ریڈیو: ہر دم جواں، پیہم رواں
واپس چلیں

ایس ایس علی
فروری 2014

ریڈیو: ہر دم جواں، پیہم رواں۔۔۔
ماضی قریب میں ریڈیو کو ایک بہترین ذریعۂ ترسیل و ابلاغ تصور کیاجاتا تھا۔ اس کی پہچان ایک ذریعۂ تفریح وثقافت کے طور پر تھی۔ ہر نئی ٹکنالوجی، پرانی ٹکنالوجی پر غالب آجاتی ہے۔ یہی معاملہ ریڈیو کے ساتھ بھی ہوا۔ ٹی وی کی آمد کے ساتھ ہی ریڈیو کے بُرے دن بھی آگئے ۔ ٹی وی کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے سبب ریڈیو کی الٹی گنتی شروع ہوگئی، لیکن جیسا کہ قاعدہ ہے، انسان ہر نئی چیز سے جلد ہی اوب جاتا ہے۔ ریڈیو کی گوں ناگوں خصوصیات اور ٹی وی پر اس کی بعض معاملات میں فوقیت کی بناء پر اور ساتھ ہی ریڈیو ٹکنالوجی میں ترقی کے سبب انسان نے پھر ریڈیو کی طرف مراجعت کی۔ ریڈیو جدید ٹکنالوجی اور نئی آب وتاب کے ساتھ ایک بار پھر میدان میں اترا اور اس نے اپنے سحرِ جاودانی سے عوام کے دل و دماغ کو مسخر کرنا شروع کردیا۔ ریڈیو کی فسوں کاری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
ہندوستان میں ریڈیو براڈ کا سٹنگ کی ابتداء 1920 کی دہائی میں ہوئی۔ ریڈیو کا پہلا پروگرام، ریڈیو کلب آف بامبے نے 1923 میں براڈ کاسٹ کیا۔ اس کے بعد 1927 میں ممبئی اور کلکتہ میں تجرباتی سطح پر براڈ کاسٹنگ سروس کی شروعات ہوئی۔ پھر حکومت نے تمام ٹرانسمیٹرس کو اپنے قبضے میں لے لیا اور ’’انڈین براڈ کاسٹنگ سروس‘‘ کے نام سے آپریٹ کرنا شروع کیا۔ 1936 میں اس سروس کا نام بدل کر ’’آل انڈیا ریڈیو‘‘ رکھا گیا۔
آج آل انڈیا ریڈیو دنیا کا سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے۔ آزادی کے وقت ملک میں کل چھ ریڈیو اسٹیشن تھے جن کی پہنچ ملک کی آبادی کے گیارہ فیصد اور 2.5 فیصد رقبے تک تھی۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو (جس کا دوسرا نام آکاش وانی ہے) کے 299 چینلوں پر نشریات کا سلسلہ جاری ہے۔ آل انڈیا ریڈیو نے ملک کی 99.18 فیصد آبادی اور 92 فیصد علاقے تک اپنی پہنچ بنالی ہے۔ 23 زبانوں اور 146 بولیوں میں پروگرام نشر کئے جاتے ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقے جہاں ابھی تک نہ تو ٹی وی پہنچا ہے اور نہ وہاں کوئی اخبار پہنچتا ہے، وہاں بھی آل انڈیا ریڈیو سنا جاتا ہے۔
آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ FM چینلوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ FM چینلوں نے شہری آبادی کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، نتیجتاً آل انڈیا ریڈیو دن بہ دن حاشیہ پر جارہا ہے۔ لیکن FM چینلوں کی پہنچ صرف شہری علاقوں تک محدود ہے۔ دیہی اور دور دراز کے علاقوں تک وہ اپنی پہنچ نہیں بنا پائے ہیں، لہذا وہاں آج بھی تفریح ومعلومات اور تعلیم کا ایک تنہا ذریعہ آل انڈیا ریڈیو ہی ہے۔

ریڈیو کیا ہے؟
آکسفورڈ ایڈوانسڈ لرنرس ڈکشنری، ریڈیو کی تعریف اس طرح کرتی ہے:
"Process of sending and receiving messages etc by electromagnetic waves without a connecting wire."
یعنی لاسلکی طور پر (جوڑنے والے تاروں کی مدد کے بغیر) برقاطیسی لہروں کی مدد سے پیغامات وغیرہ بھیجنے اور حاصل کرنے کا طریقہ۔
عربی میں ریڈیو کا مترادف مشعہ ہے۔ لفظ مشعہ کا مطلب ہے شعاعوں سے متعلق، شعاع والا یا شعاعوں پر کام کرنے والا۔
ریڈیو کا مفہوم ہے برقاطیسی اشعاع کے سگنلوں کی آزاد فضاء میں لاسکلی ترسیل۔ برقاطیسی اشعاع کا تعدّد (Frequency) عام روشنی کے تعدّد سے بہت کم ہوتا ہے۔ ریڈیو میں 30 KHz سے 300 GHz کے تعدّد والا اشعاع استعمال کیا جاتا ہے جسے ریڈیو تعدّد رینج کہا جاتا ہے۔ برقاطیسی اشعاع کو ریڈیو لہریں (Radio Waves) کہتے ہیں۔ٹرانسمیٹر، اینٹینا اور ریسیور، ریڈیو کے اہم حصّے ہیں۔ٹرانسمیٹر اینٹینا کی مدد سے ریڈیو سگنل نشر کرتا ہے۔ اس سگنل کو ریسیور اپنے اینٹینا کی مدد سے وصول کرتا ہے۔

ریڈیو کی تاریخ
ریڈیو کی ایجاد اور اس کا ارتقاء تین مرحلوں میں ہوا۔
(i) برقاطیسی لہریں اور ان پر تجربات
(ii) لاسلکی ترسیل (Wireless Communication)
اور تکنیکی ارتقاء
(iii) ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور اس کو تجارتی طریق پر چلانا
(Commercialization)
James Clerk Maxwell نے 1873 میں پیش گوئی کی کہ برقاطیسی لہروں کی اشاعت (Propagation) ممکن ہے۔ ان لہروں کو بعد میں ریڈیو لہریں (Radio Waves) کہا گیا۔ چنانچہ اس پیش گوئی کے عین مطابق Heinrich Rudolf Hertz نے 1887 میں ریڈیو لہروں کی آزاد فضا (Free Space) میں اشاعت کا تجربہ کرکے دکھایا۔ لیکن ان دونوں سے پہلے بھی بہت سے موجدوں، انجینیروں، ماہرین اور تاجروں نے اپنے اپنے طور پر لہروں کی اشاعت کے نظام قائم کر رکھے تھے۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ وائر لیس ٹیلی گرافی اور ریڈیو لہروں کی اشاعت کی بنیاد رکھنے میں کئی موجدوں کا اہم رول رہا ہے۔ ریڈیو کو تجربہ گاہوں سے نکال کر تجارتی اکائیوں تک لے جانے میں کئی دہائیوں کا وقت درکار ہوا۔
1878میں David E. Hughes جب اپنے کاربن مائیکروفون پر کام کررہا تھا تو اس نے ٹیلی فون ریسرور پر کچھ Sparks کی آوازیں محسوس کیں۔ پھر یہ Sparks سیکڑوں فیٹ کی دوری تک محسوس کئے گئے۔ یہ Sparks دراصل ریڈیو سگنل تھے۔ بدقسمتی سے اس کے کام کو شناخت نہ مل سکی اور اس نے ان تجربات کو ترک کردیا۔ Thomas Edison نے بھی ان ہی خطوط پر تجربات کئے اور 1891 میں اپنے کام کے لئے امریکی حکومت سے پیٹنٹ حاصل کرلیا۔ بعد میں مارکونی کمپنی نے یہ پیٹنٹ ایڈیسن سے خریدلیا۔
1886 اور 1888 کے دوران Heinrich Rudolf Hertz نے اپنے تجربات کے نتائج کو شائع کروایا۔ اس نے برقاطیسی لہروں کو ہوا میں نشر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ان برقاطیسی لہروں کو بعد میں ریڈیو لہروں کا نام دیا گیا۔ Hertz کے ان تجربات سے Maxwell برقاطیسی نظریہ کا ثبوت فراہم ہوا۔ ابتداء میں ان ریڈیو لہروں کو Hertzian Waves کے نام سے پکارا گیا۔
1890 اور 1892 کے دوران ماہرین طبیعیات Fredrick Thomas, John Perry اور William Crooks نے ریڈیو لہروں کو خبررسانی کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کے امکانات کو ظاہر کیا۔ 1892 میں Crooks نے ریڈیو لہروں کو ریڈیو ٹیلی گرافی کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں مضامین لکھے۔
1893میں سربی۔امریکی موجدNikola Tesla نے Hertz اور Maxwell کے نظریات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی اور وائرلیس پاور ٹکنالوجی کے امکانات پر تجربات کئے۔
Hertz کی موت کے فوراً بعد Prof. Lodge Alexander Muirhead نے ریڈیو لہروں کا استعمال کرکے وائرلیس سگنلنگ کا مظاہرہ کیا۔ یہ مظاہرہ اس نے 4 اگست 1894 کو آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے لیکچر تھیٹر میں کیا۔ اس مظاہرہ کے دوران قریبی Clarendon Laboratory کی عمارت سے ریڈیو سگنل نشرکیا گیا اور اسے لیکچر تھیٹر میں موصول کیا گیا!!
’’غیر مرئی روشنی (کی شعاعیں) اینٹوں کی دیواروں اور عمارتوں میں سے گزرجاتی ہیں، لہذا اس کی مدد سے، جوڑنے والے تاروں کے بغیر، پیغامات کو نشر کیا جاسکتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ ہیں بنگالی ماہر طبعیات جگدیش چندر بوس کے۔ بوس نے نومبر 1894 میں کلکتہ کے ٹاؤن ہال میں خوردلہروں (Micro Waves) کا استعمال کرکے اپنے دعوے کا عملی مظاہرہ کیا۔ ریڈیو لہروں پر بوس نے بہت کام کیا۔ اس کے کئی مضامین ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال اور رائل سوسائٹی آف لندن میں پیش کئے گئے اور لندن سے شائع ہونے والے رسالے The Electrician میں شائع ہوئے۔ ریڈیو سگنل کو وصول کرنے والے آلے کو ریسیور (Receiver) کہا جاتا ہے۔ Hertz کے زمانے میں اسے Coherer کہا جاتا تھا۔ بوس نے Coherer کو بنانے اور سنوارنے میں بہت دلچسپی لی اور اپنے کام کو آگے بڑھایا لیکن اسے پیٹنٹ کروانے کا خیال بوس کو کبھی نہیں آیا۔ مغربی دنیا نے بوس کے کام کو بہت سراہا۔
1895 میں روسی سائنسداں Alexander Stepanovich Papov نے دنیا کا پہلا ریڈیو ریسیور بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

مارکونی
ریڈیو کا لفظ سنتے ہی مارکونی کا نام ذہن میں آتا ہے۔ مارکونی کو ریڈیو کے موجد کے طور پر جانا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ریڈیو کی تیاری میں بے شمار سائنسدانوں کا حصّہ رہا ہے۔ لیکن مارکونی وہ پہلا سائنسداں ہے جس نے ریڈیو کو عملی زندگی سے جوڑا۔ مارکونی اٹلی کا رہنے والا ایک الیکٹریکل انجیئیر تھا۔ وہ ریڈیوسگنلنگ سسٹم کا موجد تھا۔یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے لاسلکی سگنل کو سمندر پار بھیجا۔ اس کی اس ایجاد سے پہلے طویل فاصلوں تک پیغام رسانی کا کوئی لاسلکی طریقہ نہیں تھا۔ اس کے آلے نے سمندری حادثات میں بچ جانے والے افراد کی جان بچانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ مشہور زمانہ بحری جہازTitanic کے ڈوبنے کے دوران مارکونی کے آلے نے بچ جانے والے افراد کو واپس کنارے پر لانے میں بہت مدد کی۔ مارکونی کو اس عظیم خدمت کے لئے 1909 کا طبیعیات کا نوبل پرائز دیا گیا۔
مکمل ریڈیو ٹرانسمیشن سسٹم
1894 میں نوجوان اطالوی موجد مارکونی (Guglielmo Marconi) نے تجارتی لاسلکی ٹیلی گراف سسٹم کی تعمیر پر کام شروع کیا۔ اس کا یہ کام ریڈیو لہروں کو نشر کرنا اور انہیں وصول کرنے والے آلات پر مشتمل تھا۔ 1895 میں وہ پیغامات کو لاسلکی طور پر طویل فاصلوں (2.4 کلومیٹر ) تک بھیجنے اور وصول کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مارکونی نے اپنے تجربات کے دوران پایا کہ ٹرانسمیشن رینج یعنی نشریات کا دائرہ کار، ریڈیو سگنل نشر کرنے والے اینٹینا کی بلندی کے مربع کے متناسب ہوتا ہے۔ اس مظہر کو مارکونی کا قانون کہا جاتا ہے۔ مارکونی کے یہ تجرباتی آلات، پہلا مکمل اور تجارتی طور پر کامیاب ریڈیو ٹرانسمشن سسٹم ثابت ہوئے۔

دنیا کا پہلا ریڈیو اسٹیشن
مارکونی نے 1897 میں دنیا کا پہلا ریڈیو اسٹیشن انگلینڈ کے Isle of Wight پر قائم کیا۔ اسی کے ساتھ اس نے Chelmsford، انگلینڈ میں "Wireless" فیکٹری کی بنیاد ڈالی جس میں 60 لوگ کام کرتے تھے۔ 1900 کے آس پاس مارکونی نے بین الاقوامی سطح پر اپنا بزنس کھڑا کرلیا اور ایک کامیاب ترین بزنس مین کے طور پر سامنے آیا۔
AM اور FM
ریڈیو ٹرانسمیشن کو Amplitude Modulation یا AM Radio کا نام دیا گیا۔ دنیا کا پہلا نیوز پروگرام 31 اگست 1920 کو AM Radio سے نشر کیا گیا۔ 14 اکتوبر 1920 کو پہلا کالج ریڈیو اسٹیشن، نیویارک میں قائم کیا گیا۔ 1930 میں Single Side Band اور Frequency Modulation یعنی FM کی ایجاد عمل میں آئی۔ FM کا دائرہ کار بہ نسبت AM کے بہت محدود ہوتا ہے۔ لیکن آواز کی کوالٹی بہت عمدہ ہوتی ہے۔ شہری علاقوں میں ٹی وی اور موبائل ٹاوروں کی طاقتور اشعاع کی وجہ سے AM پر پروگرام صاف سنائی نہیں دیتا، جب کہ FM صاف سنائی دیتا ہے۔ لیکن دیہی اور دور دراز کے علاقے آج بھی AM پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

ٹرانس سسٹر ریڈیو
1954 میں Regency Company نے Transister ریڈیو متعارف کروایا اس میں 22.5V کی بیٹری استعمال کی جاتی تھی۔ 1955 میں ایک نئی کمپنی Sony نے پاکٹ سائز ٹرانس سسٹر ریڈیو مارکیٹ میں اتارا۔ اس میں چھوٹے سائز کی طاقتور بیٹری استعمال کی گئی تھی۔ اس ریڈیو میں Vacuum Tubes کی جگہ ٹرانس سسٹر استعمال کئے گئے تھے۔ آئندہ 200 سالوں میں Transisters نے Vacuum Tubes کو پوری طرح ہٹا دیا۔

ریڈیو کے استعمال
ایک صدی کے عرصے سے ریڈیو روزمرہ کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بنا ہوا ہے۔ عملی طور پر موسیقی اور تفریح ہی اس کا سب سے اہم استعمال ہے۔ اس کے بعد خبروں کی اشاعت، معلوماتی پروگرام اور تعلیم وتربیت کا نمبر آتاہے ۔ ان دو اہم استعمالات کے علاوہ بھی ریڈیو کے بہت سے استعمالات ہیں۔
ریڈیو کے ذریعے سب سے پہلے بحری جہازوں اور زمینی علاقوں کے درمیان Morse Code کا استعمال کرکے رابطہ قائم کیا گیا۔ چنانچہ 1905 میں جنگ سوشی ما (Battle of Tsushima) کے دوران جاپانی بحریہ اور روسی بحریہ نے پیغام رسانی کے لئے ریڈیو کا استعمال کیا۔ 1912 میں RMS Titanic کے ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا ۔ اس وقت ڈوبتے ہوئے جہاز کے مسافروں کے لئے اس کا رابطہ ساحلی علاقے اور بچانے والی کشتیوں کے ساتھ جوڑا گیا۔
پہلی جنگ عظیم میں دونوں جانب کی فوجوں نے احکام اور پیغام رسانی کے لئے ریڈیو کا استعمال کیا۔
ریڈیو کے کچھ اور استعمالات ذیل کے مطابق ہیں۔
* ٹیلی فونی (Telephony)
* ویڈیو (Vedio)
* جہاز رانی (Navigation)
* ڈاٹا (ڈیجیٹل ریڈیو)
* شوقیہ ریڈیو سروس
* بغیر لائنس کے ریڈیو سروس
* ریڈیو کنٹرول

عالمی یومِ ریڈیو
ریڈیو کی اہمیت کو جاننا اور اس کی تشہیر کرنا، ریڈیو کے ذریعے اطلاع اور معلومات کا حصول اور براڈ کاسٹرس کے درمیان نیٹ ورک کو مضبوط کرنا، یہ ہیں عالمی یومِ ریڈیو کے مقاصد۔ دیہی اور دور دراز کے علاقوں کے لوگوں کے لئے، ان پڑھ اور کم تعلیم یافتہ افراد، معذوروں، عورتوں، بچوں اور محنت کش لوگوں کے لئے ریڈیو ایک سستا اور بھروسہ مند ذریعہ تفریح و تعلیم ہے، اس حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنا اور مذکورہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کروانا عالمی یومِ ریڈیو کے دوسرے اہم مقاصد ہیں۔ میڈیا کی زبردست ترقی کے چلتے ریڈیو نے بھی ترقی کی نئی منزلوں کو حاصل کیا ہے۔ وہ نئے تکنیکی طور طریقوں سے لیس ہوکر اب براڈ بینڈ موبائل اور ٹیبلٹ تک رسائی حاصل کرچکا ہے۔
3 نومبر 2011 کو UNESCO کی جنرل اسمبلی کے 36 ویں اجلاس میں 13 فروری کو عالمی یومِ ریڈیو منانے کی منظوری دی گئی۔ اس سے چار سال قبل Spanish Academy of Radio نے UNESCO کے سامنے عالمی یومِ ریڈیو کا تصور پیش کیا تھا۔
13 فروری 2012 کو پہلا عالمی یومِ ریڈیو منایا گیا۔ 13 فروری کی اہمیت یہ ہے کہ اس دن 1946 کو اقوامِ متحدہ (UN) کا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔
UNESCO کے مساواتِ مردوزن (Gender Equality) کے مصمم ارادے (Commitment) کو پورا کرنے میں ریڈیو ایک طاقت ور واسطہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ ساری دنیا کے براڈ کاسٹرس سے اس جہت میں کوشش کرنے کی اپیل UNESCO نے کی ہے۔
پہلے عالمی یومِ ریڈیو (13 فروری 2012 ) کے موقع پر انٹرنیشنل ریڈیو کمیٹی (IRC) تشکیل دی گئی جو عالمی یومِ ریڈیو کے مقاصد کو تن دہی سے پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کمیٹی کے ممبران بین الاقوامی سطح کے براڈ کاسٹنگ ادارے ہیں جن میں چند یہ ہیں:
(1) ITU - International Telecommunication Union
(2) SRA - Spanish Radio Academy
(3) IAB - International Association of Broadcasting
(4) APBU - Asia-Pacific Broadcasting Union
(5) ASBU - Arab States Broadcasting Union
(6) EBU - European Broadcasting Union
(7) AER - Associan of European Radios
(8) AUB - African Union of Broadcasting
(9) BNNRC - Bangladesh NGOs Network for
Radio and Communication
(10) IRTU - International Radio and Television
Union

ریڈیو کا سنہرا دور
بین الاقوامی سطح پر ریڈیو میں 1920 سے 1950 کے دوران زبردست ترقی ہوئی۔ تفریحی اور ثقافتی میدانوں میں 30 سال کا یہ عرصہ ریڈیو کا سنہرا دور کہلاتا ہے۔
ہمارے ملک میں 1950 سے 1980 کا عرصہ ریڈیو کا سنہرا دور ہے۔ ملک کے کونے کونے میں ریڈیو نے اپنی پہنچ اور پہچان بنالی تھی وہ عوامی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکا تھا۔ پھر ٹی وی، ٹیپ ریکارڈر، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی آمد نے ریڈیو کو حاشیے پر ڈال دیا اور قریب تھا کہ ریڈیو اپنا وجود کھودے کہ FM کی ایجاد اور ریڈیو کی پرائیوٹ سروسوں نے اسے نئی زندگی عطا کی۔ آج پھر ریڈیو نئی بہاریں دیکھ رہا ہے۔ بدلتے ہوئے وقت اور مزاج کے ساتھ ریڈیو نے بھی خود کو ہم آہنگ کیا ہے۔ اب وہ بھی ہائی فائی ہوگیا ہے اور ہمیشہ اپ ڈیٹ رہنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ لیکن آج بھی اس کے دل میں اک کسک ہے۔ ماضی کی یادیں اسے تڑپاتی ہیں اور وہ زبان حال سے فریاد کرتا ہے:
کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن!!!!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360503
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development