ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
فروری 2016


’’یتیم امراض‘‘بڑی عجیب اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ امراض کے والدین تو ہوتے نہیں جن کے فرار ہوجانے (گزرجانے) سے یہ یتیم ہوجائیں۔ دراصل انگریزی میں ’’یتیم امراض‘‘ کا متبادل "Orphan Diseases" مروج ہے جو بہت ہی شاذ (Rare) قسم کے امراض کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا یتیم امراض کو شاذ امراض (Rare Diseases) بھی کہتے ہیں۔ یتیم ہونے کے باوجود یہ امراض نگاہِ کرم کے مستحق بالکل نہیں ہیں۔ یہ امراض ان چالاک مجرموں کی مانند ہیں جو جرم کرنے کے بعد اپنا کوئی سراغ نہیں چھوڑتے۔ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی پہنچ سے دور انہیں منہ چڑاتے رہتے ہیں! ان امراض کے نام بھی عجیب و غریب ہیں مثلاً Morgellons ، Microcephaly اور Kuru وغیرہ۔
دور حاضر میں کینسر اور ایڈز جیسے امراض کا بہت چرچا ہے لیکن شاذ امراض کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئیبعض بین الاقوامی سطح کے اداروں نے ان شاذ امراض کی واقفیت، ان کی تشخیص اور علاج پرزور دینے کے لئے 2008 میں ’’یوم شاذ امراض‘‘ (Rare Disease Day) منانے کا فیصلہ کیا۔ ان اداروں کے نام ذیل کے مطابق ہیں:
1) European Organization for Rare
Diseases
2) National Organization for Rare
Diseases
3) Global Gene Project
شاذ امراض سے متعلق ان اداروں کے سامنے دو بڑے بڑے چیلینج ہیں۔ ایک تو یہ کہ وقت رہتے ان کی تشخیص نہیں ہوپاتی اور دوسرے ان کا علاج نا کافی ہے۔
یوم شاذ امراض منانے کا مقصد مریض اور اس کے خاندان سے ہمدردی کا اظہار اور ہر ممکنہ امداد ہے۔
یوم شاذ امراض 2008 سے منایا جارہا ہے۔ اسے منانے کے لئے ماہ فروری کے آخری دن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ لیپ سال (Leap Year) میں فروری کا مہینہ 29 دن کا ہوتا ہے۔ 29 فروری کا دن شاذ (Rare) ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے یوم شاذ امراض کے لئے 2008 میں 29 فروری کے دن کو منتخب کیا گیا۔ لیپ سال کے علاوہ دوسرے سالوں میں یہ دن 28 فروری کو منایا جاتا ہے۔
پہلا یوم شاذ امراض 29 فروری 2008 کو یوروپی ممالک اور کینیڈا میں منایا گیا۔ ان ممالک کی پارلیمنٹ میں بھی اسے منظوری دی گئی۔
2009میں یوم شاذ امراض 28 فروری کو منایا گیا۔ اس تقریب میں پناما، کولمبیا، ارجنٹینا،آسٹریلیا، چین اور امریکہ بھی شامل ہوئے۔ ڈسکوری چینل نے اہم رول ادا کیا۔
2010میں اس مہم میں 46 ممالک کی شمولیت نوٹ کی گئی۔ اس سال اس مہم کا تھیم طے کیا گیا:
"Patients and Researchers: Partners for Life."
(مریض اور محقق : زندگی کے شریک کار)
شاذ امراض کے تعلق سے تھیم نہایت موزوں تھا۔
2011 میں علاوہ اور ملکوں کے ہمارا ملک بھی اس مہم میں شامل ہوگیا۔ اس سال کا تھیم بھی کافی معنی خیز تھا:
"Rare Diseases and Health Inequalities."
(شاذ امراض اور صحت کی ناہمواری)
2012 لیپ سال ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر یہ دن 29 فروری کو منایا گیا۔ اس سال کا تھیم صرف ایک لفظ پر منحصر تھا:
"Solidarity"
یعنی ’’اتحاد‘‘۔ اس ایک لفظ میں ایک طویل داستان، ایک عظیم پیغام پوشیدہ ہے۔ جب کڑی سے کڑی ملتی ہے تو ایک زنجیر بن جاتی ہے۔ یہی اس سال کا پیغام تھا۔ آج بھی اس کی معنویت برقرار ہے۔ اسی پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نعرہ (Slogan) بھی ترتیب دیا گیا:
"Rare but Strong Together"
2015میں شاذ امراض کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے یہ تھیم دیا گیا تھا:
"Living With Rare Diseases"
اس تھیم کو تقویت پہنچانے کے لئے ایک نعرہ بھی جاری کیا گیا:
"Day by Day - Hand in Hand"
موجودہ سال 2016 پھر لیپ سال ہے۔ 29 فروری کو یوم شاذ امراض ساری دنیا میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا۔ اب دنیا کے کم و بیش تمام ممالک اس مہم میں شامل ہوچکے ہیں۔ اس سال کا تھیم یہ ہے:
"Patient Voice - Join us in making the Voice of Rare Diseases heard."
(مریض کی پکار۔ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیے تاکہ شاذ امراض کی پکار سنی جاسکے)

شاذ مرض کیاہے؟
شاذ مرض جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، بہت ہی کم افراد کو لاحق ہوتا ہے۔ زیادہ تر شاذ امراض جینی (Genetic) نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مریضوں کے ساتھ تاحیات لگے رہتے ہیں۔ یہ امراض بچپن میں یا ولادت کے وقت ہی لاحق ہوجاتے ہیں اور بچہ عام طور پر پانچ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے فوت ہوجاتا ہے۔ یہ امراض اتنے کمیاب ہیں کہ دنیا میں Ribose-5 - phosphate isomerase deficiency کا صرف ایک مریض پایا جاتاہے۔ 1999 میں 14 سال کے ایک لڑکے میں Psychomotor Retardation کی شکایت نوٹ کی گئی۔ اس سے قبل وہ سات سال کی عمر میں Neurological Regration اور چار سال کی عمر میں Epilepsy میں مبتلا ہوچکا ہے۔ مذکورہ شاذ مرض ایک پیچیدہ جینی مرض ہے جس میں اس کی دماغی صلاحیت اور ہاتھ پاؤں کی حرکات متاثر ہوئی ہیں۔
کسی مرض کو حتمی طور پر شاذ مرض قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ اگر وہ کسی ایک مخصوص علاقے میں شاذ ہے تو دوسرے علاقوں میں عام بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً Cystic Fibrosis ایشیاء کے بہت سے علاقوں میں شاذ ہے جب کہ وہ یوروپ میں عام ہے۔ بچوں میں کینسر شاذ ہے لیکن بڑی عمرکے لوگو ں میں عام ہے۔
سائنسداں اور ماہرین شاذ امراض کی کسی حتمی تعریف (Definition) پر متفق نہیں ہیں۔ کہیں ان امراض کے مریضوں کی تعداد کو بنیاد بناکر تو کہیں علاج کے موثر طریقوں یا مرض کی شدت کو بنیاد بناکر تعریف متعین کی جاتی ہے۔ امریکہ میں بعض ماہرین مانتے ہیں کہ وہ مرض جو 2 لاکھ کی آبادی میں صرف ایک شخص کو لاحق ہو وہ شاذ مرض ہے۔ لیکن امریکہ کے ہی دوسرے ماہرین آبادی کی اس تعداد کو 1500 تک محدود کرتے ہیں۔ جاپان میں بھی دو طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض 50,000 اور بعض دوسرے 2500 کی آبادی میں ایک مریض کی بات کرتے ہیں۔ یوروپی ممالک میں شاذ امراض کا مطلب ہے وہ امراض جو مزمّن (Chronic) ہوں، زندگی کے لئے خطرہ ثابت ہوں، دوہزار کی آبادی میں صرف ایک شخص کو لاحق ہوں۔

شاذ امراض کا پھیلاؤ
کسی ایک معینہ وقت میں کسی مرض میں مبتلا افراد کی تعداد اس مرض کا پھیلاؤ (Prevalence) کہلاتی ہے جب کہ ایک سال کے عرصے میں کسی مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد اس مرض کا دائرہ عمل (Incidence) کہلاتی ہے۔ شاذ امراض کے اعداد و شمار متعین کرنے کے لئے ان کے دائرہ عمل کے بجائے ان کے پھیلاؤ کو معیار بنایا جاتا ہے۔
Global Gene

Projectکے مطابق فی الوقت دنیا میں 300 ملین لوگ شاذ امراض سے دوچار ہیں۔ European Organization for Rare Diseases کے اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں 5,000 سے 7,000 تک شاذ امراض موجود ہیں۔ Rare Genomics Institute کا خیال ہے کہ 400 شاذ امراض کا علاج دریافت کیا جاسکا ہے۔ ان امراض کی ایک بڑی تعداد جینی (Genetic) نوعیت کی ہے۔ فِن لینڈ میں 40 شاذ امراض کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے۔ یہ امراض مجموعی طور پر Finnish Heritage Disease کہلاتے ہیں۔

شاذ امراض کی خصوصیات
شاذ امراض عام طور پر جینی (Genetic) ہوتے ہیں۔ اور اسی لئے وہ مزمن یعنی دیرینہ (Chronic) بھی ہوتے ہیں۔ ایک اسٹڈی کے مطابق 80 فیصد شاذ امراض جینی ہیں، بقیہ دوسرے انفکشن، الرجی یا دوسرے اسباب کی بنا پر لاحق ہوتے ہیں۔
زیادہ تر شاذ امراض کی علامات بچے کی پیدائش کے وقت یا بچپن میں ظاہر ہوتی ہیں۔ دوسرے شاذ امراض اس وقت لاحق ہوتے ہیں جب بچہ سنِ بلوغت کو پہنچ جاتا ہے۔
تحقیقی اشاعتوں (Research Publications) میں اُن شاذ امراض پر زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے جو مزمن یا ناقابلِ علاج ہیں چند شاذ امراض ایسے بھی ہیں جو مختصر سے علاج سے دور ہوجاتے ہیں۔

چندشاذ امراض
مرض (Disease)کیا ہے؟ درسی کتابوں کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مرض کا مطلب ہے تکلیف، اضطراب، بے چینی یا بے قراری یعنی معمول کے مطابق صحت مندانہ حالت سے دوری۔ بہت سے امراض کی تشخیص ان کی ظاہری علامات سے ہوتی ہے جیسے درد، سوجن، بخار اور کمزوری وغیرہ۔ کچھ امراض جیسے کینسر کی علامات طویل عرصے تک ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس وجہ سے ان کی تشخیص بر وقت نہیں ہوپاتی۔ شاذ امراض بھی بسا اوقات ایک عرصے تک علامات ظاہر نہیں کرتے۔
ذیل میں چند اہم شاذ امراض سے متعلق مختصر معلومات درج کی جارہی ہیں۔

1۔ Morgallons
آج کی تاریخ میں Margellons ایک ایسا مرض ہے جسے بہت کم سمجھا گیا ہے۔ بہت سے معالج اسے کسی نامعلوم انفکشن سے ہونے والا مزمن مرض سمجھتے ہیں۔ یہ مرض مریض کی جسمانی ساخت پر اثر اندازہوتا ہے، اس کی شکل و صورت کو بگاڑ دیتا ہے، اسے مفلوج کردیتا ہے۔ Morgellons کی علامات میں دانتوں سے کاٹے جانے کا احساس، کھجلی یا جسم پر چیونٹیوں کے رینگنے کا احساس، جلد سے لمبے لمبے ریشوں (Filaments) کا اگنا، جلد پر داغ دھبوں کا ابھرنا، یادداشت ضائع ہونا، جوڑوں میں درد اور تھکن شامل ہیں:
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے!!
Morgellons کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔

2۔Paraneoplastic Pemphigus
(PNP)
Pemphigus ایک جلدی مرض ہے جس میں جلد پر تکلیف دہ آبلے (Blisters) ابھر آتے ہیں۔ یہ ایک خود مدافعتی (Autoimmune) مرض ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک خطرناک قسم PNP ہے۔ اس میں جلد کی تعمیر کرنے والے Keratinocytes ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے جلد میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ یہ دراڑیں مواد سے بھر جاتی ہیں۔ آبلے عام طور پر منہ کے اندر، حلق، ہونٹ اور جسم کے مختلف حصوں کی جلد پر نمودار ہوتے ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ PNP میں مبتلا مریض Sepsis (پورے بدن میں جلن)، اعضاء کا ناکارہ ہوجانا یا کینسر میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ PNP کا بھی کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔

3۔ Microcephaly
یہ مرض بہت ہی شاذ ہے۔ پیدائش کے وقت یا اس سے بھی پہلے اس کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ اس مرض میں دماغ کی نمو ٹھیک طور پر نہیں ہوتی یا پھر ہوتی ہی نہیں۔ اس وجہ سے پیدائش کے وقت بچے کا سر ایک نارمل بچے کے سر کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ اس مرض کے لاحق ہونے کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ مثلاً جب بچہ ماں کے رحم میں ہوتا ہے اس دوران ماں کے ذریعے نقصان دہ مادوں کا استعمال، شعاع پاشی یا جینی مسائل وغیرہ ۔ Microcephaly میں مبتلا مریضوں کی دماغی نشوونما ٹھیک طور پر نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ذہنی کارکردگی بہت کمزور ہوتی ہے، وہ ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتے ہیں، ان میں بوناپن، توازن کا فقدان اور بولنے میں پریشانی جیسی علامات پائی جاتی ہیں۔ اس کا کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔


4۔ Von Hippel-Lindan (VHL)
یہ مرض 35000 لوگوں میں سے صرف ایک کو لاحق ہوتا ہے۔ یہ انتہائی شاذ جینی حالت ہے، جس میں جسم کے مختلف حصوں میں گلٹیاں (Tumors) نکل آتی ہیں۔ یہ گلٹیاں زیادہ تر مرکزی عصبی نظام (Central Nervous System) کے بین بین ابھرتی ہیں۔ یہ گلٹیاں خون کی نالیوں سے بنی ہوتی ہیں۔ ان گلٹیوں کا طبّی نام Hemangioblastomas ہے۔ یہ گلٹیاں دماغ، حرام مغز کی بتی، آنکھ کے پردے شبکیہ (Retina) وغیرہ پر تیار ہوتی ہیں۔ کچھ گلٹیاں لبلبہ (Pancreas) ، Adrenal Gland اور گردوں پر بھی ابھر آتی ہیں۔ اگر ان کا علاج نہ کیا گیا تو Stroke ، دل کا دورہ اور دل کی دوسری بے قاعدگیوں کے قوی امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔

5۔ Kuru
کورو بڑا ہی جان لیوا مرض ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ نیوگنی کے صرف ایک علاقے تک ہی محدود ہے۔ یہ وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں فور قبیلہ (Fore Tribe) بستا ہے۔ اس قبیلے میں ایک مذہبی رسم کے طور پر آدم حوری (Cannibalism) کا رواج ہے۔ اس رسم میں انسان کا گوشت اور خاص طور پر دماغ پکاکر کھایا جاتا ہے۔ اس آدم خوری کے نتیجے میں ان لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا اشخاص کھڑے ہونے اور کھانا کھانے کے قابل نہیں رہتے اور 6 سے 12 ماہ کے اندر اندر کوما سے ملتی جلتی حالت Comatose میں فوت ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1950 اور 1960 کے دوران اس مرض سے 1100 لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ حکومت کی مداخلت اور کوششوں کے چلتے اب اس مرض کے پھیلاؤ میں کافی کمی آگئی ہے۔

6۔ Fibrodysplasia Ossificans Progressiva (FOP)
یہ ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین مرض ہے۔ کسی سائنس فکشن یا الف لیلہ کی داستان کا ایک کردار معلوم ہوتا ہے! FOP کے مریض کے کسی حصے کی بافتیں اچانک ہڈی میں تبدیل ہوجاتی ہیں!! یہ ایک شاذ جینی مرض ہے جو جوڑنے والی بافتوں (Connective Tissues) پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ مرض ایک ملین افراد میں کسی ایک کو لاحق ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں اس کے 700 مریض ہیں۔ اس مرض میں کسی نامعلوم وجہ کی بنیاد پر جسم اپنی بافتوں کو ہڈی (Bone) میں تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے۔ FOP وہ یکتائے روزگار مرض ہے جس میں جسم کا ایک عضو دوسرے عضو میں تبدیل ہوجاتا ہے! پیدائش کے وقت ہی FOP کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔ نومولود بچے کے پاؤں کے پنجے نارمل سے زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ FOP کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ غیر ضروری یا ضرورت سے زیادہ بڑی ہڈی کو سرجری کے ذریعہ الگ کرنے پر یہ مرض اور شدت اختیار کرلیتا ہے:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!!

7۔ Field's Disease
شاذ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک عجیب و غریب اور اپنی نوعیت کا ایک ہی مرض ہے! دنیا میں صرف دو جڑواں بہنیں Kristie Fields اور Catherine Fields اس مرض کی شکار ہیں۔ یہ برطانیہ کے Wales کی رہنے والی ہیں۔ اس مرض کا کوئی طبی نام نہیں ہے اس لئے اسے ان کے خاندانی نام سے موسوم کردیا گیا ہے یعنی Field's Disease ۔ البتہ ڈاکٹر اسے Neuromuscular Disease یعنی عصبی عضلاتی مرض کہتے ہیں۔ اس مرض میں جسم کے عضلات دھیرے دھیرے زوال پذیر ہونے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے مریض کو کسی بھی طرح کی حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چوں کہ یہ مرض نہایت ہی شاذ ہے ڈاکٹر اندازہ نہیں کرپاتے کہ آگے کیا ہوگا؟ اس مرض نے ان دونوں بہنوں کی زندگی کو وہیل چیئر تک محدود کررکھا ہے لیکن خوش قسمتی سے طبی نگرانی میں رہنے کی وجہ سے حال ہی میں انہو ں نے اپنی اٹھارویں سالگرہ منائی ہے۔ چار سال قبل اس مرض کے چلتے انہوں نے اپنی آواز کھو دی تھی۔ اب ان کے لئے خاص طور پر الیکٹرونک اسپیچ مشین تیار کی گئی ہے جس کی مدد سے وہ ایک دوسرے سے اور دوستوں سے باتیں کرسکتی ہیں۔

8۔ Progeria
یہ مرض 8 ملین نومولود بچوں میں سے ایک میں پایا جاتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا بچے صرف 13 سال کی عمر تک پہنچتے ہیں۔ لیکن بعض مریض 22 ، 23 سال تک جی لیتے ہیں۔ پروجیریا ایک جینی حالت ہے جو جینیاتی تغیر (Mutation) کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے۔ اس حالت میں مریض ڈرامائی طور پر بڑی تیزی سے بڑھاپے کی جانب بڑھتا ہے۔ یہ مرض موروثی نہیں ہے لیکن ماضی میں ایک کیس موروثی بھی پایا گیا ہے۔ اس مرض کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے۔ ڈاکٹر اس کا علاج نموکے ہارمون کے ذریعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں کا مطمع نظر پروجیریا کی پیچیدگیوں کو کم کرنا ہوتا ہے۔
بعض امراض جو کبھی وبائی شکل اختیار کرلیتے تھے، اب بڑی حد تک ناپید ہوچکے ہیں مثلاً طاعون (Plague) ، چیچک (Small Pox) اور پولیو(Polio) ۔ انہیں اب شاذ امراض کے زمرے میں شامل کرلیا گیا ہے۔ 2015 کے سروے کے مطابق اب دنیا میں سوائے افغانستان اور پاکستان کے پولیو کہیں نہیں پایا جاتا۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360610
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development