پالتو جانوروں کا شوق : ایک بڑا خطرہ
واپس چلیں

ایس ایس علی
جولائی 2016

پالتو جانوروں کا شوق : ایک بڑا خطرہ


آج سے دس ہزار سال قبل انسان نے خانہ بدوشی چھوڑ کر زراعت کی شروعات کی۔ 8000 قبل مسیح کے آس پاس جنوب مشرقی ایشیا کے ’’زرخیر ہلال‘‘ (Fertile Crecent) کے نام سے مشہور علاقوں میں زراعت کی شروعات ہوئی۔ یہ عرصہ Neolithic Period یعنی پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے۔ یہ دور آخری دور حجری (Stone Age) ہے۔ ان علاقوں کی کھدائی کے دوران جلے ہوئے بیج، جو، گیہوں اور کئی قسم کی دالوں کے چھلکے اور بھوسہ اور پالتو بھیڑ بکریوں کی ہڈیاں دریافت ہوئیں۔ زراعت کی ابتدا خود رو اور جنگلی نباتی انواع کو قابل کاشت بنانے سے ہوئی تاکہ وہ انسانوں کی غذائی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ اسی کے ساتھ جنگلی جانوروں کو پالتو بنانے کا عمل بھی چلتا رہا۔ غذا، باربرداری، حفاظت، شکار، پیغام رسانی، زراعت اور لڑائی وغیرہ کے مقصد سے جانوروں کو پالا جانے لگا۔ یہیں سے انسانوں اور جانوروں کے رشتے بحال ہونا شروع ہوئے۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ پالتو جانوروں (Pet Animals) کو گھروں کی زینت اور فیشن کے طور پر پالا جانے لگا۔
جنوب مغربی ایشیا میں زراعت کے ذیل میں سب سے پہلے بھیڑوں اور بکریوں کو پالتو (Domestic) بنایا گیا۔ چند مویشی، سور اور مرغی جنوبی اور مشرقی ایشیا میں پالتو بنائے گئے۔ یورپ میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا۔ امریکہ میں بہت کم جانوروں کو پالتو بنایا گیا۔ صرف شمالی امریکہ میں فیل مرغ (Turkey) اور جنوبی امریکہ Ilama ، Alpaca اور Guinea Pig پالتو بنائے گئے۔ افریقہ اور آسٹریلیا میں کوئی جانور پالتو نہیں بنایا گیا۔
زمانے کی ترقی کے ساتھ پالتو جانوروں کو اپنے ساتھ رکھنے کا شوق بھی بڑھتا گیا۔ کتا، طوطا اور بلی سب سے زیادہ پالے جانے والے جانور ہیں۔ پالتو جانوروں کے تعلق سے عجیب و غریب قصے مشہور ہیں ۔ مثلاً پالتو جانوروں کی شادیاں رچانا، ان کے نام اپنی جائیداد چھوڑنا، پاکٹ ڈاگ کو اپنی جیبوں میں لئے لئے پھرنا، مرغ بازی، تیتر بازی، بیلوں کی دوڑ وغیرہ۔
جانوروں کا ساتھ انسانوں کے لئے کئی طرح سے مفید ہے۔ جناب مختار بدری اپنی کتاب ’’اردو شاعری میں جانور‘‘ کے تعارفی مضمون بہ عنوان’’ہم اور جانور‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق مایوسی اور اعصابی دباؤ کے مریضوں کی حالت جانوروں سے محبت کرکے نمایاں طور پر بہتر ہوئی ہے۔ جو لوگ جانور پالتے ہیں انہیں بلڈ پریشر کی بیماری کم ہوتی ہے اور کولسٹرول کی سطح بھی کم رہتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ پالتو جانور رکھتے ہیں انہیں نزلہ اور زکام کی شکایت بھی کم رہتی ہے۔‘‘
پالتو جانوروں کا ساتھ جہاں انسانوں کے لئے فائدہ مند ہے وہیں نقصان دہ بھی ہے۔ اس میں Zoonosis کا خطرہ ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ Zoonosis کیا ہے؟ اس کی آسان تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:
Zoonosis is an ailment that is transmitted from animals to human beings.
یعنی زونوسیس (Zoonosis) وہ مرض ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ (Zoonosis کی جمع کا صیغہ Zoonoses ہے) یہ جانور جنگلی بھی ہوسکتے ہیں اور پالتو بھی لیکن پالتو جانوروں کا اس معاملے میں بڑا حصہ ہے۔ امراض پھیلانے (منتقل کرنے) والے یہ جانور مرض بردار (Carriers)کہلاتے ہیں۔
آج کی تیز رفتار زندگی میں جس طرح انسان ترقی کرنے کے لئے خود کو ہمیشہ اپ ڈیٹ رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح امراض پھیلانے والے جراثیم، وائرس اور دوسرے جاندار بھی اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں اور اپنے دائرہ کار کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں! جانوروں سے لاحق ہونے والے امراض کا پھیلاؤ بھی دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ Zoonoses پر قابو پانے اور ان کے تدارک کے لئے کی جانے والی کوششیں مثلاً ٹیکہ لگوانا (Vaccination) اور احتیاطی تدابیر وغیرہ کم پڑ رہی ہیں اور یہ امراض تیزی سے اپنے پاؤں پسار رہے ہیں۔
Zoonoses کے خطرات کے پیش نظر اب ہر سال 6 جولائی کو World Zoonoses Day منایا جاتا ہے۔ یہ دن جانور پالنے والوں کو یاد دلاتا ہے کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں اور خود بھی ٹیکوں سے استفادہ کریں، اور یہ کہ اگرٹیکہ نہ لگے تو ان کے پیارے جانور ان کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کا ساتھ، ان کا دودھ، انڈے اور گوشت Zoonoses کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ Zoonoses کو Zoonotic Diseases بھی کہا جاتا ہے۔ بہت سے جدید امراض Zoonotic نوعیت کے ہیں۔ DNA اور RNA کے سلسلوں کی ترتیب (Sequencing) سے ثابت ہوچکا ہے کہ خسرہ (Measles) ، چیچک (Small Pox) ، انفلوئنزا، HIV اور خناق (Diptheria) جانوروں سے ہی انسانوں میں پہنچتے ہیں۔ اسی طرح سردی زکام (Common Cold) اور تپ دِق (Tuberculosis یعنی TB)کا شمار بھی Zoonotic Diseases میں کیاجاتا ہے۔
زیادہ تر امراض ’’نوع مخصوص‘‘ (Species Specific) ہوتے ہیں۔ یعنی وہ کسی ایک مخصوص نوع کے حیوانات کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ لیکن بہت سارے دوسرے امراض حیوانات کی مختلف انواع کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ امراض متعدی (Infectious) ہوتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا، وائرس اور دوسرے جانداروں کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں جو نہ صرف مویشیوں بلکہ انسانوں کے جسم میں بھی رہ سکتے ہیں۔
حیوانات سے انسانوں میں مختلف امراض کی منتقلی مختلف طریقوں سے ہوتی ہے۔ بعض معاملات میں متا ثرہ حیوانات کے ساتھ بلاواسطہ تعلق (Direct Contact) کی وجہ سے یہ امراض انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں جبکہ بعض دوسرے امراض پینے کے پانی کے ذریعہ منتقل ہوتے ہیں۔ امراض کے طفیلی جراثیم کے بیضے (Eggs) پینے کے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ متاثرہ جانوروں کے بول و براز میں یہ بیضے موجود ہوتے ہیں جو پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ متاثرہ جانوروں کا گوشت کھانے سے بھی امراض انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ کدّو دانہ (Tapeworm) کا پھیلاؤ اسی طریقے سے ہوتا ہے۔ چند دیگر امراض ویکٹر حشرات (Vector Insects) کے کاٹنے سے پھیلتے ہیں۔ پسّو (Flea) اور چیچڑی (Tick) جیسے حشرات (کیڑے) متاثرہ جانوروں کا خون چوستے ہیں، خون کے ساتھ امراض کے جراثیم بھی کیڑوں کے جسم میں پہنچ جاتے ہیں، پھر جب وہ انسانوں کو کاٹتے ہیں تو امراض کے جراثیم انسانی جسم میں منتقل کردیتے ہیں۔ یہ کیڑے Vector کہلاتے ہیں۔

زونوٹک (Zoonotic) امراض کا پھیلاؤ
Atlanta میں واقع Centre for disease control (CDC) نے خیال ظاہر کیا ہے کہ فی زمانہ ظاہر ہونے والے زیادہ تر امراض Zoonotic ہیں۔ CDC کے ڈائرکٹر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بارہ میں سے گیارہ نئے امراض جانوروں کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ان دنوں جنگل جانور دنیا کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ جانور اپنے ساتھ امراض بھی لے جاتے ہیں۔ اسی طرح گوشت کی دکانیں اور کھانے کے ہوٹلوں میں احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جاتیں۔ پالتو جانوروں کے بازاروں میں بھی ٹیکے وغیرہ پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔

جانوروں سے ہونے والے چند امراض
جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے امراض سے متعلق عوام کا علم بہت محدود ہے۔ مثلاً چو ہوں سے ہونے والا مرض طاعون (Plaque) اور دیوانے کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والا مرض Rabies ۔ پالتو جانوروں سے بھی بیماریوں کا خطرہ ہوسکتا ہے، یہ بات حلق سے نیچے نہیں اترتی! بعض Zoonoses تو ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ جان کر بالکل یقین نہیں آتا مثلاً ہاتھی کو بھی تپ دق یعنی یعنی ٹی بی (Tuberculosis) لاحق ہوسکتی ہے اور وہ انسانوں کو اس مرض میں مبتلا کرسکتا ہے! چند Zoonotic امراض جن کا پھیلاؤ زیادہ ہے، ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ Rabies:۔
اس کے مرض بردار جانور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ کتّا، چمگادڑ، بندر، لومڑی، مویشی، بھیڑیا، نیولا اور بلی وغیرہ۔ Rabies Virus پہلے ان جانوروں کو متاثر کرتا ہے پھر یہ جانور مختلف طریقوں سے انسان کو متاثر کرتے ہیں۔Rabies ایک جان لیوا مرض ہے۔ متاثرجانورکی رال یا تھوک ، اس کے کاٹنے یا زخمی کرنے سے Rabies کے وائرس انسان میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ یہ وائرس متاثرجانور اور انسان کے عصبی خلیات (Nerve Cells) کو تباہ کردیتے ہیں۔ اگر علاج نہ کیا گیا تو مریض کی موت یقینی ہوتی ہے۔ اس مرض کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ اس کا مریض پانی نہیں پی سکتا۔ لہذا یہ مرض پانی سے خوف کا مرض (Hydrophobia) بھی کہلاتا ہے۔ کسی مشکوک جانور کے ذریعے کاٹے جانے پر سب سے پہلے زخم کو صابن اور پانی سے اچھی طرح دھولینا چاہئے۔ اگر کاٹنے والا جانور Rabies کی علامات ظاہر کرے یعنی جارح ہوجائے اور بغیر کسی وجہ کے حملہ کرنے لگے تو فوراً Rabies مخالف ٹیکہ لگوانا چاہئے۔ یہ سب سے زیادہ محفوظ علاج ہے۔ یہ ٹیکہ لوئی پا سچر نے ایجاد کیا تھا۔ اس ٹیکے کا کورس سات سے چودہ انجکشن کا ہے جو روزانہ، بغیر ناغہ کئے لینے پڑتے ہیں۔ مرض کی شدت دیکھ کر ڈاکٹر طے کرتے ہیں کہ کتنے انجکشن دینے ہیں۔ حال ہی میں بائیو ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک جدید ٹیکہ تیار کیا گیا ہے جس کا صرف ایک انجکشن ہی کافی ہے۔
2۔ Anthrax:۔
اس مرض کا ذمہ دار جرثومہ Bacillus Anthracis ہے۔ مرض بردار جانور میں سبزی خور مویشی، بھیڑ، بکری، اونٹ، گھوڑا اور سور شامل ہیں۔ اس مرض میں مریض کی جلد اور پھیپھڑوں پر پھوڑے نکل آتے ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ غذا کے ساتھ انتھراکس جراثیم کے تخمک (Spores) جسم میں پہنچ جاتے ہیں۔ سانس اور جلدی تعلق کے ذریعے بھی تخمک جسم میں داخل ہوجاتے ہیں جہاں وہ جراثیم میں تبدیل ہوکر مرض پیدا کرتے ہیں۔
3۔ تپ دق (Tuberculosis) :۔
یہ مرض Mycobacterium Bovis کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ بلی، لومڑی، مویشی، ہرن، سور، چوہے اس کے پھیلاؤ کے ذمہ دار ہیں۔ یہ مرض متاثر جانور کا دودھ استعمال کرنے، ان کے آس پاس کی ہوا میں سانس لینے اور ان کے بول وبراز وغیرہ سے پھیلتا ہے۔ ٹی بی کا علاج کافی طویل لیکن ممکن ہے۔ DOTS طریقۂ علاج اس مرض سے چھٹکارے کو یقینی بناتا ہے۔ بچوں کو لگایا جانے والا BCG کا ٹیکہ انہیں زندگی بھر کے لئے ٹی بی سے محفوظ کردیتا ہے۔
4۔ انفلواِنزا (Influenza) :۔
Influenza A. Virusاس مرض کا ذمہ دارہے۔ گھوڑا، سور، پالتو اور جنگلی پرندے، جنگلی آبی پستانیے مثلاً سیل اور وہیل، مِنک (Mink) وغیرہ اس مرض کے بردار (Carriers) ہیں۔ ان جانوروں کے ناک، منہ وغیرہ سے نکلنے والی ریزش کے مہین قطرات جو ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں، انسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔انفلوئنزا ایک تنفسی (Respiratory) مرض ہے جسے عام طور پر فُلو (Flu) کہا جاتا ہے۔ اس کی علامات میں بخار، کمزوری، عضلات میں درد، حلق میں سوزش، کھانسی، ناک سے ریزش کا بہنا اور نظامِ انہضام کابگڑنا شامل ہیں۔ انفلوئنزا پوری طرح قابلِ علاج ہے۔
5۔ Ebola Virus Disease:۔
یہ ایک جدید مرض ہے جو Ebolavirus Spp. کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اس وائرس کے Carriers : چمپانزی، گوریلا، فروٹ بیٹ، بندر ، جنگلی ہرن وغیرہ ہیں۔ متاثرہ جانوروں کے جسمانی مائعات (Body Fluids) میں یہ وائرس موجود ہوتا ہے۔ ان جانوروں کا گوشت کھانے سے بھی لوگ اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اس مرض کا پہلا حملہ چند افریقی ممالک پر 6 دسمبر 2013 کو ہوا۔ دوسرا حملہ مارچ 2014 کو ہوا۔ ان دونوں حملوں میں ہزاروں لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس مرض کی ابتدا نزلہ زکام سے ہوتی ہے پھر جاڑا، بخار، سستی، متلی، دست اور شدید سر درد کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ پھر مریض کے مختلف مقامات سے خون جاری ہونا، بے ہوشی اور جسم کے تمام نظاموں کا مفلوج ہوجانا دکھائی دیتا ہے۔ دو ہفتوں کے اندراندر مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض مریض صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اس مرض میں دوائیوں سے زیادہ مریض کی قوتِ مدافعت (Immunity) اہم ہے۔ پورے جسم اور خاص کر ہاتھوں کی کی صفائی سب سے اہم احتیاطی تدبیر ہے۔ (مزید معلومات کے لئے ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا اداریہ، ماہنامہ سائنس، نئی دہلی، شمارہ: اکتوبر 2014 ، ملاحظہ فرمائیں)۔
6۔ African Sleeping Sickness:۔
یہ ایک عجیب و غریب مرض ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، مریض سوتا ہی رہتا ہے۔ اگر علاج میں غفلت برتی گئی تو نیند میں ہی اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بہت سارے جنگلی اور پالتو جانور اس مرض کے بردار ہیں۔ یہ مرض Trypanosoma Brucei Rhodesiense کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ افریقہ میں پائی جانے والی مکھی سی سی فلائی (Tsetse Fly) اس مرض کا Vector ہے۔
7۔Mad Cow Disease :۔
یہ پالتو جانوروں کا دماغی مرض ہے جس میں ان کا عصبی نظام متاثر ہوتا ہے اور ان میں پاگل پن کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس مرض کا طبی نام BSE ہے یعنی Bovine Spongiform Encephalopathy ۔ اس مرض میں مبتلا جانوروں کا گوشت انسانوں میں اس مرض کو منتقل کرتا ہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سارے امراض ہیں جو Zoonoses کی فہرست میں شامل ہیں مثلاً Brucellosis ، Cat-scratch Disease، Cryptococcosis ، Echinococcosis ، Histoplasmosis ، Leptospirosis ، Tularemia ، Trichinosis اور Toxoplasmosis وغیرہ۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360251
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development