باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا ----- لیکن
واپس چلیں

ایس ایس علی
جون 2014

باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا۔۔۔لیکن۔۔۔
اپنے کلامِ حکمت میں خالق حقیقی کا ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمآءِ کُلّ شَئٍ حیٍّ۔
(الانبیاء 30:21 )
(اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی)
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلّ دَابَۃٍّ مِّنْ مآءٍ۔
(النّور 45:24 )
(اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا)
جدید تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ زندگی کا آغاز سمندر میں ہوا۔ حالاں کہ سطح زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے لیکن ہماری توجہ سمندروں کی طرف کم ہی ہوتی ہے۔ ماحولیات کے تعلق سے جب بھی بات ہوتی ہے تو فضا، ارض، غذا اور قابلِ استعمال پانی کی آلودگی جیسے عنوانات زیرِ بحث آتے ہیں، سمندر کی آلودگی پر کم ہی غور کیا جاتا ہے۔
زندگی کا آغاز سمندر میں ہوا اور ایک طویل مدت کے دوران بے شمار نباتات وحیوانات نے سمندروں سے نکل کرخشکی کا رخ کیا اور بہت سے حیوات نے فضا ؤں میں اڑان بھری۔ یہ توافق (Adaptation) لاکھوں برس کے عرصے میں ہوا۔ ان جانداروں نے سمندر سے دوری تو اختیار کرلی لیکن سمندر انہیں کبھی نہیں بھولے۔ وہ برابر ان کی پرورش وپرداخت کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ آج بھی وہ اس کرۂ ارض پر زندگی کو بخوبی سہارادے رہے ہیں۔ انسان سمندروں سے بے شمار فائدے اٹھاتا چلا آرہا ہے۔ پرو ٹین اور نمکیات سے بھرپور غذا سمندروں سے حاصل ہوتی ہے۔ سمندری پانی پینے اور گھریلو استعمال کے قابل نہیں ہوتا لیکن اس کا استعمال توانائی کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔ زمین کے ہر خطے کے موسموں کا تعین سمندر ہی کرتے ہیں۔ دور دراز کے مقامات پر پہنچنے کے لئے سمندری راستوں سے سفر کیا جاتا ہے۔ تجارت اور سیاحت کے میدانوں میں سمندری راستے بے حد مفید ہیں۔ سمندروں سے معدنی تیل، گیس، نمک، سونا، ہیرے جواہرات، موتی اور دوسری قیمتی اشیاء حاصل کی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی سمندر کئی طرح سے انسان کے لئے فائدہ مند ہیں۔ لیکن انسان بڑا ہی ناشکرا واقع ہوا ہے۔ اپنی ہوس اور لالچ کے چلتے انسان نے سمندروں کو اس درجہ نقصان پہنچایا ہے کہ بس ان کے صبر کا پیمانہ چھلکنے ہی والا ہے۔ اب بھی اگر سمندروں کی تباہی پر روک نہیں لگائی گئی تو وہ دن دور نہیں جب سمندروں کے صبر کا بند ٹوٹ جائے گا، وہ اپنے آپے سے باہر ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں وہ تباہی آئے گی کہ جس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ سمندروں کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ہر سال 8 جون کو ساری دنیا میں عالمی یوم سمندر (World Oceans Day) منایا جاتا ہے۔

عالمی یومِ سمندر
انتہائی مایوس کن حالات میں ادارۂ اقوام متحدہ (UN) نے سمندروں کی حالتِ زار کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرنے کے ارادے سے 8 جون کے دن کو بطور عالمی یومِ سمندر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی یومِ سمندر کا تصور کینڈا نے 1992 کی Rio-de-Janerio Summit میں پیش کیا تھا۔ UN نے اس تصور کی حمایت کی اور دنیا کے کئی ملکوں نے 8 جون کو عالمی یومِ سمندر منانا شروع کردیا۔ 2008 میں UNنے اسے تسلیم کرلیا اور عالمی یومِ سمندر کا قیام عمل میں آگیا۔ پہلا عالمی یومِ سمندر 8 جون 2009 کو پورے اہتمام کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے اپنی تقریر میں کہا:
’’پہلے عالمی یومِ سمندر کے موقع پر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے سماج کے لئے سمندروں کی خدمات اور اہمیت کو اجاگر کریں۔ اس موقع پر ہم سمندروں کی حفاظت کے سلسلے میں درپیش مسائل کا ذکر بھی کریں۔ ہماری کوشش ہو کہ سمندر ہمیشہ کی طرح آب و ہوا اور موسموں کو بخوبی چلاتے رہیں اور اس کرۂ ارض پر زندگی کو ہمیشہ کی طرح سہارا دیتے رہیں۔‘‘
عالمی یوم سمندر کے موقع پر نوجوان نسل سے امید کی جارہی ہے کہ وہ سمندوں کی حفاظت کے لئے آگے آئیں۔ لہذا اس مرتبہ یہ تھیم منتخب کیا گیا ہے:
"Youth: the Nextwave for change"
(نوجوان نسل: تبدیلی کے لئے ایک دوسری لہر!)

سمندروں پر اثر انداز ہونے والے عوامل
گزشتہ چند دہائیوں میں سمندروں پر بہت ظلم ہوا ہے۔ کارخانۂ قدرت کے تحفظ کے لئے کوشاں ادارے (International Union for Conservation of Nature)کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں سمندروں کی تباہی کی شرح ماضی میں لگائے گئے تحمینے سے کہیں زیادہ بڑی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں انسانی سرگرمیوں نے سمندروں کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ عنقریب ہی ان میں ایسی تبدیلیاں آئیں گی کہ پھر ان کا اپنی اصلی حالت پر لوٹنا ممکن نہ ہوگا۔ اس صورت میں سمندر تباہ کن رخ اختیار کریں گے۔ سمندروں کو اس حالت تک پہنچانے کے ذمہ دار بے شمار عوامل میں سے چند یہ ہیں۔

(1) گلوبل وارمنگ
گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سمندروں کے پانی کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیرس پگھل رہے ہیں اور سمندروں کی سطح آب میں اضافہ ہورہا ہے۔ قدرت کی مقرر کردہ حد بندی کو توڑ کر سمندر خشکی کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں مستقبل میں بہت سے جزیروں کے ڈوب جانے کا خطرہ بنا ہوا ہے۔

(2) کاربن ڈائی آکسائیڈ
صنعتی انقلاب کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اضافی مقدار فضا میں شامل ہورہی ہے۔ یہ نہ صرف فضا کی آلودگی کا سبب ہے بلکہ سمندری پانی کو تیزابی بھی بنارہی ہے۔ سمندری پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے کاربونک ایسڈ تیار کرتا ہے جو سمندری نباتات اور حیوانات کے لئے مضر ہے۔

(3) زراعتی بیکار مادے
نائٹروجنی کھادیں اور کیڑے مار دوائیاں جو زراعت میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہیں، بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر سمندروں میں پہنچ جاتی ہیں اور سمندری پانی میں جذب شدہ آکسیجن کو نقصان پہنچاتی ہیں، جس کے نتیجے میں سمندری زندگی مجروح ہوتی ہے۔

(4) سمندروں کو ہتھیانا
مچھلی صنعت کی ترقی کے نتیجے میں مچھلی پکڑنے کے لئے بڑے بڑے دیوپیکر جہاز وجود میں آئے جو بڑی تیزی کے ساتھ مچھلی کے ذخائر کو ختم کررہے ہیں۔ اس غیر فطری عمل کے لئے حال میں ایک نئی اصطلاح ’’سمندروں کو ہتھیانا‘‘ (Ocean Grabbing) وجود میں آئی ہے۔

سات سمندر
’’سات سمندر پار‘‘ یہ اصطلاح طول طویل اور دور دراز کے مقامات کے سفر کے لئے بطور استعارہ استعمال کی جاتی ہے، بھلے ہی اس سفر میں ایک بھی سمندر کو پار نہ کرنا پڑے! قدیم زمانے سے یہ استعارہ سائنس اور جغرافیہ سے زیادہ ادب میں استعمال کیا جارہا ہے۔ دل کو چھولینے والا بچیوں کا یہ خوبصورت گیت اسی استعارے پر مبنی ہے:
سات سمندر پار سے
گڑیوں کے بازار سے
اچھی سی اک گڑیا لانا
پاپا جلدی آجانا
انگریزی ادب میں بھی Across the seven seas بطور Metaphor مستعمل ہے۔
سائنسی نقطۂ نظر سے کرۂ ارض پر پانچ ہی سمندر پائے جاتے ہیں:
(1) بحرِ منجمد شمالی Artic Ocean
(2) بحرِ اوقیانوس Atlantic Ocean
(3) بحرہند Indian Ocean
(4) بحرِ الکاہل Pacific Ocean
(5) بحرِ منجمد جنوبی Southern Ocean
لیکن بعض لوگ سمندروں کی تعداد سات بتاتے ہیں:
(1) بحرہند Indian Ocean
(2) بحرمنجمد شمالی Arctic Ocean
(3) بحرمنجمد جنوبی Antartic Ocean
(4) بحرِ الکاہل شمالی North Pacific Ocean
(5) بحرِ الکاہل جنوبی South Pacific Ocean
(6) بحرِ اوقیانوس شمالی North Atlantic Ocean
(7) بحرِ اوقیانوس جنوبی South Atlantic Ocean

سمندرکیا ہے؟
آسمان وزمین میں بکھری اللہ کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک سمندر (Ocean) ہے۔ بہت بڑے نمکین ذخیرۂ آب کو سمندر کہتے ہیں۔ سیارۂ زمین کے کرۂ آب (Hydrosphere) کا بیشتر حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔ سمندر سطح زمین کے دو تہائی حصے کو ڈھکے ہوئے ہیں۔ سمندروں کو رقبے کی اترتی ترتیب کے لحاظ سے ذیل کے مطابق رکھا جاسکتا ہے۔
سمندر
رقبہ
ملین مربع کلو میٹر
اوسط گہرائی میٹر
حجم
ملین مکعب کلو میٹر
(1) بحرِالکاہل
(2) بحرِ اوقیانوس
(3) بحرِ ہند
(4) بحرِ منجمد جنوبی
(5) بحرِ منجمد شمالی
155.6
76.8
68.5
20.3
14.1
4,300
3,900
3,900
4,500
1,300
679.6
313.4
269.3
91.5
17.0
نظامِ شمسی میں زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جس کی سطح پر سمندر پائے جاتے ہیں۔ دوسرے سیاروں پر پانی کی موجودگی ابھی امکان کے مرحلے میں ہی ہے۔
سمندروں کا نمکین پانی سطح زمین کے 72 فیصد حصّے کو گھیرے ہوئے ہے جب کہ زمین پر موجود کل پانی کا 97 فیصد سمندروں میں پایا جاتا ہے جس کی پیمائش 1.3 بلین مکعب کلومیٹر ہے۔ زمین کا آبی کرہ زیادہ تر سمندروں پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر زمین پر موجود زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
سمندر کاربن کے چکّر (Carbon Cycle)، پانی کے چکّر (Water Cycle) ، آب وہوا، موسم اور زندگی کے تمام افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سمندروں میں جانداروں کی دولاکھ تیس ہزار انواع پائی جاتی ہیں۔ یہ صرف اس صورت میں کہ ماہرین سمندر (Oceanographers) کے مطابق ابھی سمندروں کا صرف 5 فیصد گہرا مطالعہ (Exploration) ہوپایا ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ ان دریافت شدہ انواع کے علاوہ سمندروں میں 20 لاکھ انواع موجود ہیں جن کی دریافت اور مطالعہ ابھی باقی ہے! سطح زمین پر سمندر کس طرح وجود میں آئے جدید سائنس ابھی تک اس سوال کا جواب ڈھونڈ نہیں پائی ہے۔
مختلف ناموں سے سمندروں کی تقسیم، ان کی پہچان اور مطالعہ میں آسانی کے لئے ہے، ورنہ دنیا کے نقشے اور گلوب پر ایک نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ تمام سمندر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے (Interconnected) ہیں۔ اور سب مل کر ایک ’’عالمی سمندر‘‘(World Ocean یا Global Ocean) کی تشکیل کرتے ہیں۔ نمکین پانی کا یہ مسلسل وجود (Continuous Body of Water) ، مطالعہ سمندر (Oceanography) میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مطالعۂ سمندر میں ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ خشکی کے حصے سمندروں کو ایک دوسرے سے ممتاز نہیں کرتے بلکہ سمندر خشکی کے حصوں کو متفرق بر اعظموں میں بانٹتے ہیں:
(1) بحرِ الکاہل ایشیا اور امریکہ کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے۔
(2) بحرِ اوقیانوس امریکہ کو یوریشیااور افریقہ سے ممیز کرتا ہے۔
(3) بحرِ ہند افریقہ اور آسٹریلیا کو جدا کرتا ہے۔
(4) بحرِ منجمد جنوبی انٹارکٹیکا کو پوری طرح گھیرے ہوئے ہے یعنی اسے دنیا کے بقیہ حصوں سے کاٹ دیتا ہے۔
(5) بحرِ منجمد شمالی، شمالی امریکہ اور یوریشا کو دنیا کے بقیہ حصوں سے الگ کر دیتا ہے۔
سطح زمین پر پانی کی کل مقداراب تک کی تحقیق کے مطابق
1,400,000,000,000,000,000 میٹر ٹن یعنی 1.4x1021 کلو گرام ہے جو زمین کی کمیت (Mass) کا 3 فیصد سے کچھ کم ہے۔ کل پانی کا صرف 3 فیصد حصہ تازہ پانی (Fresh Water) ہے۔ یہ پانی قابلِ استعمال ہے۔ باقی حصہ نمکین پانی ہے جو زیادہ تر سمندروں پر مشتمل ہے۔عالمی سمندر کا رقبہ 361 ملین مربع کلومیٹر ہے اور اس کا کل حجم 1.3ملین مکعب کلومیٹر ہے۔ عاملی سمندر کی اوسط گہرائی 3,790 میٹر اور زیادہ سے زیادہ گہرائی 10,923 میٹر ہے۔
سمندر کا نیلا رنگ بہت سارے عوامل کی وجہ سے ہے جن میں حل شدہ نامیاتی مادے اور کلوروفل خاص ہیں۔ ملاحوں اور جہاز رانوں کا تجربہ ہے کہ اندھیری راتوں میں اکثر سمندروں سے ایک تجلّی (Luminescence/glow) کا اخراج ہوتا ہے جو کئی کلومیٹر کے علاقے تک پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ 2005 میں کچھ سائنسدانوں نے اس سمندری تجلّی کے فوٹو گرافس لے کر اس کا ثبوت مہیا کیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تجلّی جگنو کی طرح کے سمندری جانداروں کے اخراجِ نور کی وجہ سے ہے۔
زمانہ قبل ازتاریخ سے سمندروں اور دریاؤں میں کشتیوں کے ذریعہ سفر کرنے اور مال و اسباب کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنے کا چلن رہا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی کشتیوں کے ذریعہ انسان کے فائدے کی چیزوں کی منتقلی کا ذکر ہے۔ انسانی تاریخ کے اہم موڑ میں کشتی نوح ؑ مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔ اب نئے زمانے میں زیر آب سفر (Underwater Travel) ممکن ہوگیا ہے۔ سمندری رویں (Ocean Currents) زمین کی آب و ہوا پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ وہ منطقہ حارّہ (Tropics) سے حرارت کو قطبی علاقوں (Polar Regions) کی طرف منتقل کرتی ہیں۔
سمندر کے پانی کی تبخیر (Evaporation) پانی کے چکّر کا ایک حصہ ہے جو بارش کا سبب بنتا ہے۔ سمندر کا درجۂ حرارت زمین پر آب و ہوا (Climate) اور موسم (Weather) کا ذمہ دار ہے، جو زمین پر پائی جانے والی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
خشکی پر زندگی کی شروعات سے 3 بلین سال قبل سمندر میں زندگی کا آغاز و ارتقاء ہوا۔ سمندر کی گہرائی اور سمندر سے دوری، حیاتی تنوع (Biodiversity) کی ذمہ دار ہیں۔
سمندروں میں پائے جانے والے جانداروں میں سے چند یہ ہیں:
(1) مچھلی (Fish)
(2) Radiata جماعت جس میں جیلی فش شامل ہے۔
(3) Cetacea جماعت جو آکٹویس اور Squid جیسے حیوانات پر مشتمل ہے۔
(4) Cephalods جماعت جو آکٹویس اور Squid جیسے حیوانات پر مشتمل ہے۔
(5) Crustaciansجیسے جھینگے (Lobsters) اور Krill۔
(6) سمندری دورے (Marine Worms) ۔
(7) خوردبینی سمندر جاندار (Planktons) ۔
(8) Echinoderms مثلاً تارا مچھلی (Star Fish)، Brittle Star ، Sea Cucumber وغیرہ۔

فضا میں موجود چند گیسیں سمندر کے پانی میں خاص مقدار میں حل ہوجاتی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) سمندری پانی میں 15 فیصد تک حل ہوتی ہے۔ نائٹروجن (N2) 48 فیصد اور آکسیجن (O2) 36فیصد تک حل ہوتی ہے۔ گیسوں کی حل پذیری سمندری پانی کے درجۂ حرارت پر منحصر ہوتی ہے۔ کم تپش پر زیادہ اور زیادہ تپش پر کم مقدار میں یہ گیسیں حل ہوتی ہیں۔
سمندر میں تبخیر کا عمل (Evaporation)اوراس میں پانی کی شمولیت (Precipitation)ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں سمندر کا حجم تقریباً مستقل رہتا ہے۔ زمین کے مختلف علاقوں میں فضا کی تپش کے زیر اثر یہ دونوں اعمال کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔
سمندر کے ایک لیٹر پانی میں 30 سے 35 گرام نمک موجود ہوتا ہے۔ نمک کی موجودگی سے سمندری پانی کی کثافت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس میں تیرنا آسان ہوتا ہے۔ تمام سمندروں کا پانی یکساں طور پرنمکین نہیں ہوتا۔ منطقۂ حارّہ یعنی خطِ سرطان اور خطِ جدّی کے درمیان واقع سمندر زیادہ نمکین ہوتے ہیں۔
ساری دنیا کے ساحلوں کی مجموعی پیمائش 2,17,600 کلومیٹر ہے۔ ہر ملک کو اپنے ساحلِ سمندر سے 320 کلومیٹر دور تک کے پانی پر مالکانہ حق حاصل ہے۔ اس کے بعد کا علاقہ پوری دنیا والوں کا مشترکہ حصّہ ہے۔
سمندر کا پانی ساکن نہیں رہتا۔ اس میں کئی طرح کی حرکات ہوتی رہتی ہیں۔ یہ حرکات تین طرح کی ہیں، لہریں (Waves) ، رویں (Current) اور مدوجزر (Tides) ۔ سمندروں میں زلزلے، طوفان اور سنامی آتے رہتے ہیں جن کی ایک طویل داستان ہے!

GPGP
استعمال کرو اور پھینکو (Use and throw) طرزِ زندگی نے سمندروں پر قہر ڈھایا ہے! پلاسٹک کی تھیلیاں، پیکٹ، بوتلیں اور ڈبے وغیرہ جو استعمال کے بعد پھینک دئے جاتے ہیں، ایک طویل سفر کرکے سمندروں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ تیرتے ہوئے پیوند (Patch) کی صورت اختیار کرلیتے ہیں ان کے حجم میں لگاتار اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ تیرتے ہوئے پیوند سمندری زندگی کے لئے بے حد مضر ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بہت بڑا پیوندہوائی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو ہوائی اور کیلی فورنیا سے تقریباً 700 کلومیٹر دوری پر براجمان ہے۔ اسے GPGP یعنی Great Pacific Garbage Patch کا نام دیا گیا ہے۔ سمندری کچرے کا یہ پیوند پلاسٹک کے Soup کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس علاقے میں پائی جانے والی مچھلیوں کی غذائی نالیوں میں پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ GPGP کے مطالعے میں 6 سینٹی میٹر کی ایک مچھلی کی غذائی نالی میں سب سے زیادہ 84 ٹکڑے پائے گئے۔ 1.5 ملین سمندری حیوانات ہر سال پلاسٹک کے سبب مر جاتے ہیں۔
سمندری کچرے میں پلاسٹک کے علاوہ دوسری اشیاء بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر سال سمندروں سے لاکھوں ٹن کچرا نکالا جاتا ہے لیکن پھر اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ کچرا ان میں جمع ہوجاتا ہے۔

سمندرکا سکوت
بہت زیادہ صبروتحمل اور برداشت کے لئے سمندر سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ سمندر کا سکوت بطور استعارہ بھی بجا طور پر استعمال کیا جاتا ہے:
کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
لیکن صبر و برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سمندر کی خاموشی ایک بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے۔ فارسی میں کہاوت ہے:
تنگ آمد، بہ جنگ آمد
اب بھی اگر انسان اپنی عاقبت نااندیشانہ حرکتوں سے باز نہ آیا تو وہ دن دور نہیں جب سمندر اپنے آپے سے باہر ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر بشیر بدر بھی انسان کی اس کوتاہ بینی کے شاکی ہیں:

آنکھوں میں رہا دل میں اترکر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371774
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development