے انہوں نے چاند گرہن کے چکر کو قلمبند کرنا شروع کیا کیونکہ انہیں بڑے اعداد قلمبند کرنے کی ضرورت درپیش تھی اسلئے انہوں نے مہینے اور سال کی مدت قلمبند کی۔ اسی دوران تقریباً 4000 ق م میں قمری تاریخ پر مبنی دنیا کا پہلا کیلنڈر تیار کیا گیا۔

ان دو تہذیبوں کے مختصر مطالعہ سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جب تحقیق و استدلال کے لئے کوئی اصل نہ تھا تو محض قیاس پر مقدمات قائم کئے جاتے اور نتائج معلوم کئے جاتے۔ گویا مجہول سے معروف کی طرف آنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس طریق تحقیق و استدلال کو دنیا نے رد کردیا اور قبول نہ کیا۔ پھر حکماء اور سائنسدانوں نے اپنے مخصوص اور منفرد طریق فکر و عمل کے مطابق موضوع پر بحث کرنے، اشیاء کی حقیقت تک پہنچنے،ان کو سمجھنے اور ان پر تصرف حاصل کرنے کی سعی و کوشش کی اور نتیجہ معلوم کیا۔ یعنی معروف سے مجہول کی طرف جاتے اور واقعات اور حوادث کا مشاہدہ کر کے تحقیق و تجربے کے بعد ان کے نتائج معلوم کرتے، ان کے صحیح اسباب تلاش کرتے تھے۔ وہ صرف ان دلائل کو قبول کرتے تھے جنھیں تجربے اور مشاہدے نے درست اور صحیح ثابت کردیا ہو۔ اس کو استقرائی طریقِ فکر (Inductive Thinking Procedure) کہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ریاضی داں ان تصورات و تفکرات کی جو اوپر درج ہوئے ہیں اپنے منطقی استدلال Reasoning) ogical (L کے ذریعہ چھان بین کرتے ہیں اور اپنے گمان کردہ خیالات (Conjectures) کے لئے صیغے (Formulae) اخذ کرتے ہیں اور چنے گئے مسلّمات (Axioms) کی وضاحت کرتے ہیں۔

یہ تو صرف ریاضی کی دنیا کا آغاز تھا جس کے کئی باب ہیں۔ اس کا اگلا باب ذوق و جمال اور رعنائی خیال کی سر زمین یونان ہے جہاں کے ریاضی دانوں کی دانشورانہ وسعت اور اختراعی جنون نے دنیا کو مزید ترقی کی طرف گامزن کیا،پھر ریاضی کے علوم و فنون عرب میں منتقل ہوئے۔ وہی عرب جو کہ علوم و فنون کے ابجد سے بھی واقف نہ تھے لیکن اسلام کی تعلیم نے ان کے دل و دماغ کو روشن کر دیا اور انکی زندگی میں ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ جب وہ اٹھے تو ساری دنیا کو کھنگال ڈالا اور علمی خزانے ساری دنیا سے سمیٹ لائے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:

جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360530
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development