گلشن کی فقط پھولوں سے نہیں کانٹوں سے بھی زینت ہوتی ہے
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
مئی 2016


’’وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں، کہتے ہیں اے ہمارے رب تونے یہ عبث نہیں بنایا، تو پاک ہے سب عیبوں سے، سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے‘‘۔
اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے عقل والوں (اولی الالباب) کی چند صفات گنائی ہیں۔ ارشاد ہے کہ عقل والے وہ ہیں جو :
1۔ یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے۔
2۔ غور فکر (تدبر) کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں۔
3۔ کہتے ہیں ’’اے ہمارے رب تونے یہ (ساری کائنات) عبث اور فضول نہیں بنائی‘‘۔
4۔ اقرار کرتے ہیں اس بات کا کہ ’’اے ہمارے رب توپاک ہے سارے عیبوں سے (کہ کوئی عبث کام کرلے)‘‘۔
5۔ دعا مانگتے ہیں کہ : ’’اے ہمارے رب ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘
ان پانچ فقروں میں سے ہر فقرہ اپنے آپ میں ایک طویل داستان لئے ہوئے ہے۔ یہ ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں۔ ہر دوسرا (Next) فقرہ اپنے سے پہلے فقرہ کا لازمی نتیجہ ہے ۔ لہذا اللہ کی یاد (تذکرہ) کا لازمی نتیجہ اس کی مخلوق میں غور و خوض کرنا ہے۔ اس تدبر کے نتیجے میں آدمی پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ اللہ نے کوئی شے عبث و بے کار پیدا نہیں کی۔ اس انکشاف کے نتیجے میں آدمی اقرار کرتا ہے کہ اللہ تمام عیبوں سے پاک ہے۔ اس اقرار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی اللہ سے اپنے لئے عافیت طلب کرے، دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگے، کیوں کہ آدمی غلطیوں اور گناہوں کا پتلا ہے اور اللہ بخشنے والا ہے:
To err is human and to forgive divine.
مذکورہ آیت کا مرکزی خیال تنوع (Diversity) ہے۔ یہ تنوع غیر حیاتی بھی ہے اور حیاتی بھی۔ ہم جن اشیاء کو فضول یا بے کار سمجھتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی زاویے سے، بلا واسطہ یا بالواسطہ ہمارے لئے مفید ہی ہیں۔ فطرت کی ساری رنگا رنگی تنوع سے عبارت ہے۔ یکسانیت سے آدمی اوب جاتا ہے۔ تنوع قدرت کا قانون ہے۔ اس کائنات میں بقاء اگر کسی شے کو ہے تو وہ تنوع ہے:
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں!
مذکورہ آیت کے اس مرکزی خیال (اے ہمارے رب تونے یہ ساری کائنات عبث اور فضول نہیں بنائی) کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ رقم طراز ہیں:
’’حق تعالیٰ کی عظیم اور غیر محصور مخلوقات میں غور و فکر کرنے والا اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فضول و بے کار پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کی خلقت میں ہزاروں حکمتیں مضمر ہیں۔ ان سب کو انسان کا خادم اور انسان کو مخدوم کائنات بناکر انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ ساری کائنات تو اس کے فائدے کے لئے بنی ہے اور انسان خدا تعالیٰ کی اطاعت وعبادت کے لئے پیدا ہوا ہے۔ یہی اس کا مقصد زندگی ہے۔ اس کے بعد غور و فکر اور تدبر کے نتیجے میں وہ لوگ (عقل والے، جن کا ذکر گذشتہ آیت میں آیا ہے) اس حقیقت پر پہنچے کہ کائنات فضول و بے کار پیدا نہیں کی گئی بلکہ یہ سب خالقِ کائنات کی عظیم قدرت و حکمت کے روشن دلائل ہیں۔‘‘
(معارف القران، جلد دوم، صفحہ 269 )
نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی شے فضول یا زائد پیدا نہیں کی بلکہ ہر شے کو ایک اندازے اور توازن کے ساتھ بنایا ہے۔ اب انسان کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے فائدہ کی خاطر اس توازن کو بگاڑے۔ بلکہ اس توازن کو برقرار رکھنا اور اس کو تقویت پہنچانا انسان کا فرض منصبی ہے۔ اگر انسان ان خطوط پر سوچتا اور ان پر عمل کرتا ہے اسے ’’تنوع کا تحفظ‘‘ (Conservation of Diversity) کہیں گے۔

تنوع کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات ہے۔ اس نے اپنی قدرت کے اظہار کے لئے یکسانیت (Monotony) کو پسند نہیں فرمایا بلکہ تنوع، تغیر اور ناہمواری کو ترجیح دی ہے۔ کائنات میں بکھرے ہوئے کروڑوں ستارے اپنی گوں نا گوں خصوصیات کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سورج ایک ستارہ ہے۔ اس کے لخت جگر(سیارے) اس سے اور ایک دوسرے سے بے حد مختلف ہیں۔ صرف زمین کی مثال لی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں پہاڑوں پر برف جمی ہے تو صحراؤں اور ریگستانوں میں غضب کی تپش ہے۔ کوئی علاقہ سرسبز و شاداب ہے تو کوئی بنجر، کہیں خشکی ہے تو کہیں تری، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہماری زمین کا غیر حیاتی تنوع ہے۔ اس کے بالمقابل جانداروں میں بھی بہت کچھ تغیر پایا جاتا ہے۔ جاندار نباتات بھی ہیں اور حیوانات بھی، کچھ جاندار خشکی کے ہیں تو کچھ آبی اور کچھ فضائی۔ ان کے رہن سہن اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں بے انتہا تفاوت پایا جاتا ہے۔ یہ حیاتی تنوع ہے۔

حیاتی تنوع
سائنس کی اصطلاح میں حیاتی تنوع (Biodiversity) کا اطلاق اس کرۂ ارض پر پائے جانے والے تمام نباتات، حیوانات اور ان کے ماحول و مسکن اور ان کے باہمی رشتوں پر ہوتا ہے۔ حیاتی تنوع درحقیقت متفرق انواع کا ایک پیچیدہ لیکن متوازن جال (Network) ہے جس میں تمام انواع ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ کسی ایک نوع کی بالادستی دوسری انواع کی تباہی کا باعث ہوتی ہے۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے۔ ندی کنارے بسے ایک گاؤں میں پہلی ہی بارش میں سیلاب کا پانی گھس آتا ہے اور پورا گاؤ ں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ حکومت اس بلائے ناگہانی کی وجہ معلوم کرنے کے لئے ماہرین کی ایک ٹیم کو وہاں بھیجتی ہے۔ ماہرین اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کرتے ہیں اس تباہی و بربادی کی وجہ یہ ہے کہ چند برس پہلے اس گاؤں میں پرندوں کے شکاری آئے تھے۔ اب بتائیے سیلاب سے شکاریوں کا کیا تعلق؟ لیکن تعلق ہے۔ ماہرین اپنی رپورٹ میں یہ تفصیل بتاتے ہیں کہ چند برس پہلے گاؤں میں پرندوں کے جو شکاری آئے تھے انہو ں نے بے تحاشا پرندوں کا شکار کیا، یہاں تک کہ ایک بھی پرندہ باقی نہیں رہا۔ پرندے درختوں پر پلنے والے کیڑے مکوڑوں اور دیمک کو کھاجایا کرتے تھے۔ جب پرندے ختم ہوگئے تو کیڑے مکوڑوں اور دیمک کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوگیا۔ انہوں نے درختوں کا رس چوس چوس کر انہیں سکھادیا۔ درختوں کے سوکھنے سے زمین ڈھیلی پڑگئی اور بارش میں مٹی کا کٹاؤ شروع ہوگیا۔ مٹی کے بہنے سے ندی کی سطح میں اضافہ ہوا اور آخر اس سال پہلی ہی بارش میں سیلاب کا پانی گاؤں میں در آیا!
انسان اپنی زندگی کی ہر ضرورت کے لئے حیاتی تنوع پر انحصار کرتا ہے۔ انسان اور اس کے ماحول کی بقا کے لئے حیاتی تنوع کا بقاء لازمی ہے۔ حیاتی تنوع کا بقاء اس بات پر منحصر ہے کہ انسان اس کے توازن کو برقرا ر رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بااختیار مخلوق بنایا ہے،اسے اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا ہے۔ انسان نے اپنے محدود اختیارات کا اکثر غلط استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان کی خود غرضی، لالچ اور ہوس کے چلتے اس کرۂ ارض کا حیاتی تنوع تہس نہس ہوکر رہ گیا ہے۔
اصطلاح ’’حیاتی تنوع‘‘ (Biodiversity) دراصل اصطلاح ’’ حیاتی تنوع‘‘ (Biological Diversity) کا مخفف ہے۔ یہ اصطلاح یعنی Biological Diversity جنگلاتی زندگی اور اس کے تحفظ میں مشغول سائنسداں Raymond F. Dasmann نے 1968 میں اپنی کتاب A different kind of country میں استعمال کی تھی۔ لیکن یہ اصطلاح 1980 کے بعد ہی عام استعمال میں آئی۔ اس سے پہلے ان ہی معنوں میں اصطلاح قدرتی تنوع (Natural Diversity) مستعمل تھی۔ 1985 میں W-G Rosen نے اصطلاح حیاتی تنوع (Biodiversity) وضع کی۔ تاہم 1988 میں سماجی ماہر حیاتیات (Sociobiologist) E.O. Wilson نے اس اصطلاح کی باقاعدہ اشاعت کا اہتمام کیا۔
’’حیاتی تنوع‘‘ ایک نہایت ہی پیاری اور خوبصورت اصطلاح ہے۔ اس میں دیگر انواع کے علاوہ پوری نوع انسانی زندگی کا فلسفہ مضمر ہے۔ اس میں انسانی نفسیات کی پوری ایک داستان پوشیدہ ہے۔زندگی ہر ذی روح کو عزیز ہے۔ ہر جاندار بزگسیت (Narcissim) کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ ’’حیاتی تنوع‘‘ نہ صرف نرگسیت اور جمالیات بلکہ غمِ روز گار کے تمام شعبوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ لہذا حیاتی تنوع کا علم اور اس کے تحفظ کی فکر ہر عاقل شخص کے لئے لازمی ہے۔
’’حیاتی تنوع‘‘ کی کئی تعریفیں (Definitions) وجود میں آئی ہیں۔ ہر تعریف اپنی جگہ نہایت مناسب ہے۔ زیادہ تر ماہرین ’’حیاتی تنوع‘‘ کی تعریف ان الفاظ میں کرنا پسند کرتے ہیں:
"Totality of genes, species and ecosystems of a region.''
(کسی علاقے یا رقبے میں پائے جانے والے جینس، انواع اور ماحولیاتی نظاموں کی مجموعیت)۔
حیاتی تنوع کا علاقہ محدود بھی ہوسکتا ہے جیسے ایک چھوٹا سا باغ۔ یہ لامحدود بھی ہوسکتا ہے جیسے یہ پورا کرۂ ارض۔ یہ تعریف زندگی کی تینوں سطحوں یعنی حیاتی تنوع، نوعی تنوع اور ماحولیاتی نظام کے تنوع کا ہمہ گیر نظریہ پیش کرتی ہے۔ 1982 میں Bruce A. Wilcox نے حیاتی تنوع کی تعریف ذیل کے مطابق پیش کی:
Biological Diversity is the variety of life forms at all levels of biological systems (i.e. molecular, organismic, population species and ecosystem).
تمام حیاتیات نظاموں کی تمام سطحوں پر زندگی کی رنگا رنگی، سالماتی، عضویاتی ، آبادی، انواع اور ماحولیاتی نظامات میں تنوع ’’حیاتی تنوع‘‘ کہلاتا ہے)۔
1992 میں اقوام متحدہ ارض چوٹی کانفرنس (UN Earth Summit) نے حیاتی تنوع کی تعریف اس طرح بیان کی:
’’تمام ذرائع، منجملہ زمینی، سمندری اور دوسرے آبی ماحولیاتی نظامات اور ماحولیاتی پیچیدگیوں میں بسنے والے تمام جانداروں میں پایا جانے والا تنوع ’’حیاتی تنوع‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں انواع کے اندر تنوع، مختلف انواع کے درمیان تنوع اور ماحولیاتی نظامات میں پایا جانے والا تنوع بھی شامل ہے۔ 1993 میں اس تعریف کو حیاتی تنوع پر منعقد اقوام متحدہ کنونشن میں اپنایا گیا۔

حیاتی تنوع کے مضمرات
1۔ حیاتی تنوع سے زمین پر زندگی کی رنگا رنگی ہے۔

2۔ تمام جاندار ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔

3۔ کوئی بھی نوع اپنے ماحولی نظام سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتی۔
4۔ جاندار اور غیر جاندار میں ارتباط اور توازن ماحول کو زندگی دوست بناتا ہے۔
5۔ انسان کی بالادستی اور دست درازی ماحول کے نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔

حیاتی تنوع پر اثر انداز ہونے والے عوامل
حیاتی تنوع ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ عالمی سطح پر اس میں بہت تغیر پایا جاتا ہے۔ اس تغیر کی وجہ اس پراثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔
چند عوامل ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ درجۂ حرارت (Temperature)
2۔ بارش (Precipitation)
3۔ بلندی (ارتفاع) (Altitude)
4۔ مٹی (Soil)
5۔ جغرافیہ (Geography)
6۔ دوسری انواع (Other Species)
ان عوامل کے زیر اثر خشکی کا حیاتی تنوع سمندری حیاتی تنوع سے 25 گنا زیادہ ہے۔ ایک جدید مطالعے کے مطابق اس کرۂ ارض پر 8.7 ملین انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے صرف 2.1 ملین سمندری ہیں۔

حیاتی تنوع کی اقسام
حیاتی تنوع کی تین قسمیں ہیں:

1۔ نوعی تنوع (Species Diversity)
2۔ جینیاتی تنوع (Genetic Diversity)
3۔ ماحولیاتی تنوع (Ecosystem Diversity)

1۔ نوعی تنوع :۔
زمین پر پائے جانے والے تمام جاندار (نباتات، حیوانات، خوردبینی جاندار) کے نوعی سطح پر پائے جانے والے فرق (تغیر) کا مجموعہ ’’نوعی تنوع‘‘ کہلاتا ہے۔ Mora اور اس کے ساتھیوں کی تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں پائی جانے والی انواع کی تعداد یہ ہے:
8.7ملین خشکی کی انواع
2.2ملین سمندری انواع
ان میں سے ابھی صرف 1.5 ملین انواع کی شناخت ہوچکی ہے اور انہیں نام دئے جاچکے ہیں۔ ایک دوسرے مطالعے کے مطابق 10 سے 100 ملین انواع کی دریافت، ان کا مطالعہ اور انہیں نام دینا باقی ہے۔
نوعی تنوع کسی مخصوص علاقے کی انواع کی تعداد اور نوع کے پھیلاؤ کو بھی دریافت کرتا ہے۔

2۔ جینیاتی تنوع :۔
انفرادی جینس (Genes) کی سطح پر واقع ہونے والے تغیر کو جینیاتی تنوع کہتے ہیں۔ جینیاتی تنوع انواع میں مختلف خصوصیات کے لئے ذمہ دار ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونے والے جینس تغیر پذیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جینیاتی تنوع کے نتیجے میں انواع مختلف ماحول سے مطابقت (Adaptation) پیدا کرتی ہیں۔ ایک نوع کی مختلف نسلوں یا آبادیوں میں جینیاتی تنوع تو صاف دکھائی دیتا ہے لیکن ایک نوع کی ایک نسل میں بھی اس کے امکانات ہوتے ہیں۔ اسی طرح مختلف انواع میں جینیاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ جینیاتی تنوع کے نتیجے میں انواع میں ساختی (Structural) اور عضویاتی (Physiological) تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

3۔ ماحولیاتی تنوع :۔


زندگی زمینی، آبی اور فضائی تینوں طرح کے ماحولی نظاموں میں پائی جاتی ہے۔ ہر علاقے کا ماحولی نظام حیاتی تنوع کوقابو میں رکھتا ہے۔ کسی ایک ماحولی نظام میں مختلف انواع ایک دوسرے پر منحصر ہوتی ہیں۔ وہ ماحول سے مطابقت بھی پیدا کرتی ہیں۔ اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔

حیاتی تنوع کی اقدار
حیاتی تنوع اس کرۂ ارض پر زندگی کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یہ ایک طرح کی ہم باشی ہے جس میں ہر جاندار نہ صرف دوسرے جانداروں سے فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ انہیں نفع بھی پہنچاتا ہے۔ اسی طرح ہر جاندار اپنے ماحولی نظام کے غیر جاندار اجزاء سے بھی مستفیض ہوتا ہے۔ حیاتی تنوع’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر کارفرما ہے۔ لیکن چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری مخلوفات پر فوقیت بخشی ہے اور چند محدود اختیارات عطا فرمائے ہیں، وہ حیاتی تنوع سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ حیاتی تنوع کے نظام میں انسان نے خود کو سب سے اعلیٰ مقام (Driver's Seat) پر فائز کرلیا ہے۔ اب وہ صرف اپنے حقوق کے حصول کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ اپنے فرائض سے اس نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
حیاتی تنوع کے تجارتی پہلو، ماحولیاتی خدمات، سماجی اور جمالیاتی علاقوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ حیاتی تنوع سے حاصل ہونے والے فائدے اس کی اقدار کہلاتے ہیں۔ حیاتی تنوع کی اقدار ذیل کے مطابق ہیں:

1۔ استعمالی اقدار
(Consumptive Values): ۔
غذا، لباس اور رہائش کے لئے انسان اپنے ماحول کے حیاتی تنوع پر راست منحصر ہے۔
غذا کے لئے انسان حیوانات اور نباتات دونوں پر انحصار کرتا ہے۔ماضی میں وہ خودروپودوں (Wild Plants) کی بڑی تعداد کو غذا کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 80,000 خوردنی خودرو پودے دریافت کئے گئے ہیں۔پھر سماجی زندگی کی تعمیر کے چلتے ان میں سے 90 فیصد پودوں کو گھریلو (Domesticate) بنایا گیا۔
ادویات کے لئے انسان نباتات، حیوانات اور معدنیات پر منحصر رہا اور اب بھی انہیں پر انحصار کرتا ہے۔ عالمی آبادی کا تقریباً 75 فیصد حصہ ادویات کے لئے پودوں اور ان کے حاصلات پر منحصر ہے۔ پینی سلین، ٹیٹرا سائیکلین، کونین، ڈجی ٹالن، ون کرسٹائن، ون بلاسٹن جیسی اہم اور انقلابی دوائیاں پودو ں سے حاصل کی جاتی ہیں۔
انسان زندگی اور ترقی کا پہیہ ایندھن (Fuel) کے استعمال سے حرکت میں رہتا ہے۔ حیاتی تنوع نے انسان کو لکڑی، کوئلہ، پٹرولیم اور قدرتی گیس کی شکل میں ایندھن مہیا کیے ہیں۔

2۔ صنعتی قدر (Industrial Value):۔
کاغذ کی صنعت، پلائی وڈ کی صنعت، ریلوے سلیپر کی صنعت، ریشم کی صنعت، لاک کی صنعت، پارچہ کی صنعت، چمڑے کی صنعت، اون کی صنعت اور موتی کی صنعت وغیرہ پورے طور پر حیاتی تنوع پر منحصر ہیں۔

3۔ معاشرتی ا قدار (Social Values):۔
نباتات اور حیوانات دونوں ہی انسان کی معاشرتی زندگی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ انسان کے مذہبی و سماجی رسم و رواج اور روحانی و نفسیاتی پہلوؤں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ریحان (تُلسی)، پیپل، آم، کنول وغیرہ کے درخت اور پودے ان کے پھل، پھول اور پتے مختلف مذاہب میں مقدس سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح گائے، سانپ، الو، مور، بیل وغیرہ کی بھی معاشرتی مذہبی و نفسیاتی اقدار ہیں۔ لہذا حیاتی تنوع کی معاشرتی اقدار قابلِ ذکر ہیں۔


4۔ اخلاقی ا قدار (Ethical Values):۔
حیاتی تنوع کا پورا نظام ’’جیواور جینے دو‘‘ (Live & Let Live) کے اصول پر قائم ہے۔ یہ ہمیں اخلاقی اسباق سکھلاتا ہے۔ حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض بھی یاد دلاتا ہے۔ حیاتی تنوع کی اخلاقی قدر کو وجود ی قدر (Existance Value) بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ قدر جانداروں کے وجود سے جڑی ہوئی ہے۔ سورۂ یٰسن کی تلاوت کے دوران جب ہم اس آیت سے گزرتے ہیں تو ہمیں وجود ی قدر کا احساس ہوتا ہے:
3
(یٰسن: 80 )
(جس نے بنادی تمہارے لئے سبز درخت سے آگ، پھر اب تم اُس سے سلگاتے ہو)۔
’’قدیم عرب میں دو درخت معروف تھے، ایک مرخ اور دوسرا عفار۔ عرب لوگ ان دونوں درختوں کی دوشاخیں مثل مسواک کے کاٹ لیتے تھے جو بالکل ہری تازہ پانی سے بھری ہوتی تھیں ایک کو دوسری پر رگڑنے سے آگ پیدا ہوجاتی تھے۔‘‘
(معارف القرآن از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ ۔ جلد 7 ۔صفحہ 412 )
اب یہ دونوں درخت دنیا میں نہیں رہے، ناپید ہوچکے ہیں۔ مذکورہ آیت ہمیں ان کی یاد دلاتی ہے، ہمیں ان کے ضائع ہوجانے کا افسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح Dodo نامی پرندہ بھی اب نہیں رہا۔ ہم کنگارو، زیبرا اور ژراف وغیرہ سے کوئی راست فائدہ حاصل نہیں کرتے لیکن ان کی موجودگی کا احساس ہمیں تسلی بخشتا ہے۔حیاتی تنوع کی اخلاقی اقدار ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ آج ہمیں یہ زمین جس حالت میں ملی ہے اسے ہم آنے والی نسلوں کے لئے اس سے بہتر حالت میں چھوڑیں۔

5۔ جمالیاتی ا قدار (Aesthetic Values):۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندگی کو سہارنے والا یہ نیلا سیارہ جسے ہم زمین کہتے ہیں، خلا سے بے حد خوبصورت نظر آتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں جمالیاتی حِس بڑے اہتمام سے رکھی ہے، پھر اس کی تسکین کے لئے اس دنیا کو بے حد خوبصورت بنایا ہے اس زمین کے خوبصورت نظارے ہمیں تسکین پہنچاتے ہیں۔ گھنے جنگل، اونچے اونچے پہاڑ وسیع و عمیق سمندر، لق و دق صحرا، دیو پیکر گلیشیر، نخلستان و چمنستان، سب کے سب حیاتی تنوع کی جمالیاتی اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان مقامات کی سیر ہمیں تازہ دم (Refresh) کردیتی ہے۔ اس قسم کی سیاحت کو ماحولیاتی سیاحت (Eco- Tourism) کہتے ہیں۔ ماحولیاتی سیاحت سے سالانہ 15 ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

6۔ اختیاری ا قدار (Optional Values):۔
ان اقدار میں حیاتی تنوع کی وہ اہلیت و صلاحیت شامل ہے جس سے آج بھی ہم ناواقف ہیں۔ کیا خبر قدرت نے ہمارے لئے مزید کیا کیا خزانے پوشیدہ رکھے ہیں۔ ایڈز اور کینسر جیسے مہلک امراض کا علاج، مفلسی و ناداری کا مداوا، اچھی صحت،خوش حالی، درازی عمر کے راز وغیرہ حیاتی تنوع میں پوشیدہ ہوسکتے ہیں۔ چوں کہ ان کی کھوج ہمارے اختیار میں ہے، ان اقدار کو اختیاری اقدار کہا جاتا ہے۔
حیاتی تنوع کی اختیاری اقدار دراصل ایک یقین ہے۔ اگر یہ یقین محکم ہوجائے اور اس کے حصول کے لئے پیہم عمل کیا جائے تو ہماری یہ زمین جنت نشاں بن سکتی ہے۔لیکن پھر وہی بات کہ انسان ابلیس کی شاگردی میں مست ہے! وہ اس کی زیر تربیت جس تھالی میں کھاتا ہے اسی میں چھید کرتا ہے!!
اختیاری اقدار ہم سے اس بات کا بھی تقاضہ کرتی ہیں کہ حیاتی تنوع کے وہ عناصر جو ناپید ہونے کی کگار پر ہیں، ہم ان کے تحفظ اور ان کی بازیابی کی فکر کریں۔ اسی طرح حیاتی تنوع کو لاحق خطروں مثلاً سنامی، زمین کا کٹاؤ، اوژون کی تہہ کی بربادی، گلوبل وارمنگ وغیرہ کے تدارک پر توجہ دیں۔

بین الاقوامی یومِ حیاتی تنوع
(International Day for Biodiversity)
حیاتی تنوع کی ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ (UN) نے اپنی 20 دسمبر 2000 کی قرارداد نمبر 55/201 میں 22 مئی کے دن کو بین الاقوامی یومِ حیاتی تنوع کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے سامنے حیاتی تنوع کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کرنا، اس کے بگاڑ سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کرنا اور اس کے تحفظ کے لئے عوامی ذہن سازی کرنا ہے۔
22مئی 2016 کو منعقد ہونے والے بین الاقوامی یوم حیاتی تنوع کے لئے یہ تھیم تجویز کیا گیا ہے:
Mainstreaming Biodiversity, Sustaining People and Their Livehoods.

(حیاتی تنوع کو عوامی دھارے میں لانا، لوگوں کو (جینے کے لئے) اور ان کے مسکنوں کو (قائم رہنے کے لئے) سہارا دینا)

حیاتی تنوع کا تحفظ
(Conservation of Biodiversity)
3
(اعراف: 56 )
’’اور فساد نہ مچاؤ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد اور پکارو اُسے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے، بے شک اللہ کی رحمت قریب ہے نیکی کرنے والوں کے‘‘۔

اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے نافرمان اور عاقبت نا اندیش بندوں سے مخاطب ہے۔ وہ انہیں حکم دیتا ہے کہ:
1۔ زمین میں فساد نہ مچاؤ۔ فساد کے معنی ہیں بگاڑ یا خرابی پیدا کرنا، کسی شے کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا، اعتدال باقی نہ رکھنا، توازن کو بگاڑ دینا، اپنے ہم جنسوں اور دوسری انواع کے لئے مصیبتیں کھڑی کرنا۔
2۔ زمین کی اصلاح و درستگی ہوچکی ہے اور اسے تمہارے لئے قابلِ رہائش بنادیا گیا ہے۔ اب تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس میں بگاڑ پیدا کرکے خود اپنے لئے اور دوسری مخلوق کے لئے مصیبتیں کھڑی کرو۔
3۔ اس زمین میں تم نسل در نسل بہت کچھ ’’فساد‘‘ برپا کرچکے ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں، مفادپرستی اور عاقبت نا اندیشی کے لئے اپنے رب کے آگے دست بہ دعا ہوجاؤ اور اس سے معافی طلب کرو ڈرتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے۔ معافی مانگنے کا مطلب ہے اپنے کئے پر نادم ہونا اور مستقبل میں اپنی غلطیوں کو دہرانے سے باز رہنے کا عہد کرنا۔
4۔ اگر تم ایسا کرتے ہو تو پھر اس کی رحمت تمہارے قریب ہے۔ وہ پوری انسانیت کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا اور اس زمین کو پھر سے تمہارے لئے قابلِ رہائش بنادے گا۔
’’محسنین‘‘ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو حیاتی تنوع کی فکر کرتے ہیں۔ اس کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کوشاں ہیں، اس کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
حیاتی تنوع کے تحفظ میں ہم یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ انسانی سرگرمیاں کس طرح حیاتی تنوع کو متاثر کرتی ہیں، ان سرگرمیوں کی شناخت اور ان سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل کیا ہو۔ حیاتی تنوع ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ لہذا اس کے تحفظ سے مراد زمین کے مجموعی ماحولیاتی نظام کا تحفظ ہے۔
حیاتی تنوع کے تحفظ کی دو قسمیں ہیں:

1۔ درون مسکن تحفظ (In Situ Conservation)

2۔ بیرون مسکن تحفظ (Ex Situ Conservation)

درون مسکن تحفظ میں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے انواع کو ان کے اصل مسکن میں تحفظ پہنچایا جاتا ہے جب کہ بیرون مسکن تحفظ میں انواع کو ان کے اصل مسکن سے ہٹاکر دوسرے مقامات پر بسایا جاتا ہے اور تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
حیاتی تنوع کے تحفظ کے سلسلے میں بیج بینکوں (Seed Banks) کا قیام عمل میں آیا ہے۔دور حاضر غیر یقینی کا دور ہے۔ قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، شہاب ثاقب کی بوچھار اور سنامی کے علاوہ انسانی ہاتھوں کی تباہ کاریاں مثلاً نیوکلیائی جنگ، گلوبل وارمنگ وغیرہ کے نتیجے میں زمین کے بڑے بڑے علاقے تباہ و برباد ہوسکتے ہیں اور حیاتی تنوع پوری طرح تہس نہس ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال میں بچ جانے والی آبادی کے پاس فصلیں اگانے کے لئے بیج بھی نہیں ہوں گے۔ ان حالات سے نمٹنے کے لئے بیج بینکوں کو قائم کیا گیا ہے۔ دنیامیں اس وقت 100 سے زیادہ بیج بینک ہیں۔ ان میں 4 ملین سے زیادہ بیجوں کو کم تپش اور کم رطوبت کی سطحوں پر ان کی اصلی حالت میں رکھا جاتا ہے۔ ان بینکوں میں یہ بیج، مسکنوں کی تباہی، آب و ہوا کی تبدیلی اور عام تباہی سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ بینک معدوم ہوتی انواع کے دوبارہ تعارف کو بھی یقینی بناتے ہیں۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360408
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development