دل سمبھال کے
واپس چلیں

ایس ایس علی
ستمبر 2014

دِل سنبھال کے
یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سائنسی انکشافات نے قرآن کے اعجاز کو سمجھنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ فطرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعی سائنس آج بھی کر رہی ہے اور تاقیامت یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا قرآن ایک آسمانی کتاب ہے، کلام الہی ہے، اپنے نزول کے وقت سے سیلے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے سرچشمہ ہے ہدایت ہے۔ اس کا اعجاز ہی یہ ہے کہ ہر دور کا اور ہر ذہنی سطح کا انسان اس کو سمجھ سکتا ہے۔ انسان کی ذہنی سطح اور اس کے ارد گردکے تناظر میں جب قرآن کا کوئی نکتہ اس کی فہم و ادراک کی زد میں آجاتا ہے تو اس کا دل مطمئن ہوجاتا ہے۔ پیدائش انسانی کی مختلف مدارج کا منظم نظام قرآن نے ساتویں صدی عیسوی میں نہایت منضبط طریقے پر بیان کردیا تھا، جب کہ جدید سائنس نے بیسویں صدی میں آکر Embryology کے عنوان سے اس کا انکشاف کیا۔ یہ اور ایسی بے شمار مثالیں مل سکتی ہیں جن سے ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ جن خوش نصیبوں کو اللہ ربّ العزت نے قلب سلیم کی دولت سے نوازا ہے ان کے دل غیب کی باتوں پر ایمان لاکر مطمئن ہوتے ہیں، لیکن جب نئے انکشافات ان غیب کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں تو ان کے ایمان کی سطح یک بیک بلند ہوجاتی ہے اور سجدۂ شکر بجالاتے ہیں۔ ان کے دل بے اختیار پکار اٹھتے ہیں: ’’اے ہمارے رب ! یہ سب کچھ تونے بے فائدہ نہیں پیدا کیا، تو پاک ہے (اس بات سے کہ کوئی کام بلا کسی مقصد کے انجام دے)۔ ( آل عمران : 191 )۔
دوسری دلچسپ اور نہایت اہم مثال انسانی دل کی ہے ۔ قرآن میں دل کا ذکر ایک مطالعے کے مطابق 130 مرتبہ آیا ہے۔ دل کے لئے قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:
قلب، فؤاد ، صدر۔
جناب علی اصغر چوہدری نے اپنی کتاب ’’معلوماتِ قرآن‘‘ میں دل کی کئی قسمیں گنوائی ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں:
(1) سخت دل (2) زنگ آلود دل
(3) گناہ آلود دل(4) ٹیڑھے دل
(5) دانش مند دل (6) نہ سوچنے والے دل
(7) لرزاٹھنے والے (8) ٹھپہ لگے ہوئے دل
(9) مطمئن دل (10) مجرم دل
(11) کانپ اٹھنے والے دل (12)اندھے دل
(13) قلبِ سلیم (14)بے ایمان دل
(15)متکبّر دل (16) ایمان والے دل
قرآن کا ایک انوکھا انداز یہ بھی ہے کہ وہ اشیاء کی ساخت سے بحث نہیں کرتا بلکہ ان کی کیفیات کو زیرِ بحث لاتا ہے (اور ہمیں ان کی ساخت پر تدبّر کرنے کی تلقین کرتا ہے)۔ لہذا دل کی ساخت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے قرآن دل کی مختلف کیفیتوں کا ذکر کرتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ دل صرف ایک پمپ کرنے والی مشین ہی نہیں ،اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
دل دراصل دو سطحوں پر کام کرتا ہے۔ انسانی جسم کو زندہ رکھنے اور اسے چاق و چوبند بنائے رکھنے کے لئے دل بے شک خون کو پمپ کرنے والی ایک مشین ہے۔ یہ اس کا ادنیٰ سطح کا کام ہے۔ دل کا اعلیٰ معیار درد کو محسوس کرنا ہے۔ یہی بات علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہی ہے:
دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
(کروبی مقرب فرشتے کو کہتے ہیں۔ کروبی کی جمع ’’کروبیاں‘‘)
انسانی زندگی کا مقصد اور اعلیٰ ترین معیار ’’دردِ دل‘‘ ہے۔

عالمی یومِ دل
عالمی یومِ دل (World Heart Day) ہر سال ستمبر کے آخری اتوار کے دن منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دن 28 ستمبر کومنایا جائے گا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے عوام کو Cardiovascular/ Coronary Diseases یعنی اکلیلی بیماریوں سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے۔ دل کے امراض دنیا بھر میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اس دن ان امراض سے بچنے کے لئے کی جانے والی احتیاطی تدابیر کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں بہت سارے لوگ حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر یہ دن مناتے ہیں اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
عالمی یومِ دل کی سرگرمیوں میں دوڑ، لیکچرس، ثقافتی پروگرام اور کھیل کود کے مقابلے شامل ہیں۔ World Heart Federation عوامی بیداری کی خاطر دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں یومِ دل منعقد کرتی ہے۔ اس کے پروگراموں میں یدرج ذیل سرگرمیاں شامل ہیں:
صحت کی جانچ، دوڑنے، تیز چلنے اور فِٹ نس کے Session ، عوام سے گفتگو، اسٹیج شوز، نمائش، ثقافتی پروگرام، کارنیول، کھیل کود کے مقابلے۔
World Heart Fedrationایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کا ہیڈ کروارٹر جینیوا ،سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ یہ ساری سرگرمیاں WHO جیسے اداروں کی مدد اور ساجھے داری میں انجام دی جاتی ہیں۔
دل کی اکلیلی بیماریاں عالمی سطح پر ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ WHO کی ایک رپورٹ کے مطابق 2005 میں 17.5 ملین لوگ ان امراض کی بھینٹ چڑھے۔ یہ عدد یعنی 17.5 ملین، دنیا بھر میں ہونے والی کل اموات کا 30 فیصد ہے۔
دل کے امراض کی چند وجوہات یہ ہیں:
* فشارِ خون (B.P.)، کولیسٹرول اور گلوکوز کی بلند سطح
* سگریٹ نوشی، شراب نوشی
* سبزیوں اور پھلوں کے استعمال میں کمی
* وزن کا بڑھنا، موٹاپا
* جسمانی محنت اور ورزش کی کمی
World Heart Fedration دوسرے اداروں مثلاً WHO کے ساتھ مل کر عوام کو بتانا چاہتا ہے کہ دل کے امراض اور اسٹروک موت کی سب سے بڑی وجہ بنتے جارہے ہیں۔ یہ ادارے اس حقیقت کو بطور ایک خبر عام کرنا چاہتے ہیں کہ ان امراض سے ہونے والی کل اموات کے 80 فیصد کو احتیاطی تدابیر اختیار کرکے روکا جاسکتا ہے۔ تین اہم وجوہات تمباکو، غیر صحت بخش غذا اور جسمانی محنت کی کمی کو اگر کنٹرول کرلیا جائے تو ان امراض سے بچا جاسکتا ہے۔
عالمی یوم دل کی شروعات 1999 سے ہوئی۔ 2014 کے یومِ دل کا تھیم یہ ہوگا:
Creat Heart-Healthy Environment
(دل کے لئے صحت مند ماحول تخلیق کیجئے)

چار نکات کے تحت اس تھیم کو روبہ عمل لایا جائے گا:
Live-Work-Play-Join
(جیو۔کام کرو۔ کھیلو۔ شامل ہوجاؤ)

دل چیز کیا ہے؟
نظامِ دورانِ خون (Circulatory System) میں دل (Heart) اور خون کی نالیاں (Blood Vessels) شامل ہیں۔ خون (Blood) پورے جسم میں دورہ کرنے والا مائع ہے۔ یہ ایک بہت ہی اہم مائع ہے جو آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ، غذائی مادوں، محرکابوں (Hormones) اور نائٹروجنی مادوں کے نقل و حمل کا ذمہ دار ہے۔
دل ایک کھوکھلا عضلاتی عضو ہے جو سینے کے پنجرے میں سینے کی ہڈی کے پیچھے واقع ہے۔ اس کی ساخت مثلث نما اور جسامت انسان کی بند مٹھی کے مانند ہوتی ہے۔ اس کا چوڑا حصہ اوپر کی طرف اور نکیلا حصہ نیچے کی طرف ہوتا ہے۔(گویا جنابِ دل سینے کے پنجرے میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں!!)۔ دل ایک پتلے لیکن مضبوط غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے جسے Pericardium کہتے ہیں۔ یہ غلاف دل کو پھیپھڑوں اور سینے کی دیوار سے رگڑنے سے محفوظ رکھتا ہے۔

اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی!
دل بظاہر تو ثابت وسالم نظر آتا ہے لیکن اندر سے کافی دریدہ یعنی کٹا پھٹا ہے۔ اس کی عمودی تراش سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔
دل دائیں اور بائیں دو حصوں میں ایک عمودی عضلاتی پردے کے ذریعہ تقسیم ہوتا ہے۔ دائیں نصف حصے میں غیر آکسیجنی یاگندہ خون اور بائیں نصف حصے میں آکسیجن یعنی صاف خون ہوتا ہے۔ ان دونوں حصوں میں سے ہر ایک حصہ ایک افقی پردے کے ذریعہ مزید دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، اوپری حصہ اُذن القلب اور نچلا حصہ بطن القلب۔ اس طرح دل چار خانوں پر مشتمل ہوتاہے جو ذیل کے مطابق ہیں: (1) دایاں اذن القلب (2) دایاں بطن القلب (3) بایاں اذن القلب (4) بایاں بطن القلب

1۔ دایاں اذن القلب:۔
یہ دل کا دایاں اوپری خانہ ہے۔ اس کی دیواریں پتلی ہوتی ہیں۔ اس میں پورے جسم کا گندہ خون اوپری اور نچلی ورید کبیر کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں سے گندہ خون دائیں بطن القلب میں جاتا ہے۔ دائیں اذن القلب اور دائیں بطن القلب کے درمیان ایک سہ عضلاتی کھُل بند (Valve) ہوتا ہے جو خون کو دائیں اذن القلب سے دائیں بطن القلب میں تو آنے دیتا ہے لیکن اس کے الٹے بہاؤ کو روک دیتا ہے۔

2۔ دایاں بطن القلب:۔
یہ دل کانچلا خانہ ہے۔ اس کی دیواریں اذن القلب کی دیواروں سے موٹی ہوتی ہیں۔ یہ گندے خون کو پھیپھڑوں کی شریان کے ذریعہ پھیپھڑوں میں پہنچاتا ہے۔ اس شریان کے منہ پر نصف ہلالی کھُل بند ہونے کی وجہ سے خون کا الٹا بہاؤ نہیں ہوپاتا۔

3۔ بایاں اذن القلب:۔
یہ دل کے بائیں طرف کا اوپری خانہ ہے۔ اس کی دیواریں بھی پتلی ہوتی ہیں۔ اس میں صاف حون پھیپھڑوں کی چار وریدوں کے ذریعہ آتاہے۔ دو عضلاتی کھُل بند بائیں اذن القلب اور بائیں بطن القلب کے درمیان ہوتا ہے جس کی وجہ سے صاف خون صرف بائیں اذن القلب سے بائیں بطن القلب میں جاسکتا ہے لیکن الٹا بہاؤ نہیں ہونے پاتا۔

4۔ بایاں بطن القلب:۔
یہ دل کابایاں نچلا خانہ ہے۔ اس کی دیواریں باقی تین خانوں کی دیواروں سے زیادہ موٹی ہوتی ہیں۔ ایک بڑی شریان، شریانِ اعظم بائیں بطن القلب سے شروع ہوکر صاف خون جسم کے مختلف حصوں تک پہنچاتی ہے۔ اس کے منہ پر تین نیم ہلالی کھُل بند ہوتے ہیں جو خون کو بائیں بطن القلب سے شریانِ اعظم میں جانے دیتے ہیں لیکن الٹے بہاؤ کو روک دیتے ہیں۔

دورانِ خون
دل سے خون مختلف نالیوں کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں تک اور پھر وہاں سے واپس دل کی طرف مسلسل پمپ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل دورانِ خون (Blood Circulation) کہلاتا ہے۔ دل کے عضلات کے پھیلنے اور سکڑنے سے یہ عمل انجام پاتا ہے۔
جب دل کے عضلات پھیلتے ہیں تو صاف خون پھیپھڑوں کی ورید کے ذریعہ بائیں اذن القلب میں داخل ہوتا ہے۔ اسی وقت گندہ خون دائیں اذن القلب میں اوپری اور نچلی ورید کبیر کے ذریعے لایا جاتا ہے۔
جب اذن القلب سکڑتے ہیں تو دو عضلاتی اور سہ عضلاتی کھُل بند کھل جاتے ہیں اور صاف خون بائیں اذن القلب سے بائیں بطن القلب میں داخل ہوتا ہے۔ اسی وقت گندہ خون دائیں اذن القلب سے دائیں بطن القلب میں داخل ہوتا ہے۔اس کے فوراً بعد بطن القلب سکڑتے ہیں۔ دو عضلاتی اور سہ عضلاتی کھُل بند بندہوکر خون کے الٹے بہاؤ کو روک دیتے ہیں۔ بائیں بطن القلب سے صاف خون شریانِاعظم اور اس کی شاخوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ دایاں بطن القلب گندے خون کو پھیپھڑوں کی شریانوں کے ذریعہ صاف کرنے کے لئے پھیپھڑوں میں بھیج دیتا ہے۔
گندہ خون صاف ہوکر پھیپھڑوں سے بائیں اذن القلب میں لایا جاتا ہے۔ یہ خون تمام جسم میں دورہ کرنے کے بعد دوبارہ گندہ ہوکر واپس دائیں اذن القلب میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح خون دل میں دوبار دورہ کرتا ہے۔

دوہرا دورانِ خون
صاف خون جسم کے مختلف حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ گندہ خون دل میں واپس لایا جاتا ہے۔ دل سے یہ پھیپھڑوں میں صاف کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ صاف خون دل میں واپس لایاجاتا ہے۔ یہ عمل دوہرا دورانِ خون کہلاتا ہے۔
دل اور خون کی نالیوں پر مشتمل بند نظام خون کے ذریعے خون دورہ کرتا ہے۔

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
دل کی بے قراری کا افسانہ بڑا طویل ہے۔ اسے بیان کرنے کے لئے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ انسان کے ہوش سنبھالتے ہی دل کی بے قراری شروع ہوجاتی ہے اور دمِ واپسی تک قائم رہتی ہے۔ اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے بے قراری کم زیادہ ہوسکتی ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کا دل بے قراری سے بالکل ہی خالی ہو۔ انسان اپنے آپ میں ایک سمندر ہے۔۔۔بہت گہرا! اس کی صورت اور اس کے برتاؤ سے اس کے دل کی بے قراری کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
بے قراری کیا ہے؟ ہر وہ معاملہ جو ہماری مرضی کے خلاف ہو، ہمارے دل کو بے قرار کردیتا ہے۔ انسان بہ یک وقت کئی محاذوں پر لڑتاہے اور قدم قدم پر اسے اپنی منشا کے خلاف معاملات سے سابقہ پڑتا ہے۔ ہوس و نشاطِ کار اور سماجی پیچیدگیوں کا سیدھا اثر دل پر پڑتا ہے۔ جب دل بہت زیادہ دباؤ میں ہوتا ہے تو کوئی بات اچھی نہیں لگتی!
بہاریں بے حقیقت ہیں، نظارے سب کے سب باطل
سکوں دل کو نہیں حاصل، تویہ جلوے ہیں لاحاصل
جناب غلام حقانی(شکاگو، امریکہ) کا ایک طویل مضمون بعنوان ’’حقیقتِ قلب کی سائنسی تشریح‘‘ ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی میں دو قسطوں (جنوری اور اپریل 2013 ) میں شائع ہوا ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے قلب کی ماہیت کے تعلق سے بھی بہت سارے سربستہ راز منکشف فرمادئے ہیں اور سائنسی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دل محض خون کو پمپ کرنے کا آلہ ہی نہیں بلکہ ادراک، ادارہ نیت، تدبر، جذبات اور فیصلہ۔ سب کا مرجع اور منبع ہوتا ہے۔ حسد، جلن، کینہ کپٹ، دشمنی، نافرمانی اور خون خرابہ وغیرہ کا تعلق بھی دل ہی سے ہوتا ہے۔ دل دراصل دماغ کو کنٹرول کرتا ہے اور دماغ اپنے اعصابی نظام کے ذریعہ باقی اعضائے جسمانی کو۔ دماغ دل کا ماتحت اور ادنیٰ کارندہ ہے!‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تیئیں بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ اس نے آدمی کے دل میں نسیان کا داعیہ بھی رکھا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بے قراری میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے لیکن اسی کے ساتھ نئے نئے مسائل اور نئی نئی الجھنیں پھر دلِ ناتواں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن اندرونی وبیرونی محرکات میں سب سے زیادہ قوی محرک اس وقت وجود میں آتا ہے جب انسان کے دل پرکسی کی آنکھوں کا جادوچل جاتا ہے اور اس کا صبر وقرار چھن جاتا ہے۔ لیکن یہ تمام محرکات ادنیٰ درجے کے ہیں۔ اعلیٰ ترین محرک وہ ہے جو انسان کے دل میں درد پیدا کرتاہے۔۔۔انسانیت کا درد۔۔۔کہ دنیا کا ہر انسان کیوں کر ہمیشہ ہمیش کی نار جہنم سے بچ کرابدی سکون وراحت والی بہشت کا حقدار بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی درد سے اپنے نبیوں کے دلوں کو معمور فرمایا۔ یہی وہ دردِ دل ہے جس کے لئے خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا ورنہ بقول علامہ اقبال اس کی طاعت و عبادت کے لئے کروبیاں کی کوئی کمی نہ تھی۔

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
ترقی یافتہ ممالک میں 30 سے 50 فیصد شرح اموات کی ذمہ دار دل کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک بشمول ہندوستان میں بھی دل کے امراض میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ دل کے دورے (Heart Attack) کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس کی خاص وجہ جسمانی اور ذہنی تناؤ اور دباؤ ہے۔ کھانے پینے کی غلط عادتوں، آرام طلبی، جسمانی محنت سے روگردانی اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے دل کی بیماریاں بڑھتی ہیں۔ یہ بیماریاں 30 سے 50 سال کی عمر کے لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔
دل کی بیماریاں کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلاً :
(1) پیدائشی نقص (Congenital Defect)
(2) متعدی نقص (Infection)
(3) اکلیلی بیماریاں (Coronary Diseases)
(4) دل پر بہت زیادہ دباؤ

(1) پیدائشی نقص :۔
پیدائشی نقص کئی طرح کے ہوتے ہیں۔دل کے مختلف کھُل بند (Valves) کی ٹھیک طور پر نشوونما نہ ہونے کی وجہ سے دل نارمل طریقے پر کام نہیں کرپاتا۔
دل کی درمیانی دیوار (Septum) میں سوراخ ہوجانے کی وجہ سے بھی دل ناقص رہ جاتا ہے۔ دائیں اور بائیں اذن القلب کو ممتاز کرنے والی دیوار میں سوراخ ASDکہلاتا ہے یعنی Atrium Septum Defect ۔ دائیں اور بائیں بطن القلب کو ممتاز کرنے والی دیوار میں سوراخ VSD کہلاتا ہے یعنی Ventricular Septrum Defect ۔ ASD اور VSDدونوں صورتوں میں صاف خون اور گندہ خون خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ پیدائش کے وقت تقریباً 5 فیصد بچوں میں ASD اور VSD پایا جاتا ہے جو بڑھتی عمر کے ساتھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر یہ سوراخ مندمل نہ ہوئے تو بچے کی جلد جگہ جگہ نیلی نظر آتی ہے۔ اس حالت کو Blue Baby Syndrom کہتے ہیں۔
پیدائشی نقص کی وجوہات درجِ ذیل ہیں:
(1) ہونے والے بچے کی ماں کو خسرہ (Measles)جیسا متعدی مرض لاحق ہونا۔
(2) حمل کے پہلے تین مہینوں میں نقصان دہ دوائیوں کا استعمال۔
(3) ایکس رے جیسی شعاع پاشی (Radiation) ابتدائی جنین (Embryo) پر اثر انداز ہوتی ہے۔

(2) متعدی نقص :۔
بعض متعدی امراض دل میں نقص پیدا کرتے ہیں اور اس کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ گٹھیا (Arthritis) کا بخار ایک متعدی مرض ہے جس میں جوڑوں میں سوجن اور تکلیف ہوتی ہے۔ یہ اکثر سرد اور مرطوب آب و ہوا میں، کثیر آبادی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ماحول میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ مرض بیکٹیریا کی ایک قسم Strepto Coccus کے سرایت کرنے سے لاحق ہوتا ہے۔ گٹھیا کا مرض دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔

(3) اکلیلی بیماری :۔
موٹاپا، خون کا زیادہ دباؤ (HBP) ، ذیابیطس، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی وغیرہ اکلیلی بیماری کے امکانات کو بڑھانے والے محرکات ہیں۔ آسودہ حال لوگوں میں اس بیماری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کا انحصار غذا میں چربی کے استعمال پر ہوتا ہے۔ کولیسٹرول شریانوں کی اندرونی دیواروں پر جمع ہوکر ان کے قطر کو کم کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کا دورہ کم ہوجاتا ہے۔ اس بیماری میں دل کی خون کی نالیاں (اکلیلی نالیاں) سخت ہوجاتی ہیں اور ان میں تنزل پذیری (Decay) شروع ہوجاتی ہے۔ یہ مرض شریانوں کا بند ہونا (Arteriosclerosis) کہلاتا ہے۔ یہ مرض 45 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اس مرض کے شکار عورتوں کی بہ نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں۔ اس مرض سے لاپرواہی دل کے دورہ کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

(4) دل پر بہت زیادہ دباؤ :۔
تیزی سے مادی ترقی کی راہ پر گامزن سماج کے دو افراد جب کبھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو گفتگو کا موضوع ’’ٹینشن‘‘ اور ’’پرابلم‘‘ ہی ہوتا ہے۔ بہت زیادہ جسمانی محنت اور جذبات کے مجروح ہوتے رہنے سے دل پر بہت زیادہ تناؤ اور دباؤ قائم ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں دل کی بیماریاں وجود میں آتی ہیں مثلاً Angina Pectoris اور Heart Attack ۔

دل کا دورہ
جب دل کے کچھ عضلات (Muscles) کو خون کی سپلائی اچانک بند ہوجاتی ہے تو عضلات زندہ نہیں رہ پاتے ۔ یہ حالت دل کو خون سپلائی کرنے والی اکلیلی شریانوں (Coronary Artries) میں خون کے جمنے سے رکاوٹ پیدا ہوجانے سے رونما ہوتی ہے۔اس حالت کو Myocardial Information یا Heart Attack یعنی دل کا دورہ کہتے ہیں۔ خون کی سپلائی میں یہ رکاوٹ Coronary Arteriosclerosis کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر یہ حالت چند منٹ تک قائم رہتی ہے تو دل کے متاثرہ عضلات پوری طرح مرجاتے ہیں اور مریض کو دل کا دورہ پڑجاتا ہے۔ لیکن اگر مذکورہ حالت صرف چند منٹ میں ختم ہوجاتی ہے اور اکلیلی شریانوں کا دورہ بحال ہوجاتا ہے تو مریض بچ جاتا ہے۔
اکلیلی شریانوں کے Block ہوجانے پر مریض سینے میں درد محسوس کرتا ہے۔ یہ حالت Angina Pectoris کہلاتی ہے۔ اس حالت میں دل کے عضلات کو مستقل نقصان نہیں پہنچتا۔ اس حالت میں جمے ہوئے خون کو پگھلانے کے لئے زود اثر دوائیاں دی جاتی ہیں اور دل کے عضلات کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
دل کا دورہ اس وقت پیچیدگی اختیار کرلیتا ہے جب دل کی پمپ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اسے Congestive Heart Failure کہتے ہیں۔ اسی طرح دل کی دھڑکن میں بے قاعدگی (Arrythmia) بھی پیچیدگی پیدا کرتی ہے۔ اگر دل کے بہت سارے عضلات کی موت واقع ہوجائے اور وقت کے رہتے علاج نہ کیا جائے تو دل کا دورہ مریض کے لئے جان لیوا بھی بن سکتا ہے۔
Angina Pectoris ایک مخصوص حالت ہے جس میں دل سے سخت تکلیف کا آغاز ہوتا ہے، سینے میں جکڑن محسوس ہوتی ہے، تکلیف اور جکڑن گردن، جبڑوں، کاندھوں اور ایک یا دونوں بازوؤں سے لے کر ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اکثر مریضوں میں یہ تکلیف اور جکڑن پیٹ کے اوپری حصّے میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ دم گھٹنے کا بھی احساس ہوتا ہے۔
سخت جسمانی محنت یا جذبات سے مغلوب ہونے پر دل کے عضلات کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل پاتی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ Angina Pectoris بھی موت کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔

آخر اس در د کی دوا کیا ہے؟
دل کی بیماریوں کے تعلق سے میڈیکل سائنس نے بہت زیادہ ترقی کرلی ہے۔ ان امراض کی تشخیص کے لئے ECG سے کر Catheter کا استعمال عام ہے۔ بے شمار حساس آلات ایجاد کئے جاچکے ہیں جو تشخیص کے علاوہ مریض کی حالت پر نگاہ رکھنے(Monitoring) کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ دل کی سرجری کے دوران، دوران خون کو جاری رکھنے کے لئے Heart-Lung Machine استعمال کی جاتی ہے۔ Catheter پلاسٹک یا ربر کی ایک پتلی نلی ہوتی ہے جس کے سرے پر ننھے منے حساس آلات لگے ہوتے ہیں۔ اسے مریض کی کسی شریان یا ورید کے ذریعہ دل میں داخل کیا جاتا ہے جہاں وہ دل کے ہر خانے میں پہنچ کر امراض ، خرابیوں اور بے قاعدگیوں کا پتہ لگاتا ہے، خواہ مریض اپنی زبان سے کچھ نہ کہے لیکن:
ہونٹ ہیں خاموش لیکن کہہ رہی دھڑکن
دھڑکن کی زبان کو آج کل کے آلات اور مشینیں بخوبی سمجھ لیتی ہیں اور ایک لائن آف ٹریٹمنٹ مہیا کرتی ہیں۔
جان بچانے والی دوائیاں (Life Saving Drugs) سے ایمرجنسی میں مریض کو راحت پہنچائی جاتی ہے۔ دل کے ہر مرض کے لئے پُر اثر دوائیاں موجود ہیں۔ Arteriosclerosis کا اگرچہ حتمی علاج موجود نہیں لیکن دوائیوں کے ذریعہ اس کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور آئندہ اس کے رجحان (Tendency) کو روکا جاسکتا ہے۔
Baloon Treatmentکے ذریعہ خون کی نالیوں میں جمی ہوئی خون کی گانٹھوں کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ بیماریوں کی شدت یا کسی حادثے کے نتیجے میں دل بالکل ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے تو اسے کسی تندرست شخص کے دل سے بدلنا پڑتا ہے، اسے Heart Transplant کہتے ہیں۔ جراحی (Surgery) سے یہ سارے معاملے بہت بڑے پیمانے پر اور انتہائی کامیابی کے ساتھ عمل میں لائے جارہے ہیں۔ دل کی کسی بھی بیماری سے اب دل گیر ہونے کی ضرورت نہیں۔ مشکل صرف یہ ہے کہ یہ علاج بہت مہنگے ہیں۔ غریب مریضوں کے علاج کے لئے حکومتِ ہند راجیو گاندھی آروگیہ یوجنا کے تحت مالی امداد فراہم کررہی ہے۔ ریاستی حکومتیں بھی اس اسکیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ بہر حال اب وہ دن نہیں رہے جب شاعر اپنے دلِ مجروح کو لے کر پریشان رہا کرتا تھا:
مُصحفیؔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفوکا نکلا
نیوروکارڈیولوجی
ڈاکٹر اینڈریو آرمرنے 1991 میں ایک فعال Heart Brain کا تصور پیش کیا۔ Heart Brain کو ہم دل میں موجود دماغ کہہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آرمرنے اپنے گہرے مطالعے میں پایا کہ دل اپنا ایک اعصابی نظام (Nervous System) رکھتا ہے جو دماغ سے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ ہے! اور اسے بجا طور پر Little Brain (چھوٹا دماغ) کہا جاسکتا ہے۔ ہارٹ برین میں کئی قسم کے Neurons , Proteins, Neurotransmitters اور Support Cells ہوتے ہیں۔ دل کے عصبی نظام میں 40,000 کے قریب Neurons ہوتے ہیں جنہیں Sensory Neurites کا نام دیا گیا ہے۔
Sensory Neuritesخون میں موجود ہارمونس اور Neurochemicals کا پتہ لگاتے ہیں اور دل کی مختلف حرکات وسکنات اور سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ہارٹ برین ہمارے دماغ کو کنٹرول کرتا ہے۔
Neurocardiologyمیڈیکل سائنس کی ایک نئی شاخ ہے جو صرف گذشتہ تین دہائیوں میں مستحکم ہوئی ہے۔ یہ دل اور دماغ کے رشتوں کا مطالعہ کرتی ہے، ان کی سرگوشیوں کا تجزیہ کرتی ہے!!

دل کا پہلا ٹرانس پلانٹ
3دسمبر 1967 کا دن میڈیکل سائنس کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ تاریخی دن ہے جب ایک انسان کے فرسودہ دل کی جگہ دوسرے انسان کا تندرست دل لگایا گیا۔
ڈاکٹر کرسچین برنارڈ (8 نومبر 1922 ۔2 ستمبر 2001 ) جنوبی افریقہ کا ایک ماہر سرجن تھا۔ اس نے اپنی عملی زندگی کی ابتدا انسانوں کے گردوں کے ٹرانس پلانٹ سے کی۔ پھرکتوں کے ہارٹ ٹرانس پلانٹ کے تجربات میں جٹ گیا چنانچہ ایک مختصر عرصے میں اس نے 50 کتوں کے دل کامیابی کے ساتھ تبدیل کردئے۔اب اسے اتنی مہارت حاصل ہوچکی تھی کہ وہ انسانوں میں دل کا ٹرانس پلانٹ کرسکے۔
45 سالہ Louis Washkansky کا دل ہائی بی پی اور ذیابیطس کی وجہ سے بالکل ناکارہ ہوچکا تھا اور وہ ہاسپٹل کے بیڈپر اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ اسے ایک تندرست دل کی ضرورت تھی۔ یہ مریض ڈاکٹر برنارڈ کی نگرانی میں تھا۔ اتفاقاً 2 دسمبر 1967 کو ایک نوجوان خاتون Denise Darvall سڑک پارک کرنے کے دوران حادثے کا شکار ہوگئی اور اس کا دماغ بری طرح کچل گیا۔ اس کی دماغی موت واقع ہوچکی تھی لیکن دل ابھی زندہ تھا۔ ڈاکٹر برنارڈنے وقت ضائع کئے بغیر Denise کے سرپرستوں سے اجازت لے کر اس کا دل نکال کر محفوظ کرلیا۔
اگلے روز یعنی 3 دسمبر کو ڈاکٹر برنارڈ 30 معاونین کی ٹیم کے ساتھ آپریشن تھئٹر میں داخل ہوا۔ اس کا بھائی ماریس برنارڈ اس کی مدد کررہا تھا۔ یہ آپریشن 9 گھنٹے تک چلا اور کامیاب رہا۔ Louis کو نئی زندگی مل گئی۔ اس کے سینے میں Denise کا دل دھڑکنے لگا۔ نئے دل کے ساتھ وہ 18 دن تک جینے کے بعد نمونیا کے زبردست حملے کی تاب نہ لاکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
نئے دل کے ساتھ سب سے زیادہ عرصے تک جینے کا ریکارڈ Dirk Van Zyl کا ہے۔ 1971 میں اس کا ہارٹ ٹرانس پلانٹ کیا گیا تھا جس کے بعد وہ 23ّ َّْٓ سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہا۔

دل کی وجدانی کیفیت
دل کے رموز توبس دل ہی جانتا ہے۔ 1967 میں کئے گئے پہلے کامیاب ہارٹ ٹرانس پلانٹ سے لے کر بعد کے تمام مریضوں نے نئے دل کے ساتھ عجیب کیفیات کا تجربہ کیا۔ ان کے دل میں اپنے داتا (Donor) کے خاندان والوں سے ملنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ وہ اکثر ان کے بارے میں سوچتے تھے۔ ان کی فکر کرتے تھے۔ اجنبی لوگوں کے لئے طبیعت کا یہ میلان حیرت انگیز تھا۔ ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ کیا داتا کے دل میں اپنی گذشتہ زندگی کے واقعات، احساسات اور جذبات وغیرہ خلوی یادداشت (Cellular Memory) میں محفوظ تھے؟ اکثر ان لوگوں کی وجدانی کیفیت کچھ ایسی ہوتی کہ:
اپنوں ہی میں اپنوں کو نظر ڈھونڈ رہی ہے!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360245
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development