جب اپنا ہی خون دغا دے جائے!
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
جون 2016


کجی (ٹیڑھاپن) خواہ کسی صورت میں ہو، فساد اور خرابی کا باعث ہوتی ہے۔ خون کے سرخ ذرات میں بعض وجوہات کی بنا پر جب ٹیڑھے پن کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے تو وہ زندگی کے لئے ایک زبردست چیلنج بن جاتے ہیں۔ خون کے وہی سرخ ذرات جوکبھی جسم کے کونے کونے تک آکسیجن پہنچاتے تھے، جو زندگی کے نقیب تھے، اب زندگی کے رقیب بن جاتے ہیں۔ چند عوامل کے زیر اثر وہ ٹیڑھے ہوکر درانتی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور درانتی نما خلیے (Sickle Cells) کہلاتے ہیں۔ خون کے عام سرخ ذرات قرص نما ہوتے ہیں۔ ان کا درانتی نما خلیات میں تبدیل ہونا ایک مرض ہے جو Sickle Cell Disease کہلاتا ہے۔ اس کا مخفف SCD ہے۔ اس مرض میں مبتلا مریض کے جسم میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ خون کی کمی کی حالت انیمیا (Anemia) کہلاتی ہے۔ لہذا یہ مرض Sickle Cell Anemia بھی کہلاتا ہے۔ یہ ایک جان لیوا مرض ہے اور ہر سال لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوکر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔اس بات کو سنجیدگی سے محسوس کرتے ہوئے اقوام متحدہ (UN) اور عالمی ادارۂ صحت (WHO) نے درانتی نما خلیے کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔ ان اداروں کے مطابق SCD عوامی صحت کا ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ لہذا اس کی پہچان اور اس کے تدارک کے لئے عوامی بیداری ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر سال 19 جون کو درانتی نما خلیے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایک جینی (Genetic) مرض ہے۔ اس میں مبتلامریض اور اس کے خاندان کے افراد بہت سے طبعی، نفسیاتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ان عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومتیں اور نجی ادارے بھی سرگرم ہیں۔ عوامی شمولیت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دوسرے تمام امراض کی طرح اس مرض کا پھیلاؤ بھی روز افزوں ہے۔ SCD پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں ملیریا اور HIV پر بھی بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
Sickle Cell Disease International Organization نامی ادارہ اس مرض کے تدارک کے لئے سرگرداں ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ تعلیم (Education) ،اطلاع (Information) اور تکنیک ابلاغ۔Communication Technologies)کا بڑے پیمانے پر استعمال کرکے اس مرض پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں تحقیق اور تربیتی پروگراموں کو اولیت کے درجے میں رکھا جائے۔ یہ ادارہ بھی اس مرض کو عوامی صحت کا مسئلہ (Public Health Problem) مانتا ہے اور عوامی بیداری کا خواہاں ہے۔
درانتی نما خلیے کا عالمی دن ساری دنیا میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ خاص کر افریقی اور ایشیائی ممالک میں ، کیوں کہ یہاں اس مرض کا پھیلاؤ زیادہ ہے۔ اس اہم دن کی تقریبات میں پرنٹ میڈیا، براڈ کاسٹ میڈیا، میوزک شو، ثقافتی سرگرمیاں اور مکالمہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس دن کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد طبی پیشہ ور افراد (Medical Professionals) کی تربیت ہے تاکہ اس مرض کی پیچیدگیوں کو کم سے کم کیا جاسکے۔

SCD کیا ہے؟
یہ خون کا ایک موروثی (Hereditary) مرض ہے۔ خون کے سرخ ذرات میں غیر معمولی (Abnormal) ہیمو گلوبن کی موجودگی اس کا سبب ہے۔ اس کے نتیجے میں خون کے سرخ ذرات درانتی (Sickle) کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس حالت میں وہ بافتوں (Tissues) کو مناسب مقدار میں آکسیجن فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ حالت سیکل سیل انیمیا (SCA) کہلاتی ہے۔ اس کا مریض سخت تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔اسے بخار رہتا ہے۔ اس کے اعضائے رئیسہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس حالت میں گردوں کا ناکام ہونا، جراثیم کا انفکشن اور اچانک موت واقع ہونا شامل ہیں۔

جینی بے قاعدگیاں (Genetic Disorders)
درانتی نما خلیے کا مرض (SCD) خون کی وہ بے قاعدگیاں ہیں جو جین (Genes) کے ذریعے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی ہیں۔ ہیموگلوبن دراصل ایک آکسیجن بردار پروٹین ہے جو خون کے سرخ ذرات میں پایا جاتا ہے۔ ہیموگلوبن کو کنٹرول کرنے والے جین (Genes) کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے ہیموگلوبن کی آکسیجن برداری کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خون کے سرخ ذرات سخت (Rigid) ہونے لگتے ہیں اور وہ درانتی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ SCD کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں 6.5 ماہ کے اندر اندر اس مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
جب کسی شخص کو وراثت میں ہیموگلوبن جین کی دو غیر معمولی (Abnormal) کاپیاں ملتی ہیں تو وہ SCD میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسے غیر معمولی ہیموگلوبن جین کی ایک کاپی والد سے اور دوسری والدہ سے ملتی ہے۔ جین کا یہ غیر معمولی پن نوعی تبدل (Mutation) کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔
SCDکے مریض پر بعض حرکات کے زیر اثر تکالیف کا اچانک حملہ ہوجاتا ہے۔ جیسے درجہ حرارت میں تبدیلی، ذہنی دباؤ، جسم میں پانی کی کمی (Dehydration) اور سطح زمین سے بلندی (High Altitude) وغیرہ۔
ایک شخص جو وراثت میں ہیموگلوبن جین کی صرف ایک غیر معمولی کاپی حاصل کرتا ہے، اس میں عام طور پر SCD کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ البتہ اس میں اس مرض کا رجحان (Trait) پایا جاتا ہے جو آئندہ نسل کو متاثر کرسکتا ہے۔ اسی لئے ایسے شخص کو SCD بردار (SCD Carrier) کہتے ہیں۔

SCD کا پھیلاؤ
2013 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 3.2 ملین افراد SCD میں مبتلا ہیں۔ ساتھ ہی 43 ملین افراد Sickle Cell Trait کے حامل ہیں۔ SCD کے مریضوں میں 80 فیصد افریقی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ SCD کا دائرہ کار ہندوستان اور عرب ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ افریقی نسل کے لوگ خواہ دنیا کے کسی خطے میں بستے ہوں، SCD کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔
2013میں SCD سے فوت ہونے والے مریضوں کی تعداد 1,76,000 شمارکی گئی تھی۔ یہ تعداد 1990میں 1,13,000 تھی۔ امریکی ڈاکٹر James B. Herrick نے 1910 میں اس مرض کی نشان دہی کی تھی۔
1949 میں E.A. Beats اورJ.V. Neel نے دریافت کیا کہ یہ مرض موروثی ہے اور ایک نسل سے دوسری نسل میں جین کے ذریعے پہنچتا ہے۔ 1954 میں سائنسدانوں نے ثابت کیا کہ Sickle Cell Trait کے حامل اشخاص ملیریا سے محفوظ رہتے ہیں۔

SCD کی علامات
SCD میں مبتلا شخص میں ظاہر ہونے والی علامات درانتی نما خلیے کا بحران Sickle Cell Crisis یا Sickling Crisis ہیں۔ یہ علامات ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ خون کی کمی (Anemia) ۔ اس مرض میں خون کے سرخ ذرات کے سخت ہونے اور کجی اختیار کرنے کی وجہ سے وہ اپنے افعال ٹھیک طور پر انجام نہیں دے پاتے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح خون میں سرح خلیات کی تعداد دن بہ دن گھٹتی چلی جاتی ہے۔ یہ حالت Sickle Cell Anemia کہلاتی ہے۔
2۔ خون کی نالیوں میں خون کا بہاؤ کم یا بالکل ہی بند ہوجاتا ہے۔ یہ حالت Vaso-Occlusive Crisis کہلاتی ہے۔ خون کے سرخ ذرات جب سخت ہوکر کجی اختیار کرلیتے ہیں تو شعریات (Capilliaries) ، شریانوں (Arteries) اور وریدوں (Veins) میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔ یہ حالت Ischaemia بھی کہلاتی ہے جس میں پورے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ بعض اعضاء کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ حالت Necrosis کہلاتی ہے۔
3۔ خون کی نالیوں کے اندرونی قطر میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے طحال (تلّی) (Spleen) خون کے ناکارہ خلیوں کی صفائی (Cleaning) کا کام ٹھیک طور پر نہیں کرپاتی یہ حالت Splenic Sequestration Crisis کہلاتی ہے۔ یہ حالت طحال کے لئے نقصان دہ ہے۔
4۔ مریض سینے کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے، سانس لینے میں دشواری محسوس کرتا ہے، اس کی بصارت بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ حالت Acute Chest Syndrome کہلاتی ہے۔
5۔ SCD کی ایک اہم علامت Aplastic Crisis ہے جس میں خون کی بے حد کمی واقع ہوجاتی ہے جسے Acute Anemia کہا جاتا ہے۔ مریض کی رنگت پیلی پڑ جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ ہر وقت تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے۔
6۔ ہیموگلوبن کی سطح کابہت پست ہوجانا۔ یہ حالت Haemolytic Crisis کہلاتی ہے۔ خون کے سرخ خلیات بڑی تیزی سے ٹوٹ ٹوٹ کر ختم ہونے لگتے ہیں۔ اس حالت میں فوری طور پر خون چڑھا نا (Blood Transfusion) ضروری ہوتا ہے۔

تشخیص
SCD کی حتمی تشخیص خون کی جانچ کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ اکثر ممالک میں بچّے کی پیدائش کے وقت SCD کی جانچ کرلی جاتی ہے۔

علاج
SCD کی پیچیدگیوں کو ٹیکہ (Vaccination) ، اینٹی بایوٹک دوائیوں، پانی کا زیادہ استعمال، فولک ایسڈ اور تکلیف دور کرنے والی دوائیوں کے ذریعہ مینیج کیا جاتا ہے۔ مریض کو خون چڑھانے (Blood Transfusion) اور Hydroxyurea کا استعمال کرکے بھی اس مرض کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ملیریا کے علاج میں استعمال کی جانے والی دوائیاں بھی SCD کو قابو میں کرنے کے لئے مینجمنٹ میں مفید ہیں۔ ہڈی کے گودے کے خلیات کی منتقلی (Transplant of bone marrow cells) ایک جدید طریقۂ علاج ہے جس کے ذریعہ SCD کا علاج ممکن ہے لیکن فی الحال کم ہی مریضوں کو کامیابی مل رہی ہے۔

یاری میں شرمساری
دنیا کی چمک دمک اور زندگی کی رونق خون کے سرخ خلیے سے عبارت ہے۔ یہ ہمارا دوست ہے۔ اس کی اور ہماری یاری صدیوں پرانی ہے۔ لیکن یہی سرخ خلیہ، یہی ہمارا یار جب کج روی اختیار کرنے لگے، بے وفائی کا سبق پڑھنے لگے، تیوری چڑھاکر منہ پھیرنے لگے تو۔۔۔۔۔
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360250
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development