بصارت سلامت تو جلوے ہزار
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
اکتوبر 2017

امسال عالمی یوم بصارت 12 اکتوبر کو آرہا ہے اور اس کا تھیم ہے
"Make Vision Count"
یعنی بصارت کو اس کی شایانِ شان اہمیت دیجئے۔ یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ انسان جب دنیا میں آکر پہلی بار آنکھ کھولتا ہے اور اپنا عرصۂ حیات مکمل کرنے کے بعد جب آخری بار آنکھ بند کرتا ہے تو اس پورے سفر کو محیط ہے یہ جملہ! زندگی کی ساری رنگینیوں اور دوڑ دھوپ کو اللہ تعالیٰ نے بصارت سے وابستہ کررکھا ہے۔ بصارت کے بغیر ہم ایک مکمل زندگی کا تصورنہیں کرسکتے۔ بصارت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے گلوبل ایکشن پلان اورمائع نابینائی عالمی ادارہ (IAPB = International Agency for Prevention of Blindness) نامی ادارے نے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان اداروں کے ممبر ممالک اور شرکائے کار مل کر 12 اکتوبر 2017 کو عالمی یومِ بصارت کا انعقاد کریں گے۔ اس کے تھیم کو عملی طور پر برتنے کی کوشش کریں گے۔ پہلا عالمی یومِ بصارت 8 اکتوبر 1998 کو منایا گیا تھا۔ بعد ازاں اسے آئی اے پی بی کے ہدف ’’ویژن 2020‘‘ میں ضم کردیا گیا۔ متعلق اداروں نے بصارت سے متعلق جو حقائق اور اعدادو شمار اکھٹا کئے ہیں وہ ہماری آنکھوں کو نم کرنے کے لئے کافی ہیں۔ 2010 کی تحقیق کے مطابق: * دنیا میں 285 ملین لوگ یا تو نابینا ہیں یا خفیف بصارت کے شکار ہیں۔(دنیا کی کل آبادی 7000 ملین ہے)۔
* ان میں سے 39 ملین لوگ مکمل طور پر نابینا ہیں اور بقیہ 246 ملین بصارت کی شدید خامیوں کے شکار ہیں۔
* 90 فیصد نابینا لوگ غریب ملکوں میں بستے ہیں۔
* بصارت کے 80 فیصد مسائل ایسے ہیں جنہیں ٹالا جاسکتا ہے۔ وقت کے رہتے ان کا کامیاب علاج کیا جاسکتا ہے۔
* کھوئی ہوئی بصارت کی بازیافت اور بصارت کے مسائل سے نمٹنے کا لائحہ عمل کافی خرچیلا ہے۔
* گذشتہ 20 سالوں میں انفکشن سے ہونے والے اندھے پن میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
* تقریباً 19 ملین بچے آنکھوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
*65 فیصد لوگ جو بصارت کے مسائل میں مبتلا ہیں، 50 برس یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں۔ یہ گروپ دنیا کی آبادی کا 20 فیصد بنتاہے۔
* دنیا کے بہت سے ملکوں میں عمر دراز لوگوں کی آبادی میں اضافے کا مطلب ہے بڑھتی عمر میں ہونے والے بصارت کے معاملوں میں اضافہ۔
* ہمارا ملک ہندوستان ’’اندھوں کا گھر‘‘ کہلاتا ہے کیوں کہ یہاں دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت بہت زیادہ لوگ نابینا ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 15 ملین نابینا افراد بستے ہیں۔ سال 2020 تک ان کی تعداد 31.6 ملین ہوجانے کے امکانات ہیں۔ ماہرین امراضِ چشم کی کمی کی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ 2010 میں ملک کو 1,15,000 ماہرین کی ضرورت تھی جب کہ یہاں صرف 9000 چار سالہ کورس سے فارغ ماہر امراض چشم (Optometrists) اور 40,000 آنکھوں کی دیکھ بھال کرنے والے دو سالہ کورس سے فارغ افراد (Eye Care Personnels) دستیاب تھے۔
بصارت کے اس بحرانی دور سے شاعر کا دل بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ قتیل شفائی نے تو اس مسئلے کا ایک آسان حل بھی تجویز کردیا ہے:
یا رو یہ ضعف بصارت کا دور ہے
آندھی اٹھے تو اس کو گھٹا کہہ لیا کرو!

بصارت کے محافظ


گذشتہ سال کے عالمی یومِ بصارت کا تھیم بڑی اہمیت کا حامل تھا:
"Stronger Together"
اس میں بصارت کے محافظوں، مریضوں اور عوام کے لئے ایک پیغام تھا۔ بصارت کے محافظ ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ Opthalmologists
آنکھ کی تشریح (Anatomy) ، عضویات (Physiology) ، آنکھ کے امراض، آنکھ اور اس کے اطراف کے اعضاء مثلاً آنکھ کے پپوٹے اور آنسو کے غدود وغیرہ کی جراحی کے ماہرین Opthalmologists کہلاتے ہیں۔ Opthalmology آنکھوں کی سائنس کہلاتی ہے۔

2۔ Optometrists
یہ آنکھوں کی جسامت کی پیمائش کے ماہرین ہیں۔ یہ آنکھوں کی عام بے قاعدگیوں کی تشخیص کرتے ہیں۔ بصارت میں انعطاف (Refraction) کے عمل کو درست کرتے ہیں۔ بصارت کی اصلاح کے لئے عدسے تجویز کرتے ہیں۔ بعض ملکوں میں ان ماہرین کو امراض چشم کے لئے بھی تربیت دی جاتی ہے۔

3۔ Orthoptists
یہ بچوں میں پائی جانے والی آنکھوں کی بے قاعدگیوں اور عام لوگوں میں دو چشمی بصارت کی خرابیوں کی تشخیص کے ماہر ہوتے ہیں۔ آنکھوں کا بھینگاپن (Squint) اور دونوں آنکھوں کا ایک سیدھ میں نہ ہونا وغیرہ جیسی بے قاعدگیوں کو دور کرنا ان کا کام ہے۔

4۔ Ocularists
کسی چوٹ یا بیماری میں آنکھے گنوا چکے لوگوں کے لئے مصنوعی آنکھ بنانے اور فٹ کرنے کے ماہرین Ocularists کہلاتے ہیں۔

5۔ Opticians
یہ عینک ساز ہیں۔ ہر قسم کی عینک بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔

بصارت کا عضو، آنکھ


آنکھ قدرت الہی کا شاہکار ہے۔ دماغ کے ساتھ مل کر یہ ایک مکمل عملی نظام (Processing System) تشکیل دیتی ہے اور انتہائی ترقی یافتہ کیمرے کی طرح کام کرتی ہے۔’’ آنکھ۔۔ دماغ نظام‘‘ دیکھنے کے عمل کو انجام دیتا ہے۔ اس نظام میں آنکھ کسی بھی دیکھی جانے والی شے کا عکس بناتی ہے، پھر دماغ اس کی تشریح و توضیح کرتا ہے۔ اس طرح دیکھنے کا عمل مکمل ہوتاہے۔ آنکھ کے پپوٹے کیمرے کے شٹر کی طرح کام کرتے ہیں۔ آنکھ کے قرنیہ (Cornea) کے ذریعے بنایا گیا مرکب عدسہ کیمرے کے عدسے کی طرح روشنی کی شعاعوں کو مرکوز کرنے کا فعل انجام دیتا ہے۔ قزحیہ (Iris) ایک رنگین حلقہ نما جھلی ہے جو پردے (Diaphragm) کے طور پر عمل کرتی ہے۔ شبکیہ (Retina) فوٹو گرافک فلم کی طرح فعل انجام دیتا ہے۔ آبی مائعیہ (Aquos Humour) قرنیہ اور قزحیہ کے درمیانی خلا کو بھر دیتا ہے، جو قزحیہ کی بصری ساخت کو قائم رکھنے میں ہلکے اندرونی دباؤ کے ساتھ مدد کرتا ہے۔ زجاجی رطوبت (Vitrous Humour) عدسے اور شبکیہ کے درمیانی خلا کو بھر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے شبکیہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔
انسانی آنکھ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ قریب اور دور کی اشیاء دیکھنے کے لئے تیزی سے اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہے۔ آنکھ کا عدسہ ریشے دار عضلات (Ciliary Muscles) کی وجہ سے اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ جب ہم نزدیک کی شے کو دیکھتے ہیں تو ریشے دار عضلات عدسے پر دباؤ ڈالتے ہیں اور عدسہ باہر کی طرف ابھر جاتا ہے اور اس کا طول ماسکہ کم ہوجاتا ہے اور اس طرح عکس پردۂ شبکیہ پر بنتا ہے اور شے واضح طور پر نظر آتی ہے۔دوسری جانب جب ہم دور کی شے دیکھتے ہیں تو ریشے دار عضلات پھیل جاتے ہیں اور عدسہ پتلا ہوجاتا ہے اور اس کا طول ماسکہ بڑھ جاتا ہے اور ایک مرتبہ پھر پردۂ شبکیہ پر عکس حاصل ہوتا ہے اور شے واضح طور پر نظر آتی ہے۔ آنکھ کے عدسے کی خود بہ خود طول ماسکہ میں کمی بیشی کرنے کی صلاحیت ’’طاقتِ موافقت‘‘ (Power of Accomodation) کہلاتی ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ آنکھ کے عدسے کا طولِ ماسکہ کم زیادہ ہوسکتا ہے لیکن یہ ایک خاص حد سے کم نہیں ہوسکتا۔
اس وجہ سے آنکھ کے بالکل قریب رکھی ہوئی شے واضح طور پر دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن عام شخص دور کے اجسام مثلاً تاروں وغیرہ کو بغیر کسی مشکل کے دیکھ سکتا ہے۔ اگر دور کی شے آنکھ کے قریب لائی جائے تو اس کی ظاہر جسامت بڑھتی ہے اور اس کی تفصیل آسانی سے دکھائی دیتی ہے۔
کوئی شے اگر آنکھ کے بالکل قریب لائی جائے تو آنکھ پر زور دئیے بغیر اسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ معمول کے مطابق انسانی آنکھ کے لئے واضح بینائی کا کم از کم فاصلہ جس پر شے کو آنکھ پر زور دئے بغیر دیکھا جاسکتا ہے، تقریباً 25 سینٹی میٹر ہے۔ یہ فاصلہ بینائی کا کم از کم فاصلہ، (The Least Distance of Distinct Vision) کہلاتا ہے۔

آنکھ کے نقائص


پردۂ شبکیہ اور آنکھ کے عدسے کے درمیان فاصلہ قائم رہتا ہے لیکن انسانی آنکھ کو عدسے کا طول ماسکہ تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے 25 سینٹی میٹر سے لامحدود فاصلے تکرکھی ہوئی کسی بھی شے کا صاف عکس شبکیہ پر حاصل ہوتا ہے۔ آنکھ کے عدسے اور شبکیہ کا درمیانی فاصلہ آنکھ کے گولے کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کی آنکھ کا گولہ کسی قدر لمبوترا ہوجاتا ہے اور بعض لوگوں میں یہ چپٹا ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ تمام اشیاء کو صاف طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ عینک استعمال کرکے ان نقائص کو دور کیا جاتا ہے۔ آنکھ کے نقائص ذیل کے مطابق ہیں:
1۔ قریب نظری
(Myopia or Short Sightedness)
یہ نقص آنکھ کا گولہ کچھ لمبوترا ہوجانے کی وجہ سے یا آنکھ کے عدسے کے پھول جانے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اس حالت میں آنکھ کا عدسہ اور شبکیہ کے درمیان کا فاصلہ عام آنکھ کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اس نقص والے شخص کو قریب کی چیزیں صاف نظر آتی ہیں لیکن دور کی اشیاء صاف دکھائی نہیں دیتیں۔ ایسی حالت میں دور کی شے کا عکس پردۂ شبکیہ کے بجائے پردے اور عدسے کے درمیان ہی بن جاتا ہے۔ ایسے نقص کو قریب نظری کہتے ہیں۔ مناسب طولِ ماسکہ کے مقعر عدسے کا عینک استعمال کرکے اس نقص کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ مقعر عدسہ(Concave) اس میں سے گزرنے والی شعاعوں کو پھیلاتا ہے۔ اس وجہ سے دور کی شے کا عکس ٹھیک پردۂ شبکیہ پر پڑتا ہے۔
2۔ بعید نظری
(Hypermetropia or Long Sightness)
آنکھ کا گولہ ذرا چپٹا ہونے کی وجہ سے یہ نقص پیدا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں آنکھ کا عدسہ اور پردہ شبکیہ کے درمیان فاصلہ، عام آنکھ کے مقابلے میں کم ہوجاتا ہے۔ ایسی آنکھ میں دورکی شے کا عکس شبکیہ پر بنتا ہے لیکن قریب کی شے کا عکس پردہ شبکیہ کے پیچھے بنتا ہے۔ ایسے نقص والا شخص دور کی اشیاء کو صاف دیکھ سکتا ہے لیکن قریب کی شے کو آنکھ پر زور دے کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نقص کو بعید نظری کہتے ہیں۔ مناسب طولِ ماسکہ کا محدب عدسہ (Convex) استعمال کرکے اس نقص کو دور کیا جاسکتا ہے۔ محدب عدسے میں سے گزرنے والی شعاعیں سمٹ جاتی ہیں اس لئے یہ عدسہ شعاعوں کو مرکوز کرکے عکس کو پردۂ شبکیہ پر بناتا ہے۔
3۔ ضعیف نظری(Presbyopia)
بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ آنکھ کے پرت دار عضلات کمزورہوجاتے ہیں۔ ان میں طاقتِ موافقت کم ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے نزدیک کی چیزیں صاف نظر نہیں آتیں۔ اس نقص کو ضعیف نظری کہتے ہیں۔ یہ نقص عام طور پر چالیس سال کی عمر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو پڑھنے کے لئے مناسب طولِ ماسکہ کے محدب عدسے کی عینک استعمال کرنی پڑتی ہے۔
مندرجہ بالا نقائص کے تدارک کے لئے آج کل لوگ عینک کے بجائے اتصالی عدسے (Contact Lenses) استعمال کرتے ہیں۔
اگر آپ عینک اور اتصالی عدسے کی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے تو اس کا تیر بہ ہدف متبادل بھی ہمارے پاس ہے:
نہیں کھلتے تھے جو منظر میری بصارت پر
تصورات میں ان کی بھی دید کرلی ہے

آنکھ کے امتیازات


انسانی آنکھ دس ملین رنگوں میں امتیاز کرسکتی ہے!
روشن دن کی تجلی کے مختلف درجوں کے لئے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آنکھ اندھیری رات میں 1.6 میل (2,576میٹر) کے فاصلے پر رکھی ٹمٹماتی ہوئی شمع کو بہ آسانی دیکھ سکتی ہے۔ اگر زمین سپاٹ ہوجائے تو انسانی آنکھ افق سے پرے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے!! اور آنکھ کا سب سے بڑا امتیاز تو یہ ہے کہ:
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں!

آنکھ کے نقائص کی شناخت

بصری علم (Optical Science) اور بصری ٹکنالوجی کی ترقی نے بصارت کے محافظوں کی بہت مدد کی ہے۔ انہیں بصارت کے نقائص کو دور کرنے کے آسان اور فوری حل (Solutions) سمجھائے ہیں۔ جدید آلات کی مدد سے آنکھ کے نقائص کی شناخت بہت آسان ہوگئی ہے۔ ان آلات میں Slit Lamp ، Autorefractometer ، Retinoscope اورOpthalmoscope شامل ہیں۔ ان آلات کے ذریعہ کی گئی جانچ معروفی جانچ (Objective Test) کہلاتی ہے۔ اس جانچ کے بعدماہر امراض چشم مریض کو فاعلی جانچ (Subjective Test) سے گزارتا ہے جس میں Snellen Chart اور Trial Set شامل ہیں۔سلٹ لیب میں اعلی شدت کی روشنی کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ آنکھ کی اندرونی ساخت کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاسکے۔ اس کے ذریعے موتیا بند (Cataract) ، چشم آشوب (Conjunctivitis) ، قرنیہ کی خمیدگی، قرنیہ کی موٹائی، آنکھ میں بیرونی جسم (کچراوغیرہ) کی موجودگی وغیرہ کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ آٹوریفکٹرومیٹر ایک کمپیوٹرائزڈ مشین ہے جس کے ذریعے انعطاف کی خامی کا پتہ لگایا جاتا ہے اور عینک کے لئے عدسے تجویز کئے جاتے ہیں۔ یہ جانچ ان لوگوں کے لئے ہے جو بات نہیں کرسکتے مثلاً چھوٹے بچے اور گونگے اشخاص۔ ریٹونواسکوپ انعطاف کی خامی کو زیادہ وضاحت کے ساتھ ظاہر کرنے والی مشین ہے۔ اس کے ذریعے مریض کی آنکھ میں روشنی کی شعاع داخل کی جاتی ہے۔ پھر اس شعاع کے شبکیہ سے ٹکراکر منعکس ہونے کے عمل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ عدسے کے بالمقابل آنکھ کی اندرونی سطح کو فنڈس (Fundus) کہتے ہیں۔ فنڈس کی جانچ کے لئے Opthalmoscopy اور فنڈس فوٹو گرافی کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فنڈس فوٹوگرافی کیمرے کے ذریعے کیجاتی ہے۔ اس کیمرے میں فلیش کے ساتھ خوردبین جڑی ہوتی ہیں۔
آلات کے ذریعہ جانچ کرنے کے بعد مریض کو فاعلی جانچ (Subjective Test) سے گزارا جاتا ہے جس میں معالج عدسوں کی طاقت کی چڑھتی اور اترتی ترتیب استعمال کرواکر بصارت کے بارے میں پوچھتا ہے۔ یہ عدسے ٹرایل سیٹ میں ہوتے ہیں۔اس جانچ میں واضح ترین بصارت کے لئے عدسوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس جانچ کے لئے عام طور پر Snellen Chart استعمال کیا جاتا ہے۔ مریض کو چارٹ سے 6 میٹر (20 فیٹ) دور بٹھایا جاتا ہے۔ معالج مریض کے لئے عدسے تجویز کرتا ہے۔ عینک ساز (Optician) ان عدسوں کے مطابق عینک تیار کرکے دیتا ہے۔ لیکن بہترین عینک لگانے کے بعد بھی آپ کو اپنا دوست کہیں نظر نہ آئے تو؟
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں!

لاسک (Lasik)
آنکھ کے نقائص کو ایک خاص قسم کی جراحی کے ذریعے بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ اس جراحی (Surgery) کا نام ہے Lasik یعنی Laser Assisted in Situ Keratomileusis اس عمل میں لیزر شعاع کے ذریعے آنکھ کے اندرونی حصوں کی جسامت کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

آنکھ کے امراض


آنکھ کے کچھ امراض جو بصارت کو متاثر کرتے ہیں، ذیل کے مطابق ہیں:
(1) موتیا بند (Cataract) :۔
عام طور پر بڑی عمر کے لوگوں میں آنکھ کا شفاف عدسیہ غیر شفاف ہوجاتا ہے یعنی دھندلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بصارت متاثر ہوتیہے۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لئے عمل جراحی کے ذریعے اس عدسے کو نکال کر اس کی جگہ دوسرا مصنوعی عدسہ لگایا جاتا ہے۔
(2) ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والا آنکھ کا مرض :۔
اسے Diabetic Retinopathy کہتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں شبکیہ میں خون کی نالیوں میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

(3) گلوکوما(Glaucoma) :۔
آنکھ کے گولے میں موجود رطوبت کی نکاسی ٹھیک ڈھنگ سے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں دباؤ بڑھ جاتا ہے اور بصارت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حالت گلوکوما کہلاتی ہے۔

(4) بہ سبب زیادتی عمر
(Age Related Macular Degeneration):۔
شبکیہ کا درمیانی حصہ Macula کہلاتا ہے۔ اس میں بگاڑ (Degeneration) پیدا ہونے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوتا ہے اور بینائی متاثر ہوتی ہے۔ یہ مرض عمر دراز لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

ابن الہیثم


آنکھ اور بصارت کی بات ابن الہیثم کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ابن الہیثم عرب النسل سائنسداں ، ریاضی داں اور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے آنکھ اور بصارت کا انتہائی دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اپنے بیش بہا مشاہدات کو قلمبند کرکے اپنی عمر کے آخری دور میں شائع کیا۔ اس نے اپنی کتاب کا نام ’’کتاب المناظر‘‘ رکھا۔ بعد میں یہ کتاب The Book of Optics کے نام سے متعدد مغربی زبانوں میں شائع ہوئی۔ ’’کتاب المناظر‘‘ کی اشاعت کے ایک ہزار سال مکمل ہونے پر UN نے UNESCO کو ایک ہزارسالہ جشن منانے کی ذمہ داری سونپی۔ لہذا سال 2015 کو بین الاقوامی سالِ نور (International Year of Light) کے طور پر ساری دنیا میں منایا گیا۔

آنکھ کا وظیفۂ عظیم


آنکھ محض بصارت کا ایک آلہ نہیں ہے۔ اس کا اعلیٰ ترین وظیفہ ہے انتظار! دوستی اور انتظار ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ انتظار کی کیفیت اور اس میں آنکھوں کا رول نفسیات کا موضوع ہے۔ کیوں کرتا ہے آدمی کسی کا انتظار؟ انتظار کی کوئی حد بھی ہے؟
لحد میں کس لئے آخر کھلی رہیں آنکھیں
فضا کے بعد کسی کا جو انتظار نہ تھا!
انتظار اور ابھی۔۔۔۔۔
کا گا سب تن کھائیو ، کھائیو چُن چُن ماس
دو نیناں نہ کھائیو کہ پیا مِلن کی آس

آنکھ کے نقائص
پردۂ شبکیہ اور آنکھ کے عدسے کے درمیان فاصلہ قائم رہتا ہے لیکن انسانی آنکھ کو عدسے کا طول ماسکہ تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے 25 سینٹی میٹر سے لامحدود فاصلے تک رکھی ہوئی کسی بھی شے کا صاف عکس شبکیہ پر حاصل ہوتا ہے۔ آنکھ کے عدسے اور شبکیہ کا درمیانی فاصلہ آنکھ کے گولے کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کی آنکھ کا گولہ کسی قدر لمبوترا ہوجاتا ہے اور بعض لوگوں میں یہ چپٹا ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ تمام اشیاء کو صاف طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ عینک استعمال کرکے ان نقائص کو دور کیا جاتا ہے۔ آنکھ کے نقائص ذیل کے مطابق ہیں:

1۔ قریب نظری
(Myopia or Short Sightedness)
یہ نقص آنکھ کا گولہ کچھ لمبوترا ہوجانے کی وجہ سے یا آنکھ کے عدسے کے پھول جانے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ اس حالت میں آنکھ کا عدسہ اور شبکیہ کے درمیان کا فاصلہ عام آنکھ کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اس نقص والے شخص کو قریب کی چیزیں صاف نظر آتی ہیں لیکن دور کی اشیاء صاف دکھائی نہیں دیتیں۔ ایسی حالت میں دور کی شے کا عکس پردۂ شبکیہ کے بجائے پردے اور عدسے کے درمیان ہی بن جاتا ہے۔ ایسے نقص کو قریب نظری کہتے ہیں۔ مناسب طولِ ماسکہ کے مقعر عدسے کا عینک استعمال کرکے اس نقص کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ مقعر عدسہ(Concave) اس میں سے گزرنے والی شعاعوں کو پھیلاتا ہے۔ اس وجہ سے دور کی شے کا عکس ٹھیک پردۂ شبکیہ پر پڑتا ہے۔

2۔ بعید نظری
(Hypermetropia or Long Sightness)
آنکھ کا گولہ ذرا چپٹا ہونے کی وجہ سے یہ نقص پیدا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں آنکھ کا عدسہ اور پردہ شبکیہ کے درمیان فاصلہ، عام آنکھ کے مقابلے میں کم ہوجاتا ہے۔ ایسی آنکھ میں دورکی شے کا عکس شبکیہ پر بنتا ہے لیکن قریب کی شے کا عکس پردہ شبکیہ کے پیچھے بنتا ہے۔ ایسے نقص والا شخص دور کی اشیاء کو صاف دیکھ سکتا ہے لیکن قریب کی شے کو آنکھ پر زور دے کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس نقص کو بعید نظری کہتے ہیں۔ مناسب طولِ ماسکہ کا محدب عدسہ (Convex) استعمال کرکے اس نقص کو دور کیا جاسکتا ہے۔ محدب عدسے میں سے گزرنے والی شعاعیں سمٹ جاتی ہیں اس لئے یہ عدسہ شعاعوں کو مرکوز کرکے عکس کو پردۂ شبکیہ پر بناتا ہے۔

3۔ ضعیف نظری (Presbyopia)
بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ آنکھ کے پرت دار عضلات کمزور ہوجاتے ہیں۔ ان میں طاقتِ موافقت کم ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے نزدیک کی چیزیں صاف نظر نہیں آتیں۔ اس نقص کو ضعیف نظری کہتے ہیں۔ یہ نقص عام طور پر چالیس سال کی عمر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو پڑھنے کے لئے مناسب طولِ ماسکہ کے محدب عدسے کی عینک استعمال کرنی پڑتی ہے۔
مندرجہ بالا نقائص کے تدارک کے لئے آج کل لوگ عینک کے بجائے اتصالی عدسے (Contact Lenses) استعمال کرتے ہیں۔
اگر آپ عینک اور اتصالی عدسے کی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے تو اس کا تیر بہ ہدف متبادل بھی ہمارے پاس ہے:
نہیں کھلتے تھے جو منظر میری بصارت پر
تصورات میں ان کی بھی دید کرلی ہے

آنکھ کے امتیازات
انسانی آنکھ دس ملین رنگوں میں امتیاز کرسکتی ہے!
روشن دن کی تجلی کے مختلف درجوں کے لئے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آنکھ اندھیری رات میں 1.6 میل (2,576میٹر) کے فاصلے پر رکھی ٹمٹماتی ہوئی شمع کو بہ آسانی دیکھ سکتی ہے۔ اگر زمین سپاٹ ہوجائے تو انسانی آنکھ افق سے پرے تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے!! اور آنکھ کا سب سے بڑا امتیاز تو یہ ہے کہ:
آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں!

آنکھ کے نقائص کی شناخت
بصری علم (Optical Science) اور بصری ٹکنالوجی کی ترقی نے بصارت کے محافظوں کی بہت مدد کی ہے۔ انہیں بصارت کے نقائص کو دور کرنے کے آسان اور فوری حل (Solutions) سمجھائے ہیں۔ جدید آلات کی مدد سے آنکھ کے نقائص کی شناخت بہت آسان ہوگئی ہے۔ ان آلات میں Slit Lamp ، Autorefractometer ، Retinoscope اور Opthalmoscope شامل ہیں۔ ان آلات کے ذریعہ کی گئی جانچ معروفی جانچ (Objective Test) کہلاتی ہے۔ اس جانچ کے بعدماہر امراض چشم مریض کو فاعلی جانچ (Subjective Test) سے گزارتا ہے جس میں Snellen Chart اور Trial Set شامل ہیں۔سلٹ لیب میں اعلی شدت کی روشنی کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ آنکھ کی اندرونی ساخت کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاسکے۔ اس کے ذریعے موتیا بند (Cataract) ، چشم آشوب (Conjunctivitis) ، قرنیہ کی خمیدگی، قرنیہ کی موٹائی، آنکھ میں بیرونی جسم (کچراوغیرہ) کی موجودگی وغیرہ کا پتہ لگایا جاتا ہے۔ آٹوریفکٹرومیٹر ایک کمپیوٹرائزڈ مشین ہے جس کے ذریعے انعطاف کی خامی کا پتہ لگایا جاتا ہے اور عینک کے لئے عدسے تجویز کئے جاتے ہیں۔ یہ جانچ ان لوگوں کے لئے ہے جو بات نہیں کرسکتے مثلاً چھوٹے بچے اور گونگے اشخاص۔ ریٹونواسکوپ انعطاف کی خامی کو زیادہ وضاحت کے ساتھ ظاہر کرنے والی مشین ہے۔ اس کے ذریعے مریض کی آنکھ میں روشنی کی شعاع داخل کی جاتی ہے۔ پھر اس شعاع کے شبکیہ سے ٹکراکر منعکس ہونے کے عمل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ عدسے کے بالمقابل آنکھ کی اندرونی سطح کو فنڈس (Fundus) کہتے ہیں۔ فنڈس کی جانچ کے لئے Opthalmoscopy اور فنڈس فوٹو گرافی کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ فنڈس فوٹوگرافی کیمرے کے ذریعے کیجاتی ہے۔ اس کیمرے میں فلیش کے ساتھ خوردبین جڑی ہوتی ہیں۔
آلات کے ذریعہ جانچ کرنے کے بعد مریض کو فاعلی جانچ (Subjective Test) سے گزارا جاتا ہے جس میں معالج عدسوں کی طاقت کی چڑھتی اور اترتی ترتیب استعمال کرواکر بصارت کے بارے میں پوچھتا ہے۔ یہ عدسے ٹرایل سیٹ میں ہوتے ہیں۔ اس جانچ میں واضح ترین بصارت کے لئے عدسوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس جانچ کے لئے عام طور پر Snellen Chart استعمال کیا جاتا ہے۔ مریض کو چارٹ سے 6 میٹر (20 فیٹ) دور بٹھایا جاتا ہے۔ معالج مریض کے لئے عدسے تجویز کرتا ہے۔ عینک ساز (Optician) ان عدسوں کے مطابق عینک تیار کرکے دیتا ہے۔ لیکن بہترین عینک لگانے کے بعد بھی آپ کو اپنا دوست کہیں نظر نہ آئے تو؟
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں!

لاسک (Lasik)
آنکھ کے نقائص کو ایک خاص قسم کی جراحی کے ذریعے بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ اس جراحی (Surgery) کا نام ہے Lasik یعنی Laser Assisted in Situ Keratomileusis اس عمل میں لیزر شعاع کے ذریعے آنکھ کے اندرونی حصوں کی جسامت کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

آنکھ کے امراض
آنکھ کے کچھ امراض جو بصارت کو متاثر کرتے ہیں، ذیل کے مطابق ہیں:

(1) موتیا بند (Cataract) :۔
عام طور پر بڑی عمر کے لوگوں میں آنکھ کا شفاف عدسیہ غیر شفاف ہوجاتا ہے یعنی دھندلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بصارت متاثر ہوتی ہے۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لئے عمل جراحی کے ذریعے اس عدسے کو نکال کر اس کی جگہ دوسرا مصنوعی عدسہ لگایا جاتا ہے۔
(2) ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والا آنکھ کا مرض :۔
اسے Diabetic Retinopathy کہتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں شبکیہ میں خون کی نالیوں میں بگاڑ پیدا ہونے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

(3) گلوکوما(Glaucoma) :۔
آنکھ کے گولے میں موجود رطوبت کی نکاسی ٹھیک ڈھنگ سے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں دباؤ بڑھ جاتا ہے اور بصارت متاثر ہوتی ہے۔ یہ حالت گلوکوما کہلاتی ہے۔

(4) بہ سبب زیادتی عمر
(Age Related Macular Degeneration):۔
شبکیہ کا درمیانی حصہ Macula کہلاتا ہے۔ اس میں بگاڑ (Degeneration) پیدا ہونے کی وجہ سے یہ مرض لاحق ہوتا ہے اور بینائی متاثر ہوتی ہے۔ یہ مرض عمر دراز لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

ابن الہیثم
آنکھ اور بصارت کی بات ابن الہیثم کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ابن الہیثم عرب النسل سائنسداں ، ریاضی داں اور ماہر فلکیات تھا۔ اس نے آنکھ اور بصارت کا انتہائی دیدہ ریزی کے ساتھ مطالعہ کیا اور اپنے بیش بہا مشاہدات کو قلمبند کرکے اپنی عمر کے آخری دور میں شائع کیا۔ اس نے اپنی کتاب کا نام ’’کتاب المناظر‘‘ رکھا۔ بعد میں یہ کتاب The Book of Optics کے نام سے متعدد مغربی زبانوں میں شائع ہوئی۔ ’’کتاب المناظر‘‘ کی اشاعت کے ایک ہزار سال مکمل ہونے پر UN نے UNESCO کو ایک ہزارسالہ جشن منانے کی ذمہ داری سونپی۔ لہذا سال 2015 کو بین الاقوامی سالِ نور (International Year of Light) کے طور پر ساری دنیا میں منایا گیا۔

آنکھ کا وظیفۂ عظیم
آنکھ محض بصارت کا ایک آلہ نہیں ہے۔ اس کا اعلیٰ ترین وظیفہ ہے انتظار! دوستی اور انتظار ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ انتظار کی کیفیت اور اس میں آنکھوں کا رول نفسیات کا موضوع ہے۔ کیوں کرتا ہے آدمی کسی کا انتظار؟ انتظار کی کوئی حد بھی ہے؟

لحد میں کس لئے آخر کھلی رہیں آنکھیں
فضا کے بعد کسی کا جو انتظار نہ تھا!
انتظار اور ابھی۔۔۔۔۔
کا گا سب تن کھائیو ، کھائیو چُن چُن ماس
دو نیناں نہ کھائیو کہ پیا مِلن کی آس

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368816
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development