جنگلات زمین کے پھیپھڑے
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
مارچ 2016


گلوبل وارمنگ (Global Warming)، کلائمیٹ چینج (Climate Change)، گرین ہاؤس ایفکٹ (Green House Effect)، کاربن اے میشن، کابن فوٹ پرنٹ (Carbon Foot Print) ، اوژون ڈپلی شن۔۔۔۔یہ وہ اصطلاحات ہیں جو ایک عام آدمی کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں، لیکن سائنسدانوں اور ماہرین موسمیات، سیاستدانوں اور حاکموں کو پریشان کرنے اوران کی راتوں کی نیند اڑانے کے لئے کافی ہیں۔ جب وہ ان مسائل پر غور کرتے ہیں تو ان کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ البتہ ان مسائل کے نتیجے میں رونما ہونے والے سیلاب، سنامی، زلزلوں اور خشک سالی وغیرہ کو بھگتنے میں عوام و خواص سب برابر ہیں۔ ان سارے مسائل کا حل اگر کسی کے پاس ہے تو وہ ہیں جنگلات (Forests) ۔ لیکن انسان کے خمیر میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہر آسان بات کو اپنے لئے مشکل بنالیتا ہے اور پھر پریشان ہوتا ہے۔ انسان کی اسی فطرت کو نظرمیں رکھ کر فارسی میں یہ کہاوت گھڑی گئی ہے، ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘ (خود کئے ہوئے کا کوئی علاج نہیں)۔ کہاوت بہر حال کہاوت ہے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ رحمٰن و رحیم نے ہر مشکل کا حل مہیا کر رکھا ہے بہ شرطِ کہ ہم بہ صدقِ دل اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اپنی غلطیوں، زیادتیوں اور کوتاہیوں کے لئے اس سے معافی کے خواستگار ہوں، صراطِ مستقیم پرگامزن ہوں، طغیان یعنی اپنی حد سے تجاوز کرنے سے تائب ہوں۔ ہر چند کہ پانی سرسے اونچا ہوچکا ہے، جہاں سے جاگے وہیں سے سویراکے مصداق نہ صرف اپنے حال اور مستقبل کی فکر کریں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے راحت و سکون کا سامان مہیا کرنے کے اپنے فرضِ منصبی کو نبھانے کی کوشش کریں۔
مندرجہ بالا تمام آفات و مصیبتیں آسمانی و سلطانی نہیں بلکہ خود انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہیں۔ اب ان سے نمٹنے کا صرف ایک آپشن کھلا ہے اور وہ ہے جنگلات کا تحفظ اور ان کے رقبے میں اضافہ۔ یہی وہ شاہ کلید ہے جو انسانی ترقی و خوش حالی کے تمام دروازوں کو کھولتی اور تباہی و بربادی کے تمام دروازوں کو بند کرتی ہے۔ بے جا نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اس کرۂ ارض پر انسانی بقاء کو اللہ تعالیٰ نے جنگلات سے بلاواسطہ مربوط کر رکھا ہے۔

جنگلات کی اسی اہمیت کے پیش نظراقوامِ متحدہ نے ’’بین الاقوامی یومِ جنگلات‘‘ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ International Day of Forest کے نام سے موسوم یہ دن مختصراً IDF کہلاتا ہے۔ساری دنیا میں یہ دن ہر سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی یومِ جنگلات اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد کے ذریعے 28 نومبر 2012 کو قائم کیا گیا تھا۔ ہر سال یومِ جنگلات منانے کا مقصد عوام کو جنگلات کی اہمیت سے واقف کروانا ہے۔ یہاں جنگلات سے مراد تمام قسم کے جنگلات، جنگلات سے باہر کے درخت اور ہر قسم کی نباتات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذریعے ممبر ممالک کو تحریک دی جاتی ہے کہ وہ اس مبارک دن کو مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر خوب اہتمام کے ساتھ منائیں اور شجر کاری جیسے کام کریں۔ پہلا بین الاقوامی یوم جنگلات 21 مارچ 2013 کو منایا گیا تھا۔

IDF کا پس منظر
اس کرۂ ارض کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر سال 13 ملین ہیکڑ (32 ملین ایکڑ) سے زیادہ جنگلات کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ گویا ہر سال برطانیہ کے رقبے کے برابر جنگلات ختم کئے جارہے ہیں۔ رہائش، زراعت اور صنعت کے لئے جنگلات ختم کردئے جاتے ہیں۔ جنگلات کا صفایہ ہونے سے وہاں بسنے والے نباتات اور حیوانات کی کم و بیش 80 فیصد انواع ناپید ہوجاتی ہیں۔ تبدیلئ آب و ہوا (کلائمیٹ چینج) میں حدّت ارضی (گلوبل وارمنگ) اہم رول ادا کرتی ہے۔ حدّت ارضی کا سب سے بڑا ذریعہ کاربن کا اخراج (Carbon Emission) ہے۔ جنگلات کی کٹائی (Deforestation) کاربن کے اخراج کے مینجمنٹ پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مختلف ذرائع سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کاربن کا اخراج کہلاتی ہے۔ جنگلات میں موجود درخت اور پیڑ پودے اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرلیتے ہیں اور اس طرح فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تناسب کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ لیکن جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں فضا میں اس گیس کا تناسب بڑھ جاتا ہے جو انسانی صحت کے لئے مضر ہے۔ لہذا صحت مند جنگلات کو بجا طور پر کاربن غرقابے (Carbon Sinks) کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے جنگلات اس کرۂ ارض کے پھیپھڑے (Lungs) ہیں۔ اسی طرح باغات شہروں کے پھیپھڑے ہیں۔
فی الوقت زمین کا 30 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ ان جنگلات میں درختوں کی ساٹھ ہزار سے زیادہ انواع پائی جاتی ہیں جن میں سے بہت سی انواع کی ابھی شناخت نہیں ہوئی ہے۔ جنگلات اپنے اطراف بسنے والے 1.6 بلین غریب لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ان تمام امور کے پیش نظر اقوامِ متحدہ نے سال میں ایک دن عالمی یومِ جنگلات منانے کا فیصلہ کیا۔
جنگل کیا ہیں؟
زمین کا ایک بڑا رقبہ جو درختوں، پودوں، بوٹیوں اور جھاڑیوں سے ڈھکا ہو جنگل کہلاتا ہے۔ بہت سارے محرکات ہیں جنہیں بنیاد بناکر دنیا کے مختلف حصوں میں جنگل کی تعریف متعین کی جاتی ہے۔ ان میں سے چند محرکات یہ ہیں: درختوں کی کثافت یا گھناپن (Density)، درختوں کی اونچائی، درختوں کے استعمال میں آنے والی زمین کا رقبہ، قانونی حیثیت اورماحولیاتی اہمیت۔
’جنگل‘ (Forest) عام بول چال کا ایک لفظ ہے جو اپنے مفہوم کو پورے طور پر ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ تاہم جنگل کی کوئی ایسی تعریف (Definition) طئے نہیں کی جاسکتی جسے بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو۔جنگل کی 800 سے زائد تعریفیں پوری دنیا میں رائج ہیں! جنگل کا تصور گھنے درختوں کی موجودگی سے مربوط ہے۔ تاہم دنیا کے بعض ایسے خطوں کے لئے بھی جنگل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جہاں فی الوقت درخت نہیں پائے جاتے لیکن ماضی میں وہاں پیڑ پودے موجود تھے یا مستقبل میں درختوں کے اگنے کی امید ہو۔
جنگل کی تعریفوں کی درجہ بندی تین طرح سے کی جاتی ہے!
(1) انتظامی امور (Administration)
(2) زمین کا استعمال (Land Use)
(3) زمین کا درختوں سے ڈھکا ہونا (Land Cover)
انتظامی امور کے لحاظ سے زمین کا وہ خطہ جو قانونی طور پر جنگل مانا جاتا ہے، وہ جنگل ہی کہلائے گا اگرچہ اس پر ایک بھی درخت موجود نہ ہو۔
زمین کے استعمال کے لحاظ سے زمین کا وہ خط جنگل کہلاتا ہے جو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہو مثلاً عمارتی لکڑی (Timber) کی پیداوار ۔ جنگل بانی (Forestry) کے لئے ان علاقوں میں تعمیر کی گئی سڑکیں، عمارتیں وغیرہ اور فصلیں حاصل کرنے کے لئے صاف کی گئی زمین، آگ اور امراض کے سبب درختوں کی تباہی کے نتیجے میں خالی ہونے والی زمین جنگل ہی کہلائے گی اگرچہ وہاں اب درخت نہ بچے ہوں۔زمین کا وہ خطّہ جو درختوں سے ڈھکا ہو، جنگل کہلاتا ہے۔ ان تعریفوں میں درختوں کی قسمیں، درختوں کا گھنا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تعریفوں میں زمین کا وہ خطّہ بھی جنگل کہلاتا ہے جہاں حال ہی میں درخت اگائے گئے ہوں اور ان کی عمر کم ہو لیکن مستقبل میں ان کے پنپنے اور بڑے ہونے کی امید ہو۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے Food and Agriculture Organization کے ذریعے کی گئی جنگل کی تعریف کے ذیل میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ 2006 کے سروے کے مطابق جنگلات زمین کے چار بلین ہیکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں جو زمین کے کل رقبے کا 30 فیصد ہے۔
صرف 30 فیصد ہونے کے باوجود جنگلات کا ماحولی نظام (Ecosystem) زمین کا غالب ماحولی نظام ہے! جنگلات اس کرۂ ارض پر متفرق طور پر بکھرے ہوئے ہیں۔ جنگلات زمین کی کل بنیادی پیداوار میں 75 فیصد کے حصہ دار ہیں! ان میں زمین کی 80 فیصد نباتی حیاتی کمیت (Plant Biomass) موجود ہے۔
انسانی سماج میں جنگلات ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، مثبت طور پر بھی اور منفی طور پر بھی۔ جنگلات انسانی سماج کو بہترین ماحولیاتی نظام مہیا کرتے ہیں جب کہ انسانی سرگرمیاں جنگلات کے لئے انتہائی نقصان د ہ ثابت ہوتی ہیں اور انجام کار ان کا خمیازہ خود انسان کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
2015کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں فی الوقت 3 ٹریلین درخت موجود ہیں جن میں سے 1.4 ٹریلین استوائی یا نیم استوائی خطوں، 0.6 ٹریلین منطقہ معتدلہ اور 0.7 ٹریلین شمالی صنوبری جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

جنگلات کی درجہ بندی
جنگلات کی درجہ بندی (Classification) کے کئی طریقے وجود میں آئے ہیں لیکن کسی بھی طریقے کو بین الاقوامی شناخت حاصل نہ ہوسکی۔ انسانی دست درازی کی بنیاد پر جنگلات کو 2 جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1) قدیم افزائشی جنگلات (Old Growth Forests)
ان جنگلات میں حیاتی تنوع (Biodiversity) کے قدرتی نقش (Natural Patterns) پائے جاتے ہیں۔ نباتات کی انواع مقامی ہوتی ہیں۔

2) ثانوی جنگلات (Secondary Forests)
جن میں وہ مخصوص انواع پائی جاتی ہیں جو بنیادی طور پر دوسرے علاقوں کی ہیں۔
United Nations Environment Programme اور World Conservation Monitoring Centreنے مشترکہ طور پر جنگلات کو 26 جماعتوں میں تقسیم کیا ہے۔ مختلف خطوں، آب و ہوا اور درختوں کی اہم انواع کی بنیاد پر یہ 26 جماعتیں تشکیل دی گئی ہیں۔سہولت کے لئے ان جماعتوں کی بعض مشترکہ خصوصیات کو یکجا کرکے بڑی بڑی 6 جماعتیں بنائی گئی ہیں:
(1) منطقہ معتدلہ کے سوئی نما پتوں والے درختوں کے جنگلات
(Temperate Needle Leaf)

(2) منطقہ معتدلہ کے چوڑے پتے والے درختوں کے جنگلات
(Temperate Broadleaf)

(3) منطقہ حارّہ کے نمی والے جنگلات (Tropical Moist)

(4) منطقہ حارّہ کے خشک جنگلات (Tropical Dry)

(5) چھدرے (کم گھنے) جنگلات (Sparse Trees)

(6) باغبانی کے جنگلات (Park Lands)

جنگلات میں شجر کاری
عمارتی لکڑی (Timber) اور گودے دار لکڑی (Pulpwood) حاصل کرنے کے لئے جنگلات میں مخصوص قسم کے درخت اگائے جاتے ہیں۔ اسے جنگل میں شجر کاری (Forest Plantation) کہتے ہیں۔ یہ شجرکاری مقامی حیاتی تنوع میں اہمیت نہیں رکھتی، لیکن ماحولیاتی نظام کو قوت بخشتی ہے۔ جنگلات میں شجرکاری رفتہ رفتہ مقبول ہورہی ہے اور اس کا رقبہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے لکڑی اور ایندھن کے حصول کے لئے قدرتی جنگلوں پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہورہا ہے۔

جنگلات سے ہمارا رشتہ
فی زمانہ فضائی آلودگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سب سے اہم اور سب سے بڑا آلائندہ (Pollutant) ہے۔ نباتات کاربن ڈائی آکسائیڈ کا دورِ مکرّر (Recycling) کرتے ہیں۔ وہ پتوں کے ذریعہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ لہذا جنگلات کو کاربن کے غرقابے (Carbon Sinks) کہا جاتا ہے۔ جنگلات کا یہ سب سے بڑا فرضِ منصبی (Function) ہے۔ جنگلات آب و ہوا میں باقاعدگی پیدا کرتے ہیں، پانی کی صفائی کرتے ہیں، قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور زلزلوں کی تباہ کاریوں میں تخفیف کرتے ہیں، تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ بے شمار پھل، پھول اور دوائیاں فراہم کرتے ہیں۔ جنگلات صدیوں سے ہمارے ساتھ دوستی نبھارہے ہیں۔ وہ ہمارے مخلص اور انتہائی بھروسے مند دوست ہیں، بالکل انگریزی کی اس کہاوت کے مصداق

:
"A friend in need is a friend indeed"
لیکن افسوس ہمیں دوستی نبھانا نہیں آیا۔ جنگلوں کے اور ہمارے رویوں میں کتنا بڑا تضاد ہے!

جنگلات کی بازیافت (Reforestation)
بے شمار فائدوں کے ساتھ ساتھ جنگلات سے کچھ نقصانات بھی ہیں مثلاً یہ کہ ان کی دیکھ بھال اور نگہداشت اور مینجمنٹ یعنی جنگل بانی (Forestry) پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ جنگلوں میں خوفناک درندے اور زہریلے سانپ بستے ہیں جن کی وجہ سے قدرتی مناظر سے لطف اندوزی متاثر ہوتی ہے، حیاتی تنوع متاثر ہوتا ہے، چراگاہوں اور قابلِ زراعت زمین کی غذائی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، انسانوں اور مویشیوں میں امراض پیدا کرنے والے جراثیم اور حشرات کی پرورش ہوتی ہے وغیرہ۔ لیکن جنگلات سے ہونے والے نقصانات کے مقابلے میں ان سے حاصل ہونے والے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان نقصانات کو نظر انداز کرکے جنگلات کی بازیافت ضروری ہے۔ 2010 میں اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ایک اچھی خبر شائع کی۔ اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں (2000 سے 2010 کے دوران) دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی (Deforestation) میں تخفیف نوٹ کی گئی۔ 1990 کے دہے میں جنگلات کی کٹائی کی شرح فی سال 16 ملین ہیکٹر تھی جو گھٹ کر 2000 اور 2010 کے دوران 13 ملین ہیکٹررہ گئی۔ یہ مطالعہ دنیا کے 233 علاقوں میں کیا گیا تھا۔ چین میں 1998 سے عمارتی لکڑی کے حصول کے لئے درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کے نتیجے میں زمین کی جھیج اور سیلابوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ہندوستان، چین، امریکہ اور ویتنام میں شجرکاری پروگرام کے نتیجے میں سالانہ 7 ملین ہیکڑ جنگل وجود میں آرہے ہیں۔ اس پروگرام میں نئے جنگلات اگانا اور پرانے جنگلات کی توسیع شامل ہے۔ نیچر اینڈ کلائمیٹ چینج کے لئے 2015 میں کئے گئے ایک مطالعے میں پایا گیا کہ جنگلات کے تعلق سے اب دنیا کے رجحان نے یوٹرن(U-Turn) لے لیا ہے۔ الحمد للہ اب Deforestation کے بجائے Reforestatinon کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ رجحان چین اور روس کی کوششوں سے انگیز ہوا ہے۔
7 ستمبر2015 کو اقوام متحدہ کی فوڈاینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے ایک خبرنامہ جاری کیا جس کے مطابق گذشتہ 25 سالوں میں جنگلات کی کٹائی کی شرح میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ جنگلات کے بہتر انتظام اور حکومتوں کے حفاظتی مینجمنٹ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
شہری جنگل بانی (Urban Forestry) کے نام سے ایک نیا تصور سامنے آیا ہے۔ شہروں میں خالی پڑی سرکاری یا نیم سرکاری زمینوں پر عوامی پارکوں میں شجرکاری کرکے شہروں کو صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔ ’’بحالئی توجہ کا نظریہ‘‘ (Attention Restoration Theory) کے مطابق قدرتی ماحول میں کچھ وقت گزارنا تناؤ کو دور کرنے اور اچھی صحت کے لئے بہتر ہے۔

جنگلات کی معاشی اہمیت
عمارتی لکڑی کے حصول کے لئے جنگلات کا استعمال صدیوں سے کیا جارہا ہے اور مستقبل میں بھی کیاجائے گا۔ جنگلات سے حاصل کی گئی لکڑی کا صرف 60 فیصد حصہ عمارتوں کی تعمیر اور فرنیچر کی صنعت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بقیہ 40 فیصد حصہ بطور ایندھن استعمال کرلیا جاتا ہے۔ کاغذ کی صنعت میں لکڑی بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے۔
برازیل کے امیزن (Amazon) جنگلات سے ربر کی پیداوار بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ ربر کے درختوں کی اب کاشت بھی ہونے لگی ہے لیکن ربر کے لئے جنگلات آج بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
مرکزی امریکہ کے جنگلات سے گوند (Gum) حاصل کیا جاتا ہے۔ تالیفی گوند (Synthetic Gum) اگرچہ کہ اب بین الاقوامی تجارتی سطح پر استعمال کیا جارہا ہے، قدرتی گوند کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ چیونگ گم کی صنعت میں یہی گوند استعمال کیا جاتا ہے۔جنگلات سے ہمیں رال (Resin) ، تارکول (Pitch, Tar) اور تارپین (Turpen Tine) جیسے اہم کیمیائی مادے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مادے صنوبری (Coniferous) درختوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ ماضی میں ان مادوں کا استعمال کشتیوں اور بحری جہازوں کی صنعت میں کیا جاتا تھا ، اس لئے آج بھی انہیں "Naval Stores" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مادے امریکہ اور فرانس کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔
جنگلات میں پائے جانے والے Cork Oak نامی درختوں کی دبیز چھال سے کارک (Cork) حاصل کیا جاتا ہے جو ایک مسامدار اور ہلکا پھلکا ٹھوس ہے۔ بوتلوں کے ڈاٹ (Stoppers) اور تیرنے والے آلات میں کارک استعمال کیا جاتا ہے۔ بطور حاجز (Insulator) بھی کارک مستعمل ہے۔ کارک اوک شمالی امریکہ اور یوروپ کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔
چمڑے کی صنعت میں استعمال کیا جانے والا مادہ ٹینن (Tanin) شاہ بلوط (Chestnut) نامی درختوں کی چھال سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ درخت خاص طور پر افریقہ کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔
کھجور کے خاندان کے درخت پام (Palm) کہلاتے ہیں۔ Date Palm سے کھجور عالمی پیمانے پر حاصل کی جاتی ہے۔ Oil Palm سے پام تیل حاصل کیا جاتا ہے جو مونگ پھلی کے تیل کا قائم مقام بن چکا ہے۔ آئل پام ماضی میں صرف جنگلوں میں پایا جاتا تھا لیکن حاضر دور میں اس کی کاشت بھی کی جارہی ہے۔Pandanus Palm اور Raffia Palm سے چٹائیاں اور ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔ پام کی 2600 سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ یہ منظقہ حارّہ اور منطقہ معتدلہ کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔
بانس (Bamboo) اور بید (Rattan) قسم کی بیلیں فرنیچر، باسکٹ کی صنعت وغیرہ میں استعمال کئے جانے والے جنگلات کے حاصلات ہیں۔ یہ ایشیا کے جنگلات کی پیداوار ہیں۔
جنگلات کے صنعتی استعمال میں ادویاتی پودے (Medicinal Plants) بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سنکونا نامی پودا سب سے اہم ادویاتی پودا ہے۔ اس کی چھال اور لکڑی سے کونین (Quinine)نامی دوا (Drug) حاصل کی جاتی ہے جو ملیریا کے علاج میں بہت مفید ہے۔ کوکا (Coca) نامی جھاڑی کے پتوں سے کوکین نامی دوا حاصل کی جاتی ہے۔ کوکین سے درد و تکلیف میں تسکین پہنچانے والی دوائیاں (مُسکّن) تیار کی جاتی ہیں۔ یہ ایک نشہ آور ڈرگ بھی ہے جسے غیر قانونی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سنکونا اور کوکابنیادی طور پر مغربی جنوبی امریکہ کے Andus پہاڑی سلسلے کے جنگلات میں پائے جاتے ہیں، لیکن اب ان کی کاشت انڈونیشیا اور دوسرے ممالک میں ہورہی ہے۔
کافور کے درخت سے کافور (Camphor) نامی کیمیائی مادہ حاصل کیا جاتا ہے جو معاشی اہمیت کا حامل ہے۔ کافور کا استعمال دوائیوں، مرہم، کاسمیٹک، صابن، دھماکہ خیز اشیاء اور پلاسٹک کی صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔
افیم، مارفین اور ہیروئن وغیرہ بدنام زمانہ نشہ آور ڈرگز ہیں۔ یہ ڈرگز جنگلات سے ہی حاصل ہوتے ہیں اور قانونی طور پر دوائیاں بنانے میں استعمال کئے جاتے ہیں۔
جنگلات کئی قسم کے پھل مہیا کرتے ہیں جن کا استعمال جنگل کے رہنے والے لوگ بھی کرتے ہیں اور ان کی تجارت الاقوامی سطح پر بھی کی جاتی ہے۔ سوکھے میوے (Dry Fruits) اور مسالے (مصالحے) (Spices) بھی جنگلات کی دین ہیں۔

جنگل میں منگل
دنیا بھر میں 300 ملین لوگوں کی رہائش جنگلوں میں ہے! 1.6 بلین لوگوں کی گزراوقات جنگلوں کے حاصلات مثلاً جنگلاتی غذا، ادویاتی پودوں، ایندھن کی لکڑی اور پھلوں پر ہے۔ 60 ملین لوگ نسل درنسل جنگلوں میں رہتے آرہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں 1.2 بلین لوگ زراعتی جنگل بانی (Agroforestry) سسٹم پر انحصار کرتے ہیں۔ مینگرو (Mangrove) جنگلات صرف 170,000 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تجارتی مچھلیوں کی کئی انواع کے دورِ حیات کے لئے ضروری ہیں۔ ایک ہیکٹرگھنا جنگل ماحول کے درجۂ حرارت میں C ْ 0.7کی کمی کرتا ہے اور بارش لانے میں مدد کرتا ہے۔

ایک پیڑ 36 لوگ!
دنیا کی 7 بلین آبادی کو آکسیجن مہیا کرنے والے جنگل آج خود اپنے وجود کے لئے فکر مند ہیں۔ پٹنہ میں عرصۂ دراز سے جنگلوں کے تحفظ کے لئے سرگرم ادارے ’’ترومِتر‘‘ کے سربراہ فادر رابرٹ کا ماننا ہے کہ ایک شخص کو زندہ رہنے کے لئے اس کے آس پاس 16 پیڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں اوسطاً 36 لوگ صرف ایک پیڑ پر انحصار کرتے ہیں۔

ایک پیڑ کی قیمت ایک کروڑ روپے!!
درختوں کی اوسط عمر 50 سال ہوتی ہے۔ ان پچاس سالوں میں ایک پیڑ ہمیں ایک کروڑ روپے کی خدمات مہیا کرتا ہے: 10 لاکھ روپے کی آکسیجن، 15 لاکھ روپے کا سایہ، 25 لاکھ روپے کی آلودگی کی روک تھام، 15 لاکھ روپے کی ماحول میں نمی اور 35 لاکھ روپے کی دوسری خدمات میں مٹی کے کٹاؤکی روک تھام، پھول، پھل، حشرات اور پرندوں کی رہائش مہیا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ جدید تحقیقات کے مطابق تو ایک درخت کی خدمات 3 کروڑ 55 لاکھ 13 ہزار روپے کے بقدر ہیں!!!

جنگل کا حُسن
جنگلات کے غیر معمولی حُسن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ تو بس محسوس کرنے کی چیز ہے۔ جنگلات کا خالص حسن، جھرنوں کی خالص موسیقی، گیلی مٹی اور گل و برگ کی خالص خوشبو، پرندوں کی خالص چہچہاہٹ، جانوروں کی خالص پکار۔۔۔غرض ہرشے خالص! شہروں کے آلودہ اور پرآمیزش ماحول سے نکل کر جب آدمی جنگل کی سیر کو نکلتا ہے تو وہ اس کے حسن میں ڈوب ڈوب جانا چاہتا ہے۔
انگریزی کا مشہور شاعر Robert Frost بھی جنگل کے حسن لازوال میں کھوجانا چاہتا تھا لیکن ذمہ داریوں کے احساس نے اسے ایسا کرنے نہ دیا:

The woods are lovely, dark and deep
But I have promises to keep
And miles to go before I sleep
And miles to go before I sleep

شہر کے استبدا کے بالمقابل جنگل کے حسن اور پرامن ماحول کو مہتاب پیکر اعظمی نے بھی محسوس کیا:

انسانیت تو دفن ہے پتھر کے شہر میں
جنگل میں محوِ رقص ہیں حیوان دور تک

سیر وتفریح کے لئے جنگل میں جاناایک بات ہے، لیکن غیاث الرحمٰن شکیب نے شہر سے جنگل کی جانب ہجرت کی ایک اور ہی وجہ بتائی ہے:
جنگل میں اب درندوں سے کوئی خطرہ نہیں
شہر سے جانا پڑا جلتے گھروں کے خوف سے
انشاجی نے بھی شہر کو خیر باد کہنے کے لئے کمر کس لی تھی:

انشاجی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

جب ان کے خیر اندیشوں نے انہیں اپنے اس ارادہ سے باز آنے کی تلقین کی تو وہ پکاراٹھے:

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں، کیوں بن میں نہ جا وشرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے، تو اور کرے دیوانہ کیا

قیس جنگل میں اکیلا ہے
ایک عرصہ ہوا بیچارہ قیس جنگل میں اکیلا ہی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ نہ لیلیٰ کا ساتھ نہ دوست احباب کی دلجوئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اسے کمپنی دیں، بلکہ اس کو کمپنی دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ لہذا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368399
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development