بم یا ہم؟
واپس چلیں

ایس ایس علی
اگست 2014

نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا: ایک خواب!
ماہنامہ ’’روبی‘‘ (مرحوم) کے جنوری 1979 کے شمارے میں جناب اظہار اثرؔ کی چھ نظمیں شائع ہوئی تھیں۔ ان میں سے تین سائنسی موضوعات پر مبنی تھیں: ذرّہ، مکان وزماں، سیاہ سورج۔ نظم ذرہ کا موضوع جوہری توانائی، زمان و مکاں کا موضوع آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت اور سیاہ سورج کا موضوع بلیک ہول ہے۔نظم ذرہ میں اظہار اثرؔ جوہری توانائی کے دو متضاد اثرات پر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں:
ذرّہ
مجھے بانٹ کر کیا کروگے؟
میں ذرہ ہوں ذرہ کا جزو کیا کروگے؟
مگر میرے یارو۔۔۔۔۔
جو مجھ کو آزاد کردو حصار بدن سے
تو ایک موج بن جاؤں گا میں
توانائی میں غم کی تبدیل ہوجاؤں گا
نئی شکل پاکر
تمہارے بہت کام آؤں گا میں

یہ ہیں ایک ہی سکے کے دو پہلو۔ ذرہ یعنی جوہر (Atom) کا ٹوٹنا سائنسی زبان میں جوہری /نیوکلیائی انشقاق (Atomic/Nuclear Fission) کہلاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی زبردست توانائی جوہری / نیوکلیائی توانائی کہلاتی ہے۔ یہ عمل رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔
نیوکلیائی توانائی کے مثبت استعمال کا کامیاب تجربہ 2 دسمبر 1942 کو سہ پہر 3 بج کر 25 منٹ پر عمل میں آیا جب اطالوی ماہر طبیعیات انر کوفری کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں دنیا کی پہلی نیوکلیائی بھٹی (Nuclear Reactor) موسوم بہ Chicago Pile-1 کے کامیاب تجربے کا مظاہرہ کیا۔ یہ تجربہ صرف برائے مظاہرہ (Demonstration)تھا۔ فرمی کے نیوکلیائی بھٹی کو شروع کرنے کے 28 منٹ بعد اسے بند کردیا ۔ نیوکلیائی توانائی کے پُرامن استعمال کی جانب یہ پہلا قدم تھا۔
سائنسدانوں اور سیاست دانوں کے ذہنوں میں نیوکلیائی توانائی کے منفی استعمال کا تجسّس موجزن تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ نیوکلیائی بھٹی میں ہونے والے نیوکلیائی انشقاق کے زنجیری تعامل (Chain Reaction) کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو کیا ہوگا؟ اس عمل میں کتنی توانائی پیدا ہوگی؟ اس سے کتنی تباہی آئے گی؟!
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ، فوجی طاقت کا اظہار، سیاسی مفادات، نیوکلیائی ہتھیاروں کی کارکردگی کا مطالعہ جیسے کئی موضوعات پر بہت گہرا اور انتہائی خفیہ مشورہ، بحث و مباحثہ ہوتا رہا اور آخر کار تین سال بعد 16 جولائی 1945 کی علی الصبح ’’ذرہ‘‘ کے مرکزے (Nucleus) میں مفید تباہی و بربادی کے جن کو آزاد کردیا گیا! یہ ایک تجربہ تھا، ایک جانچ تھی جسے Trinity کا نام دیا گیا تھا۔ یہ تجربہ New Maxico سے دور Atomogordo کے مقام پر انجام دیا گیا۔ یہ تجربہ Manhattan Project کا ایک حصہ تھا۔
یہ پروجیکٹ ایک سربستہ راز تھا جس کی سربراہی Gen. Lesli R. Grover اور Dr. J. Robert Open Heimer کررہے تھے اس تجربہ میں استعمال کئے گئے نیوکلیائی ہتھیار یعنی ایٹم بم کا نام The Gadget رکھا گیا تھا۔ اسے Christy Gadget بھی کہا جاتا ہے۔ Trinity میں تابکار عنصر پلوٹونیم استعمال کیا گیا تھا۔ یہ ایک فضائی (Atmospheric) دھماکہ تھا۔ اسے داغنے (Detonation) کے صرف 0.034 سیکنڈ کے بعد ایک زبردست دھماکہ ہوا۔ آگ اور دھوئیں اور دھول کا ایک عظیم بادل نمودار ہوا۔ زمین لرز گئی اور انسانیت تھرّاکر رہ گئی ۔ اس دھماکے کی طاقت 20 Kiloton TNT کی تھی۔ TNT مخفف ہےTri Nitro Tolune کا جو کہ ایک دھماکہ خیز مادّہ ہے۔
دھماکے کی شدت کو ناپنے کے لئے Ton of TNT کو اکائی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
1 Ton of TNT = 4.184 Gigajoules
= 1 Giga Calories
دوسری جنگ عظیم میں 1945 میں پہلی اور آخری بار نیوکلیائی ہتھیار ’’ایٹم بم‘‘ کا استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک نیوکلیائی ہتھیاروں کے صرف تجرباتی دھماکے (Test Explosions) ہوتے رہے۔ ان کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔

ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تباہی
دوسری جنگ عظیم کے آخری مرحلے میں امریکہ نے اپنے ترکش کے انتہائی طاقتور اور آخری تیر کا استعمال کیا۔ 6 اگست 1945 کو اس نے جاپان کے ہیروشیما نامی شہر پر Little Boy نامی ایٹم بم داغ دیا۔ اور اس شہر کے لوگوں پر قیامت صغریٰ نافذ ہوگئی۔ فوری طور پر ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ بے شمار لوگ عمر بھر کے لئے اپاہج بن گئے۔ بچنے والوں میں سے بھی ایک بڑی تعداد زخموں کی تاب نہ لاکر موت کے گھاٹ اترتی رہی۔ اس حملے میں مرنے والوں کی صحیح تعداد کا کسی کو علم نہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 90,000 سے 1,66,000 انسان فوت ہوئے۔ اس ایٹم بم میں یورینیم 235 کا استعمال کیا گیا تھا۔ یہ بم Gun Type Fission Weapon تھا۔
اس حملے کے فوراً بعد 9اگست 1945 کو جاپان ہی کے دوسرے شہر ناگاسا کی پر Fat Man نامی ایٹم بم داغا گیا۔ یہ بم جس میں Plutonium 239کا استعمال کیا گیا تھا، Implosion Type Nuclear Weapon تھا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں 60,000 سے 80,000 موتیں واقع ہوئیں۔ لاتعداد لوگ ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوگئے۔
اموات کی وجوہات میں عمارتوں کے ملبے میں دبنا، زخمی ہونا، جل جانا اور شعاع پاشی (Radiation) شامل ہیں۔ شعاع پاشی کے نتیجے میں اپاہج اور جسمانی وعضویاتی بے قاعدگیوں کے شکار ہونے والے افراد کی آئندہ نسلوں میں بھی یہ خرابیاں اور بے قاعدگیاں منتقل ہوگئیں۔

ستم بالائے ستم
دوسری جنگ عظیم کے آخری مرحلے میں جاپان کے ان دونوں شہروں پر بمباری فیصلہ کن اور جاپان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ جاپان نے ہتھیار ڈال دئے۔ امریکی بمباری کا اخلاقی جواز کیا ہے؟ یہ سوال اب بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور تاقیامت اس کا حتمی جواب ملنا مشکل ہے۔ جاپان کے شہریوں پر قیامت برپا کرنا بظاہر ظلم و بربریت کا ایسا مظاہرہ ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ستم تھا یا ستم کے جواب میں ستم بالائے ستم؟ اس کا جواب سائنس کے دائرہ کارسے باہر ہے۔ یہ موضوع سیاست دانوں، تاریخ دانوں اور ماہرین بشریات (Anthropologysts) کا ہے۔ہمارے پیش نظر تو صرف حکیم لقمان کی بے شمار نصیحتوں میں سے ایک وہ نصیحت ہے جو انہوں نے اپنے فرزند کو کی تھی: ’’بیٹا، جب تم سے کوئی شخص آکر کسی کی شکایت کرے کہ فلاں نے میری دونوں آنکھیں نکال دی ہیں اور واقعہ میں بھی اس کی دونوں آنکھیں نکلی ہوئی ہوں تو اس وقت تک اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کرو جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو۔ کیا خبر ہے کہ اس نے خود پہل کی ہو اور اس نے اس سے پہلے چار آنکھیں نکال دی ہوں۔‘‘
1945کے بعد سے آج تک ہونے والی چھوٹی بڑی جنگوں میں سے کسی بھی جنگ میں نیوکلیائی ہتھیار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ تاہم نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ (Testing) جاری ہے۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کثیر مقاصدی ہوتی ہے۔ اس کا سب سے اہم پہلو جانچ کرنے والے ملک کا فوجی طاقت کا اظہار ہے۔ اس جانچ کے نتیجے میں جانداروں اور املاک کو زبردست نقصان پہنچتا ہے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں خارج ہونے والی شعاع پاشی بلا تفریق ملک و ملت سب کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس خطرے کے پیش نظر دنیا بھر کے لوگوں میں نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ پر پابندی لگانے کا احساس پیدا ہوا اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر نیوکلیائی دھماکہ مخالف دن منانے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔

بین الاقوامی نیوکلیائی دھماکہ مخالف دن
روس نے قزاکستان کے علاقے میں سب سے زیادہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کی۔ اس مصیبت سے پریشان ہوکر قزاکستان کی حکومت نے 29 اگست 1991 کو اقوام متحدہ میں تجویز پیش کی کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ پر پابندی لگانے کے لئے بین الاقوامی سطح پر اس کی مخالفت میں 29 اگست کو نیوکلیائی دھماکہ مخالف دن منایا جائے۔ مئی 2009 میں اقوام متحدہ کے کئی ممبر ممالک نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا میں امن اور حفاظت قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ لہذا 2 دسمبر 2009 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی 64 ویں نشست میں قرار داد نمبر 64/35 میں 29 اگست کو باقاعدہ نیوکلیائی ہتھیار کی جانچ مخالف دن منانے کا اعلان کردیا۔ 29 اگست 2010 کو اس طرح پہلا بین الاقوامی دن منایا گیا۔
اس دن کو قائم کرنے اور منانے کا خاص مقصد دنیا کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک کرناہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے عوام کو اس قسم کی جانچ کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ کرنے کے لئے مہم چلانا ضروری ہے تاکہ پر امن اور محفوظ دنیا کے خواب کی تعبیر ڈھونڈی جاسکے۔ اس دن دنیا کے بڑے شہروں میں سمپوزیم منعقد کئے جاتے ہیں ،کانفرنس کی جاتی ہیں، نمائشیں لگائی جاتی ہیں، مختلف قسم کے تحریری و تقریری مقابلے ترتیب دے جاتے ہیں، ذرائع ابلاغ کا استعمال بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے، اسکولوں اور کالجوں میں مختلف پروگراموں کے دوران معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور ہدایتیں دی جاتی ہیں، نوجوان نسل کے نیٹ ورک کو ان پروگراموں میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کو عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
1945 سے لے کر 2013 تک دنیا کے مختلف ممالک نے 2063 تجرباتی دھماکے کئے۔ ان دھماکوں کے مضر اثرات کو محسوس کرتے ہوئے گزشتہ سال اس خاص موقع پر یعنی 24 اگست 2013 کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے یہ پیغام نشر کیا:
"As we mark this international day against nuclear test, let us work together to end nuclear weapons testing and achieve a world free of nuclear weapons."

(آج جب کہ ہم بین الاقوامی سطح پر نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کے خلاف دن منا رہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم نیوکلیائی دھماکوں کو ختم کرنے اور نیوکلیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ساتھ مل کر کام کریں۔)

نیوکلیائی ہتھیار کیا ہے؟
1939 میں جرمنی کے دو سائنسدانوں Otto Hahn اور Strassman نے دریافت کیا کہ جب یورینیم (235 92 U) پرنیوٹرون کی بمباری کی گئی تو وہ دو مختلف حصوں میں بنٹ گیا ۔ ان دونوں حصوں کی پہچان بیریم (141 56 Ba)اور کرپٹون (92 36 Kr) کے طور پر کی گئی۔ انہوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ یہ دونوں حصّے مختلف سمتوں میں تیز رفتاری سے حرکت کر رہے تھے، ساتھ ہی یورینیم کی تقسیم کے نتیجے میں حرارت کی ایک بڑی مقدار خارج ہوئی۔ اس تعامل کا مساواتی اظہار ذیل کے مطابق ہے:
توانائی + +1 0n --- 141 56Ba+92 36Kr+31 0n 235 92U
یورینیم کی طرح بھاری مرکزے والے عناصر کے مرکزے (Nucleaus) کے اس طرح ٹوٹنے کا عمل جس میں توانائی کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے، نیوکلیائی انشاق (Nuclear Fission) کہلاتا ہے۔
نیوکلیائی انشاق کے نتیجے میں نئے مرکزوں کے ساتھ نیوٹرون اور الفا، بیٹا اور گاما شعاعیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ یورینیم کے ایک مرکزے کے انشاق کے نتیجے میں 200 Mev توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ eV یعنی الکٹرون وولٹ، توانائی اکائی ہے۔ Mev یعنی میگا الکٹرون وولٹ۔ ایک میگا الکٹرون وولٹ ایک ملین الکٹرون وولٹ کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی 1Mev = 1 Million eV
200 Mev، توانائی کی کافی بڑی مقدار ہے۔ یورینیم کے ایک مرکزہ کے انشاق کے نتیجے میں اس توانائی کے ساتھ تین نیوٹرون بھی کل خارج ہوتے ہیں، جو یورینیم کے تین نئے مرکزوں کو نشانہ بناکر ان کا انشاق عمل میں لاتے ہیں جس کے نتیجے میں نونیوٹرون حاصل ہوتے ہیں۔ یہ نونیوٹرون دوسروں نو مرکزوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اس طرح یہ خود کار عمل چل پڑتا ہے اور توانائی کی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ اس خود کار عمل کو زنجیری تعامل (Chain Reaction) کہتے ہیں۔نیوکلیائی ہتھیاروں میں اسی زنجیری تعامل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ نیوکلیائی بھٹی میں زنجیری تعامل کو کنٹرول کرکے رکھا جاتا ہے۔
نیوکلیائی انشقاق کے عمل میں عامل اشیاء یعنی یورینیم کے ایک مرکزہ اور ایک نیوٹرون کی کل کمیت (Mass) اور حاصل اشیاء یعنی بیریم اور کرپٹون کے ایک ایک مرکزے اور تین نیوٹرون کی کل کمیت میں فرق پایاجاتا ہے۔ عامل اشیاء کی کل کمیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ مادّہ کی کمیت میں ہونے والی یہ کمی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے جسے آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ مساوات E=mc2 سے ظاہر کیا ہے۔ یہاں E حاصل شدہ توانائی کی مقدار ہے، mعامل اشیاء کی کمیت میں ہونے والی کمی اور c روشنی کی رفتار ہے۔
جوہر اور اس کے مرکزے کی کمیت کی اکائی AMUہے یعنی Atomic Mass Unit۔
گرام1 AMU = 1.66 x 10-2

مذکورہ عمل انشقاق میں یورینیم کے مرکزہ کی کمیت میں ہونے والی کمی کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے:
(عامل اشیاء کی کل کمیت)
235 92U = 235.043915 amu کی کمیت
1 0n = 1.008665 amu کی کمیت
236.052580 amu = کل کمیت
(حاصل اشیاء کی کل کمیت)
141 56Ba = 140.913900 amu کی کمیت
92 36Kr = 91.897300 amu کی کمیت
3.025995 amu = 3نیوٹرون کی کمیت
235.837195 amu = کل کمیت
(کمیت میں کمی)
236.052580-235.837195 amu = کمیت میں ہونے والی کمی
= 0.215385 amu
مادہ کی 931Mev, 1amu میں تبدیل ہوتی ہے۔ اب E=mc2 کے مطابق
E= 0.215385 x 931 Mev
= 200.5 Mev

نیوکلیائی ہتھیاروں میں یورینیم کے مرکزوں کا انشقاق نہایت تیز رفتاری سے عمل میں آتا ہے۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں لاکھوں مرکزے ٹوٹ کر بے تحاشا توانائی خارج کرتے ہیں۔ یہ توانائی حرارت کی شکل میں خارج ہوتی ہے۔ پلک جھپکتے میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔

نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کے مضر اثرات اور نقصانات کے مدنظر ان کے خلاف کئی قسم کے معاہدے تجویز کئے گئے مثلاً نیوکلیائی جانچ پر جزوی پابندی کا معاہدہ (Partial Nuclear Test Ban Treaty) (PTBT) اور نیوکلیائی جانچ پر پابندی کا جامع معاہدہ Comprehensive Nuclear Test Ban Treaty (CTBT) ۔ کئی ملکوں کے سائنسدانوں نے تابکاری دخان کی سطح کو تشویش ناک پایا اور پھر اس طرح کے معاہدے تجویز کئے گئے۔
جزوی پابندی کا معاہدہ (PTBT) اس بات کو غیر قانونی قرار دیتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں سوائے زیر زمین دھماکے کے کوئی اور دھماکہ کیا جائے۔ اس معاہدہ کا مقصد تابکاری دخان میں تخفیف کرنا ہے۔ یہ معاہدہ اکتوبر 1963 کو روبہ عمل لایا گیا۔ کئی ممالک نے اس معاہدہ پر دستخط کئے اور اس پر عمل پیرا ہوئے۔ نیوکلیائی صلاحیت کے حامل ممالک فرانس، چین اور شمالی کوریانے اس معاہدہ پر دستخط نہیں کئے۔
جامع معاہدہ(CTBT) 1996میں تجویز کیا گیا۔ اس معاہدہ کے تحت ہر قسم کے دھماکے بشمول زیر زمین دھماکے پر پابندی عائد ہوتی ہے۔ مئی 2012 تک دنیا کے 183 ممالک نے CTBT پر دستخط کردئے تھے جن میں سے 157 ممالک اس معاہدہ پر عمل پیرا ہوچکے ہیں۔ اس معاہدہ کو پوری طرح نافذ کرنے کے لے ضروری ہے کہ نیوکلیائی صلاحیت رکھنے والے ممالک اس معاہدہ کے پابند ہوجائیں۔ دستحط کرنا صرف اورصرف رضامندی ظاہر کرنا ہے۔ یہ ممالک 1994 سے 1996 کے دوران اس معاہدہ کی تیاری اور گفت و شنید میں شرکت کرتے رہے۔ ان 44 ممالک کو Annex-2 کے تحت ایک الگ فہرست میں رکھا گیا ہے۔
چین، مصر، ایران، اسرائیل اورامریکہ نے دستخط تو کردئے لیکن معاہدہ کو نافذ نہیں کیا، ہندوستان، شمالی کوریا اور پاکستان نے دستخط بھی نہیں کئے ہیں۔
31مارچ 1958 سے 8 اپریل 2010 تک کم و بیش 27 معاہدے تجویز کئے گئے ہیں مثلاً انٹارکٹیکا کے علاقے میں دھماکہ نہ کرنے کا معاہدہ، چاند اور دوسرے اجرام فلکی پر دھماکہ نہ کرنے کا معاہدہ، فضا سے اوپر خلاء میں دھماکہ نہ کرنے کا معاہدہ، جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کا معاہدہ وغیرہ۔
نیوکلیائی دخان کے شکار افراد کو معاوضہ
1945 سے 1980 تک دنیا کے مختلف علاقوں کی فضا میں 500 سے زائد دھماکے کئے گئے۔ اس دوران عوام میں نیوکلیائی دخان کے خطرات کا احساس جاگا۔ اس سلسلے میں کئی تحقیقی کام کئے گئے۔ Centre for disease control and prevention اور نیشنل کینسر انسٹی ٹیوٹ (امریکہ) کی تحقیقات سے واضح ہوا کہ نیوکلیائی دخان سے 11,000 موتیں واقع ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر معاملات میں فال آؤٹ میں موجود تابکار مادے Iodine-131 کی وجہ سے لوگوں میں غدّہ درقیہ (Thyroid Gland) کا کینسر لاحق ہوا جو ان کی موت کا سبب بنا۔
مارچ 2009 تک نیوکلیائی دخان کے شکار افراد کو معاوضہ ادا کرنے کی سمت سوائے امریکہ کے کسی اور ملک نے پہل نہیں کی اور نہ ہی کوئی دلچسپی دکھائی۔ امریکہ میں 1990 میں ایک قانون Radiation Exposure Compensation Act وضع کیا گیا جس کے تحت متاثر ین کو ایک عرب 38کروڑ ڈالر ادا کئے گئے۔

سرد جنگ
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب جرمنی اور جاپان کی فوجی طاقت اور جنگی صلاحیت صفر ہوگئی تو دو ملک، امریکہ اور روس، سوپر پاور بن کر ابھرے۔ امریکہ مغرب کا نمائندہ بن کر ابھرا۔ اس کے ساتھ ناٹو اور دوسرے حلیف ممالک تھے۔ روس مشرق کا نمائندہ بن گیا اور اس کے ساتھ بہت سے مشرقی حلیف ممالک ہوگئے۔ امریکہ کے بعد روس بھی 1949 میں نیوکلیائی پاور بن گیا۔ اب دونوں میں برتری کیلئے رسہ کشی شروع ہوگئی ۔ مشرق اور مغرب کھل کر ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔ لیکن دونوں نیوکلیائی ہتھیاروں کی تباہ کاری کا مشاہدہ کرچکے تھے۔ اب نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ہمت کسی میں نہ تھی۔ البتہ ایک دوسرے کو دھمکانے اور دھونس جمانے کے لئے دونوں ملک نت نئے نیوکلیائی دھماکے کرتے رہے۔ اس کے علاوہ کوریا، ویتنام اور افغانستان میں اپنی فوجوں کو جھونک کر ایک دوسرے پر بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس حکمتِ عملی کو سرد جنگ (Cold War) کے نام سے موسوم کیا گیا۔ عام طور پر سرد جنگ کا عرصہ 1947 سے 1991 تک کا بتایا جاتا ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سرد جنگ جاری ہے۔ ہر ملک اپنے پڑوسی ملکوں کو دبانے اور ان کی زمین ہتھیانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

امریکہ کے نئے حریف
امریکہ اور روس کی روایتی دشمنی ابھی تک قائم ہے۔ ہر چند کہ روس بکھر کر کئی ٹکڑوں میں بٹ چکاہے لیکن آج بھی وہ نیوکلیائی اعتبار سے امریکہ کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین، شمالی کوریا اور ایران بھی نیوکلیائی طاقت بن کر ابھرے اور امریکہ کے لئے زبر دست چیلنج بن گئے۔ ایران نے ابھی تک اپنے کسی نیوکلیائی ہتھیار کی جانچ نہیں کی ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دنیا کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ایران ایک نیوکلیائی طاقت بن چکا ہے۔ وہ امن عالم کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسرائیل بھی یقینی طور پر نیوکلیائی طاقت کا حامل ملک ہے لیکن نہ تواس کے ذریعے کیا گیا کوئی دھماکہ ریکارڈ ہے اور نہ اس کی نیوکلیائی طاقت کو طشت ازبام کیاجارہاہے۔
ایک ٹی وی فلم
1983 میں ایک ٹی وی فلم بنائی گئی تھی جس کا نام تھا The Day After ۔ یہ فلم 20 نومبر 1983 کو اے بی سی ٹی وی نیٹ ورک سے ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی جسے بہ یک وقت 100 ملین لوگوں نے دیکھا۔ ٹی وی تاریخ میں یہ فلم آج تک کی سب سے زیادہ Rated فلم ثابت ہوئی ہے۔ اس فلم میں روایتی حریف امریکہ اور روس کے درمیان فرضی نیوکلیائی جنگ اوراس کے بھیانک انجام کو بڑی خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے۔ یہ فلم جرمنی کے میدانِ کارراز سے شروع ہوتی ہے۔ جرمنی کی پسیائی کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان پیچیدہ سیاسی اختلافات اور داؤں پیچ کے چلتے دونوں ملک ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا فیصلہ کرلیتے ہیں اور آزادانہ طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ فوجی اڈوں کے علاوہ نیویارک اور ماسکو اور دوسرے شہروں کے رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ فلم میں پے در پے الجھے ہوئے واقعات کو اس خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس جنگ میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال کی پہل کس نے کی؟
مختصر سی اس جنگ کے دوسرے دن (The Day After) دونوں ملکوں کی شہری آبادی پوری طرح تہس نہس دکھائی گئی ہے۔
اس فلم نے مقبولیت کے سابقہ سارے ریکارڈ توڑ دئے لیکن دونوں ملکوں کے سیاسی حلقوں میں اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا گیا۔ حکومت امریکہ نے خود کو عوامی مخالفت میں گھراپایا۔ آخر اس وقت کے صدر رونالڈ ریگن نے ریڈیو پر یہ پیغام دیا: ’’نیوکلیائی جنگ میں اگر امریکہ کو نقصان پہنچے گا تو روس کو اس سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا اور ہماری آزادی محفوظ رہے گی۔‘‘
روس کے وزیر اعظم خروشچیف نے اس فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ایک ایسی زندگی ہوگی کہ زندہ رہنے والے مردوں پر رشک کریں گے!‘‘

MAD
Nashنے نیوکلیائی ہتھیاروں کے تعلق سے ایک نظریہ پیش کیا ہے۔ جو نظریہ توازن (Equilibrium Theory) کہلاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق : ’’ایک دوسرے کے مدمقابل گروہ جب نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس ہوجاتے ہیں تو کسی کے پاس ایسا کوئی محرک (Incentive) نہیں ہوتا کہ وہ حزب مخالف پر حملہ کرنے میں پہل کرے یا خود کو ان ہتھیاروں سے پاک کرلے۔ لیکن اگر کسی ایک حزب نے اپنے دشمن پر حملہ کر ہی دیا تو اس کا انجام سوائے MAD کے اور کچھ نہیں۔ MAD کا مطلب ہے Mutual Assured Destruction یعنی یقینی مشترکہ تباہی۔
نیوکلیائی ہتھیاروں نے چھوٹے اور بڑے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر، امیر اور غریب ممالک کے فرق کو ختم کردیا ہے۔ ایک توازن قائم کردیا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا ملک بھی نیوکلیائی ہتھیاروں کے بل بوتے پر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو للکار سکتا ہے!!

نیوکلیائی بم کے ممکنہ نتائج
ماہرین نے نیوکلیائی جنگ کی تعریف اس طرح کی ہے:
’’نیوکلیائی جنگ کا مطلب ہے زمین سے انسانی نسل کا خاتمہ!‘‘
مستقبل میں اگر نیوکلیائی جنگ ہوتی ہے تو اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ ماہرین نے ذیل کے مطابق لیا ہے:
* انتہائی طاقتور نیوکلیائی ہتھیار یعنی ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم کے پھٹتے ہی اربوں انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں گے۔ جو بچ جائیں گے وہ بہت زیادہ زخمی اور اپاہج ہوں گے اور زخموں کی تاب نہ لاکر جلد ہی مرجائیں گے۔ ان میں سے بھی جو بچے رہیں گے انہیں تنفس کے لئے زہریلی اور تابکار مادوں سے آلودہ ہوا ملے گی۔
* ان دھماکوں کے نتیجے میں اتنا زیادہ دھواں اور دھول پیدا ہوگی کہ ساری فضا ان سے بھرجائے گی اور سور زکی کرنیں زمین تک پہنچ نہیں پائیں گی جس کی وجہ سے چوبیسوں گھنٹے اندھیرا اور زبردست ٹھنڈ کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ یہ حالت تقریباً تین ماہ تک جاری رہے گی۔
* اس دوران سورج کی کرنوں کے زمین تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے پودوں میں شعاعی ترکیب (Photosynthesis) کا عمل رک جائے گا۔ پودے اپنی غذا تیار نہ کرپائیں گے اور ختم ہوجائیں گے۔ پودوں پر منحصر رہنے والے حیوانات بھی غذا نہ ملنے کی وجہ سے بھک مری کا شکار ہوکر ختم ہوجائیں گے۔
* فضا میں شامل تابکار مادے اوزون کی تہہ کو زبردست نقصان پہنچائیں گے۔ جب تاریکی اور ٹھنڈ کا دور ختم ہوگا تو آسمان سے بالائے بنفشی شعاعوں (Ultra Violet Rays) کا عذاب نازل ہوگا۔ یہ شعاعیں نہ صرف جلدی کینسر پیدا کریں گی بلکہ DNA کو زبردست نقصان پہنچائیں گی اور بچے کچھے انسان بھی لقمۂ اجل بن جائیں گے۔ نتیجہ یہ کہ زمین پر انسانی نسل کا خاتمہ !!

تیری مرضی پہ اب بات ٹھہری
ہر بات آئینے کی طرح صاف ہے۔ ہر نیوکلیائی ملک نے اپنے نیوکلیائی ہتھیاروں کو ان کے ہدف کے لئے سادھ رکھا ہے۔ سرد جنگ اور توڑ جوڑ کی سیاست جاری ہے۔ امن کے حصول کے لئے جنگ کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ نفرتوں کا بازار گرم ہے۔ دنیا کے سب سے خطرناک کھیل کا نام ہے نسل انسانی کو صفحۂ ہستی سے مٹادینا۔ یہ کھیل کب شروع ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔ اس خطرناک کھیل کا ریموٹ کنٹرول سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ان حالات میں ایک عام آدمی کے دل کی آواز تو بس یہی ہے:
یہ ان کا کام ہے، اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368994
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development