تنویرِ حیاتی: حُسنِ لازوال کی ایک جھلک
واپس چلیں

ایس ایس علی
اپریل 2015

تنویرِ حیاتی: حُسنِ لازوال کی ایک جھلک
قومی ادارے CSIR کے شائع کردہ مختصر سائنس انسائیکلوپیڈیا "Golden Treasury of Science and Technology" میں تنویرِ حیاتی (Bioluminiscence) کی تعریف اس طرح درج ہے:
’’جانوروں کے ذریعہ نور کا اخراج جس میں حرارت خارج نہ ہو (تنویرِ حیاتی کہلاتا ہے)۔ عمل تنفس سے ملتے جلتے اس کیمیائی تعامل کے نتیجے میں نور کا اخراج ہوتا ہے۔ Luciferin نامی مرکب کی تکسید (Oxidation) ایک خامرہ (Enzyme)، Luciferase کرتا ہے جس کے نتیجے میں نور کا اخراج ہوتاہے۔ جگنو، گہرے سمندر کی مچھلیوں، چند دودوں (Worms) اور چند کائی (Algae) میں تنویر حیاتی کا مظہر پایا جاتا ہے۔‘‘
تنویر حیاتی میں حرارت کی بہت ہی کم مقدار C ْ 0.001 حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے اسے سرد نور (Cold Light) بھی کہا جاتا ہے۔ حالاں کہ جانداروں میں تنویر حیاتی کچھ زیادہ نہیں پائی جاتی تاہم نباتات کی 2 قسمیں (Groups) اور حیوانات کی تقریباً 40 قسمیں (Orders) ایسی ہیں جن میں تنویرِ حیاتی کا مظاہرہ کرنے والی انواع موجود ہیں۔
نباتات میں بیکٹیریا اور پھپھوند (Fungi) کی چند انواع میں تنویر حیاتی موجود ہے۔ بیکٹیریا سائز میں اتنے مہین ہوتے ہیں کہ ان کی تنویر نظر نہیں آتی لیکن ان کی بستیاں (Colonies) رات کے وقت جگمگاتی ہیں۔ بیکٹیریا اور پھپھوند کی تنویر کی شدت رات اور دن کے وقت یکساں رہتی ہیں۔ لیکن دوسرے جانداروں میں تنویر کی شدت ان حالات میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
جدید تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ تنویر حیاتی میں Luciferin کی تکسید کے عمل میں خامرہ Luciferase کا رول تماسی عامل (Catalyst) کا ہے۔ بعض معاملات میں Luciferin کی تکسید کے لئے چند دوسرے عوامل بھی ضروری ہوتے ہیں، مثلاً کیلشیم یا میگنیشیم کے برق پارے (ions) ، ATP وغیرہ۔

تنویر حیاتی کی تاریخ
برطانوی سائنسداں Sir Humphry Davy (1778-1829) کی ایجاد ’’محفوظ چراغ‘‘ (Safety Lamp)سے پہلے کانوں میں موم بتی یا چراغ وغیرہ لے جانا خطرہ سے خالی نہیں تھا ۔ کانوں میں میتھین گیس کی بہتات کی وجہ سے دھماکے اور آگ بھڑکنے کا خطرہ رہتا تھا۔ محفوظ چراغ کان کنوں کے لئے بڑی راحت ثابت ہوا۔ اس ایجاد سے پہلے برطانیہ اور یوروپ کے کان کن مچھلی کی خشک جلدکا استعمال روشنی کے کمزور منبع کے طور پر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جگنووں کو بوتل میں بند کرکے روشنی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ 1920 میں امریکی ماہر حیوانیات E.Newton Harvey نے اپنے دستاویز "The Nature of Animal Light" میں تنویر حیاتی پر کئے گئے ابتدائی کام کا جائزہ لیا۔ہاروے نے لکھا کہ ارسطو (Aristotle) نے مردہ مچھلی اور گوشت سے نور کے اخراج کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ارسطو اور Plinyنے گیلی لکڑی سے بھی اخراجِ نور کو نوٹ کیا ہے۔
1667میں Robert Boyleنے انکشاف کیا کہ بیکٹیریا اور پھپھوند میں تنویر حیاتی کا عمل واقع ہونے کے لئے ہوا ضروری ہے۔ دو اطالوی سائنسدانوں R.De Reanmurاور L. Spallanzani نے ثابت کیا کہ اس عمل کے لئے پانی بھی ضروری ہے۔
1887میں فرانسیسی سائنسداں Raphael Dubois نے دریافت کیا کہ Pholas Dactylus کا ٹھنڈے پانی میں تیار کیا گیا رس (Extract) کچھ وقت کے لئے دمکتا ہے۔ Pholas ایک سمندری حیوان ہے۔ راخیل نے تنویر حیاتی کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس نے اس قدیم نظریے کو رد کردیا کہ تنویر حیاتی فاسفورس سے متعلق ایک کیمیائی عمل ہے۔ اس نے عملی طور پر ثابت کیا کہ تنویر حیاتی کا عمل ایک خاص مرکب کے عمل تکسید کا نتیجہ ہے۔ اس خاص مرکب کو اس نے Luciferin کے نام سے موسوم کیا۔ Lucifer کا مطلب ہے نور بردار (Light Bearer) ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ تکسید کا یہ عمل Luciferase نامی محرکاب کی موجودگی میں واقع ہوتا ہے۔
1918میں امریکی سائنسداں E.Newton Harvey نے Cypridina کے مطالعے کے دوران پایا کہ لُوسی فیرِن (Luciferin) ، لُوسی فیریز (Luciferase) کی غیر موجودگی میں بہت تیزی سے (Spontaneous) تکسید کے عمل سے گزرتا ہے لیکن نور کا اخراج نہیں ہوتا۔ لُوسی فیریزکی موجودگی میں ہی نوری تکسید کا عمل واقع ہوتا ہے۔ بعد کے تجربات سے واضح ہوا کہ لُوسی فیرِن اور لُوسی فیریزآمیزے کے وہ نمونے جو ایک ہی نور کے جانداروں سے لئے گئے وہ دمکنے لگے۔ اسی طرح قریبی تعلق رکھنے والی انواع سے حاصل شدہ ان دونوں مرکبات کے آمیزے بھی دمکتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے بعید انواع سے حاصل شدہ آمیزے نور کا اخراج نہیں کرتے۔
ہاروے نے آئندہ، 30 سال لُوسی فیرِن کی تخلیص اور اس کے اجزائے ترکیبی کو سمجھنے میں گزار دئے لیکن قسمت نے نوجوان جاپانی کیمیاداں اوسامو شیمو مُورا (Osamu Shimomura) کا ساتھ دیا اور وہ قلمی لُوسی فیرِن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے لئے اس نے سمندری جگنو (Vargula Hilgendorfii) کا استعمال کیا۔ لُوسی فیرِن کی کیمیائی ساخت (Chemical Structure) معلوم کرنے میں شیمو مُورا کو آئندہ دس سال تک محنت کرنی پڑی۔ آخر 1957 میں اس نے اپنا تحقیقی مقالہ Crystalline Cypridina Luciferin شائع کروایا۔
اوسامُو شیمو مورا(Osama Shimomura) ، مارٹن کیلفر(Martin Chalfier) اورراجر وائی سین (Roger Y. Tsein) نے مشترکہ طور پر 1961 میں دمکنے والے سبز پروٹین کی دریافت کی جو حیاتیات کی تحقیق میں بہت اہمیت کا حامل کیمیائی مادہ ہے۔ ان تینوں سائنسدانوں کو ان کی اسی دریافت کے لئے 2008 کا کیمسٹری کا نوبل پرائز دیا گیا۔

تنویر حیاتی کی کیمسٹری
تنویر حیاتی ایک حیاتی کیمیائی تعامل (Biochemical Reaction)ہے جس کے نتیجے میں نوری توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ جگنو، Anglerfish اور دوسرے جانداروں میں نور کا اخراج کرنے والے اعضاء (Photophores) پائے جاتے ہیں جن میں ایک خاص رنگ (Pigment) پایا جاتا ہے جس کا نام Luciferin ہے۔ Photophores میں ایک خامرہ Luciferase بھی پایا جاتا ہے۔ Luciferase, Luciferin کی موجودگی میں آکسیجن کے ساتھ عمل کرکے نور خارج کرتا ہے۔ یہ تکسیدی عمل ہے۔
L+O2+(ATP) Luciferase OxyL+CO2+AMP+PP+Light
(Mg2+)
اس کیمیائی مساوات میں:
L = Luciferin
O2 = Oxygen
ATP = Adenosine Tri-Phosphate
Mg2+ = Magnesium ions
OxyL = Oxyluciferin
CO2 = Carbon Dioxide
AMP = Adenosine Monophosphate
PP = Phosphate Group
Light = نور

اس کیمیائی تعامل میں خامرہ Luciferase بطور تماسی عامل (Catalyst) کام کرتا ہے۔ میگنیشیم برق پارے (ions) اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ATP بھی مددگار اکائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ CO2 ، AMP اور PP فاضل مادوں (Waste Products) کے طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ اس حیاتی کیمیائی تعامل کا ماحصل نور ہے۔

Photophores
حیوانات کی ذیلی جماعت Coleoptera سے تعلق رکھنے والے خاندان (Families) ، Lampyridae اور Elateridae کی مختلف انواع میں تنویر حیاتی پایا جاتا ہے بر صغیر میں پائی جانے والی قسم Lampyridae کی انواع Luciola Gorhami ، Lampyris SP ، Luciole Ovalis وغیرہ نمائندہ انواع ہیں۔ یہ حیوانات چھوٹے یا درمیانی سائز کے ہوتے ہیں۔ ان کے نر پروں والے اور مادہ بغیر پر کے ہوتی ہیں۔ ان کا جسم قطعہ دار ہوتا ہے۔ نر میں قطعہ 6 اور 7 میں اخراج نور کا عضو (Photogenic Organ) پایا جاتا ہے جس کہ مادہ میں یہ صرف قطعہ 7 میں ہوتا ہے۔ یہ عضو Photophore کہلاتا ہے۔ مادہ کا نور نر کے نور کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔
جگنو میں Photophore خلیات کی دو تہوں پر مشتمل ہوتا ہے جسم کی نچلی سطح پر موجود تہہ (Ventricle Layer) نور کا اخراج کرنے والے خلیات پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ جسم کی اوپری سطح پر موجود تہہ (Dorsal Lager) نور کو منعکس کرنے والے خلیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ منعکس کرنے والے خلیات میں Purine Base کے ذرات ہوتے ہیں ۔ یہ ذرات Urates کہلاتے ہیں۔ یہ سطح نور کو منتشر کرنے والے عاکسہ (Reflector) کے طور پر کام کرتی ہے۔ اخراجِ نور کے عضو سے اعصاب (Nerves) گزرتے ہیں جو نور کے جھماکے (Flashing) کو کنٹرول کرتے ہیں۔
Photophoresکے مقام، ساخت اور کارکردگی میں بہت تنوع پایا جاتا ہے۔

جگنو، ایک بس تو ہی نہیں۔۔۔!
حشرات یعنی کیڑے مکوڑوں (Arthropods) سے ہر شحص الرجک رہتا ہے۔ لیکن جگنو (Firefly) ہمارا پسندیدہ کیڑا ہے۔ ہمارے شعراء کے تخیل کو یہ پر پرواز دیتا ہے۔ ہماری شاعری کے ہر دور میں اس نے اپنی حاضری درج کروائی ہے، اور ہمیشہ ہی اپنے قدرتی نور پر فحر کا اظہار کیا ہے۔ علامہ اقبال کی نظم ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ میں یہ بہ زعم خود اپنی برتری ان الفاظ میں ظاہر کرتا نظر آتا ہے:

لباس نور میں مستور ہو ں میں
پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں میں

لیکن اپنے دلکش اور جاذب نظر نور پر جگنو کو مغرور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تنویر حیاتی اللہ کی ایک آیت ہے جو اس نے اس میں ودیعت فرمائی ہے۔ اللہ کی یہ آیت اس کرہ ارض میں جگہ جگہ فراوانی کے ساتھ بکھری پڑی ہے۔ عالم نباتات اور عالم حیوانات میں تنویر حیاتی کا اظہار ذیل کے مطابق ہے:

عالم نباتات (Plant Kingdom)
(1) بیکٹیریا Achromobacter........(Bacteria)
(2) پھپھوند Panus Stripticus......(Fungi)
عالم حیوانات (Animal Kingdom)
(1) اولین حیوان (Protozoa)
(i) Mastigophora....Noctiluca, Ceratum.
Peridinium, Pyrodinium, Gymnodinium

(ii) Rhizopoda......Myxosphaera,
Sphaerozoum

(2) ہاضمی خلا والے حیوان (Coelenterata)
(i) Hydrozoa....................Liriope, Rothkea
(ii) Anthozoa....................Pennatula
(iii)Mnemiopsis................Ctenophora

(3) حلقہ دار دودے (Annelida)
(i) Polychaeta....................Chaetopterus

(4) جوڑ دار پیر والے (Arthropoda)
(i) Crustacea....................Cypridina
(ii) Insecta..................Lampyris, Luciola
Photurus, Photinus

(5) نرم جسم والے (Mollusca)
(i)َ Lamellibranchiata.........Pholas Dactylus
(ii) Gastropoda.................Triopa
(iii) Cephalopoda................Loligo, Spirula

(6) شوکہ دارجلد والے (Echinodermata)
(i) Ophiuroidea..........................Amphiura

(7) فقریے (Chordata)
(i)َ Enteropneusta..............Balanoglossus,
Glossobatanus
(ii) Tunicata.....................Salpa, Doliolum
(iii) Elasmobranchi...............Bentobalis
(iv) Teleostei...............Photoblepharon,
Photostomiasis, Monocetris

تنویرِ حیاتی کی افادیت
قدرت کے بے شمار سر بستہ راز ایسے ہیں جن تک ابھی سائنس کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ تنویر حیاتی بھی ان میں سے ایک ہے۔ تنویرِ حیاتی کی افادیت کے بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ تنویر حیاتی کب، کہاں، کیسے؟ ان معموں کو سائنس نے کافی حد تک حل کرلیا ہے لیکن تنویرِ حیاتی کیوں؟ یہ معمہ ابھی تک لانیحل ہے۔ صرف قیا س کیا جاسکتا ہے کہ:
۔ گہرے سمندروں میں جہاں صرف دن کی روشنی کی قلیل مقدار پہنچ سکتی ہے اور رات میں گہرا اندھیرا رہتا ہے، وہاں کے جانداروں کے تنویری اعضاء بطور قندیل استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے نور سے متعلقہ جانداروں کا دیکھنا اور پہچاننا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ نور، دشمنوں کو بھگانے اور شکار کو للچانے کے بھی کام آتا ہے۔
۔ جگنو میں یہ نور مخالف جنس کو مائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جگنو میں نور کے فلیش (Flash) کی طوالت اور ہر دو فلیش کے درمیانی وقفے کے ذریعہ مختلف انواع کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
۔ تنویر حیاتی کو گھروں اور سڑکوں کی روشنی کے لئے استعمال کرنے کا خواب سائنسداں برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ خواب سچ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی سپاہی رات کے وقت Cypridina کے سفوف کو ہلکی روشنی کے منبع کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ فلیش چمکانے میں خطرہ لاحق ہوتا تو وہ اس سفوف کو ہتھیلی پر لے کر پانی کے چند قطروں سے اسے نم کرتے، اور وہ دمکنے لگتا۔ یہ ہلکی روشنی نقشوں اور پیغامات کو پڑھنے کے لئے کافی ہوتی۔
۔ تنویر حیاتی کو میڈیکل ریسرچ میں کافی اہمیت دی جارہی ہے۔
1986 میں جگنو میں پائے جانے والے Luciferin کے جین (Gene) پر تجربات کئے گئے۔ کینسر زدہ خلیات کو تنویرِ حیاتی کے ذریعے ختم کرنے پر بھی تجربات کئے جارہے ہیں۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368895
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development