نور اکیسویں صدی کا مقتدارِ اعلیٰ
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
دسمبر 2015


قرآنی عربی میں لفظ ’’رزق‘‘ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ صرف روزی روٹی تک محدود نہیں۔ ہر وہ شے جو انسان کی روح اور جسم کو نفع پہنچائے ’’رزق‘‘ ہے۔ اس لحاظ سے انسان کی تینوں بنیادی ضرورتیں غذا، لباس اور رہائش بھی اس کے لئے رزق ہیں۔ علم رزق ہے، عقل رزق ہے، حواسِ خمسہ رزق ہیں، بچپن کی معصومیت، جوانی کا جوش اور ضعیفی کی عظمت رزق ہیں، ایمان رزق ہے، حافظہ رزق ہے، نسیان رزق ہے وغیرہ وغیرہ۔
اللہ اپنی مخلوق پر بڑا مہربان ہے۔ وہ رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ وہ ربّ العالمین ہے۔ وہ اپنی مخلوق کو بہترین رزق پہنچانے والا ہے:
وَاللّٰہُ خیْرُ الرّٰزِقِیْن (سورہ الجمعہ 11 )
(اور اللہ سب سے اچھا رزق پہنچانے والا ہے)
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس نے اپنے نور (Light) کو رزق رسانی کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اس کرہ ارض پر نور کا کلیدی وظیفہ (Key Function) شعاعی ترکیب (Photosynthesis) ہے۔ یہی وہ ترکیبی عمل ہے جس سے رزق کے سارے دروازے کھلتے ہیں۔ گویا کرہ ارض پر زندگی کے وجود کو اللہ نے نور سے مربوط کررکھا ہے۔
نور کے اسی تحکمانہ کردار کو نظر میں رکھتے ہوئے ادارۂ اقوام متحدہ (UNO) نے سال 2015 کو بین الاقوامی سالِ نور کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔(تفصیل کے لئے دیکھئے راقم کا مضمون ’’کم نہیں ہے روشنی، ہر شے میں تیرا نور ہے‘‘ مطبوعہ ماہنامہ اردوسائنس برائے جنوری 2015)۔ لہذا ساری دنیا میں یہ سال تزک واحتشام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ UNESCO نے اپنا کلیدی پروگرام 19 ، 20 جنوری 2015 کو پیرس (فرانس) میں منعقد کیا۔ ہمارے ملک میں بھی کئی مقامات پر بڑے بڑے پروگرام ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں تاکہ نور اور نور ٹکنالوجی سے دنیا کو متعارف کروایا جائے، چنانچہ 14 ، 15 اکتوبر کو ابنِ سینا اکادمی، علی گڈھ (یوپی) کے زیر انتظام ایک بین الاقوامی سطح کا پروگرام منعقد کیا گیا جس میں امریکہ اور بنگلہ دیش سے مندوبین نے شرکت کی۔ اکولہ (مہاراشٹر ) میں بھی یکم نومبر کو The Muslim Golden Age Research Foundation, Akola کی جانب سے اعلیٰ معیار کا پروگرام پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں ملک اور بیرونی ملک ہونے والی سرگرمیوں کی تفصیل IYL- 2015 کی Official Site پر دیکھی جاسکتی ہے۔
بین الاقوامی سالِ نور کی تقریبات کے پسِ پشت بابائے جدید بصریات (Father of Modern Optics) ابن الہیثم کی زندگی اور اس کی خدمات ہیں۔ ابن الہیثم کی شاہکار تصنیف ’’کتاب المناظر‘‘ کی اشاعت کے ایک ہزار سال مکمل ہونے پر ان بین الاقوامی تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں شائع ہونے والے پاپولر سائنس میگزینس نے ان تقریبات کو اچھا خاصا کوریج دیا ہے۔ ہمارے ملک کے مقتدر جریدوں نے صرف ایک ایک مضمون شائع کرنے پر اکتفا کیا لیکن اردو ماہنامہ ’’سائنس‘‘ (نئی دہلی) کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے جنوری 2015 سے لے کر دسمبر 2015 تک یعنی پورا سال نور پر مضامین شائع کئے اور نور کے متفرق پہلوؤں کے ساتھ بحث کی۔
نور (Light) ، بصریات (Optics) اور نوریات (Photonics) سے متعلق اس آخری مضمون میں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں نور کی کارفرمانی کی حیثیت کیا ہے؟ ہر جگہ نور ہی کیوں؟؟ ہماری تمام مادی ضرورتوں کا منبع نور کیوں اور کیسے؟؟؟

نوریات (Photonics)
نوری ذرات (Photons) اور نوری لہروں (Light Waves) کی تخلیق، ان پر کنٹرول اور ان کی شناخت کی سائنس اور ٹکنالوجی، نوریات (Photonics) کہلاتی ہے۔ اسمارٹ فون سے لیپ ٹاپ تک، انٹرنیٹ سے لیکر طبّی آلات اور عام روشنی کے آلات سے لے کر رنگ برنگی روشنی کی سجاوٹ تک، غرض زندگی کے ہر شعبے میں نوریات نے اپنی پہنچ بنا لی ہے۔ جس طرح 20 ویں صدی برقیات (Electronics) پر منحصر رہی اسی طرح 21 ویں صدی نوریات (Photonics) پر انحصار کرے گی۔
نوری ذرات اور نوری لہروں کی خصوصیات خطرات کے رازوں کو کھولیں گی، امراض کا علاج دریافت کریں گی، جرائم کے مسائل حل کریں گی! سائنسداں سیکڑوں سالوں سے نوریات کا مطالعہ کرنے میں مشغول ہیں۔ دھنک کے رنگ نوری لہروں کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہیں۔ نوری لہر دراصل ایک برق مقناطیسی طیف ہے جس میں دھنک کے علاوہ گاما شعاعیں، ریڈیو شعاعیں، ایکس شعاعیں، بالائے بنفشی (UV) شعاعیں اور زیر سرخ (IR) شعاعیں شامل ہیں۔ نوری سائنسداں برق مقناطیسی طیف کے رازوں سے پردے اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ Theodore Maiman کے ذریعے لیزر (Laser) کی ایجاد کے وقت 1960 میں لفظ Photonics وجود میں آیا۔
اگرچہ ہم خود برق مقناطیسی طیف (Electromagnetic Spectrum) کومکمل طور پر نہیں دیکھ سکتے، مرئی (Visible) اور غیر مرئی (Invisible) شعاعیں ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ نوریات ہر جگہ موجود ہیں۔ مثلاً صارف برقیات کے میدان میں جیسے بارکوڈ اسکینر، ڈی وی ڈی پلےئر، ریموٹ ٹی وی کنٹرولر وغیرہ، ذرائع ابلاغ میں جیسے انٹرنیٹ، صحت کے علاقے میں جیسے آنکھ کی سرجری اور طبی آلات، صنعت میں جیسے لیزر کٹر وغیرہ، دفاعی نظام میں جیسے زر سرخ کیمرہ، رموٹ سنسگ، تفریح کے علاقے میں جیسے لیزر شو وغیرہ۔
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ساری کائنات نوریات کی حلقہ بگوش ہے! نوریات کی زلفوں کے پیچ وخم ؟ ارے توبہ!! نوریات میں ایک نامعلوم دنیا، اک وسیع کائنات پوشیدہ ہے جس کا عقدہ یارانِ حل و عقد کھولتے رہے ہیں اور کھولتے رہیں گے۔

توانائی کے بحران کا حل
روزمرہ کے استعمال میں لفظ توانائی (Energy) سے مراد برقی توانائی (Electrical Energy) ہوتی ہے اور مختصراً اسے بجلی یا الکٹرک کہا جاتا ہے۔ برق، مقناطیسیت،نور آواز، حرارت وغیرہ توانائی کی مختلف قسمیں ہیں۔ انہیں ایک دوسرے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ برقی توانائی عالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ساری دنیا میں توانائی کے بحران (Energy Crisis) کا چرچا ہے۔ ان حالات میں نوری توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرکے اس بحران پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ سورج نوری توانائی کا لازوال سر چشمہ ہے۔ سورج سے نور کے علاوہ حرارت بھی بڑی مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔ یہ دونوں توانائیاں اللہ نے بطور بہترین رزق ہمیں مفت عطا کی ہیں۔ ان دونوں توانائیوں کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریقے اور ٹکنالوجیز استعمال کی جارہی ہیں، ان میں چند یہ ہیں:
(1) Solar Heating
(2) Solar Photovoltaics (Solar Panels)
(3) Solar Thermal Electricity
یہ ٹکنالوجیز کفایتی، محفوظ اور ماحول دوست ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا توانائی کے حصول کے روایتی طریقوں مثلاً Thermal ، Hydrolic اور Nuclear وغیرہ کے ساتھ ساتھ سورج کی توانائی پر انحصار کرے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں انجینیرس اور آرکی ٹیکٹس عمارتوں کو اس طور پر ڈیزائن کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سطح (Surface) سورج کی توانائی جمع کرنے کے لئے مہیا ہوسکے۔ بڑی سے بڑی ایک عمارت کی توانائی کی ضرورت کو سورج کی توانائی کا استحصال کرکے پورا کیا جاسکتا ہے۔
زراعت میں زمین کی گہرائی سے پانی کھینچنے کے لئے بڑے بڑے پمپ اسی توانائی سے چلائے جاسکتے ہیں۔ سرد علاقوں میں فصل حاصل کرنے کے لئے سورج کی توانائی سے حرارت مہیا کی جاسکتی ہے۔
پٹرول اور ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتوں اور ان میں لگاتار اضافے سے پریشان ساری دنیا کے لوگ اور ماہرین ایک عرصے سے سورج کی توانائی سے چلنے والی سواریوں کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ North American Solar Challenge نامی کمپنی گزشتہ 20 برسوں سے اس پروجیکٹ پر کام کررہی ہے۔ تجرباتی سطح پر اس سلسلے میں کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب سواریاں سورج کی توانائی سے چلیں گی۔ نہ صرف زمینی سواریاں بلکہ آبی اور فضائی سواریاں بھی اس زمرے میں شامل ہیں۔ لہذا حیرت انگیز طور پر 54 گھنٹوں کی فلائٹ اس ٹکنالوجی سے کامیابی کے ساتھ پوری کی جاچکی ہے۔ گویا ٹرانسپورٹ کا پورا کا پورا علاقہ اب نور کے قبضے میں ہوگا!
آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے موسموں کے مزاج بھی ساتویں فلک چھونے لگے ہیں، جس کے نتیجے میں کم بارش، خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح میں گراوٹ وغیرہ اب معمول کی باتیں بنتی جارہی ہیں۔ ان حالات میں دنیا کی ایک بڑی آبادی صاف اور قابل استعمال پانی سے محروم ہے۔ دنیا کی آبادی میں اضافے کے نتیجے میں پانی کا بحران بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس بحران کو حل کرنے کے لئے سمندری پانی کو صاف کرکے قابل استعمال بنانااور استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانا (Recycling) ضروری ہوگیا ہے۔ اس مقصد کے لئے Photovoltaic Systems کو اور زیادہ کارگر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
غرض کہ توانائی کے استعمال کے ہر علاقے میں نور اپنا دستِ امداد دراز کئے ہوئے ہے!
نور کی مسیحائی
طب (Medicine) کے معاملے میں اب نور کی مسیحائی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے۔ نور یاتی تکنیکیوں (Photonic Technologies) نے طب کے پورے علاقے کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا ہے! طب میں نوریات کے چند علاقے ذیل کے مطابق ہیں:
(1) طبّی عکس کاری:۔ مریض کے جسم کے اندر جھانک کردیکھنے کا نام طبی عکس کاری (Medical Emaging) ہے۔ طبی عکس کاری اب روز مرہ میں شامل ہوچکی ہے۔ مرض کی بالکل ٹھیک تشخیص کے لئے یہ ضروری ہے۔ طبی عکس کاری میں سی ٹی اسکین، ایم آر آئی، الٹراساؤنڈ اور ایکس رے وغیرہ شامل ہیں۔ طبی عکس کاری کے استعمال کے چند اہم علاقے یہ ہیں: Neuro Science ، Cardiology ، Psychiatry اور Psychology وغیرہ۔
(2) لیزر:۔20 ویں صدی کی اس انقلابی ایجاد نے طب کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے طب میں لیزر کا استعمال خاص طور پر علم دندان (Dentistry) علم چشم (Opthalmology) ، علم جلد (Dermatology) اور Bloodless Surgery (یعنی ایسی جراحی جس میں خون ضائع نہیں ہوتا) میں بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔
(3) پِل کیمرہ:۔جسم کے اندرونی اعضاء خاص کر غذا ئی نالی کی باقاعدگیوں اور خرابیوں کا پتہ چلانے کے لئے ایک عام کیپسول کے سائز کا کیمرہ مریض کے حلق سے نیچے اتار ا جاتا ہے۔ یہ 4 گھنٹوں میں پوری غذائی نالی کا سفر طے کرکے قدرتی طور پر جسم سے باہر خارج ہوجاتا ہے۔ پِل کیمرہ سے حاصل شدہ عکسوں (Images) کی مدد سے امراض کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

بصریات (Optics)
بصریات کا علاقہ بھی بے حد وسیع ہے۔ بصارت کی خامیوں کو دور کرنے سے لے کر فطرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں نوری آلات نے بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ مختصر مضمون بصریات اور نوری آلات کی تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان کا احاطہ کرنے کے لئے سیکڑوں صفحات درکار ہیں۔ بہر کیف چند نوری آلات یہ ہیں:
تکسیری شیشہ (Magnifying Glass) ، خوردبین (Microscope) ، دور بین (Telescope) وغیرہ۔
ابلاغ (Communication) سوشل میڈیا، کفایتی فون کالس، ویڈیو کانفرنسنگ وغیرہ سب انٹرنیٹ کی دین ہیں، جب کہ خود انٹرنیٹ ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جو ریشہ بصریات (Fibre Optics) کا مرہون منت ہے۔ بصریاتی ریشے (Optical Fibrer) انسان کے بال کی جسامت والے انتہائی مہین اور لچکدار، سلیکایا پلاسٹک سے بنے ریشے ہیں۔ یہ ریشے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نور کے سگنلس (Signals) کو منتقل کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے علاوہ فائبر آپٹکس کا استعمال صوتی ابلاغ (Tele Communication) میں بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ فائبر آپٹکس میں نور کے استعمال نے 21 ویں صدی کے انسان کے طرزِ زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔
روایتی وائر کیبل پر آپٹیکل فائر کو فوقیت حاصل ہے۔ نور کے سگنلس کو طول طویل فاصلوں تک بغیر کسی نقصان کے آپٹیکل فائر کے ذریعے پہنچایا جاسکتا ہے۔ یہ Signals برق مقناطیسی مداخلت سے محفوظ رہتے ہیں۔
محتلف قسم کے Sensors میں بھی آپٹیکل فائبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ Photovoltaic Cells میں نور کی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی آپٹیکل فائبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ رنگ برنگی نوری سجاوٹ، سائن بورڈ، کھلونوں اور مصنوعی کرسمس ٹری تیار کرنے میں بھی آپٹیکل فائبر استعمال کیا جاتا ہے۔

گم شدہ حافظہ کی بازیافت
مرزا غالب کو ماضی کی یادوں نے اس درجہ پریشان کر رکھا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ مانگی:
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ حافظہ (Memory) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بڑی نعمت ہے، رزق کریم ہے! آنکھ کی قدروقیمت تو ایک نابینا ہی جانتا ہے۔ اسی طرح حافظہ کی اہمیت ایک بھائی بھلکڑ سے بہتر کون جان سکتا ہے!
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) کے ذیلی ادارے پیکووَرانسٹی ٹیوٹ آف لرننگ کے سائنسداں Susmu Tongawa اور ان کی ٹیم نے گمشدہ حافظہ کی کامیابی کے ساتھ بازیافت کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گمشدہ یادّ اشت دماغ میں کہیں پوشیدہ طور پر محفوظ رہتی ہے۔ اسے واپس لانے کے لئے نور کے مناسب سگنل کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ چوہوں پر کئے گئے تجربات میں حوصلہ افزا کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ گم شدہ یادداشت کی بازیافت کی تکنیک Optogenetics کہلاتی ہے۔ اس تکنیک میں دماغ کے Hippocampus نامی حصے کو لیزر لائٹ کے ذریعے انگیز کیا جاتا ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اس تکنیک کے ذریعے انسانوں میں Alzheimers اور Amnesia جیسے امراض کا علاج کیا جاسکے گا اور گم شدہ حافظہ کی بازیافت ہوسکے گی۔ مستقبل میں ہمیں ڈھونڈنے پر بھی کوئی ’’بھائی بھلکڑ‘‘ نہ ملے گا!!

نور اور جدید زراعت
آج ساری دنیا پانی اور بجلی کے علاوہ غذا کے بحران سے بھی دوچارہے۔ تاہم سائنسدانوں نے غذائی بحران کا حل ڈھونڈنکالا ہے۔ نور ٹکنالوجی اب غذائی بحران سے نمٹنے کے لئے کمرکس چکی ہے! زراعت کے روایتی طور طریقے اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔ یہ طریقے اب آب و ہوا کی تلوّن مزاجی اور بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ اب زراعت کے جدید طریقے اپنائے جائیں۔ زراعت کی جدید ترین تکنیک میں بڑے بڑے گوداموں (Ware-houses) میں فصلوں کی مخصوص انواع کی زراعت LEDs کی مدد سے کی جاتی ہے۔ نیلی اور سرخ روشنی کا اخراج کرنے والے LEDs پودوں کی نمو اور نشو ونما کی رفتار کو بہت تیز کردیتے ہیں اور مختصر عرصے میں فصلیں حاصل کی جاتی ہیں۔ پانی کی فراہمی کے لئے نہ بارش پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور نہ نہروں وغیرہ کے ذریعے آب پاشی کی جھنجھٹ۔ ان فصلوں کو پانی کی بہت قلیل مقدار درکار ہوتی ہے۔ اندرون خانہ (Indoor) ہونے کی وجہ سے فصلیں جراثیم، پھپھوند اور حشرات (کیڑے مکوڑوں ) وغیرہ سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔ ان فصلوں میں غذائیت کے اضافے کا بھی دعویٰ کیا جارہا ہے۔

چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے
بین الاقوامی سال نور کی مناسبت سے ’’نور سیریز‘‘ کا پہلا مضمون جنوری 2015 میں شائع ہوا تھا، جس کا اختتام نوبل انعام یافتہ بنگالی زبان کے مشہورشاعر رابندرناتھ ٹیگور کی معرکتہ الآرا تصنیف گیتا نجلی کی نظم نمبر 57 کے آزاد ترجمے کے ساتھ ہوا تھا۔ گیتانجلی کی نظم نمبر 27 کا مرکزی خیال بھی نور ہی ہے، لہذا ’’نور سیریز‘‘ کے اس آخری مضمون کی تکمیل بھی اس نظم کے رواں ترجمے کے ساتھ کی جارہی ہے:
نور۔۔۔۔۔؟
اوہ۔۔۔۔کہاں ہے نور۔۔۔۔؟
خواہشوں کی دہکتی آگ۔۔۔۔
اسی آگ سے نور پیدا کر

اے میرے دل، چراغ تو موجود ہے
لیکن وہ اک شعلہ، وہ اک لپک۔۔۔۔
اس کا فقدان ہے!
(لعنت ہے تجھ پر)
اس سے بہتر تو موت ہے!

غم واندوہ دستک دے رہے ہیں
’’تیرا آقا تجھے بلاتا ہے
بہر ملاقات
وہ تو ہر وقت بیدار ہے
وہ رات کے اندھیرے میں
تجھ سے محبت کے عہد و پیمان
باندھنا چاہتا ہے‘‘

(اندھیری رات)
بادل پر بادل دوڑے چلے آرہے ہیں
تیز و تند بارش
موسلا دھار ۔۔۔۔لگاتار۔۔۔
وہ کیا چیز ہے
جو میرے وجود کو مضطرب کررہی ہے؟
میں اس کے ادراک سے معذور ہوں

بجلی کی چمک
میرے دل کی تاریکیوں میں
اضافہ کردیتی ہے
(لیکن)
رات کی موسیقی
مجھے آواز دے رہی ہے
میرا دل اس کی جانب کھنچا جاتا ہے

نور۔۔۔۔۔؟
اوہ۔۔۔۔۔۔کہاں ہے نور۔۔۔۔۔؟
خواہشوں کی دہکتی آگ۔۔۔۔
اسی آگ سے نور پیدا کر

بادلوں کی گرج
تیز ہوائیں
سیاہ رات، سیاہ پتھر کی مانند

(اے میرے دل)
یہ ساعت یوں ہی گذر نہ جائے۔۔۔۔
محبت کا چراغ۔۔۔۔۔
اپنی حیات (بے مایہ) سے روشن کر!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360604
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development