سارے دھنک کے رنگ ہیں تیرے لباس میں
واپس چلیں

ایس ایس علی
جون 2015

سارے دھنک کے رنگ ہیں تیرے لباس میں
فطرت کے خوبصورت ترین نظاروں میں سے ایک قوسِ قزح (Rainbow) ہے جسے دھنک بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا حسن ہر کسی کو لبھاتا ہے۔ اس کا سحر ناظر (Observer) کے دل و دماغ کو مسحورکر دیتا ہے۔ لیکن ایک سخنور کا معاملہ اور ہی ہے۔ دھنک اسے کہاں کہاں لئے پھرتی ہے، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے:
وہ خیال تھا کوئی دھنک نما، یا کوئی عکس تھا مرے روبرو
جو مجھے ہر طرف سے تُو لگا، وہ تُو ہی تھا یا کوئی ہو بہو
دھنک ایک بصری (Optical) اور موسمیاتی (Meteorological) مظہر (Phenomenon) ہے، جس میں بارش کے پانی کے ننھے منے قطرے سورج کی روشنی کے ساتھ ایک خوبصورت کھیل کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں پانی کے قطرے تین طرح سے نور کا استحصال کرتے ہیں:
(1) انحراف نور
(Refraction of Light)
(2) انتشارِ نور
(Dispersion of Light)
(3) انعکاسِ نور
(Reflection of Light)
اس کے نتیجے میں مختلف رنگوں کا طیف (Spectrum) حاصل ہوتا ہے، جو آسمان میں ایک رنگین قوس کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ رنگین قوس دھنک کہلاتا ہے۔ دھنک ہمیشہ آسمان کے اس علاقے میں نظر آتی ہے جو سورج کے بالمقابل ہوتا ہے۔
دھنک مکمل دائرہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن ایک عام ناظر صرف ایک قوس ہی دیکھ پاتا ہے۔ دھنک کا نظر آنا، اس مظہر کو تین عوامل طے کرتے ہیں:
(1) ناظر کا مقام
(2) سورج کا مقام
(3) فضا میں پانی کے قطروں کا مقام
ناظر اگر سطح زمین سے کافی اونچائی پر ہو مثلاً کسی ہوائی جہاز میں ہو تو اسے دھنک دائرہ نما نظر آتی ہے۔
بارش کے دنوں میں عام طور پر ایک واضح اور بہت بڑی رنگین قوس نظر آتی ہے۔ اسے ابتدائی دھنک (Primary Rainbow) کہتے ہیں۔ سورج کی روشنی جب پانی کے قطرے میں داخل ہوتی ہے تو وہ متحرک ہوجاتی ہے، اسی کے ساتھ اس کا بکھراؤ بھی واقع ہوتا ہے۔ پھر وہ پانی کے قطرے کی پُشت سے ٹکراکر واپس ہوتی ہے یعنی اس کا انعکاس ہوتا ہے۔ پھر جب وہ قطرے سے باہر نکلتی ہے تو ایک بار پھر منحرف ہوجاتی ہے۔ نور بکھرنے کے نتیجے میں سات رنگوں کا طیف حاصل ہوتا ہے۔ اس طیف میں سرخ روشنی کا جھکاؤ سب سے کم اور بنفشی روشنی کا جھکاؤ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دھنک میں سرخ رنگ اوپر کی جانب اور بنفشی نیچے کی جانب ہوتا ہے۔
کبھی کبھی آسمان میں دو دھنک نظر آتی ہیں۔ ایک واضح رنگوں والی ابتدائی دھنک اور دوسری اس کے اوپر ہلکے رنگوں والی ثانوی دھنک (Secondary Rainbow)۔ ثانوی دھنک میں رنگوں کی ترتیب الٹ جاتی ہے۔ سرخ رنگ سب سے نتیجے اور بنفشی رنگ سب سے اوپر۔ اس مظہر کو دوہری دھنک (Double Rainbow) بھی کہتے ہیں۔
منشور مثلثی (Prism)سے جب سفید نور کی شعاع گزرتی ہے تو وہ سات رنگوں میں بکھر جاتی ہے۔ یہی عمل فضا میں موجود بارش کے قطروں میں بھی ہوتا ہے۔ منشور مثلثی سے حاصل ہونے والے طیف اور بارش کے قطروں سے حاصل ہونے والی دھنک کے سات رنگ یہ ہیں:
(1) سرخ(لال) ۔ Red
(2) نارنگی ۔ Orange
(3) زرد(پیلا) ۔ Yellow
(4) سبز (ہرا) ۔ Green
(5) آسمانی (ہلکا نیلا) ۔ Blue
(6) نیلا ۔ Indigo
(7) بنفشی (جامنی) ۔ Violet

ان رنگوں کو ترتیب وار یاد رکھنے کے لئے انگریزی میں ایک جملہ (Mnemonic) ترتیب دیا گیا ہے:
Rechard of York Gave Battle In Vain۔اس Mnemonic کو مختصر کرکے یاد رکھنا زیادہ آسان ہے:
"Roy-GB-IV"۔ ہر رنگ کے پہلے حرف (Letter) کو الٹی ترتیب میں رکھیں تو اسے یاد رکھنا اور بھی زیادہ آسان ہے:
"VIBGYOR"
اردو میں بھی ان تمام رنگوں کے ابتدائی حروف کو ترتیب دے کر ایک مہمل لفظ ’’سنز سانب‘‘بنایا گیا ہے جو دھنک کے رنگوں کو ترتیب وار یاد رکھنے میں معاون ہے۔

دھنک : ایک فریبِ نظر
دھنک ناظر سے کسی متعین فاصلے پر واقع نہیں ہوتی۔ یہ کوئی مادی شے نہیں ہے،اس لئے اسے چھونا یا اس تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک بصری التباس یا فریب نظر (Optical Illusion) ہے۔ یہ فریبِ نظر فضا میں موجود پانی کے قطرات کو سورج کے سیاق میں ایک خاص زاویے سے دیکھنے پر حاصل ہوتا ہے۔ سورج کے بالمقابل پانی کے قطرات کو 42 درجے کے زاویے سے دیکھنے پر دھنک نظر آتی ہے۔ 42 درجے کے علاوہ کسی اور زاویے سے دھنک نظر نہیں آتی۔
ایک ناظر کسی شحص کو دھنک کے نیچے یا اس کے ایک سرے پر کھڑا ہوا دیکھتا ہے۔ جب وہ اس کے قریب جاتا ہے تو دھنک پھر اتنے ہی فاصلے پر نظر آتی ہے جیسا پہلی حالت میں اس نے اسے دیکھا تھا۔
دھنک کے رنگوں کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان رنگوں کی پٹیاں اوپری اور نچلے سروں پراپنے پڑوسی رنگوں میں مدغم ہوجاتی ہیں۔یار ہونے کے لئے شرط ہے۔ نہ صرف بارش کا پانی بلکہ دھند، اسپرے اور شبنم کے قطرے بھی دھنک کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔

دھنک کا نظارہ
ہوا میں پانی کے قطرات موجود ہوں اور ناظر کی پشت پر سورج چمک رہا ہو تو اس وقت دھنک نظر آتی ہے۔ بارش کے موسم میں دھنک صبح کے وقت مغربی آسمان میں اور شام کے وقت مشرقی آسمان میں نظر آتی ہے۔ سب سے زیادہ واضح اور خوبصورت نظارہ اس وقت ہوتا ہے جب آدھا آسمان بارش کے بادلوں سے ڈھکا ہو اور آدھا آسمان سورج کے نور سے منور ہو۔ اس وقت گہرے بادلوں کے پس منظر میں دھنک کی آب و تاب دیکھتے ہی بنتی ہے۔ ایسی واضح دھنک کے ساتھ اکثر ہلکی سی ثانوی دھنک بھی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی اور ثانوی دھنک میں 10 درجے کا زاویہ ہوتا ہے۔
آبشار اور فوارے کے پاس بھی دھنک دکھائی دیتی ہے۔ دھنک مصنوعی طور پر بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ صبح یا شام کے وقت سورج کی طرف پشت کرکے فضا میں پانی اِسپرے کرنے پر دھنک نظرآتی ہے۔
بارش کے دنوں میں رات کے وقت جب چاندنی اپنے شباب پر ہو تو آسمان میں چاند کے بالمقابل دھنک نظر آتی ہے۔ یہ دھنک Moonbow، Lunar rainbow یا Nighttime Rainbow کہلاتی ہے۔ سورج کی روشنی کے مقابلے میں چاند کی روشنی کافی کمزور ہوتی ہے۔ چاندنی کے بکھراؤ کے عمل میں حاصل ہونے والے طیف کے رنگ بھی بہت پھیکے (Faint) ہوتے ہیں۔ انسانی آنکھ ان رنگوں کا ادراک نہیں کرسکتی، لہذا یہ دھنک سفید رنگ کی نظر آتی ہے۔
دھنک کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوس کے باہرکے مقابلہ میں دھنک کے قوس کے اندر آسمان زیادہ روشن نظر آتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دھنک کے رنگ جب اپنے سروں پر ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہیں تو سفید نور کا اخراج کرتے ہیں، لہذا کل ملا کر قوس کے اندر آسمان زیادہ روشن نظر آتا ہے۔

دھنک میں کتنے رنگ ؟
1672 میں نیوٹن نے جب پہلی مرتبہ منشور مثلثی سے طیف حاصل کیا تو اسے پانچ رنگوں میں تقسیم کیا۔ وہ پانچ رنگ یہ ہیں:
(1) سرخ ۔ Red
(2) زرد ۔ Yellow
(3) سبز ۔ Green
(4) آسمانی ۔ Blue
(5) بنفشی ۔ Violet

نیوٹن نے اقرار کیا کہ اس کی آنکھیں رنگوں کی شناخت کے لئے بہت زیادہ حساس نہیں ہیں۔ لیکن بعد میں اس نے اس فہرست میں دو اور رنگوں کا اضافہ کیا:
(6) نارنگی ۔ Orange
(7) نیلا ۔ Indigo

طیف کے رنگوں کی بنیادی فہرست میں دو رنگوں کے اضافے کی داستان بھی دلچسپ ہے۔ نیوٹن اس یونانی مغالطہ میں یقین رکھتا تھا کہ رنگوں، موسیقی کے سروں، نظام شمسی کے اجسام اور ہفتے کے دنوں میں ایک خاص تعلق ہے۔ اس مغالطے کے مطابق مندرجہ بالا تمام نظاموں میں 7 کا عدد مشترک ہے!
Issac Asimov (1920-1992)مشہور امریکی سائنس فکشن اور پاپولر سائنس کا مصنف تھا۔ دھنک کے رنگوں کے متعلق اس نے خیال ظاہر کیا کہ ’’آسمانی اور بنفشی کے درمیان نیلے رنگ کو جگہ دینا ایک رواج بنا ہوا ہے حالانکہ میری آنکھوں کو کبھی اس کا ادارک نہیں ہوا۔ یہ مجھے ہمیشہ گہرا آسمانی (Deep Blue) ہی نظر آیا۔ میرے خیال میں نیلے رنگ کو ایک جداگانہ رنگ کا درجہ دینا مناسب نہیں۔‘‘

دھنک قوسی کیوں؟
منشورِ مثلثی سے حاصل ہونے والا طیف ایک مستقیمی پٹی کی شکل میں نظر آتا ہے، لیکن دھنک قوسی شکل اختیار کرتی ہے۔ ایسا کیوں؟
بارش کے تمام قطرات سورج کے نور کو یکساں طور پر منحرف اور منعکس کرتے ہیں، لیکن صرف چند قطروں سے آنے والا نور (طیف) ہی ناظر کی آنکھوں تک پہنچ پاتا ہے۔ یہ نور ناظر کے لئے دھنک کو وجود بخشتا ہے۔ سورج کی کرنیں، ناظر کا سر اور بارش کے قطرے ، تینوں ملکر ایک نظام کو ترتیب دیتے ہیں۔ اس نظام میں محوری تشاکل (Axial Symmetry) پایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دائرہ نما دھنک وجود میں آتی ہے، لیکن چونکہ ناظر سطح زمین پر کھڑا ہوتا ہے اس لئے اسے صرف ایک قوس ہی نظر آتا ہے۔ ناظر اگر زمین سے کافی اونچائی پر ہو تو اسے مکمل دائرہ نظر آسکتا ہے۔

ثانوی دھنک
سورج کا نور بارش کے قطرے میں داخل ہوتے وقت منحرف ہوتا ہے۔ پھر قطرے کی پشت سے ٹکرا کر منعکس ہوتا ہے۔ لیکن نور کی تمام شعاعیں قطرے سے باہر نہیں نکل پاتیں۔ ان میں سے کچھ قطرے کی دیوار سے ٹکراکر منعکس ہوجاتی ہیں۔ اس دوسرے انعکاس کی وجہ سے ثانوی دھنک تیار ہوتی ہے جو ابتدائی دھنک سے 10 درجہ باہر کی طرف بنتی ہے اور 50 سے 53درجہ کے زاویے سے نظر آتی ہے۔ پانی کے قطرے میں نور کے دوسرے انعکاس کی وجہ سے ثانوی دھنک میں رنگوں کی ترتیب الٹ جاتی ہے یعنی سرخ رنگ سب سے نیچے اور بنفشی سب سے اوپر۔
ثانوی دھنک کے رنگ ہلکے ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نور کی کم مقدار کے ذریعے یہ مظہر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ثانوی دھنک ایک بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لئے بھی اس کے رنگ ہلکے ہوتے ہیں۔
ابتدائی اور ثانوی دھنک کے درمیان کا علاقہ غیر روشن ہوتا ہے۔ اسے Alexander's Band کہتے ہیں۔ Alexander of Aphrodisias نے اسے دریافت کیا تھا۔

دھنک تیرے کتنے روپ!
ابتدائی اور ثانوی دھنک کے علاوہ بھی دھنک کئی روپوں (Patterns) میں پائی جاتی ہے۔ یہ پیٹرن بہت کم مواقع پر نظر آتے ہیں اور ان کی تشکیل کی وضاحت بھی پیچیدہ ہے۔ دھنک کے چند پیٹرن یہ ہیں:
(1) جڑواں دھنک ۔ Twinned Rainbow
(2) معمول سے زیادہ تعداد میں دھنک ۔
Supernumerary Rainbow

(3) منعکسہ دھنک ۔ Reflected Rainbow

(4) انعکاسی دھنک ۔ Reflection Rainbow
(5) یک رنگی دھنک ۔
Monochrome Rainbow

(6) اعلیٰ مرتبت دھنک ۔
Higher-Order Rainbow

(7) قمری دھنک ۔ Moonbow
(8) کہرا دھنک ۔ Fogbow

مطالعۂ دھنک کی مختصر تاریخ
دھنک کے حُسن نے ارسطو کے زمانے سے لے کر آج تک کے عالموں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کو دعوتِ مطالعہ دی ہے:

(1) ارسطو (322-384 BC) وہ پہلا عالم تھا جس نے دھنک کا سنجیدہ مطالعہ کیا۔ اس کے مطالعے کے بعض نکات دریافت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ارسطو کی موت کے بعد اس کے مطالعے پر کافی تنقید ہوئی۔

(2) رومی فلسفی Seneca The Younger نے اپنی کتاب Naturales Questiones کے حصّہ اول (65 AD) میں دھنک کے متعلق کئی نظریات پیش کئے۔ اس نے اپنے زمانے کے لحاظ سے نہایت ہی اہم انکشاف یہ کیا کہ دھنک آسمان میں سورج کے بالمقابل نظر آتی ہے۔

(3) ابن الہثیم (965-1040 AD) نے اپنے مقالے ’’فی الہالہ و قوسِ قزح ‘‘ میں دھنک کی سائنسی توضیح پیش کی لیکن بعد کی تحقیقات نے اسے ردّ کردیا۔

(4) ابن الہثیم کے مطالعے کو بنیاد بناکر کمال الدین فارسی (1267-1319) اور Theodoric of Freiberg (1250-1310) نے دھنک کے مظہرکی ٹھیک ٹھیک وضاحت کی۔

(5) ابن الہثیم کے ہم عصر ابن سینا (980-1037) نے دھنک کے مظہر کی توضیح ایک دوسرے طریقے سے کی جس میں ارسطو کے نظریے کو قبول کیا گیا تھا۔

(6) Shen Kuo (1031-1095) نے بارش کے پانی کے ذریعے سورج کے نور کے انحراف کا نظریہ پیش کیا جو جدید نظریے کے عین مطابق ہے۔

(7) یرانی ماہر فلکیات قطب الدین شیرازی (1236-1311) نے دھنک کے بارے میں بالکل صحیح نظریہ پیش کیا۔

(8) ابن الہثیم کی کتاب ’’المناظر‘‘ کا ترجمہ یوروپ میں Book of Optics کے نام سے ہوا۔ اس کا گہرا مطالعہ Robert Grosseteste نے کیا۔ اس کے کام کو Roger Bacon نے آگے بڑھایا اور 1268 میں Opus Majus تصنیف کی۔ اس نے قلموں اور پانی کے قطروں پر نور کے اثرات کا مطالعہ کیا اور دھنک کے رنگوں کو دریافت کیا۔دھنک کے تعلق سے اس نے اور کئی انکشافات کئے۔

(9) فرانسس ریاضی داں Descartes (1596-1650) نے 1637 میں اپنی تصنیف Discourse on Method میں راجر بینکن کے کام کو مزید وسعت دی۔

(10) آئزک نیوٹن (1642-1727) نے 1672 میں منشور مثلثی کا استعمال کرکے سفید نور کے بکھراؤ (Dispersion) کا مظاہرہ کیا۔ اس نے بتایا کہ سفید نور دھنک کے سات رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

(11) Gustav Mieنے 1908 میں Mie Scattering کے عنوان سے مقالہ شائع کیا جس میں دھنک کے مظہر پر پُر مغز بحث کی گئی ہے۔ Mie کابکھراؤ کا نظریہ جدید نظریہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

دلِ ناداں تری چاہت کیا ہے؟
دھنک اللہ تعالیٰ کی بے شمار آیتوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ نشانی ہے کہ جسے دیکھ کر ایک منکر بھی ایما ن لے آئے، اس کا دیدار ایمان والوں کے ایمان کی سطح کو بلند کردے۔ اس کا نظارہ آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے، دل کو ایک سوز، اک جلن، اک تڑپ سے لبریز کردیتا ہے۔ اور جب اس کو دیکھنے والے کے دل پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو بے اختیار بارگاہِ الہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں:
اے میرے آقا
نہایت مہربان آقا
مرا وجود
میرا یہ مادی وجود
غلاظتوں کا پلندہ
اجالہ دے اسکو
اپنے دھنک رنگ پیرہن کی اک کرن سے
سارے دھنک کے رنگ ہیں تیرے لباس میں
اپلائی کردے
مرے نامراد وجود پر
اس مساوات کو
E=mc2 *
آقا
مری ہستی کو مٹاکر
مجھے بے نام کردے
دھنک رنگوں میں گم کردے!!!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360307
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development