رنگوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
واپس چلیں

ایس ایس علی
ستمبر 2015

رنگوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے!
دنیا میں ایک شے مرے پروردگار دے
یعنی کہ میرے دل پہ مجھے اختیار دے
مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر انسانی نفسیات کی ایک جامع تعریف بیان کرتا ہے۔ (دنیوی) علوم میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور سب سے کم سمجھا گیا علم ’’انسانی نفسیات‘‘ ہے۔ ہر چند کہ اسے سائنس کی ایک شاخ تسلیم کیا جاتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس کے ہر علاقے میں سائنس بے بس نطر آتی ہے۔ سائنس، نفسیات کو ’’دماغ اور اس کی کارکردگی کا علم‘‘ مانتی ہے۔ لیکن نفسیات ایسی سیماب صفت واقع ہوئی ہے کہ سائنس اسے کہیں سے بھی اپنی گرفت میں نہیں لے پاتی۔ اس کی نیرنگیوں کے آگے سائنس واقعی بے بس ہے!اور پھر نفسیات دماغ اور اس کی کارکردگی تک ہی تو محدود نہیں۔ جب دماغ کی کارکردگی اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ کر رک جاتی ہے تو اس کا مقتدر اعلیٰ زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔۔۔۔وہی جو سینے کے پنجرے میں براجمان ہے۔۔۔۔مٹھی بھر کا عضو۔۔۔۔۔جس کا ذکر حالی نے کیا ہے۔۔۔۔جس پر ہمیں اختیار نہیں۔۔۔۔جس کا قصیدہ غنی اعجاز نے اس طرح قلم بند کیا ہے:
آدمی کی حیات مٹھی بھر
یعنی کل کائنات مٹھی بھر
ویسے ماہرینِ نفسیات کو ٹھینگا دکھانے میں ہمارے شعراء کا جواب نہیں۔سلیم کوثر نے تو ایک شعر کے ذریعہ ماہرین نفسیات اور ماہرین طبعیات، دونوں کو چیلینج کیا ہے کہ یہ معما، یہ Paradox حل کرکے دکھائیں:
میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مراعکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے !!!
نفسیات ایک ایسی ڈور ہے جسے جتنا سلجھایا جائے وہ اتنی ہی الجھتی جاتی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں صفحات سیاہ کرنے کے باوجود نفسیات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ لیکن اسے سمجھنے کے لئے ایک لفظ بھی کافی ہے! صرف ایک لفظ میں اس کی قابلِ قبول تعریف کی جاسکتی ہے!! وہ لفظ ہے ’’حس پذیری‘‘ (Sensitivity)۔ یہی وہ شاہ کلید (Master Key) ہے جو الجھنوں کے تمام تالوں کو کھول سکتی ہے۔ کائنات کا ادنی سے ادنی محرک انسانی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اس کا اثر قبول کرتا ہے مثلاً نفسیات میں رنگ (Colour) کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ رنگ انسانی رویہ اور برتاؤ میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوا ہے۔
رنگ مرئی نور کے کسی ایک جزو یا چند اجزاء کا ادراک ہے جو آنکھوں کے وسیلے سے ہمارے دماغ میں ہوتا ہے۔ رنگ اگرچہ خود ایک ادراک ہے، وہ ہمارے دوسرے نظاموں کے ادراک کو تحریک دیتا ہے۔ مثلاً خوش رنگ غذا کو دیکھ کر اسے کھانے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ پھر اگر غذا کی خوشبو روح افزا ہو تو بے اختیار ہمارا ہاتھ کھانے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ غذا کے ذائقے کا نمبر اخیر میں آتا ہے! یا مثلاً مریض کی کمزوری کو دور کرنے اور چستی پھرتی جگانے کے لئے دی جانے والی گولیاں، کیپسول اور سیرپ شوخ رنگوں کے ہوتے ہیں جیسے سرخ اور نارنگی۔ اسی طرح تسکین پہنچانے والی دوائیوں کے رنگ سرد ہوتے ہیں جیسے سبز، نیلا وغیرہ۔
بڑی بڑی کمپنیاں اپنے سائن بورڈ، لوگو، بیز اور اپنے ملازمین کے یونی فارم کے لئے رنگوں کے انتخاب میں نفسیات کو بہت اہمیت دیتی ہیں۔ اسی طرح کھیلوں کی دنیا میں ہر ٹیم کے کھلاڑیوں کے آؤٹ فٹ کا رنگ دوسری ٹیموں سے جدا ہوتا ہے۔ رنگوں کے انتخاب میں ذاتی پسند اور ناپسند کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
رنگ لوگوں کی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اس کی دو مثالیں دلچسپی سے خالی نہیں۔ سال 2000 میں Glasgo نامی کمپنی نے امریکہ کے ایک ایسے علاقے میں جہاں جرائم کا گراف بلند تھا، نیلے رنگ کی اسٹریٹ لائٹ لگوادیں۔ چند ہی ہفتوں میں اس علاقے میں جرائم کے ارتکاب میں تخفیف نوٹ کی گئی۔ 2009 میں جاپان کی ایک ریلوے کمپنی نے اپنے اسٹیشنوں کو نیلے رنگ کی روشنی سے منور کردیا تاکہ لوگوں میں خودکشی کا رجحان کم ہو۔ لیکن یہاں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی!

پیچیدگی، الجھاؤ، بھرم
عام نفسیات جیسی پیچیدگی رنگوں کی نفسیات میں بھی پائی جاتی ہے۔ کوئی ایک مخصوص رنگ مختلف لوگوں پر محتلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ رنگوں کی نفسیات میں جِنس، عمر، ثقافت وسماجیات اور مذہبی روایات اہم محرکات ہیں۔ مثلاً خواتین کا سرخ لباس مردوں کے لئے زیادہ کشش کا باعث ہوتا ہے جب کہ مردوں کا کسی بھی رنگ کا لباس خواتین کے لئے کشش میں اضافہ نہیں کرتا!
تجارت میں رنگوں کی نفسیات بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ صارف کے جذبات اور ادراک پر اثر انداز ہونے کے لئے صنعت کار اپنی مصنوعات کے رنگوں پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ مارکٹ میں اجناس کے علاوہ خدمات کی بھی تجارت ہوتی ہے۔ خدمات کے علاقے میں بھی رنگوں کے انتخاب میں سلیقہ مندی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
رنگوں کے انتخاب میں عمر سب سے بڑا محرک ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ رنگوں کے انتخاب میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بچّے گلابی (Pink) رنگ کے کھلونے زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ نوجوان شوخ رنگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ عمر دراز لوگ عام طور پر سفید رنگ کو اپنی پہچان بنالیتے ہیں۔
رنگوں کے انتخاب میں جنس بھی ایک طاقتور محرک ہے۔ خواتین عام طور پر سرخ، گلابی، زرد اور بنفشی رنگوں کو ترجیح دیتی ہیں جب کہ مرد ان رنگوں کو پسند نہیں کرتے۔ خواتین سرخ اور بھڑک دار رنگ پسند کرتی ہیں لیکن مرد انہیں رد کردیتے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق خواتین گرم رنگوں (سرخ، زرد، نارنگی، گلابی، بنفشی) کو پسند کرتی ہیں جب کہ مرد سرد رنگوں (نیلے اور سبز) کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ انسانوں کا مزاج (Nature) بھی رنگوں کے انتخاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ گرم مزاج کے لوگ (بلا تفریق جنس) سرد رنگوں کو پسند کرتے ہیں جب کہ سرد مزاج کے افراد گرم رنگوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ ہر مذہب کے پیروکاروں نے اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے ایک رنگ منتخب کرلیا ہے۔ لہذا مسلمانوں نے سبز رنگ کو اپنی مذہبی شناخت بنالیا ہے، ہندوؤں کا رنگ زعفرانی، سکھوں کا زرد، بودھوں کا گہرا نیلا، عیسائیوں کا سفیداور یہودیوں کا شناختی رنگ نیلا ہے۔

رنگوں کی نفسیات
کارل جُونگ (Carl Jung)رنگوں کی نفسیات (Colour Psychology) کا موجد تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے رنگوں کی خصوصیات پر خاص توجہ مرکوز کی اور ان کے معنی ومطالب اخذ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے فن (Art) کے منتخب نمونوں کو نفسیاتی علاج (Psychotherapy) کے ایک ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ جنگ کے نزدیک ہر رنگ ایک علامت (Symbol) ہے۔ پکاسو (Picaso) جیسے عالم گیر شہرت کے فنکاروں کے ذریعے استعمال کئے گئے رنگوں کا اس نے گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس کے مطابق ہر رنگ کا اپنا ایک کوڈ (Code) ہوتا ہے۔ اس کوڈ کو توڑ کر یعنی Decode کرکے اس نے رنگوں کی زبان (Colour Language) ترتیب دینے کی کوشش کی۔ ہر رنگ کچھ کہتا ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رنگوں کی زبان سمجھ کر دماغی مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے،لا علاج امراض سے مریضوں کو چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے۔ جُونگ نے رنگوں کے نظام کو سمجھنے اور ان کا مناسب استعمال کرنے کے لئے الکیمیا (Alchemy) سے بھی مدد لی ہے۔
رنگوں کی نفسیات کے چھ بنیادی اصول ہیں:
(1) ہر ایک رنگ کے مخصوص معنی ہوتے ہیں
(2) ہر رنگ کے معنی یا تو اکتسابی ہوتے ہیں یا جبّلی۔
(3) رنگ کا ادراک ہوتے ہی اس کی قدر پیمائی (Evaluation) خود بہ خود عمل میں آتی ہے۔
(4) رنگ کی قدر پیمائی انسان کے رویہ کو تحریک دیتی ہے اور اسے کنٹرول کرتی ہے۔
(5) رنگ از خود ناظر کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے۔
(6) رنگ کے معنی اور اس کی اثر پذیری سیاق و سباق پر بھی منحصر ہوتی ہے۔
مارکٹ کے شعبے میں ان اصولوں کو اپنا کرزیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رنگ اور افتادِ طبع
1798-99میں گوئتھے (Goethe) اورشیٖلر (Schiller) نے لوگوں کی افتادِ طبع (Temperament) پر اثر انداز ہونے والے رنگوں کا ایک حلقہ مرتب کیا تھا جسے انہوں نے Rose of Temperament کا نام دیا تھا۔ اس حلقے کے مطابق انسانوں کو ان کے پیشے اور افتادِ طبع کے مطابق چار گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن کو بارہ رنگ کنٹرول کرتے ہیں:
(1) تند مزاج (Choleric) : ۔
اس گروپ میں جابر اور ظالم لوگ، ہیروز، مہم جو افراد شامل ہیں۔ ان کے مزاج کو کنٹرول کرنے والے رنگ ہیں سرخ، نارنگی، زرد۔
(2) پر اعتماد (Sanguine) :۔
یہ لوگ بے فکرے اور پر امید ہوتے ہیں۔ اس گروپ میں لذت پسند افراد، محبت کرنے والے اور شعراء شامل ہیں۔ ان کے رنگ ہیں زرد، سبز، مور پنکھی (Cyan) ۔
(3) ٹھنڈے دل و دماغ والے (Phlegmatic) :۔
مثلاً عوامی مقرر، تاریخ داں، معلمین۔ ان کی شخصیت کو مورپنکھی، نیلا اور بنفشی رنگ کنٹرول کرتے ہیں۔
(4) غمگین طبیعت والے (Melancholic) :۔
حزن وملال، سنجیدگی اور فکر مندی ان کا شیوہ ہوتا ہے مثلاً فلسفی، دانشمند اور حاکم۔ ان کے رنگ بنفشی، مجینٹا(گہرا سرخ) اور سرخ ہیں۔

سرخ رنگ کی اہمیت
ٹریفک سگنل میں سرخ رنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سرخ رنگ کا تحکمانہ رویہ یہ ہے کہ سرخ سگنل ہوتے ہی تیزی سے رواں دواں ٹریفک یک لخت رک جاتا ہے۔ ہماری رگوں میں دوڑنے پھرنے والے خون کا رنگ سرخ ہے۔ یہ زندگی کی علامت ہے۔ سرخ رنگ کا لباس نہ صرف پہننے والے بلکہ ناظرین پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جدید نفسیاتی مطالعہ کے مطابق سرخ رنگ صحت مندی کی علامت ہے، بالمقابل زرد (Pale) رنگ کے جو غیر صحت مندی اور خون کی کمی (Anemia) کی علامت ہے۔ غصہ کی حالت میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے بالمقابل خوف کی حالت کے جس میں زرد پڑجاتا ہے۔ Testosteron نامی محرکاب چہرے کی سرخی کا ذمہ دار ہے اسی کی وجہ سے مردوں کی جلد عورتوں کی جلد کے مقابلے میں زیادہ سرخی مائل ہوتی ہے۔

رنگوں کی اثر آفرینی
برسہابرس کے تجربات اور مطالعوں کے نتیجے میں مختلف رنگوں کی اثر آفرینی طے کی گئی ہے۔ ان تجربات اور مطالعوں میں انسانی نفسیات زیر بحث آتی ہے لہذا کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ ان تمام نتائج سے ہر شخص مکمل طور پر متفق ہو یہ ضروری نہیں۔ تاہم غالب رجحان ذیل کے مطابق ہے:
* سرخ رنگ جوش و حروش کی علامت ہے۔ یہ خون کے دباؤ (BP) کو بڑھا دیتا ہے۔ یہ بے خوابی کی کیفیت بھی طاری کر سکتا ہے۔ امتحا نات کے دوران بچوں کو سرخ رنگ سے دور رکھنا چاہئے۔ سرخ رنگ کھلاڑیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتا ہے۔
* زرد رنگ اعصاب (Nerves) کو تحریک دیتا ہے۔ یہ رنگ ہماری زندگی کو شادانی و فرحانی سے بھر دیتا ہے۔ لیکن اس کی زیادتی لوگوں کو خاص کر بچوں کو مشتعل کرسکتی ہے۔
* نارنگی رنگ پھیپھڑوں کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور توانائی کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ سادھوسنت اسی رنگ کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ وٹامن کی گولیاں اور سیرپ اکثر اسی رنگ میں آتے ہیں۔
* نیلا رنگ تسکین بخش ہے۔ ورزش گاہوں اور خواب گاہوں میں اس کاخوب استعمال کیا جاتاہے۔ درودیوار اور پردے زیادہ تر اسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ لباس کے لئے پہلی پسند نیلا رنگ ہوتا ہے۔
* سیاہ رنگ اقتدار اور قوت کا مظہر ہے۔ سیاہ لباس میں ملبوس شخص چھریرا، پھرتیلا اور چاق و چوبند نظر آتا ہے۔
* سفید رنگ اخلاص، پاکیزگی اور معصومیت کی علامت شمار کیا جاتا ہے۔ مغرب میں دلہن کا لباس سفید ہی ہوتاہے۔ سفید رنگ تپش کا خراب موصل ہے اس لئے گرمیوں میں سفید لباس استعمال کیا جاتا ہے۔
* سبز رنگ قدرتی اور فطری رنگ مانا جاتا ہے۔ آرام و سکون کی نشانی ہے۔ اسپتالوں میں یہ رنگ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔
* بھورا (خاکی) رنگ زمین کا رنگ ہے۔ یہ ہمیں اپنی اوقات یاد دلاتا ہے۔
* بنفشی (جامنی) رنگ شان و شوکت اور امارت داری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قدیم رومی خاندان کے افراد اس رنگ کا استعمال کیا کرتے تھے۔

کروموفوبیا
کسی مخصوص رنگ کا ڈر کروموفوبیا (Chromophobia) کہلاتا ہے۔ ماضی میں یا بچپن میں کسی خوفناک واقعہ کا تعلق کروموفوبیا سے ہوتا ہے۔ بچہ اگر کسی کا قتل ہوتے ہوئے دیکھ لے، خون کے فوارے چھوٹ رہے ہوں تو اس کے دل و دماغ کو سخت صدمہ پہنچتا ہے اور خون اور سرخ رنگ کے لئے اس کے دل میں ڈر بیٹھ جاتاہے۔یا ہمیشہ سفید لباس میں ملبوس رہنے والا شخص کسی کو بزنس میں دھوکہ دے کر برباد کردے تو اب برباد ہونے والا سفید رنگ سے خوف کھانے لگتا ہے۔ میڈیکل سائنس کی تاریخ میں کروموفوبیا کے بہت کم معاملات درج ہیں۔ کروموفوبیا نفسیاتی معاملہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی معاملہ بھی ہے۔ اس میں محرکابی تحریک (Hormonal Response) ملوث ہوتی ہے۔ سرخ رنگ سے خوف Erythrophobia کہلاتا ہے جب کہ سفید رنگ کا خوف Leucophobia کہلاتا ہے۔

کرومو تھیراپی
ایک متبادل طریقۂ علاج کروموتھیراپی (Chromotherapy) ہے جس کے معنی ہیں رنگوں کے ذریعہ علاج۔ اسے کلر تھیراپی بھی کہتے ہیں۔ اس طریقۂ علاج کا موجد ابن سینا (980-1037) مانا جاتا ہے۔ اس نے اپنی تصنیف ’’القانون فی الطب‘‘ میں لکھا ہے کہ امراض کی تشخیص اور ان کے علاج میں رنگوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کے مطابق رنگ کسی بھی مرض کی نظر آنے والی علامت ہے رنگوں کے ذریعہ علاج کے سلسلے میں اس نے لکھا ہے کہ سرخ رنگ خون کی گردش یعنی دورانِ خون کی بے قاعدگیوں پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے نیلا اور سفید رنگ خون کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرکے اسے ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ زرد رنگ عضلاتی درد اور سوجن کو دور کرتا ہے۔
ابن سینا کی تصنیف سے تحریک پاکردورِ جدید کے کئی سائنسدانوں نے کروموتھیراپی کے علاقے میں تحقیقات کیں۔ Augustus Pleasonten (1801-1894) نے ایک کتاب 1876 میں شائع کی جس کاعنوان تھا۔۔۔ The Influence of Blue Rays of the Sunlight and the Blue Colour of the Sky ۔اس کتاب میں اس نے ثابت کیا کہ کس طرح نیلا رنگ فصلوں اور مویشیوں کی صحت اور عمر میں اضافہ کرتا ہے۔ اور یہ کہ وہ انسانوں کی مختلف بیماریوں کے علاج میں کس طرح مفید ہے۔
19ویں صدی کے دوران ’’رنگ معالج‘‘ (Colour Healers) نے اپنا دبدبہ بنائے رکھا۔ رنگین شیشوں کے فلٹر کا استعمال کرکے قبض اور Meningitis جیسی کئی بیماریوں کے کامیاب علاج کا دعویٰ کیا۔
آیوروید طریقہ علاج میں رنگوں کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
اس طریقۂ علاج میں تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ ساتھ چکر (Chakra) واقع ہوتے ہیں۔ یہ چکر دھنک کے سات رنگوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مختلف امراض کی وجہ سے رنگوں کے ان چکروں کا نظام اپنا توازن کھو بیٹھا ہے۔ اس نظام کو دوبارہ متوازن کرکے امراض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام کو متوازن کرنے کے لئے متعلقہ رنگ کی شعاعوں کو ریڑھ کی ہڈی کے مخصوص مقام پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ ذیل کے جدول کے ذریعہ چکروں کے اس نظام کو سمجھا جاسکتا ہے:
رنگ
چکر
چکر کا مقام
رنگ کی افادیت
سرخ
پہلا
ریڑھ کی ہڈی کا قاعدہ
زندگی کی مضبوط بنیاد اور بقاء
نارنگی
دوسرا
قاعدے سے اوپر، جنسی اعضاء
جذبات، جنسیات
زرد
تیسرا
بطن (پیٹ)
قوت، انا
سبز
چوتھا
دِل
الفت، احساسِ ذمہ داری
نیلا
پانچواں
حلق
جسمانی و روحانی ابلاغ
گہرا نیلا
چھٹا
پیشانی
معافی، رحم، مفاہمت
بنفشی
ساتواں
سرکااوپری حصہ (تالو)
عالمی توانایؤں سے رشتہ، خیالات اور معلومات کی ترسیل

علامہ اقبال کی وارننگ
رنگوں کی دنیا نہایت حسین۔۔۔۔رنگوں کی نفسیات پیچ در پیچ۔۔۔ رنگوں کا مطالعہ بڑا دلچسپ۔ لیکن ہمیں رنگوں سے بہت زیادہ الجھنے اور ان میں بہت زیادہ Involve ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علامہ اقبال کی یہ نصیحت ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے۔
کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360277
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development