وائرس کا عذاب
واپس چلیں

ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
دسمبر 2016


وائرس قدرت کی بے حد یکتا تخلیق ہے۔ ایک ایسی شئے جس کو آپ نہ تو جاندار کہہ سکتے ہیں نہ بے جان۔ بلکہ اس کی زندگی کا دار ومدار ماحول پر ہے۔ یہ اگر جاندار کے جسم میں پہنچ جاتا ہے تو وہاں کے ماحول میں یہ ’’زندہ‘‘ ہوجاتاہے اور اگر جاندار کے جسم سے باہر رہتا ہے تو اُس ماحول میں یہ بے جان ہوجاتا ہے۔ جاندار و بے جان کے درمیان معلّق یہ بے حد خفیف اور مختصرہستی، بے حد سادہ ہوتی ہے۔ پروٹین کے غلاف یا کور (Cover) میں نیوکلِک ایسڈ (Nucleic Acid) کا ٹکڑا جو آراین اے (RNA) بھی ہوسکتا ہے اور ڈی این اے (DNA) بھی۔ گویا ایک لفافہ اور اس میں ایک خط۔ یہ خط آج انسانوں کے لئے موت کا پیغام بن کر آیا ہے۔ وائرس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کی فہرست طویل بھی ہے اور پرانی بھی۔ شاید ہی کوئی انسان ہو جو نزلے کا شکار نہ ہوا ہو۔ یہ وائرس سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ پھر فِلُو (Flu) یا انفلوئنزا (Influenza) جو وباکی طرح ہی پھیلے ہیں۔ اس کا پہلا ریکارڈ 1580 ء کا ہے جب یہ روس میں پھیلا تھا۔ 1889 ء سے 1890 ء کے درمیان پھیلنے والے ایشین یا رُوسی فِلُومیں لگ بھگ دس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ پھر 1918 ء سے 1920 ء کے دوران اسپینش (Spanish) فِلُو سے دو کروڑ سے زائد لوگ فوت ہوئے۔ 1957 ء سے 1958 ء کے دوران پھر ایشین فِلُو نے تقریباً پندرہ لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ 2009ء میں پھیلنے والے فِلُو نے بھی ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی جان لی۔ پروندوں سے انسانوں کی طرف منتقل ہونے والا ایویَن (Avian) یا بَرڈ (Bird) فِلُو تو اب بھی ہر سال اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔ آج کل بھی ملک کے کئی علاقوں سے اس کی خبریں آرہی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلا انفلوئنزا وائرس، پرند خصوصاً مرغیوں سے ہی 1901 ء میں ایک خاص قسم کا فِلٹر (Chamberland Filter) استعمال کرکے الگ کیا گیا تھا۔ اس فِلٹر کے سوراخ اتنے چھوٹے تھے کہ ان سے کسی بھی قسم کا بیکٹیریا (Bacteria) نہیں گزر سکتا تھا۔ انسانوں کے جسم سے اس وائرس کو پیٹرِک لیڈ لاء (Patric Laidlaw) نے 1933 ء میں برآمد کیا۔ اُس وقت تک وائرس کی زندگی کی تفصیل کی مکمل واقفیت کسی کو نہیں تھی۔ 1935ء میں جب وینڈل اسٹینلی (Wendell Stainley) نے تمباکوکے پودے کے عرق سے موزیک وائرس (TMV) کو کرسٹل (Crystal) بناکر الگ کیا تو دنیا کو پتہ چلا کہ یہ حقیر ترین شئے، جاندار اور بے جان کی سرحد پر واقع ہے اور جاندار کے جسم سے باہر کسی بھی بے جان مادّے کی طرح پائی جاتی ہے حتٰی کہ اس کو پےٖس کر اُبال کر اس کے کرسٹل بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
یہ تو تھی بات سب سے عام مرض یعنی نزلہ اور اُسی قبیل کے انفلوئنزا کی۔ وائرس سے ہونے والی دیگر بیماریوں میں پولیو بھی ایک خطرناک اور قدیم بیماری ہے۔ قدیم پینٹنگس سے پتہ چلتا ہے کہ ہزاروں سال قبل بھی یہ بیماری پائی جاتی تھی۔ اس کی باضابطہ دریافت 1789 ء میں مائیکل انڈروڈ (Michael Underwood) کے ہاتھوں ہوئی۔ اس وائرس کو 1908 ء میں کارل لینڈ سٹیٖنر (Carl Landsteiner) نے پہچانا۔ اس کا ٹیکہ جونس ایڈورڈ سالک (Johns Edward Salk) نے تیار کیا تھا جس کا باقاعدہ استعمال 1955 ء سے شروع ہوا۔ منہ کے ذریعہ دئے جانے والے ٹیکے (Polio Drops) کو البرٹ سیبِن (Albert Sabin) نے تیار کیا تھا اور 1961 ء سے اس کا باقاعدہ استعمال شروع ہوا۔
پولیو وائرس (PV) منہ کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ متاثرہ شخص کے فُضلے سے یہ خارج ہوتا ہے اور اگر فُضلہ کھُلے میں پڑا رہے تو یہ وائرس بہت لوگوں تک پھیل جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے کھُلی جگہ میں رفع حاجت کو بند کرنے کی باقاعدہ مہم برسوں سے ہمارے ملک میں چل رہی ہے۔ کھُلی جگہ میں پڑا ہوا فُضلہ سوکھ کر اور پھر مختلف وجوہات سے چُورا ہوکر ہوا میں اڑتا ہے۔ کھُلی رکھی ہوئی کھانے پینے کی چیزوں پر یہ دھول مٹی کے ساتھ اڑتا ہوا پہنچ جاتا ہے اور اس طرح پولیو وائرس ان کھُلی ہوئی چیزوں کو کھانے والے کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے سڑک پر بکنے والے کھُلے سامان کو خرید کر کھانا خطرے کو دعوت دینا ہے۔ یہ وائرس جسم کے عضلات (Muscles) اور عصبی نظام یعنی نروَس سسٹم (Nervous System) کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ شخص کے ہاتھ پیر بے وضع ٹیڑھے میڑھے اور کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر بچوں کو متاثر کرتی ہے۔
پولیو کے علاوہ خسرہ (Measles) ، مَمپس (Mumps) ، ہرپےٖس (Herpes) ، چھوٹی ماتا (Chicken Pox) ، وائرل پیچش (Viral Gastroenteritis) ، پیلیا (Hepapitis)، دماغی بخار (Meningitis) اور وائرل نمونیہ (Viral Pneumonia) ، وائرس سے ہونے والی معروف بیماریاں ہیں۔ اس فہرست میں نسبتاً نیا اور دہشت پھیلانے والا نام ایڈس (AIDS) کا ہے جو کہ ’’ایکوائرڈ اِمّیون ڈیفیشی اینسی سِنڈروم‘‘ (Acquired Immune Deficiency Syndrome) کا مخفّف ہے۔ اس کی دریافت 1981 ء میں امریکہ کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (CDC) میں ہوئی تھی۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1981 ء سے 2014 ء کے درمیان لگ بھگ 4 کروڑافراد اس کی وجہ سے لقمۂ اجل ہوگئے۔ گذشتہ سال 3 کروڑ 67 لاکھ افراد اس سے متاثر تھے اور ان میں سے ایک کروڑ دس لاکھ ہلاک ہوئے۔ یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں جسمانی رقیق مادّوں (Body Fluids) سے پھیلتا ہے۔ ان میں سب سے اہم جنسی تعلق اور جسم میں خون چڑھانے کا عمل ہے۔ خون اور مادّہ منویہ (Semen) کے ذریعے اس کا پھیلاؤ سب سے زیادہ ہوتاہے۔ اس وائرس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا اثر 10 سے 15 سال بعد ہوتا ہے۔ اس تمام عرصے یہ وائرس جسم میں پنپتا رہتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے جسمانی قوّتِ مدافعت (Immune System) کمزور ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں چھوٹی چھوٹی بیماریاں بھی حملہ آور ہوتی ہیں اور انسان ایک دائمی مریض ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔
 
دشمن دو آتشہ
یہ وہ بیماریاں ہیں جو مختلف قسم کے وائرس انسانی جسم میں داخل ہوکر پیدا کرتے ہیں۔ ابھی ہم ان وائرسوں کے حملوں سے بچنے کی جدو جہد میں ہی تھے کہ اچانک اِن ’’پیدل‘‘ وائرس کے ساتھ ’’سوار‘‘ وائرس بھی آدھمکے۔ اس قسم کے وائرسوں نے مچھر کی سواری گانٹھی اور مچھر ’’میں‘‘ سوار ہوکر انسان پر دھاوا بول دیا۔ یک نہ شُد دو شُد۔ ایک طرف تو ہم خود مچھروں سے پھیلنے والی ملیریا جیسی بیماریوں سے بدحال تھے کہ اب مچھر وائرس بھی پھیلانے لگے۔ مچھروں کے ذریعے پھیلنے والے وائرس امراض میں زرد بخار (Yellow Fever) صحیح معنوں میں افریقی دہشت تھا۔ اس کا ذکر سترہویں صدی سے ملتا ہے اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔ آج بھی اوسطاً ہر سال تیس ہزار افراد اس میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوتے ہیں۔

نئی دشمن جوڑیاں
اس قبیل کی نئی جوڑیوں میں ڈینگویا ڈینگی (Dengue) ، زِکا (Zika) اور چکن گُنیا (Chikun Gunya) وائرس ہیں جو ایڈیٖز اِجِپٹائی (Aedes Aegypti) نامی مچھر کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ چِکُن گُنیا ایڈیٖز کی ایک اور ذات (Species) ، ایڈیٖز ایلبوپِکٹس (Aedes albopictus) سے بھی پھیلتا ہے۔ ان نئی بیماریوں میں ڈینگو یا ڈینگی (دونوں تلفّظ درست ہیں) زیادہ خطرناک اور مہلک ہے۔ میڈیکل ریکارڈس میں اس قسم کی بیماری کا ذکر 1779 ء سے ملتا ہے۔ تاہم دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ باقاعدگی سے مختلف ممالک میں ظاہر ہورہا ہے۔ اس وقت 110 ممالک اس سے متاثر ہیں اور ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ وائرس کی ساخت چونکہ بہت سادہ ہے اس لئے اس میں مےؤٹیشن (Mutation) بھی جلد ہوتا ہے یعنی اس کا جینی مادہ چاہے وہ آر این اے ہو یا ڈی این اے، بہت جلد تبدیل ہوکر نئی نئی اقسام بناتا رہتا ہے۔ اسی لئے ان بیماریوں کے اثرات اور مدّت میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ ڈینگو وائرس بھی فی الوقت پانچ اقسام کا پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر قسم کے اثرات مختلف ، کچھ ہلکے اور کچھ شدید ہیں۔ مچھر کے ذریعے وائرس جسم میں داخل ہونے کے تین سے چودہ دن کے اندر مرض کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں جن میں بخار، سردرد، متلی یا الٹی، جسم کے پٹھّوں (Muscles) اور جوڑوں (Joints) میں درد اور کھال پر مخصوص سرخ چکتّے (Rashes) جیسے کہ باریک باریک دانوں کا سُرخ جھنڈ ہو۔ اگر مرض کا حملہ ہلکا ہے تو دو سے سات دن کے درمیان مرض خود ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن شدید معاملے میں جسم میں کہیں بھی خون کی نسیں پھٹ جاتی ہیں اور خون بہنے لگتا ہے، جسم میں خون کی کمی ہوجاتی ہے ایسے میں مریض کو خون چڑھانا ضروری ہوجاتا ہے۔ اوسطاً ہر سال پانچ لاکھ افراد اس شدید قسم کے ڈینگو میں مبتلا ہوکر اسپتال پہنچتے ہیں۔
چکُن گُنیاکا مرض سب سے پہلے تنزانیا (Tanzania)میں 1952 ء میں سامنے آیا تھا۔ اس کا یہ نام وہاں کی مقامی زبان کا ہے جس کا مطلب ’’ٹیڑھا میڑھا ہوجانا ہے‘‘۔ شدید درد کی وجہ سے انسان ایسی ہی شکل میں نظر آتا ہے۔ وائرس کے جسم میں داخل ہونے کے تین سے سات دن کے اندر مرض پیدا ہوسکتا ہے جس میں ایک دم تیز بخار، جوڑوں کا درد اور کھال پر سرخ چکتّے (Rashes) ۔ اس کے علاوہ تھکان، سردرد، آنکھوں کا دُکھنا (Conjunctivitis) اور بدہضمی بھی ہوسکتی ہے۔ شروع کے پانچ تا سات دن جسم میں وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اور پھر اگلے دس دن میں اس کی مقدار اور مرض کے اثرات کم ہونے لگتے ہیں۔ اس دوران بخار جاکر پھر دوبارہ بھی آسکتا ہے۔ بخار کے ساتھ جسم کے جوڑوں میں شدید درد ہوتا ہے جو کئی ہفتے یا کئی مہینے تک رہ سکتا ہے۔ گٹھیا (Arthritis) کے مریضوں میں درد کی شدّت اور زیادہ پائی جاتی ہے۔
1947ء میں جب ملک تقسیم ہورہا تھا اُس وقت یوگینڈا کے زِکا (Zika) نامی جنگلات میں پائے جانے والے ایک مخصوص بندر (Rhesus Monkey) میں ایک نئی قسم کا وائرس پایا گیا جس کا نام جنگل کی مناسبت سے زِکا رکھ دیا گیا۔ یہ وائر س بھی ایڈیٖز مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ 1952 ء میں پونا کے علاقے میں جاپانی انسیفیلاءِٹس (Encephalitis) یا جاپانی بخار کے سلسلے میں ایک سروے کے دوران زِکا وائرس بھی پایا گیا لیکن یہ اتنی ہلکی قسم کا تھا کہ اُس وقت اِس کی وجہ سے کسی قسم کی بیماری کی رپورٹ نہیں ملتی ہے۔ 1954 ء سے 2000ء کے دوران یہ وائرس ایشیا میں پھیل گیا لیکن کسی بیماری کی وجہ نہ بنا۔ بعد ازاں اس وائرس میں بھی میؤٹیشن (Mutation) ہوئے اور زیادہ مہلک اقسام وجود میں آئیں۔ مسافروں کے ذریعے یہ ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچا۔ سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کی رپورٹ کے مطابق یہ وائرس اس وقت 58 ممالک میں پہنچ چکا ہے۔ میڈیکل جرنل لینسیٹ (Lancet) کے نومبر 2016 کے شمارے میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کو اس وائرس سے نسبتاً زیادہ خطرہ ہے۔ چین، فلپائن انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں بھی یہ وائرس پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ چین میں آبادی زیادہ ہے لیکن چین کے مقابلے میں ہندوستان زیادہ رِسک پر ہے۔

سفر میں چولا بدلا
دنیا کے گِرد اپنے سفر کے دوران زِکا وائرس نے، نسبتاً بے ضرر سے ایک مہلک ایجنٹ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کی پرانی اقسام محض بخار، جسم اور جوڑوں کے درد اور کھال پر چکتّوں(Rashes) سے پہچانی جاتی تھیں مگر نئی اقسام عصبی نظام کو متاثر کرتی ہیں خاص طور پر حاملہ عورتوں کے حمل کو۔ متاثرہ ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچے کا سر غیر معمولی طور پر چھوٹا اور بے ڈھنگ ہوجاتا ہے۔ بات صرف سَر کے سائز تک محدود نہیں رہتی بلکہ اُسکے دماغ کی نشوونما بھی متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک غیر معمولی (Abnormal) بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ وائرس کی یہ اقسام مچھر اور انسانی جسم میں رہنے کی عادی ہوگئی ہیں اور جسمانی دفاعی نظام کو ہی چکما دے دیتی ہیں اور وہ اس کو دشمن کے طور پر نہیں پہچان پاتا۔

اپنی کرنی کو بھگتنا ہے
اِن تمام تازہ ترین اور مہلک بیماریوں کا راست تعلق مچھر سے ہے۔ یہاں ایک اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ مچھر اتنی زیادہ تعداد میں کہاں سے آگئے اور کیوں؟ مچھروں کے رہنے کی قدرتی جگہ جنگلات تھے۔ وہاں کی نمی اور پانی سے بھرے چھوٹے بڑے گڈھے اِن کا مسکن تھے۔ جب انسانی آبادیاں اور صنعتیں بڑھیں تو جنگلات صاف کئے گئے۔ جنگلات کے کٹنے سے جہاں اور بہت سے جانور بے گھر ہوئے وہیں مچھر بھی ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور انہوں نے کھیتوں اور انسانی آبادیوں کا رُخ کیا، جنگل میں وہ جانوروں کے خون پر گزارا کرتے تھے اب انھوں نے انسان کے خون کی خوراک کو اپنایا اور اس پر گزارا کرنے لگے۔ جنگلوں میں تیز ہوائیں اِن کو ہلاک کردیتی تھیں۔ گھروں کے اندر یہ ہواؤں سے اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ ہوگئے۔ شدید گرمی سے بھی بچ گئے جو ان کو ماردیتی تھی۔ ٹھنڈک اور چھاؤں میں پنپنے لگے۔ کچھ نسلیں، خصوصاً وہ جو وائرس بیماریاں پھیلا رہی ہیں، دن کی زندگی کی عادی ہوگئیں اب یہ اپنے شکار سے دن میں غذا حاصل کرنے لگیں یعنی دن میں انسان کا خون چوسنا شروع کردیا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ دن میں انسان زیادہ آسانی سے گھومتا پھرتا مل جاتا ہے اور جدید فیشن کے تقاضوں کے تحت کم اور مختصر کپڑے پہن کر جسم زیادہ کھولتا ہے جس پر مچھروں کو دعوت کھانا آسان ہوجاتا ہے۔ مچھر جب کاٹتا ہے تو پہلے اپنا لعاب (Saliva) اپنے شکار کے خون میں داخل کرتا ہے۔ اس کے لعاب میں کچھ ایسے مادّے ہوتے ہیں جو خون کو جمنے نہیں دیتے لہذا خون کی نس میں سوراخ ہونے پر خون جمتا نہیں اور مچھر اس کو آسانی سے چوس لیتا ہے۔ اگر مچھر خون نہ جمنے والے مادّے (Anti-Coagulent) نہ داخل کرے تو جسم کا قدرتی دفاعی نظام نس میں سوراخ ہوتے ہی وہاں خون کو جَما کر ایک کھُرنڈ (Crust) بنا دیتا ہے جو اُس سوراخ کو بند کردیتی ہے تاکہ خون ضائع نہ ہو۔ مچھر کے اس لعاب کے ساتھ ہی اُسکے جسم میں موجود تمام وائرس اور دیگر طفیلئے (Parasites) اگر موجود ہوں، تو انسان کے خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اب اِس انسان کا خون وائرس زدہ ہوگیا۔

انسان کے جسم میں جاتے ہی یہ وائرس زندہ ہوجاتا ہے اور تیزی سے تقسیم ہونے لگتا ہے۔ اب ایسے میں اِس انسان کو اگر کوئی ایسا مچھر کاٹتا ہے جس میں یہ وائرس نہیں ہوتا تو اِس انسان کے خون کے ذریعہ وہ وائرس اِس مچھر میں پہنچ کر اس کو بھی اِس کا حامل (Carrier) بنا دیتا ہے۔ گویا متاثر انسان اس بیماری کو اس طرح بھی پھیلاتا ہے۔
انسانی آبادیوں میں مچھر کے آنے کی دوسری وجہ ہمارے علاقوں کی گندگی ہے جس کے لئے ہم آپ سبھی ذمہ دار ہیں۔ وہ بھی ذمہ دار ہیں جو صفائی رکھتے ہیں اور گندگی نہیں پھیلاتے اور وہ تو ہیں ہی جو گندگی پھیلاتے ہیں۔ہماری آبادیوں اور آبادیوں کے اطراف میں موجودکوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہم ہی لگاتے ہیں ہماری نالیوں سے پانی بہہ کر سڑک پر آتا ہے اور اگر سڑک پر اُس پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں ہے تو ہم بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ راقم نے دہلی میں ذاکر نگر اور علی گڑھ میں سر سیّد نگرکے علاقوں کی باز آبادکاری اپنی اِن گنہ گار آنکھوں سے دیکھی ہے۔ لاکھوں روپے کی لاگت سے شاندار مکان تعمیر ہوتا ہے کیونکہ وہ ہماری پہچان اور باعث عِزّوافتخار ہوتا ہے۔ لیکن اُس سے نکلنے والی نالی سڑک پر کھلتی ہے۔ سڑک پر نالیوں اور گندے پانی (Sewage) کا نظام اگر سرکار نے نہیں بنایا (اور ہمارے بیشتر غیر قانونی طور سے بسنے والی آبادیوں میں یہی منظر ہوتا ہے) تو پانی آس پاس کے خالی پلاٹ میں بہہ کر جاتا رہے گااور وہاں اکھٹا ہوگا جس کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ یہی ہمارے گردو پیش کی گندگیاں ہیں جہاں اب مچھروں کی بستیاں آباد ہیں۔ یہ ہمارے ہاتھوں پھیلایا گیا فساد ہے جس کا شکار اب ’’ہم سب‘‘ ہورہے ہیں۔ ہر شہر اورہر بستی کی یہ کہانی ہے چاہے وہاں رہنے والے ہندوہوں، مسلم یا کسی اور دھرم کو ماننے والے ہوں۔ شہر کا ایک مرکزی حصہ پلاننگ کے تحت بنتاہے اور اس کے ارد گرد وہ بستیاں وجود میں آتی ہیں جن کو وہاں کی سرکار غیر قانونی کہتی ہے لہذا اُن کو نہ تو کوئی نقشہ بنوانے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی اتھارٹی سے اُسکو پاس کرانے کی۔ مرکزی شہر میں پلان کے تحت بننے والے مکانوں میں رہنے والے بھی آج ان مچھروں اور بیماریوں کا شکار ہیں جن کو پیدا کرنے میں اُن کا براہِ راست تو ہاتھ نہیں تھا لیکن یہ اُن کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ اس گندگی کے فساد کو روکتے، علاقے والوں کو سمجھاتے۔ دنیا بھر میں یہ صاحبِ حیثیت لوگ خیر خیرات کرتے ہیں، اپنے آس پاس کے علاقوں کو اپنا لیتے (Adopt) کرلیتے ۔ سرکار سے، مقامی عہد یداروں، عوامی نمائندوں سے بات کرکے صفائی کا نظم قائم کرتے۔شاید انہوں نے اسے غیر ضروری سمجھا کہ اُن کا گھر اور علاقہ تو صاف ہے لیکن اب اطراف کی گندگی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اُن کو بھی اپنی جھپیٹ میں لے رہی ہیں۔
سرکاری اور عوامی نمائندوں نے بھی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں۔ بیشتر بستیوں میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے جگہ جگہ پانی کیچڑ گندگی ہے۔ سڑکیں بنتی ہیں تو ٹھیکیدار ایسا خراب مال لگاتے ہیں کہ اُن میں بھی گڑھے پیدا ہوجاتے ہیں جہاں پانی بھرتا ہے اور مچھر پیدا ہوتے ہیں اسی لئے ’’ہم سب‘‘ اس تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ مچھروں کی یہ وبا اور ان کے ذریعے پھیلنے والے وائرس امراض کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

علاج نہیں ہے
وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام بیماریاں، چاہے وہ نزلہ ہو یا ایڈز یا چِکُن گُنیا، لا علاج ہیں۔ جب وائرس کا دوران ختم ہوجاتا ہے، یا جسم میں اُس کے خلاف قدرتی قوتِ مدافعت بڑھ جاتی ہے تو مریض تندرست ہوجاتا ہے اور اگر اسی دوران بیماری مہلک ثابت ہوئی تو وہ انجام کو پہنچتا ہے۔عموماً سبھی طریقہ ہائے علاج میں اور خصوصاً ایلوپیتھک (Alopathic) علاج میں بیماری کی وجہ بننے والے جراثیم کو مارا جاتا ہے۔ دیگر اقسام کی بیماریاں پھیلانے والے جراثیم چاہے وہ پودوں کے خاندان کے بیکٹیریا ہوں یا جانوروں کے خاندان کے پیراسائیٹ، سبھی جاندار ہوتے ہیں لہذا ہلاک کئے جاسکتے ہیں۔ وائرس چونکہ جاندار نہیں ہوتا اور جانداروں کے جسم میں جاکر، اُنہی جانداروں کے جسم کے اجزاء کی مدد سے اپنی’کاپیاں‘ تیار کرتا ہے لہذا اُس کا ختم کرنا ناممکن ثابت ہورہا ہے۔ وائرس کے جسم کا اہم ترین حصّہ اُس کا نیوکلیائی مادّہ یعنی آر این اے (RNA) یا ڈی این اے (DNA) ہے۔ اگر اِس جینی مادّے کو دواؤں سے برباد کرا جائے تو مریض کے جسم کا جینی مادّہ بھی متاثر ہوگا اور وہ وائرس بیماری سے قبل دوا سے ہی مرجائے گا۔ کسی بھی وائرس کا ٹیکہ بھی ابھی تک کامیابی سے نہیں بن سکا ہے کیونکہ یہ سبھی وائرس اتنی تیزی سے اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہیں کہ ایک قسم کو کنٹرول کرنے کے لئے جو ٹیکہ بنتا ہے وہ دوسری قسم کے لئے بیکار ہوتا ہے۔ ٹیکہ کا معاملہ تالے چابی جیسا ہے۔ اگر کہیں ایک قسم کا تالہ ہوتو آپ اُس کی چابی بنواسکتے ہیں لیکن اگر تالے کے لیور ہر آن بدلتے رہیں تو آپ نہ تو چابی بنا سکتے ہیں اور نہ تالہ کھول سکتے ہیں۔ آج کی میڈیکل سائنس کے آگے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ اس سادہ ترین شئے کو ’’ہلاک‘‘ یا بے اثر کیسے کریں۔

پھر کیا کریں؟
چونکہ وائرس سے پیدا ہونے والی کسی بھی بیماری کا علاج ایلوپیتھی میں نہیں ہے لہذا محض احتیاط یا خوف کی وجہ سے غلط دوائیں نہیں لینا چاہئیں۔ ان تمام امراض میں ڈاکٹر تکلیف کو کنٹرول کرنے کی دوا دیتے ہیں یعنی درد ہے تو درد کا احساس ختم کرنے والی یا بخار کو کم کرنے والی دوا دے دیں گے۔ ان دواؤں کے ذیلی اثرات یا سائیڈافیکٹ کافی ہوتے ہیں۔ یہ جگر اور گردوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ لہذا ہلکی والی وائرس بیماریوں جیسے نزلے کے لئے کوئی ایلوپیتھک دوا نہ لیں۔یونانی، آیوروید اور ہومیوپیتھی علاج میں اِن امراض کو کنٹرول کرنے کا نظم ہے لہذا اُن کے ڈاکٹروں سے رجوع کریں۔ خطرناک امراض، جہاں جسم سے خون بہنے یا خون کم ہونے کی نوبت ہو وہاں ضرور اسپتال سے رُجوع کریں لیکن مرض قابو میں آتے ہیں پھر ایلوپیتھی سے احتیاط برتیں۔ جب بھی ایسی وبائیں پھیلتی ہیں تو عموماً آیوروید کے نام پر لوگ انجان دوا کی پُڑیاں بانٹتے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوگا۔ ایسے ویدوں سے احتیاط کریں کیونکہ عین ممکن ہے کہ ان کی دوا میں ایسی دھاتیں یا وہ ادویاتی کیمیکل یا مادّے شامل ہوں جو آپ کو اُسی وقت یا بعد میں مزید نقصان دیں۔ کسی باقاعدہ آیورویدک اسپتال کے ڈاکٹر سے رجوع کریں جو نسخہ تجویز کرے گا، آپ خود دیکھ سکیں گے کہ کس کمپنی کی کون سی دوا آپ کو دی جارہی ہے۔ انجان اور نامعلوم دوا کبھی نہ لیں۔

علاج آپ کے پاس ہے
جیسا کہ مضمون میں اوپر بھی ذکر کیا گیا ہے کہ انسا ن کے جسم میں اُس کا اپنا دماغی نظام ہوتا ہے جو اگر مضبوط ہو تو وہ ہر بیماری کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں وائرس بیماریاں بھی شامل ہیں۔ جسمانی دفاعی نظام کی تفصیل لکھنے کو ایک وقت درکار ہوگا تاہم یہاں مختصراً اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا طرزِ زندگی اور ہماری سوچ، خیالات اور عزائم اس نظام پر مثبت او رمنفی اثرات ڈالتے ہیں۔ آج میڈیکل سائنس بھی اِس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ جو لوگ منفی سوچ نہیں رکھتے یعنی غصّہ، حسد، جلن، بُغض، کینہ، انتقام جیسی چیزیں اُن کی سوچ یا عمل کا حصہ نہیں ہوتیں۔ جو کسی سے نفرت نہیں کرتے ،کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے، کسی سے بدلہ نہیں لیتے، کسی کو بُرا نہیں کہتے اُن کے جسم کا اندرونی ماحول ایسا ہوتا ہے کہ اُن کا دفاعی نظام بے حد چاق وچوبند اور مضبوط پایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایڈز جیسے خطرناک وائرس کچھ افراد کے جسم میں ہوتے ہیں لیکن اُن کا اثر کبھی ظاہرنہیں ہوتا نہ ہی بیماری ہوتی ہے، یہ ہمارے قدرتی دفاعی نظام کا ہی کمال ہے کہ وہ اُن چیزوں کو بھی کنٹرول کرتا ہے جن کو ابھی تک ہماری میڈیکل سائنس قابو میں نہیں کرپائی ہے۔ لہذا طرزِ زندگی سادہ اور مثبت سوچ ہم کو بہت سے جانے انجانے امراض سے بچا سکتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے انشاء اللہ آئندہ کسی مضمون میں گفتگو ہوگی۔ علاوہ ازیں مچھروں سے بچاؤ کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرنا اب ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ ساتھ ہی اپنے اطراف کو صاف رکھنے کے لئے علاقے کے لوگوں کو ہم خیال بنانا اور ایک تحریک چلانا بھی اب لازم ہے۔ پانی کے ہر گڈھے کو بند کریںیا اُس کے اوپر تیل پھیلادیں تاکہ مچھر پیدا نہ ہوں۔

چار نئے حملے متوقع
تحقیقی مجلہ’سائنٹفِک امریکن‘ (Scientific American) کے اکتوبر 2016 ء کے پہلے شمارے میں چار نئی وائرس بیماریوں کی وارننگ ہے جو مچھّروں پر سوار ہوکر حملہ کرنے آرہی ہیں۔ اِسی ایڈیٖز مچھر کے ذریعے’’ مایارو‘‘ (Mayaro) نامی وائرس پھیلتاہے جو چِکُن گنیاجیسی علامات والی بیماری پھیلاتا ہے۔ ’’رفٹ وادی بخار‘‘ (Rift Valley Fever) بھی اِسی جوڑی کے ذریعے پھیلنے والا مرض ہے۔ اس کی کمزور اقسام تو محض جاڑا بخار پھیلاتی ہیں لیکن شدید اقسام خون کی نسوں کو پھاڑ کر جسم کے کسی بھی حصے سے خون رساؤ شروع کردیتی ہیں۔ اس کی دریافت بیسویں صدی کے اوائل میں کینیامیں ہوئی تھی اور یہ بڑی حد تک افریقہ میں ہی محدود تھا۔ تاہم 2000 ء میں یہ وسط ایشیا پہنچ گیا۔ 2014 ء تک ہزاروں افراد اور لاکھوں جانور اس سے متاثر ہوکر ہلاک ہوگئے۔اس کی ہلاکت خیزی اور اس کے پھیلاؤ کے بڑھنے کا خطرہ اس وجہ سے اور زیادہ ہے کہ یہ ایڈیٖز مچھر کے علاوہ مچھروں کی لگ بھگ تیس (30) دوسری اقسام کے ذریعے بھی پھیلتاہے۔ ان مچھروں میں سے 19 اقسام نارتھ امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ لہذا امریکہ میں اِس رُخ تیاری کی جارہی ہے۔
کریمیَن ۔کانگوخونی بخار (Crimean-Congo Hemorrhagic Fever) ایک چھوٹے کیڑے (Ticks) سے پھیلتا ہے۔ چونکہ ان ننھے کیڑوں کی رفتار اور پھیلاؤ مچھر سے کم ہے لہذا یہ بیماری پھیلنے میں وقت لیتی ہے لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہونے والے 40% افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 1944 ء میں دریافت ہوا یہ وائرس اب افریقہ سے چین پہنچ چکا ہے۔ 2002 ء میں یہ ترکی میں ، 2011 ء میں بھارت میں اور اِسی سال ستمبر 2016 میں اسپین میں پایا گیا ہے۔اس کو پھیلانے میں سب سے اہم کردار ’’ہیالومّا‘‘ (Hyalomma) خاندان کے کیڑے (Ticks) ادا کرتے ہیں۔ یہ پرندوں اور سفر کرنے والے انسانوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پھیلتے ہیں۔ موسم میں حِدّت بڑھنے سے ان کیڑوں کی افزائش بڑھ رہی ہے اور اس طرح یہ بھی ہمارے ماحول کی خرابی کا ہی ثمرہ ہے۔
موسم میں گرمی کے اضافے کے باعث یورپ، خصوصاً جرمن میں پائے جانے والے پرندوں میں یو سُو ٹو (Usutu) نامی وائرس کی ہلاکتیں نوٹ کی گئی ہیں۔اِس وائرس سے متاثر ہونے والے پرندے فرانس، بیلجیم، ہنگری اور ہالینڈ میں بھی پائے گئے ہیں۔ یہ وائرس کیولیکس (Culex) قسم کے مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اس کی دریافت 1959 ء میں ساؤتھ افریقہ میں ہوئی تھی، یورپ میں اس کا پہلا کیس 2001 ء میں آسٹریا میں پایا گیا تھا۔ انسانوں میں پہلا مریض 2009 ء میں اٹلی میں پایا گیا۔ اس کی علامات جاپانی دماغی بخار (Encephalitis) جیسی ہوتی ہیں۔ یہ دماغ کے گرد موجود جھلّیوں کو متاثر کرتا ہے اور مہلک ہے۔
یہ وہ بیماریاں ہیں جو ہمارے در پر دستک دے رہی ہیں۔ یہ مثال اُس آگ کی سی ہے جو ہماری بستی کے ایک کنارے پہ لگی ہے۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ یہ ہم تک نہیں پہنچے گی تو ہم اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس وقت یہ ایک اجتماعی لڑائی ہے جو ہم سب کو بلا تفریق مذہب و مِلّت لڑنی ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول سے گندگی کو صاف نہ کرپائے اور یہ فساد یونہی پھیلتا رہا تو ہم اور ہمارے بچّے جلد ہی اِس گندگی کا ایک حصہ بن جائیں گے۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368860
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development