کورونا وائرس ۔۔۔ لگتا ہے ڈر مگر گھبرانا نہیں
واپس چلیں

ضیاالرحمان انصاری ۔ بھیونڈی
اپریل 2020

ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہونے والی بیماری کو متعدی بیماری (Infectious Disease) کہتے ہیں۔ کوئی متعدی بیماری تیزی سے آبادی کے دیگر افراد میں پھیلنے لگے تو اسے وبا (Epidemic)کہا جاتا ہے۔ جب وبا کئی ملکوں تک پھیل جائے تو وہ عالمی وبا (Pandemic) کہلاتی ہے۔ اِس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کی عالمی وبا کا چرچا ہے۔ ہر شخص اندیشے اور خوف میں مبتلا ہے۔اُسے خوف ہے کہ کہیں یہ بیماری اُس کے شہر اور آخرکار اُس کے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ جب کوئی وبا پھیلتی ہے تو اُس کے متعلق ڈرانے والی بے بنیاد باتیں اُس سے زیادہ تیزی سے عام ہونے لگتی ہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔ اِس وقت دنیا کے طول و عرض سے تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن معلومات اور بیداری کا فقدان ہے۔ سوشل میڈیا پر غیر ذمے دار، خوف و ہراس پھیلانے والے پیغامات کا دَور دَورہ ہے۔ غلط معلومات کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ انسان خطرے سے بچنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر سکتا۔ اِس لیے لازم ہے کہ ایسے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے درست معلومات موجود ہوں، جو سائنسی حقایق پر مبنی ہوں۔ کورونا وائرس چین کے شہر یوہان سے سفر کرتے ہوئے اِس وقت دنیا کے ساتوں بر اعظموں میں اپنے قدم جما چکا ہے۔ یہ وائرس در اصل کورونا وائرس کی پانچویں جدید ترین قسم ہے۔ اِسی لیے اِسے Novel Coronavirus یا COVID-19 نام دیا گیا ہے۔ تحریر لکھے جانے (10مارچ) تک دنیا کے ایک سو چار ممالک کے تقریباً ایک لاکھ چودہ ہزار افراد اِس وقت کورونا وائرس بیماری میں مبتلا ہیں۔ تقریباً چار ہزار افراد اِس مرض کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ یہ اعداد وشمار خوف ناک ہیں۔ لیکن اِن کے کئی پہلووں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اِس قدر خوف و ہراس کیوں؟

یہ وائرس مہلک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت مساوات پسند بھی ہے۔ یہ امیر غریب، راجا اور پرجا، ذات برادری یا مذہب میں امتیاز نہیں کرتا۔ جو کوئی احتیاط برتے گا وہ محفوظ رہے گا۔ کورونا وائرس کی پریشان کن صفت یہ ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے۔ البتہ یہ اُس قدر مہلک نہیں ہے جس قدر اِس سے پہلے پیدا ہونے والی بہت سی عالمی وبائیں مثلاً SARS اور MERS وغیرہ تھیں۔کورونا میں موت کی شرح SARS سے پانچ گنا کم ہے۔ کورونا وائرس کا پہلا چینی مریض مکمل طور پر شفایاب ہو چکا ہے۔ ایک ضعیف چینی خاتون جن کی عمر چھیانوے برس ہے کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد تندرست ہو چکی ہیں۔ عالمی قدری زنجیر (Global Value Chain) کے ساتھ بھارت کی نسبتاً کم وابستگی کی وجہ سے یہاں کورونا کے پھیلنے کا خطرہ بھی کم ہی ہے۔ 5مارچ کے بیان میں عالمی ادارہئ صحت WHO نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی عوام کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں پائے گئے معاملات صرف بیرونی ممالک سے سفر کرکے آنے والوں کے ہیں۔ اب تک بھارت میں کورونا کے صرف سینتالیس مریض پائے گئے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ زیادہ تر شفایاب ہو چکے ہیں، اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ دنیا کے متاثرہ ایک لاکھ چودہ ہزار افراد میں سے نوے فی صد صرف چین میں ہیں۔ یعنی دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے چین کے باہر یہ مرض صرف دس ہزار افراد کو لاحق ہے۔اِس وقت دنیا بھر میں چونسٹھ ہزار افراد مکمل طور پر اچھے ہو چکے ہیں۔ WHO کے10 مارچ کے بیان کے مطابق خود چین میں متاثرہ افراد میں سے ستّر فی صد شفایاب ہو چکے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ وائرس کا شکار ہونے والے تقریباً ستانوے سے نناوے فی صد افراد اچھے ہوجاتے ہیں۔ اکیاسی فی صد میں مرض بہت ہلکی علامات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔ چودہ فی صد میں قدرے زیادہ، لیکن خطرے سے باہر۔دوفی صد میں شدید لیکن وہ بھی شفاپا جاتے ہیں۔ بہرحال ایک سے تین فی صد افراد کی زندگی کو خطرہ لاحِق ہوتا ہے۔ اور یہی امر صحت کے عالمی اداروں اور حکومتوں کی فکر کا باعث ہے۔

علاج ہمارے اندر:

کورونا کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اونچی تپش اور ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ امریکی اور چند ہندوستانی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ ایام میں پارہ چڑھنے کے ساتھ ساتھ کورونا کے قہر کے کچھ اُترنے کا امکان بھی ہے۔ البتہ WHOنے اِس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے۔یہ جان کر ہر شخص پریشان ہے کہ کورونا وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی جان لیں کہ ہم دوسرے بھی کئی وائرس کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اورہمارے ہی جسم کے اندر اُن کا توڑ بھی موجود ہوتا ہے۔ اور یہ ہے ہمارے جسم کا مدافعتی نظام (Immune System) ہے، جو چند روز کے اندر جسم سے وائرس کا نام و نشان ختم کر دیتا ہے اور اِس کے نتیجے میں ہمارے جسم میں عام طور سے مستقل طور پر اُس وائرس کے خلاف مزاحمتی قوت تیار ہوجاتی ہے۔ کئی افراد علاج کے بغیر خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔خطرہ صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب جسم ایسا کرنے میں ناکام ہوجائے۔ کورونا وائرس کا معاملہ بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا اِس قدر پریشان کیوں ہے۔ اُس کا ایک سبب اِس وائرس کی نہایت تیزی سے پھیلنے کی طاقت ہے۔ چنانچہ اِس وقت حکومتوں اور طبی اداروں کی ساری کوششیں اِسے پھیلنے سے روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ قول مشہور ہے کہ علاج سے بہتر احتیاط ہے۔ اور احتیاط کے لیے معلومات لازم ہے۔ معلومات جو سائنسی حقایق پر مبنی ہو، افواہوں، توہمات اور فرسودہ عقاید سے پاک ہو۔

ہم کیا کریں:

کورونا وائرس کو پھیلنے اور خود تک پہنچنے سے روکنے کے لیے یہ معلوم ہونا لازم ہے کہ وہ کس طرح اور کن ذرائع سے پھیلتا ہے۔ یاد رکھیں کورونا تازہ پکے ہوئے کھانے سے نہیں پھیلتا۔ چین یا دیگر ممالک سے آئی ہوئی اشیا سے بھی ہم کو خطرہ نہیں ہے۔ کورونا ہوا اور پانی کے ذریعے بھی نہیں پھیلتا۔ کورونا کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ لمس (Touch) ہے۔ لمس جو براہِ راست مریض،خاص کر اس کے ہاتھوں کویا اس کی استعمال کی ہوئی چیزوں کو چھونے کاہو۔ یہ وائرس سخت سطح (Hard Surfaces) مثلاً گھر کے یا بیت الخلا کے ہینڈل، بائک یا سواریوں کے اسٹئیرنگ،بس یا ریل گاڑی کے ہینڈل، موبائل فون، کی بورڈ، ماؤس یا اور روز مرہ کی استعمال کی چیزوں مثلاًبرش، کنگھے وغیرہ کی سطح پر 6 سے 14 گھنٹے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔(ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتے)۔ اِس لیے ایسے علاقے جہاں یہ وائرس پہنچ چکا ہو وہاں اِن تما م چیزوں کے استعمال میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی چیزوں کے لیے زیادہ تر اپنے ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں۔ اِس لیے بارباراور دیر تک(کم از کم بیس سیکنڈ تک) ہاتھ دھونا ضروری ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ملنا، ناک کو چھونا، منہ میں انگلی ڈالنا، آنکھیں ملناجیسا کہ بہت سے لوگوں کی عادت ہوتی ہے، ہاتھوں سے جسم کے اندر وائرس منتقل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جہاں کورونا داخل ہوچکا ہو: جس علاقے میں یہ وائرس داخل ہوچکا ہو وہاں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے مصافہ اور معانقہ کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو چھینک یا کھانسی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں سے بالکل الگ ہٹ جائے۔ اور دوسروں کو چاہیے کہ وہ اس سے دُور ہوجائیں۔ اگر آپ کو ہلکا بخار، سردی، کھانسی وغیرہ ہوتو عوامی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں، گھر میں قرار پکڑیں اور جلد از جلد ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔ رومال کے استعمال کی عادت ڈالیں، لیکن اپنا رومال خود استعمال کریں، نہ کسی کوا پنا دیں نہ کسی سے لیں۔ خواتین کو برقع، سکارف اور نوز پیس کے استعمال میں بھی ایسی ہی احتیاط برتنی چاہیے۔ ماسک کا استعمال مفید ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ماسک بازار ہی سے خریدا جائے۔ اِسے کسی بھی دبیزکپڑے سے گھر میں با آسانی بنایا جا سکتا ہے۔ نوٹ کیجیے کہ ماسک کا اصل مقصد یہ ہے کہ آپ کی چھینک یا کھانسی کے اثر سے دوسرے محفوظ رہیں۔

ہم مہاراشٹر کے لوگ:

خوش قسمتی سے کورونا نے اب تک ہماری ریاست مہاراشٹر کی چوکھٹ نہیں دیکھی ہے۔ لیکن بہر کیف بکرے کی ماں کب تلک خیر منائے گی۔ ہمیں بھی ایک محتاط اور صحت مند طرزِ زندگی (Healthy Lifestyle) اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔ ہم لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ اپنے جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کو تقویت پہنچائیں۔ روزانہ اچھی بھرپور نیند لیں۔ کھیل کود،ورزش اور تفریح کو دن کی مشغولیت کا حصہ بنائیں۔ اچھی اور صحت افزا غذا جیسے انڈے، دودھ، شہد، گوشت، پھل کا مناسب استعمال کریں۔ کالی مرچ، ہلدی، ادرک، لہسن وغیرہ قوتِ مدافعت کو تقویت دیتے ہیں۔ اپنی غذا میں اِن کی مقدار میں اضافہ کریں۔ کثرت سے پانی پئیں۔ صحت برباد کرنے والی اور قوتِ مدافعت ختم کرنے والی اشیا جیسے سگریٹ، تمباکو وغیرہ سے سو گز کا فاصلہ بنائے رکھیں۔ (نوٹ: اگرکوئی آپ خدا نخواستہ نشہ آور اشیا ء کا عادی بن گیا ہو تو اس کو کسی وائرس سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں کہ وہ تو اس سے بڑے خطرے کو دعوت دے چکا ہے۔)

کورونا وائرس کی علامات:

وائرس کی علامات انفیکشن ہونے کے چودہ دن بعد ظاہر ہوتی ہیں۔ کورونا وائرس بیماری کی ابتدائی علامات میں بہتی ہوئی ناک، گلے میں خراش، کھانسی، بخار وغیرہ سب سے زیادہ عام ہیں۔ بیاسی فی صد افراد میں علامات بس اِسی حد تک رہتی ہیں۔ یہی علامات بعض افراد میں زیادہ شدت کے ساتھ ظاہر ہو سکتی ہیں۔ معمر افراد یا جن کو دوسرے امراض بھی لاحِق ہوں اور دَمے کے مریضوں کے لیے یہ مرض بہت زیادہ شدید ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں سانس لینے میں دِقت پیش آتی ہے اور نمونیا کی طرح کی علامات شدت کے ساتھ ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

علاج:

کورونا وائرس بیماری کا علاج ہنوز دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ کورونا کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ لیکن علامات کے اعتبار سے (Symtomatic) علاج کیا جاتا ہے اور مریض کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علاج دریافت ہونے کی پوری امید ہے۔ خدا نے کوئی بیماری ایسی نہیں بھیجی، جس کا علاج بھی اس نے تخلیق نہ کیا ہو۔

کورونا کے متعلق غلط فہمیاں

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے، وبا کے ساتھ ساتھ افواہیں بھی پھیل رہی ہیں۔ یہاں چند ایسی افواہوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن پر یقین کر لیا گیا ہے۔
  • یہ جان لیوا ہے۔ موت یقینی ہے۔ کورونا کا مطلب موت ہے۔
  • گرم پانی پینے اور گرم مشروبات کے استعمال سے کورونا سے محفوظ رہتے ہیں۔
  • جسم پر کلورین یا الکوحل ملنے سے کوروناوائرس نہیں لگتا۔
  • کولڈرنگ اور گوشت(مرغی، مچھلی) وغیرہ کے ذریعے بھی کورونا پھیل رہا ہے۔
  • کورونا وائرس بیماری انتہائی حد تک شدید تکلیف دہ ہے۔
  • کتے بلیاں کورونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔
  • گھریلو نسخوں، ادرک، لہسن وغیرہ میں کورونا کا علاج موجود ہے۔
  • یہ دوا ساز کمپنیوں کی سازش یاچین کے خلاف امریکہ کا حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon) کاحملہ ہے۔
خلاصہ: یہ جان لینا بہت ضروری ہے کہ کورونا وائرس سے بچنا ممکن ہے۔ اگر تمام احتیاط کے بعد بھی کورونا وائرس مرض میں مبتلا ہوجائیں تو ٹی بی، ہارٹ اٹیک، ذیابیطس، کینسر کی بہ نسبت کورونا میں زندہ بچ جانے کی امید کئی گنا زیادہ ہے۔ ہر دن کینسر سے دنیا بھر میں چھبیس ہزار لوگوں کی جان جاتی ہے۔ دل کے امراض سے چوبیس ہزار اور ذیابیطیس سے چار ہزار افراد ہر دن جاں بحق ہوتے ہیں۔ ہر چوبیس گھنٹے میں خود کشی سے چار ہزاراور حادثوں میں تین ہزار افراد مارے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کورونا کی شرح اموات اِن سے نو ہزار گنا کم ہے۔ کورونا وائرس ہونے کا مطلب ہرگزموت نہیں ہوتا۔ خوش ہو جائیے اور زندگی جی لیجیے۔ یہ اعدادو شمار صرف وائرس کے افسانے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ وگر نہ ہم تو اِس ابدی حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ ”ہم سب اللہ کے ہیں، اور آخرش اسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کے جانا ہے۔“

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   370519
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development