انسانی جسم کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہونگے
واپس چلیں

ایس ایس علی
جولائی 2017

انسانی جسم کے عجائبات
اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین تخلیقات میں سے ایک انسانی جسم ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات یوں ہی نہیں گردانا گیا۔ صدیوں سے سائنسداں انسانی جسم کا مطالعہ کررہے ہیں اور اس کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور تاقیامِ قیامت جاری رہے گا۔ انسانی جسم کے مطالعے کے دو پہلو ہیں: ایک اعضاء وجوارح کی شناخت اور دوسرے ان کے افعال (Functions) ۔ افعال کا سلسلہ طویل سے طویل تر ہوسکتا ہے لیکن اعضاء وجوارح کی شناخت تو محدود ہونی چاہئے کیوں کہ یہ ایک محدود انسانی جسم میں سموئے ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعضاء کی شناخت کا سلسلہ بھی ان کے افعال کی طرح لا محدود ہے! جیسے جیسے میڈیکل سائنس ترقی کرتی جارہی ہے، انسانی جسم پر تحقیق و تجزیہ کا سلسلہ بھی طویل تر ہوتا جارہا ہے، اور آج بھی ہمارے جسم میں نئے نئے اعضاء کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے۔
حال ہی میں سائنسدانوں نے ہمارے نظامِ انہضام (Digestive System) میں ایک نیا عضو دریافت کیا ہے جو میسنٹری (Mesentery) کہلاتا ہے۔ میسنٹری کو اب تک ایک قطعہ دار ساخت کا حامل عضو سمجھاجاتا تھا۔ لیکن اب آئرلینڈ کے لیمرِک (Limerik) میں واقع یونیورسٹی ہاسپیٹل کے تحقیق کاروں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ایک مسلسل اور مستقل عضو ہے جو اپنا ایک انفرادی وجود رکھتا ہے۔ میسنٹری دو ہری تہہ کی ہوئی پیری ٹونیم (Peritoneum) ہے۔ پیری ٹونیم ایک دبیز جھلی ہوتی ہے جو پیٹ میں ایک پردے کے طور پر پائی جاتی ہے۔ یہ پیٹ میں پائے جانے والے ملائم اعضاء مثلاً آنتوں، معدہ اور جگر کو ڈھانک کر رکھتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میسنٹری کا ذکر قدیم تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اس کا ذکر عظیم سائنسداں اور فنکار لیونارڈو دَونسی نے کیا تھا۔ لیکن صدیوں تک اسے ایک زائد اور بے مقصد عضو سمجھا گیا۔ گذشتہ صدی میں ماہرین اسے ایک ایسی قطعہ دار ساخت سمجھتے رہے جس میں خانے پائے جاتے ہیں اور وہ کوئی فعل انجام نہیں دیتی۔ لہذا قابل نظر انداز ہے۔ لیکن 2012 میں تحقیق کاروں نے واضح کیا کہ میسنٹری ایک مسلسل عضو ہے۔ پھر مزید چار برس کے مطالعے کے بعد انہوں نے اسے ایک علیحدہ عضو کا درجہ دیا۔ انہوں نے اپنی تحقیق The Lancet Gastroenterology and Hepatology نامی رسالے میں شائع کروائی۔ اب سائنسدانوں کی توجہ میسنٹری کے افعال (Functions) پرمرکوز ہے۔انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی جان پائیں گے کہ میسنٹری پیٹ کے امراض میں کیا رول ادا کرتی ہے۔
اپنڈکس (Appendix) ہمارے نظام انہضام کا ایک ایسا عضو ہے جسے ایک زائد اور بے مقصد چیز سمجھا جاتا ہے۔ اس میں اگر انفکشن ہوجائے تو جلد از جلد اسے بذریعہ جراحی جسم سے باہر نکال پھینکنا ہی مناسب سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ’’اسلام اور جدید سائنس‘‘ میں صفحہ 387 پر اپنڈکس کے بارے میں اس طرح اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’اپنڈکس ہر گز غیر ضروری نہیں۔ ارتقاء پسند تو اس حد تک گئے ہیں کہ ان کے نزدیک انسانی آنتوں میں سے اپنڈکس سلسلۂ ارتقاء ہی کی بے مقصد یاقیات میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنڈکس جسم کے چند مستند ترین اعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لوزتین (Tonsils) کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹریا کی اقسام اور ان کی تعداد میں باقاعدگی لاتی ہے۔ انسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اعضاء بہ یک وقت متنوع اقسام کے بہت سے افعال سرانجام دیتے ہیں۔‘‘
علامہ اقبالؔ نے بھی قوم کے نونہالوں کو یہ بات سمجھائی ہے:
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
حال ہی میں امریکہ کے ڈیوک میڈیکل سینٹر کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ اپنڈکس جسے آج تک فضول اور بے مقصد عضو سمجھاجاتا ہے، درحقیقت بڑے کام کی چیز ہے۔ انسان کی آنتوں میں پائے جانے والے مفید بیکٹریا کے لئے اپنڈکس ’’محفوظ گھر‘‘ (Safe House) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائریا ختم ہوجاتے ہیں تو ’’محفوظ گھر‘‘ یعنی اپنڈکس میں رہائش پذیر مفید بیکٹیریا آنتوں میں آکر اپنی آبادی میں اضافہ کرتے ہیں اور آنتوں کو ہونے والے نقصان کی بھرپائی کرتے ہیں۔ یہ دریافت Journal of Theoritical Biology میں شائع ہوئی ہے۔
گذشتہ دنوں دماغ میں خون کی نالیوں کا ایک نیا نظام دریافت کیا گیا ہے۔ ’’نیچر‘‘ (Nature) نامی رسالے میں شائع شدہ اس دریافت نے سائنسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ امریکہ میں یونیورسٹی آف ورجینیا کے اسکول آف میڈیسن کے تحقیق کاروں نے دریافت کیا ہے کہ خون کی نالیوں کا یہ نظام خون کی ایک بڑی نالی کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ تحقیق کاروں نے اسے ’’مرکزی عصبی نظام کی لمفی نالیاں (Central Nervous System Lymphatic Vessels) نام دیا ہے یہ نالیاں دماغ سے لمفی مائع (Lumph Fluid) کو اطراف کے لمف نوڈس(Lymph Nodes) تک لے جاتی ہیں۔ یہ نالیاں ڈیورَل سائی نیسز (Dural Sinuses) میں پائی جاتی ہیں۔ سائنسداں امید کررہے ہیں کہ اس دریافت سے بہت سے دماغی امراض جیسے الزائمرس، آٹزم اور Multiple Sclerosis وغیرہ کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے میں مدد ملے گی۔
جون 2013 میں انسانی آنکھ سے متعلق ایک نئی دریافت سامنے آئی۔ سائنسدانوں نے پایا کہ آنکھ کے قرنیہ (Cornea) میں ایک مہین خوردبینی جھلی پائی جاتی ہے۔ آنکھ کے گولے کے کھلے حصے پر قرنیہ نامی شفاف کروی ساخت ہوتی ہے۔ قرنیہ روشنی کی شعاعوں کا انحراف کرکے شعاعوں کو عَدَسے کی طرف روانہ کرتا ہے۔ قرنیہ میں دریافت شدہ یہ خوردبینی جھلی آنکھ کی جراحی (Surgery) کو آسان اور محفوظ بناتی ہے۔
نومبر 2013 میں بیلجیم کے لِئیوِن (Leuven) میں یونیورسٹی ہاسپٹل کے دو سرجنوں نے انسانی گھٹنے میں ایک نیا رباط (Ligament) دریافت کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ رباط گھٹنے میں لگنے والی چوٹ اور زخم کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے اینٹی رولیٹرل لگامنٹ (Anterolateral Ligament) نام دیا گیا ہے۔
انسانی جسم سے متعلق امکانات کی ایک وسیع دنیا ہمارے سامنے ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نئی دریافتیں نہ صرف ہمیں حیرت زدہ کرتی رہیں گی بلکہ ہمارے دکھ درد کا مداوا بھی کریں گی۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371284
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development