نور کی ماہیت : اک طرفہ تماشہ
واپس چلیں

ایس ایس علی
مارچ 2015

نور کی ماہیت : اک طرفہ تماشہ ہے۔۔۔۔!
’’نور بہترین رمق ہے جو رازق حقیقی نے ہمیں عطا کیا ہے۔‘‘ بظاہر یہ جملہ بے معنی لگتا ہے لیکن قرآن حکیم کے نظام اصطلاحات میں ’رزق‘کے معنی صرف روزی روٹی تک محدود نہیں ہیں۔ علم، خوش حالی، صحت، جوانی، زندگی ، والدین، شریکِ حیات، اولاد، بدلتے موسم، سورج چاند ستارے، غرض ہر وہ شے جو بنی نوع انسان کو نفع پہنچائے رزق ہے۔ اس لحاظ سے نور بھی رزق ہے اور بہترین رمق ہے جس کی تخلیق کا بنیادی مقصد اس کرۂ ارض کو جنت نشان بنانا ہے!
اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے نور کو بالواسطہ طور پر انسان کی روزی روٹی سے جوڑ رکھا ہے۔ شعاعی ترکیب (photosynthesis) کا عمل نہ صرف انسانوں بلکہ تمام ذی روح انواع کی غذا سازی کا ذمہ دار ہے۔ شعاعی ترکیب کے عمل میں نور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر تمام عوامل واجزاء کی موجودگی وفراہمی کے باوجود نور کے بغیر یہ عمل وجود میں نہیں آسکتا۔
نور اس لحاظ سے بھی رزق ہے کہ وہ ہماری آنکھوں میں بصارت کے عمل کو انگیز کرتا ہے۔ نور کے بغیر بینا اور نابینا دونوں برابر ہیں۔ انسان کی زندگی میں نور کی اس مرکزی حیثیت کو مسلمان سائنسدانوں نے سمجھا اور اس کی ماہیت پر تدبّر کی ابتداء کی جس کا نقطۂ عروج ابو علی حسن ابن الہیثم کی شاہکار تصنیف ’’کتاب المناظر‘‘ ہے۔
نور کی ماہیت
نور برق مقناطیسی اشعاع (Electromagnetic Radiation) ہے، جو توانائی کی ایک شکل ہے یہ اشعاع (تنویر) انسانی آنکھ کی بصارت کے احساس کا باعث ہے اسے مرئی نور (Visible Light) کہتے ہیں۔ اس کے طول موج (Wave Length) کی وسعت 4x10-7 m سے 7x10-7 m 0.00004 cm) سے (0.00007 cmکے درمیان ہوتی ہے۔ ان دو انتہاؤں سے کم یا زیادہ طول موج کی اشعاع کا ادراک ہماری آنکھ نہیں کرسکتی۔ لہذا ماورائے بنفشی (Ultra-Voilet) اور تحت احمر (Infra-red) اشعاع ہماری آنکھ میں بصارت کا احساس نہیں جگاتیں، انہیں غیر مرئی نور (Invisible Light) کہتے ہیں۔
ماضی قریب تک سائنسدانوں کا خیال تھا کہ نور برق مقناطیسی موجوں (Electromagnetic Waves) پر مشتمل ہوتا ہے جو لہروں کی شکل میں چلتاہے۔ سائنسداں نور کی لہروں والی خصوصیت اور مادّہ کی ذراتی خصوصیت میں نہایت واضح فرق کرتے تھے۔ لیکن آج تصویر صاف نہیں ہے۔ نور اور مادہ دونوں کی یہ مخصوص خصوصیات ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوکر رہ گئی ہیں!
جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ نور کبھی تو برق مقناطیسی موجوں کی طرح برتاؤ کرتا ہے اور کبھی مہین ذرات کے دھارے کے طور پر۔ اسی طرح مادہ (Matter) بنیادی طور پر ذراتی خصوصیات کا مظاہرہ کرتا لیکن بسا اوقات برق مقناطیسی موجوں کا سارویہ بھی اختیار کرتا ہے!
اشعاع / تابانی (Radiation) اور مادی ذرات کا یہ دوہرا رویہ ایک نئے مضمون (Subject) ’’موج میکانیات‘‘ (Wave Mechanics) کا موضوع ہے۔ یہ مضمون مطالعہ اور تحقیق کا ایک وسیع علاقہ ہے۔ ابتدائی مطالعہ اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نور اور مادہ بہ یک وقت موجی اور ذراتی رویے اختیار نہیں کرتے۔ نور یا مادہ کسی ایک وقت میں یا تو موجی خصوصیت ظاہر کرے گا یا پھر ذراتی۔
نور جب خلا یا ہوا میں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کرتا ہے تو وہ موجوں کے ایک نظام کی تشکیل کرتا ہے۔ خلا میں اس کی رفتار متعین ہوتی ہے۔ اس کے طول موج کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ وہ مکمل طور پر برقمقناطیسی موج ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن جب نور الیکٹرونس سے خارج ہوتا ہے اور اس کے راستے میں آنے والے دوسرے الیکٹرونس میں جب وہ جذب ہوتا ہے تو وہ نہایت مہین ذرات کے دھارے کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔ یہ مہین ذرات فوٹونس (Photons) کہلاتے ہیں۔ فوٹون کی نہ تو کوئی کمیت (Mass) ہوتی ہے اور نہ اس پر کوئی برقی بار ہوتا ہے۔ یہ ذرات Bosons کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ فوٹون کی توانائی (Energy) کو hv سے ظاہر کیا جاتا ہے جب کہ h پلینک کا مستقل (Planck's Constant) ہے اور V اشعاع کا تعدد (Frequency) ہے۔ فوٹون سے متعلق ٹکنالوجی کو فوٹونکس (Photonics) کہتے ہیں۔
نور کے انہی رویوں نے سائنسدانوں کو صدیوں سے پریشان کررکھا ہے۔ نور کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے کئی نظریات پیش کئے گئے جن میں چار اہم نظریات یہ ہیں:
(i) ذراتی نظریہ (Corpuscular Theory)
(ii) موجی نظریہ (Wave Theory)
(iii) برق مقناطیسی نظریہ (Electromagnetic Theory)
(iv) کونٹم نظریہ (Quantum Theory)

نیوٹن کا ذرّاتی نظریہ
برطانوی سائنسداں سرآئزک نیوٹن (1642-1727) نے 1666 میں دریافت کیا کہ سفید نور کئی رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ منشورِ مثلثی (Prism) کا استعمال کرکے اس نے بتایا کہ نور کی کرن میں موجود سات رنگوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جاسکتا ہے۔ نور کی ساخت کے متعلق اس نے نظریہ پیش کیا کہ نور خطِ مستقیم میں سفر کرنے والے مہین ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیوٹن نے ان ذرات کو Corpuscles کا نام دیا اور اس کا نظریہ ذرّاتی نظریہ (Corpuscular Theory) کہلایا۔
یہ نظریہ نور کے مستقیمی انتشار(Rectilinear Propagation) ، سایوں کے بننے (Shadow Formation) ، انعکاس (Reflection) اور دوسرے کئی نوری مظاہر کی ٹھیک ٹھیک مضاحت کرتا ہے۔ لیکن نور انحراف (Refraction) ، دوسرے انحراف (Double refraction)، مداخلت (Interference) ، قطبیت (Polarization) اور انکسار (Diffraction) کی وضاحت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ انحراف نور کی وضاحت کے لئے نیوٹن کو فرض کرنا پڑا کہ نور کی رفتار کسی کثیف واسطے میں بہ نسبت لطیف مادے کے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن بعد کی تحقیقات نے اس مفروضے کو خارج کردیا۔

Huygensکا موجی نظریہ
جس وقت نیوٹن نے نور کا ذراتی نظریہ پیش کیا، تقریباً اسی زمانے میں (1887) ہالینڈ کے ماہر طبیعات و فلکیات Christian Huygens (1629-1695) نے خیال ظاہر کیا کہ نور موجوں (Waves) پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس نے نور کی ماہیت واضح کرنے کے لئے موجی نظریہ (Wave Theory) پیش کیا۔
اس نظریہ کے مطابق ایک منور جسم اپنی تیز ارتعاشی حرکت کی وجہ سے اپنے اطراف پھیلے ہوئے پر اسرار واسطے ’’نوری ایتھر‘‘ (Light Ether) میں ہر ممکن سمت میں موجوں کا انتشار کرتا ہے۔ Huygens کے اس فرضی واسطے کو نوری ایتھر کے علاوہ عالمی ایتھر (World Ether) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایتھر نور کی رفتار سے تمام سمتوں میں امواج کی شکل میں سفر کرتا ہے۔ یہ موجیں جب آنکھ پر پڑتی ہیں تو ہمیں بصارت کا احساس ہوتا ہے۔
موجی نظریہ نور کے انعکاس، انحراف، دوہرے انحراف کی احسن طریقے پر وضاحت کرتا ہے لیکن نور کے مستقیمی انتشار اور سایوں کے بننے کی وضاحت نہیں کرپاتا، جب کہ ذراتی نظریہ ان مظاہر کی وضاحت ٹھیک طور پر کرتا ہے۔ لہذا یہ نظریہ تقریباً 100 سال تک نامقبول رہا۔ اس کے بعد اس نظریے کے تعلق سے نئی تحقیقات منظر عام پر آئیں جو ذیل کے مطابق ہیں۔
1800میں برطانوی سائنسداں اور انجینیر Thomas Young (1773-1829) نے اس نظریے کو دوبارہ زندگی بخشی۔ اس نے موجی نظریے کے ذریعے مداخلت (Interference) کا اصول وضع کیا جو ذراتی نظریے سے واضح نہیں ہوتا۔
فرانسسی سائنسداں Augustin Fresnel نے جوکہ Thomas Young کا ہم عصر تھا، نور کی مقاطعاتی خصوصیت (Transverse Characterstics) کا استعمال کرکے موجی نظریے کے خلاف عائد ہونے والے اعتراضات کو رد کیا۔ نور کی مقاطعاتی خاصیت نے قطبیت، انکسار وغیرہ کی بھی اطمینان بخش وضاحت کی۔ اب موجی نظریہ، طیف (Spectrum) کے رنگوں کی وضاحت کے قابل ہوگیا۔ 19 ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں Young اور Fresnel کے کام نے نیوٹن کے ذراتی نظریہ کا خاتمہ کردیا اور موجی نظریہ کو منظر عام پر لے آیا۔ تاہم Michelson اور Morley کے تجربے نے 1887 میں Huygens کے ایتھر کے مفروضے کو پورے طور پر رد کردیا۔

Maxwell کا برقی مقاناطیسی نظریہ
برطانوی ماہر طبعیات James Clerk Maxwell (1831-1879) نے 1864 میں نور کی ماہیت سے متعلق برق مقناطیسی نظریہ (Electromagnetic Theory) پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق تمام قسم کے اشعاع (Radiation) کی ماہیت برق مقناطیسی ہوتی ہے۔ اشعاع (تنویر) خواہ وہ مرئی (Visible) ہو خواہ غیر مرئی (Invisible) ، برقی قوت اور مقناطیسی قوت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ دونوں قوتیں نور کے انتشار کی سمت سے 90درجے کے زاویے پر ہوتی ہیں۔ Maxwell کے نظریے نے نور کے موجی نظریے کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

Planck کا کونٹم نظریہ
جرمن ماہر طبعیات Max Planck (1858-1947) نے 1900 میں نور کی ماہیت سے متعلق ایک نیا نظریہ پیش کیا جسے کونٹم نظریہ (Quantum Theory) کہا جاتا ہے۔ Planck کو اس نظریے کی بنیاد پر 1918 کا طبعیات کا نوبل پرائز دیا گیا ۔ اس نظریے کے مطابق روشنی کی کرن (Beam) توانائی کے Bundlesپر منحصر ہوتی ہے۔ یہ بنڈلس Quantaکہلاتے ہیں۔ ہر کونٹم کی توانائی نور کے تعدد پر منحصر ہوتی ہے۔ اس نظریے نے نیوٹن کے فرسودہ ذراتی نظریے کو دوبارہ زندگی بخشی، لیکن ایک الگ طرز پر۔
نور کی توانائی کا ایک کونٹم Photonکہلاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق سورج یا لیمپ سے آنے والی نور کی کرن جو ایک کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوتی ہے وہ متواتر نوری موجوں پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ انفرادی فوٹونس کے ایک دھارے کی شکل میں ہوتی ہے۔ ہر فوٹون کی توانائی اس کے تعدد کے راست تناسب میں ہوتی ہے۔ اگر فوٹون کے تعدد کو F سے اور اس کی توانائی کے کونٹم کو E سے ظاہر کیا جائے تو Planck کے مفروضے کے مطابق:
E= hf
جب کہ h، Planckکا مستقبل ہے جس کی قیمت 6.626x10-27، ارگ سیکنڈ ہے۔
آئن سٹائن (1879-1955)نے بھی کونٹم نظریے کو آگے بڑھایا۔

نور کیا ہے؟
نور کی ماہیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ کوئی بھی نظریہ نور کی اصلیت اور اس کے مختلف ومتضاد رویوں و مظاہر کو پورے طور پر واضح کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تو پھر آخر نور کیا ہے؟وہ برق مقناطیسی موج ہے یا فوٹونس کا دھارا؟؟ یا کچھ اور! نور مختلف مواقع پر مختلف رویے اختیار کرتا ہے۔ لہذا سائنسدانوں نے آخر کار مصالحت کی ایک صورت نکال ہی لی! انہوں نے نور کے موجی اور ذراتی رویوں کو یکجا کرکے ’’موج ذراتی‘‘ نظریہ (Wavicle Theory) ایجاد کی ہے۔
اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368616
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development