نیند: اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
واپس چلیں

ایس ایس علی
مارچ 2014

نیند: اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔۔۔!

قرآن کریم کی 6666 آیتوں میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 255 یعنی آیت الکرسی عظیم ترین آیت ہے۔ یہ آیت 10 چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ہے۔ اس کا تیسرا جملہ یہ ہے:
لاَ تَاخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ
اس کا لفظی ترجمہ ہے: ’’نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند‘‘
یعنی اس کو (اللہ تعالیٰ کو) نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کی کمزوری، کمی، خامی اور عیب سے پاک ہے۔ ’’اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘‘ اس جملے سے ظاہر ہورہا ہے کہ اونگھ اور نیند کمزوری اور بودے پن کی علامت ہے۔ اونگھ نیند کے ابتدائی آثار میں سے ہے۔ اونگھ کے بعد انسان مکمل طور پر نیند کی آغوش میں سما جاتا ہے۔
خود خالقِ کائنات اپنی تخلیقِ اشرف کے بارے میں فرماتا ہے:
وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً (النساء 28 :)
یعنی انسان کمزورپیدا کیا گیا ہے۔ لیکن انسان کی یہی کمزوری اور بودا پن یعنی نیند اس کے لئے ایک نعمت ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا نَوْ مَکُمْ سُبَاتاً (النساء 9 : 78)
یعنی ہم نے تمہاری نیند کو (تمہارے لئے) باعثِ سکون بنایا۔
اس جملے میں نیند کی حکمت بیان کی جارہی ہے کہ انسان تلاش معاش میں دن بھر دوڑ دھوپ کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔ اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف آرام تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس میں نیند کا ایسا داعیہ رکھا کہ چند گھنٹوں کی نیند اسے پھر سے تروتازہ کردیتی ہے اور وہ پھر سے اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہوجاتا ہے۔
عام حالات میں نیند ایک غیر ارادی عمل ہے۔ انسان کے جسم کو جب مکمل آرام کی ضرورت ہوتی ہے تو اس پر نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ اگر آدمی نیند سے پوری طرح مغلوب ہوجائے تو پھر وہ تختۂ دار پر بھی سوجاتا ہے! انسان نہ اپنی مرضی سے سوسکتا ہے اور نہ نیند پوری ہونے پر اسے جاری رکھ سکتا ہے۔
نیند کے میکنیزم کو آج تک کوئی سمجھ نہیں سکا۔ البتہ اس کی ماہیت کو جاننے کی کوشش ہوتی رہتی ہیں۔ سائنس اور نفسانیت کی بے انتہا ترقی کے باوجود نیندسے متعلق کیا؟ کیوں؟ کیسے؟ کب؟ کہاں؟ ۔۔ ہر سوال کا جواب ابھی تک ادھورا ہے۔ بے شک نیند اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔
عام طور پر انسان کی تین بنیادی ضرورتیں بتائی جاتی ہیں۔۔۔ روٹی، کپڑا اور مکان۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی جسم کو پیاس بجھانے اور بھوک مٹانے کے بعد نیند کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ کھانے، پینے کے مقابلے میں انسان سونے میں زیادہ وقت صرف کردیتا ہے۔ ایک رات کی بے خوابی انسان کے جسمانی اور جذباتی اعمال و افعال پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
حیاتیاتی طور پر (Biologcally)نیند نیم آگاہی (Semiconscious)کی حالت ہے جو ایک مخصوص وقت پر انسان پر طاری ہوتی ہے۔ لیکن یہ انسان کو صد فی صد مغلوب کرنے والی حالت نہیں ہے کیوں کہ نیند کے دوران جسم کے تمام افعال جاری رہتے ہیں، البتہ ان کی رفتار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
نفسیاتی سطح پر (Psychologically) نیند مکمل بے حسی کی حالت نہیں ہے۔ ایک عورت ایسی گہری نیند سوتی ہے کہ گھر سے باہر چھوڑے جانے والے پٹاخے یا ڈی۔جے کی تیز آواز اسے بیدار نہیں کرسکتی لیکن اس کے نوزائیدہ بچے کی ہلکی سی چیخ اسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ نیند کے غیر ارادی ہونے کے باوجود لوگ مقررہ اوقات پر سونا اور جاگنا چاہیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ نیند سے جاگنے میں ارادے کا بھی دخل ہے۔ انسان کے دماغ میں موجود حیاتیاتی گھڑی (Biological Clock) اسے مقررہ وقت پر جگا دیتی ہے۔

عالمی یومِ نیند
ایک اندازے کے مطابق دنیا کی 45 فیصد آبادی نیند کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ نیند کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور نیند سے متعلق بعض اہم موضوعات پر غور و فکر کرنے کے لئے ہر سال مارچ کے تیسرے جمعہ کو عالمی یومِ نیند (World Sleep Day)منایا جاتا ہے۔ اہم موضوعات جو اس دن زیر بحث آتے ہیں وہ ہیں خواب آور دوائیاں، نیند سے متعلق تعلیم، نیند کے سماجی پہلو اور ڈرائیونگ وغیرہ۔ عالمی یومِ نیند کا نظم (World Association of Sleep Medicine (WASM) کی World Sleep Day Committee کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ سماج میں پائے جانے والے نیند سے متعلق مسائل کو حل کیا جائے۔ یہ دن 2008 سے منایا جارہا ہے۔ چنانچہ مارچ 2008 کا تیسرا جمعہ 14 تاریخ کو تھا، لہذا 14 مارچ 2008 کو پہلا عالمی یومِ نیند منایا گیا۔ اتفاق سے امسال بھی مارچ کا تیسرا جمعہ 14 تاریخ کو آرہا ہے۔
بھرپور نیند افراد کو صحت مند رکھتی ہے۔ صحت مند افراد ہی صحت مند معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں۔ عوام کو نیند پر اثر انداز ہونے والے عوامل مثلاً ڈروخوف، فکروپریشانی، شراب و تمباکو کی لت، معاشی بدحالی وغیرہ سے چھٹکارا دلانے کے لئے ورلڈ سلیپ ڈے کمیٹی کوشاں ہے۔ پوری دنیا میں عالمی یوم نیند کے موقع پرسیمنارز، فلم شوز، ڈاکومنٹریز، لیکچرز اور دیگر سرگرمیاں ہو جاتی ہیں۔
WASMنے عالمی یومِ نیند کے موقع پر ایک اعلان نامہ (Declaration) مشتہر کیا ہے جو اس طرح ہے:
۔ جب کہ خوابیدگی (غنودگی) (Sleepiness) اور بے خوابی (Sleeplessness)عالمی وبا کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور عوامی صحت و زندگی کو متاثر کررہی ہیں۔
۔ جب کہ خوابیدگی اور بے خوابی سے چھٹکارا پانے کے لئے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
۔ جب کہ پیشہ ورانہ مہارت اور آگاہی (Awareness) کامیابی کی جانب پہلا زینہ ہے۔
۔ ہم اس بات کا اعلان (مطالبہ) کرتے ہیں کہ نیند کے امراض اور بے قاعدگیاں قابلِ علاج ہوں اور دنیا کے سارے ممالک میں دوائیوں کی رسد بہم پہنچے۔
عرصۂ نیند
نیند کا عرصہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے۔نوزائدہ بچہ زیادہ وقت سوتے ہوئے گزارتا ہے۔ 6 ماہ کی عمر میں یہ عرصہ گھٹ کر 18 گھنٹے ہوجاتا ہے۔ ایک سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے بچہ 13 گھنٹے سوتا ہے۔ 3 سال کی عمر تک اس کا عرصۂ نیند 10 گھنٹے رہ جاتا ہے۔ 10 گھنٹے کا عرصۂ نیند عنفوانِ شباب (Adolescence) تک قائم رہتا ہے۔ پھر اس کے بعد یہ عرصہ کم ہوتے ہوتے 8 گھنٹے رہ جاتا ہے۔ اب 50 برس کی عمر تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ درازی عمر اپنے ساتھ امراض اور بے قاعدگیوں کا پٹارا بھی لاتی ہے۔ ذمہ داریاں اور پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان باتوں کا براہِ راست اثر نیند پر پڑتا ہے اور عرصۂ نیند اور کم ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ اعدادو شمار حتمی نہیں ہیں۔ بعض لوگ بڑی عمر میں بھی 10 گھنٹے تک سوتے ہیں اور بعض کم عمری میں ہی 5 گھنٹے کی نیند پر اکتفا کرتے ہیں۔

نیند کے مدارج
سائنسدانوں نے نیند کے طریقۂ کار کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ تجربات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ نیند کا طریقۂ کار ایک پیچیدہ عمل ہے۔ یہ ہلکی نیند اور گہری نیند کے کئی مدارج پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیند کے دوران اعضاء کے افعال میں تبدیلیوں (Physiological Changes) کا ظہور ہوتا ہے۔ نیند کو دو قسموں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلی قسم میں آنکھوں کی تیز حرکت نوٹ کی جاتی ہے۔ اسے آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند (Rapid Eye Movement Sleep) اور مختصر میں REM Sleep کہتے ہیں۔ نیند کی دوسری قسم وہ ہے جس میں آنکھوں کی حرکت نہیں پائی جاتی۔ اسے بغیر آنکھوں کی تیز حرکت والی نیند (Non-Rapid Eye Movement Sleep) یا مختصراً NREM Sleepکہا جاتا ہے۔ 1950 کی دہائی میں دو امریکی فزیولوجسٹس Eugene Aserinsky اور Nathaneil Kleitman نے یہ انکشافات کئے۔

نیند کی پیمائش
نیند کی پیمائش اور مطالعے کے لئے استعمال کئے جانے والے آلے کا نام Electro Encephalogram (EEG) ہے۔ اس آلے میں دو برقیرے (Electrodes)ہوتے ہیں جو دماغ سے جوڑدئے جاتے ہیں۔ دماغی لہریں (Brain Waves) ایک اسکرین پر ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ ان لہروں سے حاصل ہونے والے سگنلوں کے عرضِ ارتعاش (Amplitude) ، تعدادِ ارتعاش (Frequency) وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ خواب کا عرصہ اور خواب کی تفصیل جاننے کے لئے معمول (Subject) کو وقفے وقفے سے نیند سے جگایا جاتا ہے۔
نیند کی پیمائش کے ان مطالعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ NREM Sleep چار مختلف مدارج پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں اسٹیج 1، 2 ، 3 اور 4 کہتے ہیں۔ نیند کا وقت ہوجانے پر جیسے ہی ایک عام شخص اپنی آنکھیں بند کرتا ہے اس پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔ اس کے عضلات (Muscles) پر سکون (Relax) ہونے لگتے ہیں۔ جلد ہی وہ اسٹیج 1میں داخل ہوجاتا ہے، جس میں دماغی لہریں مختصر عرض ارتعاش اور تیز تعدّد ارتعاش کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان کی سرگرمی 7Hzسے 12Hz کے درمیان ہوتی ہے۔ ان دماغی لہروں کو الفا لہریں (Alpha Waves) کہتے ہیں۔ اس کے بعد سونے والا شخص اسٹیج 2 میں داخل ہوتا ہے۔ اس میں دماغی لہروں کی سرگرمی 14Hz سے 16Hz کے درمیان ہوتی ہے۔ اس اسٹیج میں گہری نیند کے تیز جھونکے نوٹ کئے جاتے ہیں۔ اسٹیج 3 اور 4 میں دماغی لہروں کی سرگرمی 1Hz سے 3Hz کے درمیان ہوئی ہے۔ ان لہروں کو ڈیلٹا لہریں (Delta Waves) کہتے ہیں۔ پہلے دو اسٹیج ہلکی نیند کے ہیں جب کہ آخری دو اسٹیج گہری نیند کو ظاہر کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص تیسرے اسٹیج میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے آسانی سے بیدار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ تمام مدارج NREM Sleepکے حصّے ہیں جو نیند آنے کے 40 سے 50 منٹ کے اندر داخل ہوتا ہے۔ یہ عرصہ بھی زیادہ طویل نہیں ہوتا، صرف 20 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ سونے والا اپنی نیند NREMاور REM کے ادل بد ل میں پوری کرتا ہے۔ ایک عام شخص اپنی نیند کا 75 فیصد حصہ NREMمیں اور 25 فیصد حصہ REM میں گزارتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے REM ہر 90 منٹ بعد واقع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ NREM کے بعد کچھ وقفہ یوں ہی Blank جاتا ہے۔ نیند کی تجربہ گاہوں (Sleep Laboratories)میں کئے گئے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ REM کے دوران جگایا جانے والا شخص اپنے خواب زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے بنسبت NREM کے دوران جگائے جانے والے شخص کے۔

REM نینداور NREM نیند میں فرق
نیند کے ان دونوں مدارج میں کافی فرق پایا جاتا ہے:
(1) REMنیند گہری ہوتی ہے۔ اس میں سونے والے کو آسانی سے نہیں جگایا جاسکتا۔ NREM نیند ہلکی ہوتی ہے۔
(2) REM نیند میں فرد کی عضویاتی حالت (Physical State)بیداری کی حالت سے بہت مشابہ ہوتی ہے، ہر چند کہ یہ گہری نیند کا اسٹیج ہے۔ NREM میں عضویاتی حالت (اعمال) میں کمی واقع ہوتی ہے۔
(3) خواب زیادہ تر REM نیند میں واقع ہوتے ہیں۔

کیوں آتی ہے نیند؟
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست رہنے کے لئے سونا ضروری ہے۔ لیکن کیوں؟ یہ ہم نہیں جانتے! ایک اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ
نیند تھکے ہوئے جسم کو تازگی بہم پہنچاتی ہے کیوں کہ نیند کے دوران دل کی دھڑکن اور تنفس کا عمل دھیما پڑجاتا ہے، اور کئی اعضاء کی کارکردگی سست پڑجاتی ہے۔ اس کے برعکس نیند کے دوران دماغ بہت زیادہ فعال ہوجاتا ہے۔ وہ وقفۂ نیند کو بیداری میں حاصل ہونے والے تجربات کو ذہن نشین کرنے، سیکھی ہوئی باتوں اور منتشر باتوں کو مجتمع اور مستحکم کرنے اور غیر ضروری معلومات کو مٹانے میں صرف کرتا ہے۔
جسمانی تھکاوٹ اور نیند کی ضرورت کو دماغ پر اسرار طریقے پر محسوس کرلیتا ہے اور Pineal Gland کو Melatonin کے رساؤ کا حکم صادر کرتا ہے؟ Meltonin نیند کا محرکاب (Sleep Hormone) ہے۔ اندھیرے میں اس محرکاب کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے جس کے اثر سے نیند آجاتی ہے ۔
اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ہمارے بعض Genes نیند کی ضرورت اور وقفہ کو متعین کرتے ہیں۔ 4 سے 12 گھنٹے کی نیند کافی ہے اگر آدمی بہتر محسوس کرے۔
ایک دوسرے نظریے کے مطابق حتمی طور پر یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ نیند ایک غیرارادی مظہر ہے یا پھر کچھ کیمیائی مادے اس مظہر کے ذمہ دار ہیں۔ اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ کوئی جسمانی کیمیائی مادہ نیوروٹرانسمیٹر کا رول ادا کرتا ہے جو دماغ میں پائے جانے والے نیند کے مرکز میں موجود قدرتی نیوروٹرانسمیٹر کو تحریک دیتا ہے۔ اس سلسلے میں دو کیمیائی مادوں کی پہچان کی گئی ہے، Dopamin اور Serotonin۔

سارے مرے خواب، خواب و خیال ہوئے
نیند کی طرح خواب کی حقیقت بھی ابھی تک فہم وادراک سے پرے ہے۔ خواب کیا ہے؟ اس کا جواب پردۂ خفا میں ہے۔ البتہ سائنسدانوں نے خواب سے متعلق کچھ حقائق کا پتہ چلایا ہے۔ ہم میں سے زیادہ ترلوگ ہر رات ایک یادو خواب دیکھتے ہیں۔ خواب کا عرصہ، اس کی شدت اور جذباتی کیفیت (Emotional Contents) وغیرہ بہت سے محرکات پر منحصر ہوتا ہے۔ ان محرکات میں دیرینہ پریشانی، فکر، خوف، خوشی، سونے سے قبل کی حالت، جذباتی ہیجان وغیرہ شامل ہیں۔ خواب سے متعلق چند حقائق جو گہرے مطالعہ سے حاصل ہوئے ہیں، یہ ہیں:
(1) خواب کا عرصہ اور اس کا متن REMنیند کے راست تناسب میں ہوتے ہیں۔
(2) ایک عام شخص فی شب ایک یا دو خواب دیکھتا ہے جو صرف ایک یا دو اشخاص یا مقامات و واقعات سے متعلق ہوتے ہیں۔
(3) زیادہ تر تجربات میں پایا گیا کہ معمول کو اگر REM نیند میں جانے کے بعد 40 منٹ کے اندر جگادیا جائے تو وہ اپنے خواب کو زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
(4) زیادہ تر خواب روز مرّہ کے معمولات سے متعلق ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی خواب جذباتی بھی ہوتے ہیں۔
(5) بالغ افراد کے خواب اکثر جنسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

مری آنکھوں میں ہیں روشن تری یادوں کے چراغ
خوابوں کی حقیقت کے تعاقب میں سائنسدانوں اور ماہرین نفسیات نے کافی کچھ پسینہ بہایا ہے۔ کئی نظریا ت قائم کئے گئے لیکن فرائڈ کے نظریے نے اپنا اعتماد قائم کرلیا۔ خوابوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لئے خوابوں کی تحقیق(Sleep Research) کا طریقہ اپنایا جاتاہے جسے Somnology کا نام دیا گیا ہے جس میں بہت سے الیکٹرونک آلات کی مدد سے نیند کے مختلف مدارج کا مطالعہ اور ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ سومنولوجی خوابوں کی حقیقت معلوم کرنے میں مدد کرتی ہے اس کے ذریعہ خرّاٹے (Snoring) کی وجوہات کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ (Sigmund Freud) (1856-1939) آسٹریلیائی ماہر نفسیات تھا۔ اس نے انسان کی نفسیات کے مطالعے میں خوابوں کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ اس کا خیال تھا کہ خواب با معنی ہوتے ہیں اور یہ دبی ہوئی خواہشات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ 1900 میں شائع شدہ اپنی کتاب ’’خوابوں کی توضیح‘‘ (Interpretation of Dreams) میں فرائڈ نے انسانی نفسیات کے بہت سے پہلو ؤں کا جائزہ لیا ہے۔خوابوں سے متعلق فرائڈ کے نظریے کا خلاصہ ذیل کے مطابق ہے:
(1) ہر شخص کے ساتھ پسندیدہ اور نا پسندیدہ جذبات (Impulses)لگے رہتے ہیں۔
(2) یہ جذبات ہمیشہ ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ناپسندیدہ جذبات تحت الشعور (Subconscious) میں ڈھکیل دئے جاتے ہیں۔ لیکن وہ مٹتے نہیں ہیں۔ دماغ مسلسل ان کی تسکین کی فکر میں لگا رہتا ہے۔
(3) پسندیدہ و ناپسندیدہ اور مثبت و منفی جذبات، آرزوئیں، امیدیں، چاہتیں، امنگیں، محبتیں ، نفرتیں وغیرہ کی پرورش دماغ میں ہوتی رہتی ہے۔ جن باتوں کی تکمیل عام حالات میں نہیں ہوسکتی، دماغ ان کی تکمیل خوابوں میں کرتا ہے۔
(4) فرائڈ جنسی جذبات پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ اس کے مطابق بالغ افراد کے ذیادہ تر خواب جنسی جذبات کی کھلم کھلا تسکین پر مبنی ہوتے ہیں۔
لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان اور سیدھا سادہ معاملہ نہیں ہے۔ خواب تو پھر خواب ہے! وہ مجرد ہوکر بھی ٹھوس کی تکمیل کرتے ہیں!! خواب کسی کی یادوں کے چراغ آنکھوں میں روشن کرنے کا علامتی اظہار ہے!!! اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نفسیات نیوروٹک اور سائیکوئک مریضوں کے علاج کے لئے ان کے خوابوں کی تشکیل نو کرتے ہیں۔
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
اچھی صحت کی برقراری کے لئے بھرپور نیند ضروری ہے۔چند نیوروئک اورسائیکوئک امراض مثلاً افرسدگی (Depression) اور پریشانی (Anxiety) میں مریض بے خوابی (Sleeplessness) کا شکار ہوجاتا ہے۔ بے خوابی یعنی نیند نہ آنے کی وجہ سے دوسرے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں مثلاً Angina Pectoris اور Deuodenal Ulcer وغیرہ یہ مسائل REM نیند کے دوران پیدا ہوتے ہیں۔
نیند میں بڑبڑانا (Sleep Talking)اور نیند میں چلنا (Sleep Walking) امراض نہیں بلکہ باقاعدگیاں ہیں۔ بہت سے لوگ نیند میں بڑبڑاتے ہیں۔ اس بے قاعدگی کا تعلق خوابوں سے ہوتا ہے۔ ’نیند میں چلنا‘ اس بے قاعدگی کو Somnambulism کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بے قاعدگی بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے لیکن زیادہ تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔
کسی بھی قسم کی بیماری اور جسمانی تکلیف نیند پر براہ راست حملہ کرتی ہے رات کے وقت بیماری اور تکلیف کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مریض سونہیں پاتا۔ رات کے وقت مرض کا شدت اختیار کرنا بھی ایک معمہ ہے۔
اکثر لوگ اس کا تعلق شمسی توانائی کی غیر موجودگی سے جوڑتے ہیں۔
دن میں زیاد ہ دیر تک سونا، بہت زیادہ تھکان، بدہضمی، بھوک پیاس کی شدت، بار بار پیشاب آنا بھی بے خوابی کی وجوہات ہیں۔
بے خوابی کی کچھ اور وجوہات ہیں جنہیں نیند کی بے قاعدگیاں (Sleep Disorder)کہتے ہیں۔ ان میں سے چند ذیل کے مطابق ہیں:
(1) Insomnia:۔
یہ نیند کی عام بے قاعدگی ہے۔ اس میں راتوں کو نیند نہیں آتی اور دن میں غنودگی طاری رہتی ہے۔ مریض کی کسی کام پر توجہ مرکوز نہیں ہوتی، تخلیقی کاموں پر اثر پڑتا ہے اور حادثات کا خطرہ بنا رہتا ہے۔

(2) Nacrolepsy:۔
NREMنیند اور REM نیند کے پیٹرن (Pattern) میں خامی کی وجہ سے رات میں نیند ٹھیک سے نہیں ہوپاتی، لہذا آدمی دن میں زیادہ دیر تک سوتا رہتا ہے۔ دن میں زیادہ دیر تک سوتے رہنے سے دن میں جو غنودگی طاری رہتی ہے اسے Nacrolepsy کہتے ہیں۔ ڈرائیونگ اور پر خطر کام کرنے کے دوران بھی Nacrolepsy کا مریض سوجاتا ہے اور حادثات کو دعوت دیتا ہے۔

(3) Sleep Apnea:۔
نیند کے دوران زبان اور تالو کے عضلات ڈھیلے پڑجاتے ہیں جس کے نتیجے میں حلق کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے۔ پھیپھڑوں میں ہوا پہنچ نہیں پاتی اور خون میں آکسیجن کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ جب آکسیجن کی سطح بہت کم ہوجاتی ہے تو مریض ہڑبڑا کر جاگ پڑتا ہے اور لمبی سانسیں لینے لگتا ہے۔ اس عمل میں ناک سے تیز آواز نکلتی ہے جسے Snort کہتے ہیں۔

(4) Snoring:۔
نیند کے دوران کھلے منہ سے سانس لینے کی وجہ ے آوازیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ آوازیں دھمی سے لے کر بہت تیزاور ناگوار ہوسکتی ہیں۔ انہیں خراٹے(Snores) کہتے ہیں۔ خرّاٹے گہری ، پرسکون نیند یا صحت مندی کی علامت ہرگز نہیں ہیں۔

رات میں تارے گننے کی قواعد
شیشہ جب ٹوٹتا ہے اس کی کھنک کانوں کو بھی معلوم ہوتی ہے لیکن دل جب ٹوٹتا ہے تو کوئی آواز، کوئی شور، کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا لیکن دل کی دنیا میں قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ شیشے کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی اس کی کہانی ختم ہوجاتی ہے لیکن دل کے ٹوٹنے سے نئی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ ایک عام کہانی تو یہی ہے کہ انسان اندھیری راتوں میں تارے گننے لگتا ہے۔ کواکب شمارے کرتے کرتے اگر آنکھ لگ بھی گئی تو یہ نیند NREM سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس نیند کی نوعیت ایسی ہوتی ہے:
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے!

نیند کے دوران ہونے والی عضویاتی تبدیلیاں
نیند کے دوران بہت سی عضویاتی تبدیلیاں (Physiological Changes) واقع ہوتی ہیں۔ جن میں چند یہ ہیں:
(1) NREMنیند کے دوران دل کی دھڑکن، دورانِ خون اور فشارِ خون (B.P.) میں قابلِ ذکر کمی واقع ہوتی ہے۔ لیکن REM نیند کے دوران دل کی کارکردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
(2) REM نیند کے دوران عمل تنفس (Respiration) کی رفتار بڑھ جاتی ہے لیکن ہوا کی ناکافی مقدار پھیپھڑوں کو پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے خون میں موجود پلازمہ میں CO2 کی سطح نارمل سے زیادہ اور O2 کی سطح نارمل سے کم ہوجاتی ہے۔
(3) پیشاب کم مقدار میں تیار ہوتا ہے لیکن اس کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے۔
(4) غذائی نالی میں ہونے والی حرکات سست ہوجاتی ہیں۔ گیسٹرک ایسڈ کا اخراج کم ہوجاتا ہے۔ نگلنے کا غیر ارادی فعل سست پڑجاتا ہے۔ سونے کے دوران کبھی کبھی رال ٹپکنے کا عمل اسی مظہر کی وضاحت کرتا ہے۔
(5) دماغ کی سرگرمی اور کارکردگی NREMنیند کے دوران سست پڑجاتی ہے جبکہ REMنیند کے دوران یہ کافی تیز ہوجاتی ہے۔
(6) NREMکے تیسرے اورچوتھے اسٹیج میں نمو کے محرکاب (Growth Hormones) کا رساو بڑھ جاتا ہے۔ یہ مظہر عنفوانِ شباب کی طرف گامزن بچوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
(7) نیند کے دوران جسمانی تپش میں گراوٹ نوٹ کی جاتی ہے۔

ہم کو ہمیں سے چرالو
نیند کی کمی یا مکمل بے خوابی انسان کو کئی طرح سے پریشان کرتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بے خوابی کا مریض کسی بھی قیمت پر اس پریشانی سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے۔ معالج اس کے لئے مسکن (Tranquilizers) یعنی ذہنی سکون بہم پہنچانے والی دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔ مسکن کی کئی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ان دوائیوں کا مقصد مریض کو سلانا نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ ان کے اثر سے دماغی سرگرمی کو سست کرنامقصود ہوتا ہے۔ان کی مدد سے مریض پریشانی(Anxiety) ، خوف واندیشہ (Apprehension) اور بعض نفسیاتی مسائل کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ مسکن کی دو قسمیں ہیں:
(1) اینٹی سائیکوٹک ڈرگز
(2) اینٹی نیوروٹک ڈرگز
اینٹی سائیکوٹک ڈرگریہ ہیں: Chloropromazine اور Resperine وغیرہ
اینٹی نیوروٹک ڈرگز میں Diazepam کے مرکبات پائے جاتے ہیں۔
ان ڈرگز کی کارکردگی کا مکمل علم ابھی تک نہیں ہوپایا ہے۔ البتہ ایسا لگتا ہے کہ اینٹی سائیکوٹک ڈرگز دماغ (Brain) پر اثرانداز ہوتی ہیں جب کہ اینٹی نیوروٹک ڈرگز دماغ کے علاوہ حرام مغز (Spinal Cord) پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔
ان ڈرگز کے استعمال سے نیند آجاتی ہے لیکن ان کا استعمال خطرے سے خالی نہیں۔ پھر یہ کہ ایک عرصہ بعد یہ ڈرگز بے اثر ثابت ہونے لگتی ہیں۔ پھر وہی بے خوابی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ لاکھ منت سماجت کرنے کے باوجود نیند ہے کہ روٹھی ہی رہتی ہے۔ مریضِ بے خوابی کے لئے نیند وہ بت ہے کہ وہ مریض کی التجا کو مسلسل مسترد کرتا رہتا ہے۔ کفر ہے کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ انجام کار مریض تنگ آکر نیند سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لئے آ

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   366954
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development