ہر شے میں تیرا نور ہے
واپس چلیں

ایس ایس علی
جنوری 2015

کم نہیں ہے روشنی ، ہر شے میں تیرا نور ہے

(اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے)

(سورہ نور : 35)

اس آیت کی تشریح و تفسیر میں سیّد ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

’’نور سے مراد وہ چیز ہے جس کی بدولت اشیاء کا ظہور ہوتا ہے، یعنی جو آپ سے آپ ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرے۔ انسان کے ذہن میں نور اور روشنی کا اصل مفہوم یہی ہے۔ کچھ نہ سوجھنے کی کیفیت کا نام انسان نے اندھیرا اور تاریکی اور ظلمت رکھا ہے، اور اس کے برعکس جب سب کچھ سجھائی دینے لگے اور ہر چیز ظاہر ہو جائے تو آدمی کہتا ہے کہ روشنی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ’نور‘ کا استعمال اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے کیا گیا ہے، نہ اس معنی میں کہ معاذ اللہ وہ کوئی شعاع ہے جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار (186,000) میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتی ہے اور ہماری آنکھ کے پردے پر پڑکر دماغ کے مرکز بینائی کو متاثر کرتی ہے۔ روشنی کی یہ مخصوص کیفیت اُس معنی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے جس کے لئے انسانی ذہن نے یہ لفظ اختراع کیا ہے، بلکہ اُس پر اس لفظ کا اطلاق ہم ان روشنیوں کے لحاظ سے کرتے ہیں جواس مادی دنیا کے اندر ہمارے تجربے میں آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے انسانی زبان کے جتنے الفاظ بھی بولے جاتے ہیں وہ اپنے اصل بنیادی مفہوم کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں نہ کہ ان کے مادّی مدلولات کے اعتبار سے۔ مثلاً ہم اس کے لئے دیکھنے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ انسان اور حیوان کی طرح آنکھ نامی ایک عضو کے ذریعہ دیکھتا ہے۔ ہم اس کے لئے سننے کا لفظ بولتے ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہماری طرح کانوں سے سنتا ہے۔ اس کے لئے ہم پکڑ اور گرفت کے الفاظ بولتے ہیں۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ وہ ہاتھ نام کے ایک آلہ سے پکڑتا ہے۔ یہ سب الفاظ اس کے لئے ہمیشہ ایک اطلاقی شان میں بولے جاتے ہیں اور صرف ایک کم عقل آدمی ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ سماعت اور بینائی اور گرفت کی کوئی دوسری صورت ’اس محدود اور مخصوص قسم کی سماعت و بینائی اور گرفت کے سوا ہونی غیر ممکن ہے جو ہمارے تجربے میں آتی ہے۔ اسی طرح ’نور‘ کے متعلق بھی یہ خیال کرنا محض ایک تنگ خیالی ہے کہ اس کے معنی کا مصداق صرف ’اس شعاع ہی کی صورت میں پایا جاسکتا ہے جو کسی چمکنے والے جِزم سے نکل کر آنکھ کے پردے پر منعکس ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق اس محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ مطلق معنی میں ہے، یعنی اس کائنات میں وہی ایک اصل ’سبب ظہور‘ ہے، باقی یہاں تاریکی اور ظلمت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری روشنی دینے والی چیزیں بھی اس کی بخشی ہوئی روشنی سے روشن اور روشن گر ہیں۔ ورنہ ان کے پاس اپنا کچھ نہیں جس سے وہ یہ کرشمہ دکھا سکیں۔

نور کا لفظ علم کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، اور اس کے برعکس جہل کو تاریکی اور ظلمت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی کائنات کا نور ہے کہ یہاں حقائق کا علم اور راہِ راست کا علم اگر مل سکتا ہے تو اسی سے مل سکتا ہے۔ اس سے فیض حاصل کئے بغیر جہالت کی تاریکی اور نتیجتاً ضلالت و گمراہی کے سوا اور کچھ ممکن نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد سوم ، صفحہ 406-407)

اس تشریح سے ہمیں نور کی ہیت، عظمت، اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نور کی انہی گوں نا گوں خصوصیات اور فضائل نے مسلمان سائنسدانوں کو متوجہ کیا اور وہ نور کی زلفوں کے اس درجہ اسیر ہوئے کہ ابو علی ابن الہیشم ’’بابائے جدید بصریات‘‘ (Father of Modern Optics) کہلایا۔

نور اور اس سے متعلق ٹکنالوجیز کے انسانی زندگی پر پڑنے والے گہرے اثرات کے مدّ نظر اقوامِ متحدہ (UN)نے سال 2015 کو ’’بین الاقوامی سالِ نور‘‘ (International Year of light) کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سال بھر چلنے والی تقریبات اور سرگرمیوں کا مقصد عوام کو نور کی سائنس (Science of Light) کے کارہائے نمایاں اور اس کے بے شمار استعمالات اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ سال سائنس، انجینئرنگ اور فن ثقافت کی دنیاؤں کو ایک دوسرے سے قریب لائے گا۔ IYL-2015 کی تقریبات میں جو ادارے حصہ لیں گے وہ یہ ہیں:

UNESCO، مختلف سائنسی ادارے اور انجمنیں، تعلیمی اور تحقیقی ادارے، ٹکنالوجی پلیٹ فارمس، نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر کام کرنے والے ادارے وغیرہ۔

بین الاقوامی سال نور 2015 کی تقریبات میں جن موضوعات(Themes) کو شامل کیا جائے گا وہ ذیل کے مطابق ہیں:

(1) 1015ء اور اس سے قبل ابن الہیثم کے ذریعے نوریات (Photonics) اور بصریات (Optics) پر کیا گیا کام۔

(2) 1815ء میں Fresnel کا نظریہ کہ نور موجوں (Waves) کی شکل میں پایا جاتا ہے۔

(3) 1865ء میں Maxwell کے ذریعہ نور کی اشاعت (Light Propagation) کا نظریہ جو ’’اشاعتِ نور کا برق مقناطیسی نظریہ‘‘ (Electromagnetic Theory of Light Propagation) کہلاتا ہے۔

(4) 1905ء میںآئن سٹائن کے ذریعے پیش کردہ نور برقی اثر(Photoelectric Effect) کا نظریہ ۔

(5) 1915ء میں آئن سٹائن کے ذریعہ پیش کردہ عام نظریۂ اضافیت (General Relativity) کے تناظر میں مطالعۂ کائنات میں نور کی حصّہ داری۔

(6) 1965ء میں Penzias اور Wilson کے ذریعہ Cosmic Microwave Background کی دریافت جو عظیم دھماکہ (Big Bang)کا ثبوت مہیا کرتی ہے۔

(7) 1965ء میں ہی Charles Kao کا نور کے بصری مواصلات (Optical Communication) میں کامیابی حاصل کرنا۔

سال 2015 کو IYL-2015 کے طور پر منانے کے لئے UN نے جو قرار داد منظور کی اس کا متن ذیل کے مطابق ہے:

’’ادویات، توانائی، اطلاع اور ابلاغ، ریشہ بصریات (Fibre Optics) ، فلکیات، زراعت، علمِ آثارِ قدیمہ (Archaeology) ، لطف اندوزی اور ثقافت کے میدانوں میں نورکی سائنس اور ٹکنالوجی، بنی نوع انسان کی ہمہ جہت ترقی میں ایک طاقتور عامل ہے۔‘‘

یوروپین فزیکل سوسائٹی (EPS) نے IYL-2015 کے تعلیمی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

’’نور صدیوں سے جغرافیہ، جنس، عمر اور ثقافت کی سرحدوں کو توڑکر تعلیمی میدان میں اپنی اہمیت منواچکا ہے۔

ذہین نوجوان نسل نوریات اور بصریات میں بے پناہ کشش کا تجربہ کرتی ہے اور ان مضامین میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔‘‘

EPSکے صدر اور IYL-2015 کی روح روان انجمن(Steering Committee) کے صدر John Dudley نے اپنے ایک بیان میں کہا:

’’بین الاقوامی سالِ نور ایک اچھا موقع ہے۔ اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے پالیسی سازوں اور ماہرین کو چاہئے کہ نور ٹکنالوجی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے IYL-2015 کو ایک قومی محرک کے طور پر استعمال کریں۔‘‘

Dudley نے مزید کہا کہ:

’’نوریات و بصریات مستقبل میں بہت سارے میدانوں میں اپنی اہمیت کو اجاگر کریں گے مثلاً توانائی کی بچت کرنے والی نور ٹکنالوجی LED ، نورکی آلودگی کا حل، تبدیلی آب و ہوا، صحت، زراعت وغیرہ۔‘‘

نوبل انعام یافتہ NASA کے سائنسداں John Matherنے IYL-2015 کے متعلق کہا:

’’نور ہمیں شعاعی ترکیب (Photosynthesis) کے ذریعہ زندگی بخشتا ہے، ہمیں ماضی میں جھانک کر عظیم دھماکے کو یاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، ہمیں اس سر زمین پر اور باہری خلا میں سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں سے رابطہ قائم کرنے میں مدد کرتا ہے۔‘‘


نور کیا ہے؟

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نور نظر آنے والی چیز ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نور نظر نہیں آتا، وہ غیر مرئی (Invisible) ہے۔ البتہ اس کی موجودگی میں اشیاء نظر آتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں نور وہ وسیلہ ہے جو ہماری آنکھ میں بصارت کااحساس پیدا کرتا ہے۔ نور سے منور ہونے پر ہی کوئی جسم ہمیں نظر آسکتا ہے۔ نور کی غیر موجودگی کو اندھیرا کہتے ہیں۔ اندھیرے میں ہم کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ کسی کمرے میں کسی سوراخ سے داخل ہونے والی نور کی شعاعیں ہمیں نظر نہیں آتیں، کمرے میں موجود دھول کے ذرات ان سے روشن ہوکر ان کا احساس دلاتے ہیں۔

سائنسی اعتبار سے نور، برق مقناطیسی اشعاع (Electromagnetic Radiation) ہے جو توانائی کی ایک شکل ہے اور انسانی آنکھ کی بصارت کے احساس کو تحریک دیتی ہے۔ اس کے طول موج (Wavelength) کی وسعت 4x10-7m سے 7x10-7m کے درمیان ہوتی ہے۔ خلا میں نور کی رفتار 3x108 m/s یعنی 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔ سورج سے خارج ہونے والے نور کو زمین تک پہنچنے میں 8.5 منٹ درکار ہوتے ہیں۔

سورج، ستارے، آگ، شمع کا شعلہ اور جلتے ہوئے چراغ کی لو، الکٹرک بلب وغیرہ خود اپنا نور خارج کرتے ہیں۔ انہیں منور اجسام (Luminous Bodies) کہتے ہیں۔ زمین، چاند، مکانات، لکڑی اور ہمارے روزمرہ کی بے شمار چیزیں منور اجسام سے نور حاصل کرکے اسے منعکس (Reflect) کرتے ہیں۔ان کا اپنا کوئی نور نہیں ہوتا۔ انہیں غیر منور اجسام (Non-Luminous Bodies) کہتے ہیں۔ بعض دوسرے اجسام نور کو منعکس نہیں کرتے، نور ان میں سے آسانی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔ انہیں شفاف اجسام (Transparent Bodies) کہتے ہیں۔ شیشہ، ہوااور پانی شفاف اشیاء ہیں۔ جو اجسام نور کو اپنے میں سے گزرنے نہیں دیتے غیر شفاف اجسام (Opaque Bodies) کہلاتے ہیں۔ تاہم بعض اشیاء میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ نور کو اپنے میں سے پورے طور پر گزرنے نہیں دیتیں، نور کا صرف تھوڑا سا حصہ ان میں سے گزرسکتا ہے۔ یہ اشیا نیم شفاف (Translucent Bodies) کہلاتی ہیں مثلاً پلاسٹک، پالی تھین، جھلی وغیرہ۔

نور ایک ایجنٹ (Agent) ہے جو بصارت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ نور جب اجسام پر پڑتا ہے تو کیمیائی اور حرارتی اثرات بھی پیدا کرتا ہے۔ فوٹو گرافی نور کے کیمیائی اثرات کی نمائندگی کرتی ہے جب کہ سورج کی روشنی اس کے حرارتی اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر محدب عدسے کے ذریعے سورج کی روشنی کو ایک نقطے پر مرکوز کیا جائے تو اس کی حرارت کی شدت کاغذ کو جلانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔


نور یات (Photonics)

منور توانائی (Radiant Energy) کی سائنس نوریات کہلاتی ہے۔اس میں نور اور منور توانائی کی دوسری قسموں کی خصوصیات اور استعمالات کا سائنسی مطالعہ کیا جاتا ہے۔


بصریات (Optics)

نئی دہلی سے شائع شدہ سہ روزہ ’’دعوت کی 22 جنوری 2014 کی خصوصی اشاعت بعنوان ’’علوم و فنون۔مسلمانوں کی خدمات‘‘ میں (صفحہ 73 تا87 ) مشہور سائنسداں جے،ڈی، برنال کے ایک مضمون کا ترجمہ شامل ہے جس کا عنوان ہے ’’اسلام کا عروج‘‘۔ یہ مضمون جے،ڈی، برنال کی تصنیف ’’سائنس ان ہسٹری‘‘ (1954) سے ماخوذ ہے۔ اس طویل مضمون میں علم بصریات کے ذیلی عنوان کے تحت مصنف رقم طراز ہے:

’’علم طب کی وہ شاخ جس میں بہت ترقی ہوئی، آنکھ کی بیماریوں کا مطالعہ تھا۔ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ صحرائی اور استوائی مناطق میں آنکھ کی بیماریاں عام تھیں۔ آنکھوں کے امراض کی جراحی نے آنکھ کی بناوٹ میں دلچسپی لینے میں اضافہ کردیا۔ اس امر نے عرب طبیبوں کو پہلی بار آنکھ میں انعطاف نور کے مظہر کو درست طور پر سمجھنے کا موقع دیا اور انہوں نے شفاف اجسام میں روشنی کی شعاعوں کے گزرنے کا درست احساس حاصل کیا۔ یوں جدید بصریات کی بنیاد پڑی۔ آنکھ کے عدسے نے یہ بات سمجھائی کہ پڑھنے اور چیزوں کو بڑا کرکے دکھانے کے لئے بلوریا شیشے کے عدسوں کو بالخصوص عمر رسیدہ لوگوں کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایسے عدسوں کو فریم میں لگاکر عینکین بنانے کا طریقہ بعد میں دریافت ہوا۔ ابن الہیشم (Alhazen) کا بصریاتی قاموس (Optical Thesaurus) (1038)اس موضوع پر پہلی سائنسی کوشش تھی اور اس پر قرون وسطیٰ کی بصریات کی اساس تھی۔ ہر چند کہ اس میں ترقی ہوئی تاہم سترہویں صدی تک اس سے بہتر کوشش نہ ہوپائی۔ عدسات کی صورت میں پہلی بار انسان کے حسی آپریٹس کی خارج میں توسیع ہوئی جو اس کی قابلیتِ نقل و حرکت کے برابر تھی، مکینکس (میکانیات) کے ذریعے سے اس سے قبل خارج میں وجود میں آچکی تھی۔ یہ آئندہ زمانے میں دوربین، خوردبین، کیمرہ اور دیگر بصریاتی آلات کا اولین نمونہ تھا۔ اگر مسلمان سائنسدانوں نے کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی بصریات کی بنیاد رکھنے سے ان کا سائنس کی ترقی میں فیصلہ کن حصہ ہوتا۔‘‘

ابن الہیثم (Alhazen)

ابوعلی حسن ابن الہیثم (965-1040 AD) کو انگریزی میں Ibn-Al-Haitham اور مغرب میں Alhazen کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سائنس، ریاضی اور انجینیرنگ کے شعبوں میں ابن الہیثم کے کارناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ایک مختصر سا مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اس کے حالاتِ زندگی اس درجہ دلچسپ اور سبق آموز ہیں کہ انہیں سمیٹنے کے لئے ایک اور طویل مضمون درکار ہے۔

زیر نظر مضمون کے موضوع کے پیش نظر ابن الہیثم کے صرف نوریات بصریات سے متعلق کارہائے نمایاں کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔

ابن الہیثم کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ’’نور‘‘ اور ’’آنکھ کی بناوٹ‘‘ پر تحقیق ہے۔ نور کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ کوئی شے کیسے نظر آتی ہے؟ بصارت کا عمل کس طرح انجام پاتا ہے؟ یہ اور ایسے کئی سوالات پر اس نے تدبّر کیا اور ہر سوال کا حتمی جواب ڈھونڈ نکالا۔ نوریات اور بصریات سے متعلق ابن الہیثم کی دریافتیں ذیل کے مطابق ہیں۔

(1) ابن الہیثم نے سب سے پہلے نور کی ماہیت اور حقیقت پر غور کیا۔ اس نے بتایا کہ نور، حرارت کی طرح ایک توانائی ہے۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ سورج کی کرنوں میں نور اور حرارت دونوں موجود ہیں۔ اسی طرح آگ یا چراغ کی لو میں بھی یہ دونوں توانائیاں پائی جاتی ہیں۔ لہذا نور اور حرارت کی اصلیت اور حقیقت ایک ہے۔ (بعد کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ نور اور حرارت توانائی کی دو الگ الگ قسمیں ہیں اور یہ کہ توانائی کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔)

(2) اس نے بتایا کہ اجسام دوقسم کے ہوتے ہیں: نور افشاں اور بے نور۔ بے نور اجسام کی تین قسمیں ہیں: شفاف، نیم شفاف اور غیر شفاف۔ ہر قسم کو اس نے مثالوں کے ساتھ واضح کیا۔

(3) اس کے مطابق نور کرنوں اور شعاعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

(4) نور خطِ مستقیم میں سفرکرتا ہے۔ اسے کسی واسطے کی ضرورت نہیں، وہ بے سہارا سفر کرتا ہے۔

(5) اگر کسی اندھیرے کمرے کے دروازے میں ایک باریک سوراخ بنادیں اور وہ دروازہ سورج کے رُخ پر ہو اور اس کے مقابل ایک سفید پردہ لٹکادیں تو کمرے سے باہر کی اشیاء کا الٹا عکس پردے پر پڑے گا اس دریافت کی بنا پر اس نے ابتدائی کیمرہ ایجاد کیا جسے Camera Obscure (مبہم کیمرہ) کہا جاتا ہے۔ بعد میں اسے Pin Hole Camera کے نام سے جانا گیا۔ پن ہول کیمرہ کی بنیاد پر ہی بعد میں جدید کیمرے تیار کئے گئے۔

(6) ابن الہثیم نے انعکاس نور (Reflection of Light) اور اس کے قوانین بھی دریافت کئے۔ اس کے مطابق :

(i) کسی مُجلّہ سطح پر پڑنے والی نور کی شعاع اس سطح سے ٹکراکر واپس ہوجاتی ہے۔ سطح پر پڑنے والی شعاع کو اس نے شعاع وقوع کا نام دیا اور لوٹنے والی شعاع کو شعاع منعکسہ سے موسوم کیا۔

(ii) شعاع وقوع اور شعاع منعکسہ اور ان دونوں کے نقطۂ اتصال پر بنایا جانے والا عمود، تینوں ایک سطح میں ہوتے ہیں۔

(iii) عمود کے ساتھ بننے والے شعاع وقوع اور شعاع منعکسہ کے زاویوں کو اس نے بالترتیب زاویہ وقوع اور زاویہ منعکسہ کہااور بتایا کہ زاویہ وقوع اور زاویہ منعکسہ ایک دوسرے کے مساوی ہوتے ہیں (آج بھی طبعیات کی کتابوں میں یہ تینوں اصول من و عن درج کئے جاتے ہیں)۔

(7) ابن الہثیم نے انعطاف نور (Refraction of Light) اور اس کے قوانین بھی دریافت کئے اور سائنس کی دنیا کو زاویۂ انعطاف سے روشناس کروایا۔

(8) نور کی پراگندگی یعنی انتشار (Dispersion) پر تجربات کئے اور یہ ثابت کیا کہ سورج سے حاصل ہونے والی نور کی شعاع کئی رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

(9) ابن الہثیم نے کُروی آئینوں (Spherical Mirrors) کا گہرا مطالعہ کرکے اصول وقوانین وضع کئے۔

(10) ’’بصارت کا طریقۂ کار‘‘ پر کام کرنے کے دوران ابن الہثیم نے آنکھ کی اندرونی ساخت کا مطالعہ کیا۔ آنکھ کی بناوٹ کے سلسلے میں اس کی دریافتوں کو آج بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

(11) آنکھ میں موجود عدسے کی دریافت نے ابن الہثیم کو عدسوں کے مطالعہ کی تحریک دی۔

(12) نوریات و بصریات سے متعلق بہت سے ایسے سوالات جنہوں نے صدیوں سے سائنسدانوں کو پریشان کر رکھا تھا، ابن الہثیم نے ان کے جوابات ڈھونڈ نکالے۔ مثلاً تارے کیوں جھلملاتے ہیں؟ انسان کو دو آنکھیں کیوں دی گئی ہیں؟ وغیرہ۔

(13) ابن الہثیم سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ آنکھ سے ایک خاص قسم کی روشنی نکلتی ہے جس کی وجہ سے ہم اشیاء کو دیکھتے ہیں۔ ابن الہثیم نے اس نظریے کو غلط ثابت کیا اور بتایا کہ اشیاء سے ٹکراکر منعکس ہونے والی نور کی شعاعیں آنکھ میں داخل ہوکر بصارت کو انگیز کرتی ہیں۔

(14) ابن الہثیم نے بعض قدرتی مظاہر مثلاً سایہ (Shadow) ، گرہن (Eclipses) ، قوس قزح (Rain Bow) وغیرہ کا بھی مطالعہ کیا۔

(15) نوریات وبصریات کی دنیا میں ابن الہثیم وہ پہلا سائنسداں ہے جس نے سائنسی طریقۂ کار (Scientific Method) کی بنیاد ڈالی۔

مغربی دنیا یوں ہی (اپنے تعصب کے علی الرّغم) اسے Father of Modern Optics) تسلیم نہیں کرتی !!!

نوریات اور بصریات سے متعلق اپنے تجربات، تحقیقات، مشاہدات، نتائج اور نظریات اور اصولوں کو ابن الہثیم لکھ کر محفوظ کرتا جاتا تھا۔ ان یاد داشتوں کو بعد میں اس نے ایک کتاب کی شکل دی جس کا نام اس نے ’’کتاب المناظر‘‘ رکھا۔


کتاب المناظر

عربی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب علم بصریات کا ایک قدیم انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مغربی دنیا میں سب سے پہلے اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں De Aspectibus یا Prespectiva کے نام سے اور آخر میں انگریزی میں Book of Optics کے نام سے ہوا۔ (کتاب المناظر کا لاطینی ترجمہ کسی نامعلوم مترجم نے بارہویں صدی کے اواخر یا تیرہویں صدی کی ابتدا میں کیا جو قرونِ وسطیٰ (Middle Ages) میں بہت مشہور ہوا۔ اسے 1572 میں Friedrich Risner نے طبع کرکے شائع کیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ کئی مترجمین نے اپنے اپنے طورپر کیا)۔

کتاب المناظر سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا مختصر تعارف ذیل کے مطابق ہے:

(1) جلد اول : اس میں ابن الہثیم کے نور (Light) ، بصارت (Vision) اور رنگوں (Colours) سے متعلق قائم کردہ نظریات اور اصول شامل ہیں۔

(2) جلد دوم: اس میں ابن الہثیم کا نظریہ بصارت (Theory of Vision) تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

(3) جلد سوم: بصارت کی خامیوں کا ذکر اس جلد میں کیا گیا ہے۔

(4) جلد چہارم: اس جلد میں ابن الہثیم کے نظریہ انعکاسِ نور کا تجرباتی ثبوت (Experimental Evidence) پیش کیا گیا ہے۔

(5) جلد پنچم : یہ جلدِچہارم کا تکملہ ہے۔

(6) جلد ششم: بصارت کی خامیوں کے تحت انعکاس نور کا ذکر اس جلد میں کیا گیا ہے۔ یہ جلدِ سوم کا تکملہ ہے۔

(7) جلد ہفتم: یہ جلد ابن الہثیم کے نظریۂ انعطاف سے بحث کرتی ہے۔


روشن تجھی سے دنیا

بنگالی زبان کے عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو ان کی نظموں کے مجموعے ’’گیتانجلی‘‘ کے لئے 1913 میں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ گیتانجلی میں کل 103 نظمیں شامل ہیں۔ یہ تمام نظمیں بنگالی زبان میں لکھی گئی ہیں جن کا انگریزی ترجمہ انگریزی کے مشہور شاعر W.B. Yeats نے کیا تھا۔ گیتانجلی کے اسی انگریزی ترجمے نے ٹیگور کو مغرب میں متعارف کروایا اور انہیں شہرت کے بام عروج پر پہنچادیا۔

ٹیگور کی یہ نظمیں نہایت پرشکوہ الفاظ اور بلند آہنگ میں تحریر کی گئی ہیں۔ ان میں روحانیت کے اسرار بہت زیادہ گہرائی و گیرائی لئے ہوئے ہیں۔ فلسفۂ حیات اور پاکیزہ محبت کے جذبات موجیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہ یک وقت ذہنی انتشار اور ذہنی آسودگی کے (ایک دوسرے کے متضاد) رنگوں کی طیف (Spectrum) ہر طرف بکھری پڑی ہے۔ ایک عام قاری ان سے لطف اندوز تو ہو سکتا ہے لیکن ان کی روح کو مشکل سے ہی پاسکتا ہے۔ ان نظموں میں ٹیگور کا مخاطب عام طور پر خدا ہے۔ وہ اپنی وجدانی کیفیات کو اپنے خالق کے روبرو پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

گیتانجلی میں شامل نظموں کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ انہیں عنوانات نہیں دئے گئے ہیں۔ نظم نمبر 27 اور 57 کا مرکزی خیال نور ہے۔ ان میں جذبہ عشق کا والہانہ اظہار ہے۔ شاعر اپنے خالق حقیقی کی ذات میں جذب ہوجانا چاہتا ہے۔ نظم نمبر 57 کا رواں ترجمہ قارئین کی تفنن طبع کے لئے حاضر ہے:

نور۔۔۔۔۔

اے میرے نور۔۔۔۔

دنیا کو روشن کر دینے والے نور۔۔۔۔۔

میری آنکھوں کو چومنے والے نور۔۔۔۔۔

میرے دل میں مٹھاس بھر دینے والے نور۔۔۔۔۔


اے دوست!

یہ نور میری زندگی کے مرکز میں رقص کرتا ہے۔۔۔۔۔

میرے عشق کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے۔۔۔۔۔


آسمان کے دریچے واہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔

ہوائیں بہت تیز رفتار ہیں۔۔۔۔

زندگی کا قہقہہ روئے زمین سے گزرجاتا ہے۔۔۔۔


نور کا سمندر۔۔۔۔

تتلیاں اپنے بادبان پھیلائے اس میں تیر رہی ہیں۔۔۔۔

نور کی موجیں۔۔۔۔

کنول اور چمیلی نور کی موجوں پر ڈول رہی ہیں۔۔۔۔۔


اے دوست۔۔۔۔

بادلوں پر نور کی چھٹائیں بکھر رہی ہیں۔۔۔۔

بادلوں سے جواہرات کی بارش ہورہی ہے۔۔۔۔۔


اے دوست۔۔۔۔

نور کے درخت۔۔۔۔

ان کے پتوں میں سرخوشی دوڑ رہی ہے۔۔۔۔۔

لامتناہی سرخوشی۔۔۔۔


بہشت کی ندی کے کنارے۔۔۔۔

ٹوٹ چکے۔۔۔۔۔

خوشیوں میں ڈوب چکے۔۔۔۔۔

مسرتوں کا سیلاب دوڑا چلا آتا ہے!!!

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   370671
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development