بہروپئے جانور
واپس چلیں

جاوید نہال حتمی
جون 2018

انسانوں کو تو آپ نے مختلف روپ دھارتے سنا ہوگا، چاہے وہ فلموں یا ڈراموں میں کام کرنے کے لئے ہو یا پھر دشمنوں یا پولیس کی نظروں سے بچنے کے لئے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی مجرم چارلس شوبھراج کا نام یقیناً آپ کے ذہن میں اْبھرے گا جو پولیس کی نظروں سے بچنے کے لئے ایک طویل عرصے تک مختلف سوانگ بھرتا رہا۔ اس کا ہر روپ دوسرے سے اس قدر مختلف ہوا کرتا تھا کہ ایک عام آدمی کے لئے اسے پہنچاننا تقریباً ناممکن تھا۔ دنیا کے کئی ملکوں کی پولیس کو اس کی تلاش تھی۔ خوبصورت نوجوان لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھانس کر ان کا قتل کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جانور بھی اپنے دشمنوں سے بچنے کے لئے یا اپنے شکار کو پھانسنے کے لئے مختلف قسم کے بہروپ بھرتے ہیں۔ آئیے، آج ہم آپ کو کچھ ایسے دلچسپ جانوروں کے بارے میں بتاتے ہیں جو اپنے دشمنوں سے بچنے کے لئے ایسے حیرت انگیز روپ دھارتے ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے!

جانوروں کے اس بہروپ بھرنے کے عمل کو انگریزی میں مِمکری Mimicry) (کہتے ہیں جو ان میں پایاجانے والا ایک حیرت انگیز دفاعی ہتھیار ہونے کے ساتھ ساتھ گھات لگا کر اپنے شکار پر حملہ آور ہونے کا مہلک حربہ بھی ہے۔ جانور نہ صرف دوسرے جانوروں کا بھیس بدل کر گھومتے پھرتے ہیں بلکہ تبدیلیئ ماہیت کے ذریعہ پھول، پتے، ٹہنیوں، بعض ا وقات پورے پودوں یا پھر بیجان پتھر کے ٹکڑوں کی ہوبہو نقل اتارتے ہیں۔روپ بھرنے کے مقصد کی بنیاد پر اس کی درجہ بندی دوقسموں میں کی جاسکتی ہے:

  • (الف) دفاعی بہروپ (Defensive Mimicry)
  • (ب) جارحانہ بہروپ (Aggressive Mimicry)

دفاعی بہروپ:

جب جانور اپنے شکاری جانوروں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لئے اپنا روپ تبدیل کرتے ہیں تو اسے دفاعی بہروپ کہتے ہیں۔دفاعی بہروپ کی بھی کئی دلچسپ قسمیں ہیں۔

(1) بدمزہ یا زہریلے جانوروں کا بھیس: کچھ جانور جو اپنے شکاری جانوروں کے لئے لذیذ غذا ہوتے ہیں ان جانوروں کا بھیس بدلتے ہیں جو ان ہی شکاری جانوروں کے لئے بدمزہ یا زہریلے جانور کے طور پر شناخت رکھتے ہیں تا کہ شکاری انہیں بھی بیذائقہ، نقصاندہ یا خطرناک سمجھ کر کھانے سے پرہیز کریں۔اس کی ایک عمدہ مثال بَسی لارشِیا آرکِپَس) (Basilarchia Archippus نامی تتلی ہے جو کیڑے مکوڑے کھانے والے پرندوں کے لئے نہایت لذیذ غذا ہے۔ یہ Anosia Plexippus نامی تتلی کا روپ دھارتی ہے جو ان پرندوں کے لئے بدمزہ غذا ہے اور جسے یہ پرندے کھانا پسند نہیں کرتے:

اسی طرح بیضرر سرخ کنگ سانپ(Scarlet King Snake)، نہایت زہریلے مونگا سانپ (Coral Snake) کے جسم کی چمکیلی بھڑک دار دھاریوں کی نقالی کرتے ہیں جس کے سبب شکاری انہیں بھی زہریلا سمجھ کر کھانے سے باز رہتے ہیں اور اس طرح یہ بیضرر سانپ ان کا شکار ہونے سے محفوظ رہتے ہیں:

(2) بیجان چیزوں کا بہروپ: Kallima Inachus نامی تتلی کے پَروں کے اوپری سطحوں پر خوبصورت رنگین ڈیزائن بنے ہوتے ہیں جب کہ ان کی نچلی سطحیں بھورے رنگ کی ہوتی ہیں۔ جب یہ تتلی درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھتی ہے تو اس کے دونوں پَر ایک دوسرے سے یوں مل جاتے ہیں کہ رنگین حصہ اندر چھپ جاتاہے اور باہری سطحیں بھورے رنگ کے خشک پتے سے مشابہ نظر آنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان پر mid-rib کی طرح نمایاں درمیانی لکیر بھی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔اس طرح یہ اپنے شکاری پرندوں کے قریب ہونے کے باوجود ان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے:


فِیلِیَم سِکی فولِیَم (Phyllium Siccifolium) نامی کیڑا بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہے جس کا جسم اور پیر چوڑے اور چپٹے ہوتے ہیں اور پورا جسم سبز رنگ کا ہوتا ہے جس پر جگہ جگہ پیلے رنگ کے دھبے ہوتے ہیں جس سے اس کا جسم پھپھوندی لگے پتے سے مشابہ ہو جاتاہے اور یہ سبز پتوں کے درمیان نظروں سے اوجھل رہتا ہے:


Selenia Tetralunaria نامی پتنگے کا پہل روپ Stick Caterpillar کہلاتا ہے کیوں کہ اس کے جسم کی بناوٹ اور رنگت کسی ٹہنی سے بالکل مشابہ ہوتی ہے۔آرام کرتے وقت یہ اپنیجسم کے پچھلے حصے سے کسی ٹہنی کو اتنی سختی سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ اس کا پورا جسم تن جاتا ہے اور لمبا ہو کر ایک خاص زاویے پر ٹہنی سے لگا رہتا ہے جب کہ اس کا نوکیلا سر کسی کلی سے ملتا جلتا ہے:

Phasmatodea نامی کیڑے کا جسم اور ٹانگیں کسی شاخ دار ٹہنی یا جھاڑی سے ملتی جلتی ہیں جس کی بنا پر اسے”متحرک چھڑی“یعنی Walking Stick کا نام دیا گیا ہے۔شکاری پرندوں کے لئے اسے ڈھونڈ نکالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا بھر کے جنگلوں میں بیخوف و خطر بڑی پرسکون زندگی گزارتا ہے:

جنوبی آسٹریلیا کے سمندروں میں پائی جانے والی ایک مچھلی کی شکل کسی آبی پودے سے ملتی جلتی ہے جس میں کئی شاخیں اور پتے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔اسے Leafy Sea Dragon یعنی ”پتے دار سمندری اژدھا“ کہا جاتا ہے۔ اس کی جسامت دس انچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ شکاری مچھلیاں اسے تیرتا ہوا آبی پودا سمجھ کر پاس سے گزر جاتی ہیں:

(3) مرنے کا سوانگ: کئی پرندے، چوہے، چھپکلیاں اور سانپ وغیرہ اپنے شکاری جانور کو دیکھتے ہی مَرے پڑے ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں کیوں کہ بیشتر شکاری جانور زندہ شکار کرتے ہیں:

شمالی امریکہ میں پایاجانے والا Opossum (موشِ کیسہ دار، صاریغ) (D. virginianaاپنے شکار کو دیکھتے ہی فوراً گر کر بغلوں کے بل اس طرح لیٹ جاتا ہے کہ آنکھیں پھیلی ہوئی، منہ کھلا ہوا اور زبان باہر کو لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ دل کی دھڑکن اور سانسیں تک سست ہو جاتی ہیں۔ساتھ ہی یہ معقد سے سبز رنگ کا ایک انتہائی بدبودار مادہ خارج کرنے لگتا ہے جس سے شکاری دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔اپنے اوپر بیہوشی جیسی حالت طاری کر کے یہ نہ صرف خود کو اپنے شکاری سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ انہیں اس مغالطے میں بھی ڈال دیتا ہے کہ وہ ان کے بچوں کے لئے بیضرر ہے۔ پھر موقع دیکھ کر ان پر حملہ آور بھی ہو جاتا ہے۔اس کی اسی فن کاری کی وجہ سے انگریزی زبان میں ایک محاورہ Play Possum بھی رائج ہے جس کے معنی ہیں فریب کے لئے مرنے یا زخمی ہونے کی اداکاری کرنا:

(Charadrius Vociferous) Killdeerنامی پرندہ اپنے گھونسلے میں پڑے ننھے ننھے بچوں کو شکاری جانور سے بچانے کے لئے گھونسلے سے تھوڑی دوری پر اپنے پَر اس طرح موڑ کر لیٹ جاتا ہے گویا وہ ٹوٹے پَروں کے ساتھ زخمی حالت میں پڑا ہوا ہو،تا کہ شکاری کا دھیان اس کے بچوں کی طرف سے ہٹ کر اس کی جانب مبذول ہو سکے۔اگر اس میں کامیاب نہیں ہوتا تو ”زخمی حالت“ میں ہی اِدھر اْدھر پھڑپھڑانے اور کراہنے بھی لگتا ہے۔ پھر جیسے ہی شکاری جانور اس کے بچوں کو چھوڑ کر اس کی جانب لپکتا ہے، یہ فوراً ”ٹھیک ہو کر“اْڑ جاتا ہے:

(4) پس منظر میں مدغم ہونا: اپنے دشمنوں یا شکاریوں سے بچنے کے لئے اپنی رنگت تبدیل کر کے پس منظر میں گم ہوجانے کا حربہ شاید سب سے قدیم اور عام ہے۔اس کی بہترین مثال ٹڈّا (Grasshopper) ہے:

اسے Camouflage کہتے ہیں جس کا استعمال ہمارے فوجی بھی جنگلوں اور جھاڑیوں میں حرکت کرتے وقت دشمنوں کی نگاہوں سے اوجھل رہنے کے لئے کرتے ہیں۔ اسی طرح Cryptolithodes نامی کیکڑے کا جسم چکنا اور تقریباً گول ہوتا ہے۔ شکل اور رنگ کے اعتبار سے یہ ساحل پر پڑے چھوٹے چھوٹے سفید گول پتھروں سے اس قدر مشابہ ہوتے ہیں کہ ان میں انہیں ڈھونڈ نکالنا نہایت مشکل ہوتاہے۔ Fiddler Crab نامی کیکڑا اس کی ایک حیرت انگیز اور دلچسپ مثال پیش کرتا ہے۔ یہ کیکڑا صبح کا اجالا پھیلتے ہی اپنے جسم کا رنگ بدلنے لگتا ہے اور دوپہر تک بالکل گہرے رنگ کا ہو جاتاہے۔ پھر اسی رنگ سے مشابہ پس منظر میں گم ہو جاتا ہے تاکہ شکاریوں کے نظروں سے محفوظ رہ سکے۔ پھر دن ڈھلتے ہی اس کے جسم کا رنگ ہلکا پڑنے لگتا ہے اور رات کو اس کا جسم مکمل طور سے اپنا اصلی ہلکا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔

اس سلسلے میں Indo-Pacific سمندروں میں پائی جانے والی کچھ مچھلیاں جنہیں مجموعی طور پر Flatfish کہا جاتا ہے (مثال (Peacock Flounder) باعمل تبدیلیئ ماہیت Camouflage) Active (کا بہترین مظاہرہ کرتی ہیں۔ یعنی یہ گرگٹ (Chameleon) کی طرح مسلسل اپنے پس منظر سے ملتی جلتی رنگت اختیار کرتی جاتی ہیں اور شفاف (Transparent) نظر آ کر پس منظر میں غائب رہتی ہیں جس سے نہ صرف اپنے شکاری (Predator) بلکہ شکار (Prey) کو بھی دھوکا دینے میں کامیاب رہتی ہیں:

یہ مچھلیاں اپنے مخصوص ہارمونس کی مدد سے اپنی جلد کے سطحی خلیوں میں پس منظر کے مطابق رنگدار مادے (Pigments) پیدا کرتی جاتی ہیں۔

(5) نقلی سراور انٹینا: Thecla طبقے کی ایک تتلی (Strymon melinus) کے پَروں کے پچھلے حصے سکڑ کر مصنوعی سر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس پر نقلی آنکھیں اور انٹینا بھی پائے جاتے ہیں۔ شکاری جانور اس طرح ان پر حملہ کرتے ہیں کہ اگر شکار آگے کی جانب اْڑے گا بھی توان کے وار کی زد میں ہوگا۔ لیکن بیچارے بس ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جب یہ ان کی توقع کے خلاف پیچھے کی جانب اْڑ جاتی ہیں: Hydrophis Pachycercos نامی سمندری سانپ کی دم کا آخری سِرا اس کے سر سے مشابہ ہوتا ہے جس کے سبب اسے ”دوہرے سَر والا سانپ“ بھی کہا جاتاہے۔ شارک اور دیگر شکاری جانورحملہ کرنے سے قبل یہ طے نہیں کر پاتے ہیں کہ سانپ آ رہا ہے یا جا رہا ہے:

(6) ”گھورتی“ آنکھیں: اپنے شکاری کو ڈرا کر دور رکھنے کیلئے اکثر پتنگوں، کیڑوں، تتلیوں اور دیگر جانوروں کے پَروں پر گھورتی آنکھوں سے مشابہ نقش و نگار پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھنے سے بہت سے خطرناک جانور مثلاً بھیڑیا، شیر، اْلو کے خوفناک چہرے یا سانپ کے جبڑے کا عکس ذہن میں اْبھرتا ہے۔شکاری جانور اس سے خوفزدہ ہو کر ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے:

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کمرے کی سفید دیواروں پر ٹیوب لائٹ کے قریب یا کہیں اور مور کے پَر رکھ دینے سے چھپکلیاں کیوں غائب ہو جاتی ہیں!

(7)گیدڑ بھپکی: بعض جانور، خاص طور سے گرگٹ، اپنے شکاری کوڈرا کر دور بھگانے کے لیے بڑی ڈراؤنی شکلیں بھی بناتے ہیں۔آسٹریلیا کے Frilled Lizard کی گردن کے گرد کی جلد جھالر کی صورت میں موجود ہوتی ہے جو عام حالت میں گردن سے چپکی ہوتی ہے۔ لیکن خطرہ محسوس کرتے ہی یا شکاری کو اپنے قریب آتے دیکھ کر فوراً اس طرح بھیانک انداز میں منہ پھاڑ لیتا ہے کہ گردن کے گرد کی جھالر دار جلد تن کر پھیل جاتی ہے اور اس کے چہریکو ایک دم سے بڑا اور مزید خوفناک بنا دیتی ہے جس سے شکاری جانور ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں:

جنوبی افریقہ کے نامیبیا میں پائے جانے والے ریگستانی گرگٹ کے گلے کی جلد لٹکی ہوتی ہے جسے Dewlap کہتے ہیں۔یہ بھی اپنے شکاری کو سامنے پا کر اچانک اپنا منہ یوں پھاڑتا ہے کہ کھلا ہوا دہانہ اور اس کے نیچے لٹکی ہوئی جلد چہرے کو نہ صرف بڑا کر دیتے ہیں بلکہ خوفناک بھی بنا دیتے ہیں جس سے شکاری جانور ڈر کر فوراً بھاگ جاتا ہے:

جارحانہ بہروپ:

> جب جانور اپنے شکارکو دھوکے میں رکھ کر یا گھات لگا کر حملہ کرنے کے لئے اپنا روپ تبدیل کرتے ہیں تو اسے جارحانہ بہروپ (Aggressive Mimicry) کہتے ہیں۔کیڑے مکوڑوں کو کھانے والے یا دوسرے گوشت خور جانور اس قسم کا روپ بھرتے ہیں۔ مکڑے اس کی عمدہ مثال پیش کر تے ہیں۔کچھ پیلے رنگ کے مکڑے پیلے رنگوں کے پھولوں پر ہی بیٹھتے ہیں اور پس منظر میں پوری طرح گم ہو جاتے ہیں۔مطس خاندان کے گوشت خور کیڑے (Mantis Orchid)کا جسم ہی شکل و صورت اور رنگت کے اعتبار سے آرکڈ کے پھولوں سے مشابہ ہوتا ہے جس سے پھولوں کا رس چوسنے کے لئے آنے والی تتلیاں اور بھونرے دھوکا کھا جاتے ہیں اور آسانی سے ان بہروپئے جانوروں کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں:

بنسی باز مچھلی (Angler Fish)کا نام ہی اس کے شکار کرنے کے طریقے کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔اس مچھلی کے سر پر ٹھیک آنکھوں کے اوپرایک قدرے لمبی چھڑی نما عضو لہراتا ہے جس کا سِرا گوشت کے چھوٹے سے لوتھڑے سے مشابہ ہوتا ہے۔یہ چھڑی نما عضو چاروں طرف حرکت کرنے کے قابل ہوتا ہے اور گوشت کالوتھڑا نما سرا بھی اس طرح بل کھاتا ہے کہ دور سے یہ کوئی چھوٹا سا قابلِ شکار جانور نظر آتا ہے جسے یہ مچھلی چارہ کے طور پر استعمال کر کے دوسرے شکاری جانوروں کو للچا کر اپنے قریب آنے پر مجبور کر تی ہے۔ پھر ایک دم سے اچانک اپنا خوفناک منہ کھول کر اسے پورا کا پورا نگل جاتی ہے:

سمندری مچھلی Frogfish کے جسم پر خارچے (Spinules) یا کچھ اور ڈئزائین بنے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات دیگر نہایت چھوٹے چھوٹے جانور چپکے ہوتے ہیں۔ یہ رنگت بھی تبدیل کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کی شکل و صورت پتھر، مونگا (Coral) یا اسفنج (Sponge) سے ملتی جلتی ہے، اور یہ تبدیلیئ ہیت اس درجہئ کمال کی ہوتی ہے کہ دیگر کئی چھوٹے سمندری جانور ان کے جسم پر سے گزر جاتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ وہ کسی بیجان پتھر پر سے نہیں بلکہ کسی زندہ جانور کے بدن پر سے گزر رہے ہیں۔یہ بہت دھیمی رفتار سے حرکت کرتی ہے اور بعض اوقات دم سادھے انتظار کرتی ہے، اپنے شکاری کے گزر جانے کا، یا پھر اپنے شکار کے قریب آنے کا، اور پھر بڑی سْرعت کے ساتھ،تقریباً چھ میلی سکنڈ میں، اس پر حملہ آور ہوتی ہے:

Buteo Albonotatus نامی عقاب آسمان میں گِدھوں کے غول کے ساتھ اْڑتا ہے۔ یہ رنگت اور پنکھوں کی بناوٹ کے اعتبار سے گِدھوں سے کافی مشابہ ہوتا ہے۔گِدھ زندہ اور چھوٹے جانوروں کا شکار نہیں کرتے۔ لہٰذا چھوٹے چھوٹے جانور بلا خوف و خطر ان کے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ یہ عقاب اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک ہی ان کے غول سے غوطہ لگا کر ان پر جھپٹ پڑتا ہے اور ان کا شکار کر لیتا ہے:

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   370140
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development