حیاتی ایندھن توانائی کے بحران کا منہ توڑ جواب
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
اگست 2016


1850
کی دہائی کے دوران دو سائنسدانوں ای ڈفی (E.Duffy) اور جے پیٹرک (J. Patrick) نے دنیا کے پہلے ڈیزل انجن کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اس کے بعد مشہور سائنسداں روڈولف ڈیزل (Rudolf Diesel) نے ڈیزل انجن کا پہلا ماڈل تیار کیا۔ اس میں 10 فیٹ کا لوہے کا سلینڈر اورمتحرک پہیہ (Fly Wheel) کا استعمال کیا گیا تھا۔ 10 اگست 1893 کو روڈولف ڈیزل پہلی بار اپنے اس ماڈل کو مونگ پھلی (Peanut) کے تیل کا استعمال کرکے چلانے میں کامیاب ہوا۔ یہ مظاہرہ اس نے جرمنی کے آگس برگ (Augsburg) میں پیش کیا۔ اس واقع کو یادگار بنانے اور دنیا کی توجہ رکازی ایندھن (Fossil Fuel) سے ہٹاکر حیاتی ایندھن (Biofuels) کی طرف مبذول کرنے کے لئے ہر سال 10 اگست کو عالمی یوم حیاتی ایندھن منایا جاتا ہے۔ حیاتی ایندھن کو سبز ایندھن (Green Fuel) بھی کہتے ہیں۔ ڈیزل کے اس تحقیقی تجربے نے گویا پیش گوئی کردی تھی کہ مستقبل میں نباتی تیل (Vegetable Oil) رکازی ایندھن کی جگہ لے لے گا۔ یہ پیش گوئی رفتہ رفتہ سچ ثابت ہورہی ہے۔ نباتی تیل گو کہ خود حیاتی ایندھن ہیں، ان میں کچھ تبدیلیاں کرکے دوسرے حیاتی ایندھن بنائے جاتے ہیں جو زیادہ توانائی مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حیاتی ایندھن رکازی ایندھن پر کئی طرح سے فوقیت رکھتے ہیں مثلاً
۔ قابلِ تجدید (Renewable) ہوتے ہیں۔ قدرتی طور پر اور انسانی ہاتھوں کے ذریعہ ان کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔ ان کے ختم ہوجانے کا خطرہ نہیں رہتا۔
۔ یہ حیاتی طور پر قابلِ تحلیل (Biodegradable) ہیں۔ ان کے باقیات کی تحلیل کا کام خوردبینی جاندار کرتے رہتے ہیں۔
۔ یہ کرۂ ارض پر زندگی کو سہارا دینے والے (Sustainable) ہیں۔
۔ یہ ماحول دوست ہیں۔ ان کی تیاری (Manufacture) اور ان کے احتراق (Combustion) سے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا۔
حیاتی ایندھن توانائی کے ذرائع ہیں۔ یہ جانداروں اور ان کے بیکار مادوں سے تیار کئے جاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حیاتی ایندھن کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی واقع ہوگی۔ ان کے جلنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہوگی جو پودوں اور درختوں کے ذریعہ جذب کرلی جائے گی اور فضا آلودگی سے بچی رہے گی۔
حیاتی ایندھن کئی ذرائع سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ان کے ذرائع کی بنیادپر انہیں چار جماعتوں یا پیڑھیوں (Generations) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1۔ پہلی پیڑھی کے حیاتی ایندھن شکر، نشاستہ، تیل اور حیوانی چربی سے تیار کئے جاتے ہیں۔یہ ایندھن روایتی طریقوں سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان حیاتی ایندھنوں میں حیاتی ڈیزل (Biodiesel)، بایوالکوحل، ایتھینال (Ethanol) اور بایوگیس مثلاً میتھین شامل ہیں۔
2۔ دوسری پیڑھی کے حیاتی ایندھن غذائی فضلوں اور زراعتی بیکار مادوں سے نہیں بنائے جاتے بلکہ بید، Stich Grass اور لکڑی کے ٹکڑوں سے حاصل کئے جاتے ہیں۔
3۔ تیسری پیڑھی کے حیاتی ایندھن کائی(Algae) اور دوسری تیزی سے اگنے اور بڑھنے والی حیاتی کمیت (Biomass) سے حاصل کئے جاتے ہیں۔
4۔ چوتھی پیڑھی کے حیاتی ایندھن خاص قسم کے پودوں اور بایوماس کو مخصوص طریقوں سے اگاکر حاصل کئے جاتے ہیں۔ ان ایندھنوں کی تیاری کا مقصد زیادہ سے زیادہ توانائی حاصل کرنا ہے۔ ان میں سیلولوز کے تجزیہ میں کم سے کم رکاوٹ درپیش ہوتی ہے۔یہ نباتات غیر زراعتی زمینوں اور پانی کی سطح پر اگائے جاسکتے ہیں۔

حیاتی کمیت(Biomass)
کسی خاص علاقے میں زندگی بسر کرنے والے جانداروں کا مجموعی وزن (Weight) یا جسامت (Volume) اس علاقے کی حیاتی کمیت کہلاتی ہے۔حیاتی کمیت کسی خاص ماحولی نظام مثلاً حوض ، کھیت یا جنگل کی زندگی کو سہارنے کی یا تخلیقیت کی صلاحیت ہے۔ توانائی حاصل کرنے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو نباتات اور زراعتی بیکار مادے حیاتی ایندھن حاصل کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں، مجموعی طور پر حیاتی کمیت (Biomass) کہلاتے ہیں۔

حیاتی ایندھن کیا ہے؟
حیاتی ایندھن وہ ایندھن ہے جو معاصر حیاتیاتی طریقوں (Biological Process) سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بالمقابل رکازی ایندھن ارضیاتی طریقوں (Geological Processes) سے حاصل ہونے والا ایندھن ہے۔ نباتات، ان کے حاصلات اور ان کے فاضل اجزاء (جنہیں زرعی فاضل مادے کہا جاتا ہے) سے حاصل ہونے والے حیاتی ایتھینال(Bioethanol) اور حیوی ڈیزل(Biodiesel) وغیرہ حیاتی ایندھن ہیں جب کہ زمانہ ماقبل تاریخ کے حیاتی مادوں (نباتات وحیوانات) سے حاصل ہونے والا کوئلہ اور پٹرولیم رکازی ایندھن ہیں۔
حیاتی ایندھن بالواسطہ نباتات سے بھی حاصل کئے جاتے ہیں اور بلاواسطہ طور پر زراعتی، صنعتی اور گھریلو فاضل اشیاء سے بھی حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس قابلِ تجدید حیاتی ایندھن کا حصول شعاعی ترکیب (Photosynthesis) کا مرہونِ منت ہے جس میں کاربن کا تعین (Fixation of Carbon) ہوتا ہے۔ شعاعی ترکیب کا عمل سبز نباتات اور خورد کائی (Microalgae) میں پایا جاتا ہے۔
قابلِ تجدید حیاتی ایندھن بایوماس میں تبدیلی کرکے حاصل کئے جاتے ہیں۔ بایوماس میں زندہ نامیاتی اجسام (Living Organisms) مثلاً نباتات اور ان کے حاصلات شامل ہیں۔ بایوماس کو تین مختلف طریقوں سے توانائی سے بھرپور حیاتی ایندھن میں تبدیل کیا جاتا ہے:
(1) حرارتی تبدّل (Thermal Conversion)
(2) کیمیائی تبدّل (Chemical Conversion)
(3) حیاتی کیمیائی تبدّل (Biochemical Conversion)
ان اعمال کے نتیجے میں ٹھوس، مائع اور گیسی حالت میں حیاتی ایندھن حاصل ہوتا ہے۔ چند اہم حیاتی ایندھن ذیل کے مطابق ہیں:

حیاتی ایتھینال(Bioethanol)
حیاتی ایتھینال ایک الکوحل ہے جو کاربوہائیڈریٹ کی تخمیر (Fermentation) کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ یہ کاربوہائیڈریٹ ، شکر اور نشاستہ پیدا کرنے والی فصلوں میں پایا جاتا ہے مثلاً مکئی، گنا وغیرہ۔ غذا کے طور پر استعمال نہ کئے جانے والے نباتات مثلاً درخت اور مختلف قسم کی گھاس بھی سیلولوز سے بھرپور بایوماس ہیں جو بایو ایتھینال کی تیاری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بایو ایتھینال خالص حالت میں سواریوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عام طور پر اسے گیسولین (Gasoline) میں بطورمُقوّی (Additive) ملایا جاتا ہے جس کی وجہ سے گیسولین کی کار کردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ شمالی امریکہ میں پٹرول کو گیسولین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ گیسولین میں حیاتی ایتھینال کی شمولیت سے سواریوں سے خارج ہونے والے نقصان دہ مادوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بایو ایتھینال امریکہ اور برازیل میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بایوایتھنال کی صنعت میں نباتات میں موجود لگنن(Lignin) کو بذریعہ تخمیر، ایندھن میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لئے تحقیق جاری ہے۔

حیاتیڈیزل(Biodiesel)
حیاتیڈیزل، تیل یاچربی پر ایک خاص تعامل (Transesterification) کی مدد سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یوروپ میں یہ ایک عام حیاتی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے خالص حالت میں بطور ایندھن سواریوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اسے بھی ڈیزل کے ساتھ بطور مقوی (Additive) ملاکر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح سواریوں سے خارج ہونے والے کاربن کے مضر ذرات، کاربن مونو آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربن کی سطح میں کمی واقع ہوتی ہے۔

حیاتی میتھینال(Biomethanol)
نیچرل گیس ایک غیر تجدیدی یعنی رکازی ایندھن ہے۔ اس سے میتھینال تیار کیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے بایو ماس سے میتھینال تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اسے حیاتی میتھینال کا نام دیا ہے۔ مستقبل میں بایو ماس سے بڑے پیمانے پر حیاتی میتھینال حاصل کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ حیاتی میتھینال رکازی ایندھن کا ایک اچھا متبادل ثابت ہوگا۔

حیاتی بیوٹینال(Biobutanol)
ایسی ٹون، بیوٹینال اور ایتھینال کی تخمیر کے ذریعے حیاتی بیوٹینال تیار کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ABE Fermentation کہلاتا ہے۔ یہ حیاتی ایندھن دوسرے ایندھنوں کے مقابلے زیادہ توانائی مہیا کرنے والا ہے۔

سبز ڈیزل(Green Diesel)
حیاتیاتی تیلوں مثلاً نباتی تیل اور حیوانی چربی کے (Hydrocracking) کے ذریعہ گرین ڈیزل حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے تجدیدی ڈیزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ گرین ڈیزل کی تمام خصوصیات پٹرولیم ڈیزل جیسی ہی ہیں۔

جدید تحقیقات
اس کرۂ ارض پر زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ توانائی ایندھن کے احتراق سے حاصل کی جاتی ہے۔ دنیا میں آج کی تاریخ میں توانائی کا 80 فیصد حصہ رکازی ایندھن سے حاصل کیا جاتا ہے۔ رکازی ایندھن غیر تجدیدی ایندھن ہیں۔ ان کا ذخیرہ محدود ہے۔ یہ ذخیرہ تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف دنیا کی آبادی میں اضافے اور جدید کاری کے نتیجے میں توانائی کی مانگ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ ہر طرف توانائی کے بحران کا شور مچا ہے۔ اس صورت میں رکازی ایندھن پرصد فی صد انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا دنیا بھر میں رکازی ایندھن کے نعم البدل کی تلاش جنگی پیمانے پرجاری ہے۔
استوائی علاقوں میں سورج کی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے شمسی توانائی (Solar Power) ایک نعم البدل ہے۔ لیکن اس کا دائرہ کار محدود ہے۔
ارضی حرارتی توانائی (Geothermal Power) کے ذریعہ محدودپیمانے پر برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ آتش فشانی ہلچل والے علاقوں میں زمین کی گہرائی میں پائی جانے والی گرم چٹانوں، گرم پانی اور بھاپ کا استعمال کرکے برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔
تیز بہاؤ والی ندیوں اور دریاؤں کے پانی سے ٹربائن چلاکر برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے، اسے آبی برقی توانائی کہتے ہیں۔ مخصوص علاقوں میں یہ رکازی ایندھن کا ایک نعم البدل ہے۔
میدانی علاقوں میں تیز ہواؤں کا استعمال ٹربائن چلاکر برقی توانائی پیدا کرنے میں کیا جاتا ہے۔ اسے پَوَن توانائی یا ہوائی توانائی (Wind Power) کہتے ہیں۔
توانائی کے حصول کا جدید اور انتہائی طاقتور ذریعہ نیوکلیائی توانائی (Nuclear Power) ہے۔ یورینیم یا پلوٹونیم کے جوہروں کے انشقاق (Fission) کے ذریعے بڑے پیمانے پر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ ایک کلوگرام یورینیم کے انشقاق سے اتنی توانائی حاصل ہوتی جتنی کہ 2000 ٹن کوئلہ یا 8000 بیرل تیل کے جلنے سے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نیوکلیر توانائی کا استعمال بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرانس کی گھریلو ایلکٹرک سپلائی میں 77 فیصد حصہ نیوکلیائی توانائی کا ہے۔ نیوکلیائی توانائی کی پیداوار میں پیچیدگیاں اور خطرے بہت ہیں۔ لہذا عالمی سطح پر نیوکلیائی توانائی کی حصہ داری صرف 17 فیصد ہے۔
غیر تجدیدی رکازی ایندھن کے بالمقابل تجدیدی ایندھنوں کی بھیڑ میں حیاتی ایندھن (Biofuel) ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے۔ سطح زمین پر بایوماس کی کمی نہیں ہے۔ چونکہ بایوماس خود تجدیدی ہے اس لئے اس کا لگاتار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ختم ہونے یا اس میں کمی واقع ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ بایوماس کو توانائی میں تبدیل کرنے کی مختلف تکنیکیں ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ گوبر گیس پلانٹ میں جانوروں کا فضلے، کچرے اور دوسرے فاضل مادوں کے سڑنے سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے۔ یہ گیس پائپ لائن کے ذریعے گھریلو استعمال کے لئے پہنچائی جاتی ہے۔ چھوٹی صنعتیں مثلاً بیکری وغیرہ بھی اس پر انحصار کرتی ہیں۔
2۔ زراعتی اور گھریلو فاضل مادے، کچرا اور گوبر کے اُپلے (Dung Cakes) جلاکر دیہی اور شہری توانائی کی مانگ کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایک ٹن جلانے کے قابل فاضل مادوں سے 400 مکعب میٹر میتھین کے برابر توانائی حاصل ہوتی ہے۔
3۔ تخمیر کے عمل میں خامرے نباتی نشاستہ کو سادہ مرکبات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس عمل میں ایتھینال حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح حاصل شدہ ایتھینال کو بایوایتھینال کہتے ہیں۔ جوایک حیاتی ایندھن ہے۔ اس کی تھوڑی سی مقدار پٹرول میں ملاکر کاروں میں بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔
4۔ نباتی تیلوں سے گلیسرین ہٹاکر صاف ستھرا مائع حاصل کیا جاتا ہے جسے بایوڈیزل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بطور حیاتی ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
متبادل ایندھن کی تلاش میں دنیا کی نظریں بایوماس پر ٹکی ہیں۔ لہذا اس سمت میں تحقیقی پیش رفت روز افزوں ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقدار میں حیاتی ایندھن پیدا کرنے والی فصلوں کی تیاری کے لئے تحقیقات شروع ہیں۔ ان فصلوں سے زیادہ سے زیادہ تیل کا حصول مطلوب ہے۔ رکازی ایندھن کے مقابلے حیاتی ایندھن پر مکمل انحصار کرنے کے لئے بہت بڑے زمینی علاقے اور پانی کے ذخائر کی ضرورت پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی کل توانائی کی کھپت کو حاصل کرنے کے لئے خود امریکہ کی کل سرزمین پر سویا بین کی فصل اگانی ہوگی!
زیادہ تیل پیدا کرنے والی سرسوں (Mustard) کی نئی قسموں پر تحقیقات شروع ہوچکی ہیں۔ کائی (Algae) کی مختلف انواع کو ترقی دے کر ان سے زیادہ مقدار میں تیل حاصل کرنے کی سمت میں بھی کوششیں جاری ہیں۔ جیٹروفا (Jatropha) نامی جھاڑی نما درخت کے بیج کافی مقدار میں تیل کا ذخیرہ کرتے ہیں۔ اس تیل کو حیاتی ایندھن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جیٹروفا کی نئی انواع کے حصول کے لئے بھی تجربات کئے جارہے ہیں۔ روس میں پھپھوند (Fungi) سے حیاتی ایندھن کے حصول کے لئے کامیاب تجربے کئے گئے ہیں۔ حیوانات کی آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا بایوماس کو حیاتی ایندھن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا جانوروں کے فضلے میں شامل ہوکر ان کی آنتوں سے باہر آجاتے ہیں۔ سائنسداں ان سے بھی استفادہ کرنے میں مشغول ہیں۔

ایک خواہش ایسی بھی
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے طویل مطالعے اور تجربوں کے بعد یہ اصول وضع کیا تھا کہ آدمی اپنی دبی ہوئی خواہشات کی تکمیل اپنے خوابوں میں کرتا ہے۔ یہ قاعدہ ایک عام آدمی کے لئے ہے ورنہ ادباء وشعراء خوابوں اور خیالوں کے علاوہ اپنے ارمانوں اور خواہشات کا اظہار اور ان کی تکمیل اپنی تخلیقات کے ذریعے کھلے عام کرتے ہیں! بہ الفاظ دیگر اپنے دل کی بھڑاس سر عام نکالتے ہیں۔اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ان کی یہ ’’حرکت‘‘ مذموم نہیں بلکہ قابلِ ستائش گردانی جاتی ہے! بہ ایں وصف جب کوئی شدید خواہش سماجی بندشوں کو چیرتی ہوئی شاعر کے قلم سے نکلتی ہے تو ایک خوبصورت شعر وجود میں آجاتا ہے مثلاً کسی شاعر کے دل کی تڑپ کی نکاسی کا یہ انداز:
لبِ جاں بخش کے بوسے ملیں گے خاک میں مل کے
پسِ مردن بنائے جائیں گے ساغر مری گِل کے !
اس شعر کی تخلیق کے وقت شاعر کے پیش نظر صرف یہ حقیقت تھی کہ مرنے کے بعد مٹی بن کر مٹی میں مل جانا ہے:
Dust thou art and to dust returnest
حیوانی چربی سے حیاتی ایندھن کی تیاری کا کوئی تصور اس کے سامنے نہیں تھا۔ لیکن آج کا شاعر پسِ مردن Biodiesel یا Biothanol بن کر زہرہ جبینوں کی خوبصورت کاروں میں جلنے کی آرزو کرسکتا ہے!!!

حیاتی میتھینال(Biomethanol)
نیچرل گیس ایک غیر تجدیدی یعنی رکازی ایندھن ہے۔ اس سے میتھینال تیار کیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے بایو ماس سے میتھینال تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اسے حیاتی میتھینال کا نام دیا ہے۔ مستقبل میں بایو ماس سے بڑے پیمانے پر حیاتی میتھینال حاصل کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ حیاتی میتھینال رکازی ایندھن کا ایک اچھا متبادل ثابت ہوگا۔

حیاتی بیوٹینال(Biobutanol)
ایسی ٹون، بیوٹینال اور ایتھینال کی تخمیر کے ذریعے حیاتی بیوٹینال تیار کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ABE Fermentation کہلاتا ہے۔ یہ حیاتی ایندھن دوسرے ایندھنوں کے مقابلے زیادہ توانائی مہیا کرنے والا ہے۔

سبز ڈیزل(Green Diesel)
حیاتیاتی تیلوں مثلاً نباتی تیل اور حیوانی چربی کے (Hydrocracking) کے ذریعہ گرین ڈیزل حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے تجدیدی ڈیزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ گرین ڈیزل کی تمام خصوصیات پٹرولیم ڈیزل جیسی ہی ہیں۔

جدید تحقیقات
اس کرۂ ارض پر زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے توانائی کی ضرورت ہے۔ توانائی ایندھن کے احتراق سے حاصل کی جاتی ہے۔ دنیا میں آج کی تاریخ میں توانائی کا 80 فیصد حصہ رکازی ایندھن سے حاصل کیا جاتا ہے۔ رکازی ایندھن غیر تجدیدی ایندھن ہیں۔ ان کا ذخیرہ محدود ہے۔ یہ ذخیرہ تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف دنیا کی آبادی میں اضافے اور جدید کاری کے نتیجے میں توانائی کی مانگ تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ ہر طرف توانائی کے بحران کا شور مچا ہے۔ اس صورت میں رکازی ایندھن پرصد فی صد انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا دنیا بھر میں رکازی ایندھن کے نعم البدل کی تلاش جنگی پیمانے پرجاری ہے۔
استوائی علاقوں میں سورج کی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے شمسی توانائی (Solar Power) ایک نعم البدل ہے۔ لیکن اس کا دائرہ کار محدود ہے۔
ارضی حرارتی توانائی (Geothermal Power) کے ذریعہ محدودپیمانے پر برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ آتش فشانی ہلچل والے علاقوں میں زمین کی گہرائی میں پائی جانے والی گرم چٹانوں، گرم پانی اور بھاپ کا استعمال کرکے برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔
تیز بہاؤ والی ندیوں اور دریاؤں کے پانی سے ٹربائن چلاکر برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے، اسے آبی برقی توانائی کہتے ہیں۔ مخصوص علاقوں میں یہ رکازی ایندھن کا ایک نعم البدل ہے۔
میدانی علاقوں میں تیز ہواؤں کا استعمال ٹربائن چلاکر برقی توانائی پیدا کرنے میں کیا جاتا ہے۔ اسے پَوَن توانائی یا ہوائی توانائی (Wind Power) کہتے ہیں۔
توانائی کے حصول کا جدید اور انتہائی طاقتور ذریعہ نیوکلیائی توانائی (Nuclear Power) ہے۔ یورینیم یا پلوٹونیم کے جوہروں کے انشقاق (Fission) کے ذریعے بڑے پیمانے پر توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ ایک کلوگرام یورینیم کے انشقاق سے اتنی توانائی حاصل ہوتی جتنی کہ 2000 ٹن کوئلہ یا 8000 بیرل تیل کے جلنے سے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نیوکلیر توانائی کا استعمال بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرانس کی گھریلو ایلکٹرک سپلائی میں 77 فیصد حصہ نیوکلیائی توانائی کا ہے۔ نیوکلیائی توانائی کی پیداوار میں پیچیدگیاں اور خطرے بہت ہیں۔ لہذا عالمی سطح پر نیوکلیائی توانائی کی حصہ داری صرف 17 فیصد ہے۔
غیر تجدیدی رکازی ایندھن کے بالمقابل تجدیدی ایندھنوں کی بھیڑ میں حیاتی ایندھن (Biofuel) ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے۔ سطح زمین پر بایوماس کی کمی نہیں ہے۔ چونکہ بایوماس خود تجدیدی ہے اس لئے اس کا لگاتار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ختم ہونے یا اس میں کمی واقع ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ بایوماس کو توانائی میں تبدیل کرنے کی مختلف تکنیکیں ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ گوبر گیس پلانٹ میں جانوروں کا فضلے، کچرے اور دوسرے فاضل مادوں کے سڑنے سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے۔ یہ گیس پائپ لائن کے ذریعے گھریلو استعمال کے لئے پہنچائی جاتی ہے۔ چھوٹی صنعتیں مثلاً بیکری وغیرہ بھی اس پر انحصار کرتی ہیں۔
2۔ زراعتی اور گھریلو فاضل مادے، کچرا اور گوبر کے اُپلے (Dung Cakes) جلاکر دیہی اور شہری توانائی کی مانگ کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایک ٹن جلانے کے قابل فاضل مادوں سے 400 مکعب میٹر میتھین کے برابر توانائی حاصل ہوتی ہے۔
3۔ تخمیر کے عمل میں خامرے نباتی نشاستہ کو سادہ مرکبات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اس عمل میں ایتھینال حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح حاصل شدہ ایتھینال کو بایوایتھینال کہتے ہیں۔ جوایک حیاتی ایندھن ہے۔ اس کی تھوڑی سی مقدار پٹرول میں ملاکر کاروں میں بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔
4۔ نباتی تیلوں سے گلیسرین ہٹاکر صاف ستھرا مائع حاصل کیا جاتا ہے جسے بایوڈیزل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ بطور حیاتی ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔
متبادل ایندھن کی تلاش میں دنیا کی نظریں بایوماس پر ٹکی ہیں۔ لہذا اس سمت میں تحقیقی پیش رفت روز افزوں ہے۔ زیادہ سے زیادہ مقدار میں حیاتی ایندھن پیدا کرنے والی فصلوں کی تیاری کے لئے تحقیقات شروع ہیں۔ ان فصلوں سے زیادہ سے زیادہ تیل کا حصول مطلوب ہے۔ رکازی ایندھن کے مقابلے حیاتی ایندھن پر مکمل انحصار کرنے کے لئے بہت بڑے زمینی علاقے اور پانی کے ذخائر کی ضرورت پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی کل توانائی کی کھپت کو حاصل کرنے کے لئے خود امریکہ کی کل سرزمین پر سویا بین کی فصل اگانی ہوگی!
زیادہ تیل پیدا کرنے والی سرسوں (Mustard) کی نئی قسموں پر تحقیقات شروع ہوچکی ہیں۔ کائی (Algae) کی مختلف انواع کو ترقی دے کر ان سے زیادہ مقدار میں تیل حاصل کرنے کی سمت میں بھی کوششیں جاری ہیں۔ جیٹروفا (Jatropha) نامی جھاڑی نما درخت کے بیج کافی مقدار میں تیل کا ذخیرہ کرتے ہیں۔ اس تیل کو حیاتی ایندھن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جیٹروفا کی نئی انواع کے حصول کے لئے بھی تجربات کئے جارہے ہیں۔ روس میں پھپھوند (Fungi) سے حیاتی ایندھن کے حصول کے لئے کامیاب تجربے کئے گئے ہیں۔ حیوانات کی آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا بایوماس کو حیاتی ایندھن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا جانوروں کے فضلے میں شامل ہوکر ان کی آنتوں سے باہر آجاتے ہیں۔ سائنسداں ان سے بھی استفادہ کرنے میں مشغول ہیں۔

ایک خواہش ایسی بھی
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے طویل مطالعے اور تجربوں کے بعد یہ اصول وضع کیا تھا کہ آدمی اپنی دبی ہوئی خواہشات کی تکمیل اپنے خوابوں میں کرتا ہے۔ یہ قاعدہ ایک عام آدمی کے لئے ہے ورنہ ادباء وشعراء خوابوں اور خیالوں کے علاوہ اپنے ارمانوں اور خواہشات کا اظہار اور ان کی تکمیل اپنی تخلیقات کے ذریعے کھلے عام کرتے ہیں! بہ الفاظ دیگر اپنے دل کی بھڑاس سر عام نکالتے ہیں۔اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ان کی یہ ’’حرکت‘‘ مذموم نہیں بلکہ قابلِ ستائش گردانی جاتی ہے! بہ ایں وصف جب کوئی شدید خواہش سماجی بندشوں کو چیرتی ہوئی شاعر کے قلم سے نکلتی ہے تو ایک خوبصورت شعر وجود میں آجاتا ہے مثلاً کسی شاعر کے دل کی تڑپ کی نکاسی کا یہ انداز:
لبِ جاں بخش کے بوسے ملیں گے خاک میں مل کے
پسِ مردن بنائے جائیں گے ساغر مری گِل کے !
اس شعر کی تخلیق کے وقت شاعر کے پیش نظر صرف یہ حقیقت تھی کہ مرنے کے بعد مٹی بن کر مٹی میں مل جانا ہے:
Dust thou art and to dust returnest
حیوانی چربی سے حیاتی ایندھن کی تیاری کا کوئی تصور اس کے سامنے نہیں تھا۔ لیکن آج کا شاعر پسِ مردن Biodiesel یا Biothanol بن کر زہرہ جبینوں کی خوبصورت کاروں میں جلنے کی آرزو کرسکتا ہے!!!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360420
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development