بس اپنے ہی رنگ میں، رنگ دے مجھ کو!
واپس چلیں

ایس ایس علی
جولائی 2015

بس اپنے ہی رنگ میں، رنگ دے مجھ کو!
اکثر ہمیں ایسے الفاظ سے سابقہ پڑتا ہے جن کے مفہوم سے ہم اچھی طرح واقف ہوتے ہیں لیکن اگر ان کے معنی بتانے کی نوبت آجائے تو مشکل درپیش ہوتی ہے۔ ایسے ہی الفاظ میں سے ایک لفظ ہے ’’رنگ‘‘۔ اب بتائیے رنگ کیا ہے؟ مشکل؟؟ ایسے ہی مشکل مواقع پر سائنس ہماری مدد کے لئے آتی ہے۔ ہر لفظ اور ہر اصطلاح کے بالکل درست (Exact) معنی و مفہوم کو طے کرنا سائنس کا طرۂ امتیاز ہے!
آکسفورڈ ایڈوانسڈ لرنرس ڈکشنری لفظ رنگ یعنی Colour کے معنی اس طرح بیان کرتی ہے۔
Visible quality that objects have, produced by rays of light of different wave lengths being reflected by them.
یعنی اشیاء کی نظر آنے والی وہ خصوصیت جو ان پر پڑنے والی مختلف طولِ موج کی شعاعوں کے منعکس ہونے سے ظاہر ہوتی ہے (رنگ کہلاتی ہے)۔
سفید روشنی مختلف طول موج کی کئی شعاعوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جب کسی غیر شفاف جسم پر یہ روشنی پڑتی ہے تو وہ جسم کچھ شعاعوں کو جذب کرلیتا ہے اور کچھ کو منعکس کردیتا ہے۔ منعکس ہونے والی یہ شعاعیں ہماری آنکھ میں پہنچ کر رنگ کا احساس کرواتی ہیں اور وہ جسم ہمیں رنگین نظر آتا ہے۔ مثلاً کوئی جسم سفید روشنی کی تمام شعاعوں کو جذب کرلیتا ہے سوائے 635nm-700nm طولِ موج کی شعاع کے، تو یہ شعاع اس جسم سے منعکس ہوکر ہماری آنکھ میں سرخ رنگ کا احساس جگائے گی اور جسم ہمیں سرخ رنگ کا نظر آئے گا۔ اسی طرح اگر کوئی جسم صرف 520nm-560nm طولِ موج کی شعاع کو منعکس کرتا ہے تو وہ سبز نظر آئے گا۔
سفید لباس ہمیں سفید اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اوپر پڑنے والی روشنی کی کسی بھی شعاع کو جذب نہیں کرتا۔ مختلف طولِ موج کی تمام شعاعوں کو منعکس کردیتا ہے۔
کاجل سیاہ کیوں نظر آتا ہے؟ کیوں کہ وہ اپنے اوپر پڑنے والی روشنی کی تمام شعاعوں کو جذب کرلیتا ہے۔ کسی بھی شعاع کو منعکس نہیں کرتا۔
نیلے رنگ کا ایک جسم نیلا اس لئے نظر آتا ہے کہ وہ اپنے اوپر پڑنے والی سفید روشنی کی تمام شعاعوں کو جذب کرلیتا ہے سوائے نیلی شعاع کے۔ اس جسم پر اگر نیلی شعاعیں ڈالی جائیں تو وہ جسم ان شعاعوں کو منعکس کردے گا اور نیلا ہی نظر آئے گا۔ لیکن اگر اس پر سرخ شعاعیں ڈالی جائیں تو کیا ہوگا؟ وہ سرخ شعاعوں کو پوری طرح جذب کرلے گا اور اب وہ جسم سیاہ نظر آئے گا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی جسم صرف ایک ہی رنگ کی شعاع منعکس کرے۔ ایک جسم صرف سرخ اور بنفشی شعاعوں کو جذب کرتا ہے اور باقی درمیانی تمام شعاعوں کو منعکس کردیتا ہے تو وہ جسم زردی مائل سبز نظر آئے گا۔ اسی طرز پر طیف کے سات رنگوں کے علاوہ بے شمار رنگ وجود میں آتے ہیں۔
انسانی آنکھ رنگوں کا اندازہ (Judgement) کرنے میں کافی ناہموار ثابت ہوئی ہے۔ وہ کسی جسم کی سطح کے صرف غالب رنگ کا ہی ادراک کرسکتی ہے۔ صرف طیف پیما (Spectroscope) ہی بتا سکتا ہے کہ کوئی غیر شفاف جسم اپنے اوپر پڑنے والی روشنی کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہے۔ اکثر اجسام کے رنگوں کا نظام نہایت پیچیدہ ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہر شے مادّے (Matter) سے مل کر بنی ہے مادّے کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات اور اشیاء کی ساخت (Structure) بھی ان کے رنگوں کے تعین میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
رنگوں سے متعلق شفاف اور نیم شفاف اشیاء کا مزاج بھی غیر شفاف اشیاء سے ملتا جلتا ہے۔ بعض شفاف اور نیم شفاف اشیاء رنگین ہوتی ہیں۔ جب ان اشیاء پر سفید روشنی پڑتی ہے تو اس کا غالب حصہ ان میں سے گزر جاتا ہے کچھ شعاعیں ان میں جذب بھی ہوتی ہیں اور کچھ منعکس ہوجاتی ہیں۔ منعکس ہونے والی شعاعیں ان کے رنگ کا تعین کرتی ہیں۔
ہلکے سبز رنگ کی پلاسٹک (پولی تھین) کی چادر (Sheet) شفاف ہوتی ہے۔ اگر اس کو موڑ کر دوہری کردیں تو اس کی شفافیت میں معمولی سی کمی اور اس کے سبز رنگ میں معمولی سا گہرا پن نوٹ کیا جائے گا۔ اس چادر کو بار بار موڑتے جائیں تو اس کا سبز رنگ گہرا ہوتا جائے گا لیکن پندرہ بیس موڑوں (Folds) کے بعد یہ چادر ہمیں گہری سبز نظر نہیں آئے گی بلکہ وہ گہرا سرخ رنگ اختیار کرلے گی۔ جس مادے سے یہ چادر بنی ہے اس کی یہ خاصیت ہے کہ اس کی دبیز تہہ سرخ رنگ کی شعاع کو منعکس کرتی ہے۔
طیف کے رنگ اور ان کی طولِ موج
سفید مرئی نور سات رنگوں کے طیف (Spectrum) پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سات رنگ ذیل کے مطابق ہیں:
(1) سرخ (لال) Red
(2) نارنگی Orange
(3) زرد (پیلا) Yellow
(4) سبز (ہرا) Green
(5) آسمانی (ہلکا نیلا) Blue
(6) نیلا Indigo
(7) بنفشی (جامنی) Violet
ان رنگوں کو ظاہر کرنے والی شعاعوں کی طولِ موج 400nmسے 700nm تک ہوتی ہے۔ سرخ سے آگے پائی جانے والی شعاعوں کو زیرِ سرخ (Infra Red) شعاعیں کہتے ہیں۔ ان کی طولِ موج 1000nm تک ہوتی ہے۔ بنفشی سے پرے پائی جانے والی شعاعیں بالائے بنفشی (Ultra Violet) شعاعیں کہلاتی ہیں۔ ان کی طول موج 200nm تک ہوتی ہے۔ زیرِ سرخ اور بالائے بنفشی شعاعوں کا ادراک ہماری آنکھیں نہیں کرپاتیں۔ سفید روشنی میں پائی جانے والی مختلف رنگوں کی شعاعوں کی طولِ موج ذیل کے مطابق ہے:
نمبر شمار
رنگ
طولِ موج
1
2
3
4
5
6
7
8
9

10
زیر سرخ (Infra-Red)
سرخ (Red)
نارنگی (Orange)
زرد (Yellow)
سبز (Green)
آسمانی (Blue)
نیلا (Indigo)
بنفشی (Violet)
قریب بالائے بنفشی
(Near Ultra Violet)
بعید بالائے بنفشی
(Far Ultra Violet)
1000nm - 700nm
700nm - 635nm
635nm - 590nm
590nm - 560nm
560nm - 520nm
520nm - 490nm
490nm - 450nm
450nm - 400nm
400nm - 300nm

300nm - 200nm
(نینو میٹر = nm)
(ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ)

رنگوں کا ادراک(Colour Vision)
ہماری آنکھ کے پچھلے حصہ میں ایک پردہ ہوتا ہے جسے شبکیہ (Retina) کہتے ہیں۔ شبکیہ میں روشنی کے لئے حساس دو قسم کے خلیات ہوتے ہیں جو عصا اور مخروط (Rods and Cones) کہلاتے ہیں۔ یہ نام انہیں ان کی ساخت کی وجہ سے دئے گئے ہیں۔ عصا مدھم روشنی کے لئے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن شعاعوں کی طولِ موج کا ادراک نہیں کرسکتے۔ جب روشنی تیز ہوتی ہے تو مخروطوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور عصا اپنا کام بند کردیتے ہیں۔ ایک نارمل بصارت کے حامل شخص کے شبکیہ میں تین قسم کے مخروط پائے جاتے ہیں:
(1) مختصر طولِ موج کا احساس کرنے والے مخروط جو نیلے رنگ کا ادراک کرتے ہیں۔ انہیں مختصر طولِ موج مخروط (Short Wavelength Cones) یا S.Cones یا Blue Cones کہتے ہیں۔ یہ مخروط دوسری قسم کے مخروطوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔
(2) درمیانی طولِ موج کا احساس کرنے والے مخروط جو سبز رنگ کا ادراک کرتے ہیں۔ یہ Middle Wavelength Cones یا M.Cones یا Green Cones کہلاتے ہیں۔
(3) طویل طولِ موج کا احساس کرنے والے مخروط جو سرخ رنگ کا ادراک کرتے ہیں، انہیں Long Wavelength Cones یا L.Cones یا Red Cone کہتے ہیں۔
سبز اور سرخ مخروط ایک دوسرے سے جینیاتی (Genetically) اور کیمیائی (Chemically) طور پر گہرا ربط رکھتے ہیں۔
شبکیہ میں موجود بے شمار عصاو مخروط پر روشنی پڑنے پر وہ عمل پذیر ہوجاتے ہیں اور برقی اشارے (Electrical Signals) پیدا کرتے ہیں۔ یہ اشارے بصری اعصاب (Optical Nerves) کے ذریعے دماغ تک پہنچائے جاتے ہیں۔ دماغ ان اشاروں کا تجزیہ کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمیں شے جوں کی توں نظر آتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہاں یعنی دماغ میں رنگوں کا ادراک ہوتا ہے۔ دماغ رنگوں کا ادراک کس طرح کرتا ہے ابھی تک ایک معما، ایک راز ہی ہے۔

رنگوں کا اندھا پن(Colour Blindness)
کچھ افراد میں رنگوں کا مکمل ادراک نہیں پایا جاتا۔ ایسے افراد رنگوں کے اندھے (Colour Blind) کہلاتے ہیں۔ شبکیہ میں موجود مخروطوں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں، کمیوں یا خامیوں کی وجہ سے رنگوں کا اندھاپن لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں شبکیہ میں کسی ایک قسم کے مخروط غیر موجود ہوتے ہیں یا ٹھیک سے کام نہیں کرپاتے۔ ایسے افراد رنگوں کی شناخت کے تعلق سے مغالطے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بہت کم افراد میں رنگوں کا مکمل اندھاپن پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو کسی بھی رنگ کا ادراک نہیں ہوتا۔ رنگوں کا اندھاپن عام طور پر موروثی نوعیت کا ہوتا ہے اور اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔

حیوانات میں رنگوں کا ادراک
بہت سے حیوانات مثلاً بندر، پرندے اور مچھلیاں انسانوں کی طرح رنگوں کا ادراک کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ دوسرے حیوانات میں رنگوں کا ادراک مختلف طرز پر ہوتا ہے۔ مثلاً مگر مچھ مختلف اشیاء کو بھورے رنگ کے مختلف Shdes میں دیکھتا ہے۔ بعض حیوانات کی آنکھیں ان شعاعوں کے لئے حساس ہوتی ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھ سکتے مثلاً شہد کی مکھی بالائے بنفشی شعاعوں کو دیکھ سکتی ہے جو انسانوں کی بصارت کے دائرہ سے باہر کی چیز ہے۔ شہد کی مکھی کی آنکھیں سرخ رنگ کو نہیں دیکھ پاتیں۔

بنیادی اور ثانوی رنگ
سائنس میں سرخ (Red) ، سبز (Green) اور نیلا (Blue) ، یہ تین رنگ بنیادی رنگ (Primary Colours) کہلاتے ہیں۔ انہیں بطور مخفف RGB کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بنیادی رنگوں کو دوسرے رنگوں کی آمیزش سے تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ان رنگوں کے امتزاج سے دوسرے رنگ تخلیق کئے جاسکتے ہیں۔ سفید رنگ کے پردے پر سرخ، سبز اور نیلے رنگ کی شعاعوں کو اس طرح مرکوز کریں کہ وہ جزوی طور پر ایک دوسرے پر چڑھ جائیں یعنی Overlap ہوجائیں تو رنگوں کا مثلث (Colour Triangle) حاصل ہوگا۔ اس میں بنیادی رنگوں کے امتزاج سے چند دوسرے رنگ وجود میں آتے ہیں۔ دو بنیادی رنگوں کے امتزاج سے وجود میں آنے والے رنگ ثانوی رنگ (Secondary Colours) کہلاتے ہیں۔ زرد (Yellow)، مورپنکھی نیلا (Cyan) اور بنفشی سرخ (Magenta) ثانوی رنگ ہیں۔
تینوں بنیادی رنگ (سرخ، سبز اور نیلا) مل کر سفید رنگ کی تخلیق کرتے ہیں۔ اسی طرح تینوں ثانوی رنگ (زرد، مورپنکھی نیلا اور مجنٹا) مل کر بھی سفید رنگ تیار کرتے ہیں۔ رنگوں کے مثلث میں ایک بنیادی رنگ اور اس کے بالمقابل ثانوی رنگ (مثلاً زرد اور نیلا) مل کر بھی سفید رنگ ظاہر کرتے ہیں۔ کوئی بھی دو رنگ جو ایک دوسرے میں مدغم ہوکر سفید رنگ اختیار کرلیتے ہیں، ایک دوسرے کے تکملہ رنگ (Complementary Colours) کہلاتے ہیں۔

Pigments
پگمنٹ وہ مادے ہیں جو Paints اور Dyes کو مخصوص رنگ عطا کرتے ہیں۔ پگمنٹ ایک مخصوص رنگ کو منعکس کرتے ہیں اور باقی تمام رنگوں کو جذب کرلیتے ہیں۔ زیادہ پگمنٹ ناخالص ہوتے ہیں یعنی وہ ایک سے زیادہ رنگوں کو منعکس کرتے ہیں۔پگمنٹ جب ایک دوسرے سے ملائے جاتے ہیں تو ان سے منعکس ہونے والے رنگوں میں سے صرف مشترک رنگ ہی دکھای دیتا ہے۔ مثلاً نیلے اور زرد رنگ کے Paints کو ملانے پر سبز رنگ کا آمیزہ حاصل ہوتا ہے۔ اس عمل میں نیلا پینٹ نیلے اور سبز رنگ کو منعکس کرتا ہے جب کہ زرد پینٹ سبز، زرد اور نارنگی رنگوں کو منعکس کرتا ہے۔ منعکس ہونے والے رنگوں میں مشترک رنگ سبز ہے لہذا نیلے اور زرد رنگ کے Paints کا آمیزہ سبز رنگ کا نظر آتا ہے۔

کتنے رنگ؟
ہماری آنکھ کے شبکیہ میں تین قسم کے مخروط (نیلے، سبز اور سرخ) پائے جاتے ہیں۔ جب درمیانی طولِ موج کی شعاع (سبز) شبکیہ سے ٹکراتی ہے تو ممکن نہیں کہ صرف سبز،مخروط ہی تحریک پائیں۔ دوسرے مخروطوں میں بھی کسی نہ کسی درجے میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسرے رنگوں کی شعاعوں سے بھی سب کے سب مخروط کم یا زیادہ درجے میں تحریک پاتے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر تحریکوں کی تعداد لامحدود ہوجاتی ہے! اور جتنی تحریکیں اتنے ہی رنگ !! اللہ اکبر! ہر رنگ اللہ کی ایک نشانی، ہر شیڈ اللہ کی ایک آیت! سائنسدانوں اور محققوں کے اندازے کے مطابق انسان کم وبیش 10 ملین (ایک کروڑ) مختلف رنگوں کی پہچان کرسکتا ہے!!!

صِبْغَۃُ اللّٰہِ
سورۃ البقرہ قرآن حکیم کی اہم ترین سورۃ ہے، حجم کے لحاظ سے بھی اور مضامین و مطالب کے اعتبار سے بھی۔ اس سورۃ کی آیت نمبر 138 ذیل کے مطابق ہے:

صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُونَ
(ہم نے قبول کرلیا رنگ اللہ کا۔ اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے؟ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔)

یہو دو نصاریٰ
ضد اور ہٹ دھرمی میں
بہت دور جا پڑے
یہودکا بے رنگ پانی
نصاریٰ کا زرد رنگ پانی
کیا ان پانیوں کے غسل سے
پاکیزگی، تقویٰ اور نجات ممکن ہے؟
یہ تو بس ان کی آرزوئیں ہیں
کھوکھلے دعوے
بغض و عناد کی علامت
بھول بیٹھے دینِ حنیف کو
یاد ہے ہم کو
وہ سبق
سب سے اچھا رنگ
اللہ کا
صبغت اللہ!!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360607
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development