گرین نینو ٹکنالوجی
واپس چلیں

ایس ایس علی
مئی 2014

گرین نینو ٹکنالوجی
ٹکنالوجی کا لفظ سنتے ہی ہمارے تصور میں بڑے بڑے کارخانے، ملیں، پرنٹنگ پریس اور فیکٹریاں آجاتی ہیں۔ساتھ ہی ان میں تیار ہوکر نکلنے والے بڑے بڑے بحری و ہوائی جہاز، لمبی لمبی ٹرینیں، دیوپیکر مشینیں، بسیں، ٹرکس وغیرہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ لیکن اگر آج کوئی یہ کہے کہ لاکھوں سال قبل ابتدائی انسان نے شکار اور اپنی حفاظت کے لئے پتھر کے جو ہتھیار بنائے تھے، ٹکنالوجی کی ابتداء وہاں سے ہوئی ہے، تو ہمارا ذہن اس بات کو قبول نہیں کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ٹکنالوجی کو اس کے عروج کی حالت میں دیکھا ہے۔ بھیونڈی کے مشہور شاعر معصوم انصاری (مرحوم) کہتے ہیں:
ہم تو اس گاؤں کے باسی ہیں جہاں آج بھی لوگ
چاک دیوار کو مٹی سے رفو کرتے ہیں
چاک دیوار کومٹی سے رفو کرنا بھی ٹکنالوجی ہے۔ یہ بھی ایک آرٹ ہے۔ اس میں بھی مہارت کی ضرورت ہے۔ کمہار کا مٹی سے مٹکے اور برتن بنانا قدرے ترقی یافتہ ٹکنالوجی ہے۔ آج ہمارے استعمال کی ہر چیز ٹکنالوجی کی دین ہے۔ لیکن اگر آج ہر طرف ٹکنالوجی کی جلوہ نمائی ہے تو پھر سائنس کہاں ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لئے ہمیں Online Science Dictionaryسے رجوع کرنا ہوگا جو ٹکنالوجی کی تعریف اس طرح کرتی ہے:
The use of scientific knowledge to solve practical problems, espacially in industry and commerce.

یعنی صنعت اور معیشت کے عملی مسائل کو حل کرنے کے لئے سائنسی معلومات کا استعمال ٹکنالوجی کہلاتا ہے۔آکسفورڈ ڈکشنری بہت کم الفاظ میں ٹکنالوجی کی تعریف اس طرح کرتی ہے:
Knowledge and use of the mechanical art and applied sciences.
یعنی میکانکی فن اور عملی سائنس کی معلومات اور استعمال کا نام ٹکنالوجی ہے۔ البتہ لفظ ٹکنالوجی یونانی مرکب لفظ Techne-logia سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں فن، مہارت، کاری گری۔
ٹکنالوجی کی کئی قسمیں ہیں مثلاً تعمیراتی ٹکنالوجی، میڈیکل ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی، نینو ٹکنالوجی وغیرہ۔
ٹکنالوجی کی تاریخ بہت قدیم ہے، اتنی ہی قدیم جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قرآنِ حکیم میں مذکورہابیل و قابیل کا قصہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مردے دفن کرنے کی ٹکنالوجی ایک کوے کے ذریعے سکھائی!
فی الحال دو قسم کی ٹکنالوجی عروج پر ہے۔ ایک انفارمیشن ٹکنالوجی، دوسری نینو ٹکنالوجی۔
ٹکنالوجی کی دنیا میں 11 مئی کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن ساری دنیا میں یومِ ٹکنالوجی منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں اسی دن قومی یومِ ٹکنالوجی بھی منایا جاتا ہے۔ 11 مئی 1988 کو پوکھرن کے مقام پر نیو کلیر ٹسٹ کامیابی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اسی دن بنگلور میں Hansa 3 اور Trishul میزائلوں کا بھی کامیاب ٹسٹ کیا گیا تھا۔ ان میزائلوں میں استعمال ہونے والے سبھی کل پرزے ملک میں ہی تیار کئے گئے تھے۔

نینو ٹکنالوجی
ٹکنالوجی نے انسانی زندگی اور معاشرے کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ زندگی بہت زیادہ تیز رفتار اور آرام دہ ہوگئی ہے۔ دشواریوں میں کمی اورآسانیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ٹکنالوجی نے بہت سے مسائل بھی کھڑے کر دئے ہیں۔ ان حالات میں نینو (Nano) کے نام سے جو ٹکنالوجی وجود میں آئی ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ نینو کا تصور 1959 میں امریکی ماہر طبیعیات Rechard P. Feyman نے دیا۔ نینو ٹکنالوجی سائنس کی ایک شاخ ہے جس میں مادّے کی ان خصوصیات کا استعمال کیا جاتا ہے جو وہ اپنی مہین ساختوں میں ظاہر کرتے ہیں۔ مادے کی مہین ساخت کا مطلب ہے اس کے ذرات کا 10-9 میٹر کی جسامت کا ہونا۔ جو اشیا ہم اپنے اطراف دیکھتے ہیں ان کے مقابلے میں نینو ذرات کی جسامت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نینو ٹکنالوجی کا استعمال کرکے مکمل انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی ضخیم 35 جلدوں کو ایک پن کی نوک پر رکھا جاسکتا ہے! انسانی تاریخ میں آج جتنا کچھ مواد شائع شدہ اور غیر شائع شدہ موجود ہے اسے اس تکنیک کے ذریعہ عام سائز کے 35 صفحات میں سمویا جاسکتا ہے!! مادّہ اپنی جوہری اور سالماتی حالت میں جن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ان ہی خصوصیات کا استعمال نینو ٹکنالوجی میں کیا جاتا ہے۔ نینو ٹکنالوجی پر دسترس حاصل کرنے کے لئے Solid State Physics اور بعض دوسرے سائنسی علوم کا گہرا مطالعہ ضروری ہے۔ نینو مادوں میں بعض ایسی خصوصیات اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو آج کے ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

گرین نینو ٹکنالوجی
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے ہر ملک کے سامنے ایک چیلینج بنی ہوئی ہے۔ وسائل میں بھی لگاتار اضافہ ہورہا ہے، لیکن رفتار دھیمی ہے۔ آبادی میں اضافے کی شرح بندی (Geometrical) ہے جب کہ وسائل میں اضافہ کی شرح حالی (Arithmetical) ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مانگ اور رسد کے مابین فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انسان کی بڑھتی ہوئی ضروریات میں پانی، غذا، کپڑا، مکان، ٹرانسپورٹ، روزمرہ کے استعمال کی اشیاء، سماجی خدمات اور توانائی یعنی بجلی شامل ہیں۔ قدرتی وسائل کا تیزی کے ساتھ خاتمہ ہورہا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کو تیزی سے ابھرتی ہوئی ایک تکنیک میں تلاش کیا جارہا ہے جس کا نام ہے گرین نینو ٹکنالوجی۔ گرین نینو ٹکنالوجی مستقبل قریب میں صاف پانی، بجلی اور صحت بخش ماحول فراہم کرے گی۔
گرین نینو ٹکنالوجی جن علاقوں میں پیش رفت کررہی ہے ان میں سے ایک اہم علاقہ پانی ہے۔ انسانوں کے لئے قابل استعمال پانی کا انتظام ساری دنیا کے سامنے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پینے کے لئے، کھانا پکانے کے لئے اور نہانے دھونے کے لئے پانی کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ یہ پانی کا گھریلو استعمال ہے۔ لیکن توانائی کی پیداوار، فصلوں کی سنچائی اور صنعتوں کے لئے پانی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ سطح زمین پر پانی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصّہ قابلِ استعمال نہیں ہے۔ پانی کے زیادہ تر ذخیرے نامیاتی اور غیر نامیاتی آلائندوں سے آلودہ ہوتے ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں کے پانی میں نمک کی شمولیت اسے ناقابلِ استعمال بنا دیتی ہے۔
آلودہ اور نمکین پانی کو قابلِ استعمال بنانے کی راہ میں حائل مسائل کو حل کرنے کے لئے سائنسداں ان دنوں گرین نینو ٹکنالوجی کو اپنی امید کا مرکز بنا رہے ہیں۔ اس سمت میں ریسرچ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

پانی کی تخلیص
معاشی سطح پر پانی کی تخلیص کئی طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ان میں طبعی اعمال، کیمیائی اعمال اور حیاتیاتی اعمال شامل ہیں۔ پانی کس مقصد کے لئے صاف کیا جارہا ہے، اسے پیش نظر رکھ کر اس کی صفائی کے طریقے طے کئے جاتے ہیں۔ ہر طریقے میں پانی میں موجود آلائندے پانی سے الگ کر لئے جاتے ہیں۔ لیکن کسی بھی طریقے سے پانی کی صد فی صد تخلیص ممکن نہیں ہے۔ ہر طریقے میں کوئی نہ کوئی تکنیکی خرابی پائی جاتی ہے۔ بعض طریقوں میں خرچ بہت آتا ہے تو بعض دوسرے طریقوں میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ گرین نینو ٹکنالوجی ان مسائل کے حل کے لئے آگے آرہی ہے۔
پانی کی صفائی کے لئے گرین نینو ٹکنالوجی، نینو اشیاء (Nanomaterials) کا استعمال کرتی ہے۔ مثلاً کاربن نینو نلیاں (Carbon Nanotubes) اور Alumina Fibres ۔ پانی کی صفائی کا یہ طریقہ نینو تقطیر (Nano Filteration) کہلاتا ہے۔ نینو تقطیر میں خاص قسم کی جھلیوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے جنہیں Zeolite Filteration Membranes کہتے ہیں۔ ان جھلیوں میں نینو مسامات (Nanopores) ہوتے ہیں جن سے خالص پانی گزر جاتا ہے مگر آلائندے روک لئے جاتے ہیں۔ نینو تماسی عامل (Nonacatalysts) اور مقناطیسی نینو ذرات (Magnetic Nanoparticles) کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
پانی میں موجود آلائندوں کی شناخت اور ان کے تجزیے کے لئے نینو محسوسیے (Nanosensors) مثلاً Titanium Oxide Nanowires اور Palladium Nanoparticles کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ محسوسیے پانی کا معیار (Quality) طے کرنے میں استعمال کئے جاتے ہیں۔
گرین نینو ٹکنالوجی میں نینو جاذب (Nano Absorbants) کا بھی استعمال کیا جاتا ہے جو آلودہ پانی میں موجود Anions اور Cations اور نامیاتی آلائندوں کو جذب کرکے پانی کی صفائی کرتے ہیں۔ جھیلوں اور تالابوں کے پانی کی صفائی کے لئے نینو جاذب زیادہ موزوں ہیں نینو جاذب ندی کے پانی سے بیکٹیریا، امراض پیدا کرنے والے جراثیم (Pathogens) اور زہریلے مادوں کو الگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ندیوں، سمندروں اور دریاؤں کے پانی میں پائے جانے والے زہریلے مادے مثلاً آرسینک، سیسہ اور کیڈمیم اورلیس دار مادے مثلاً تیل وغیرہ کو بھی پانی سے الگ کرنے کے لئے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تیل سے لدے ٹینکر اکثر حادثے کا شکار ہوجاتے ہیں اور سطح سمندر پر تیل کی تہہ جم جاتی ہے جو آبی نباتات اور حیوانات کے لئے مضر ثابت ہوتی ہے۔ کاربن نینو نلیوں سے بنی جھلیاں Carbon Nanotube Membranes) چھلنی کی طرح کام کرتی ہیں اور سمندری پانی سے تیل کو الگ کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس سمت میں بھی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
بعض نینو ذرات (Nanoparticles) بیکٹیریا، وائرس اور پیتھوجنس کو بے اثر کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں (Nanobiocides) کہتے ہیں۔ ان کے استعمال سے پانی میں کوئی نقصان دہ ذیلی ماحصل (Byproducts) پیدا نہیں ہوتے۔
ان دنوں نینو تقطیر (Nanofilteration)سسٹمس کی تیاری میں صنعتیں بڑے پیمانے پر روپیہ خرچ کررہی ہیں۔ یہ طریقہ آسان، کم خرچ اور کم وقت کے اصول پر مبنی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک گرین نینو ٹکنالوجی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ابھی اس سلسلے میں معلومات اور تربیت یافتہ ماہرین کی کمی ہے۔ پھر یہ کہ مستقبل میں گرین نینو ٹکنالوجی کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ماہرین کے ذہنوں میں شکوک بھی ہیں اور بہت سے ایسے سوالات بھی جن کا تشفی بخش جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368780
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development