دالیں پروٹین کا خزانہ
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
جنوری 2016


اس کرۂ ارض پر بسنے والے ہر انسان کی ضرورتیں بے شمار ہیں۔ زما نے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان ضرورتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن کو ہم اپنی ضرورتیں سمجھتے ہیں وہ ضرورتیں تین ہی ہیں۔ ہمارے جدّامجد حضرت آدم ؑ سے لے کر زمین پر جنم لینے والے آخری انسان تک کی بنیادی ضرورتیں تین ہی تھیں اور تین ہی رہیں گی۔ یہ مشہور و معروف ضرورتیں ہیں:غذا، لباس اور رہائش۔ ان تینوں میں سب سے مقدم اور سب سے اہم غذا ہے۔ غذا کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ پانی غذا کا ہی ایک جزو ہے۔ نہ صرف زندہ رہنے بلکہ صحت برقرار رکھنے کے لئے غذا ضروری ہے۔ غذاہماری زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ ہماری ذاتی، نفسیاتی، سماجی، تمدنی اور مذہبی زندگی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہ محبت، دوستی اور سماجی رسم و رواج کے اظہار کا ذریعہ بھی ہے۔ لہذا نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں دعوتوں کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

غذا کیا ہے؟
غذا کچھ ایسے کیمیائی مادوں پر مشتمل ہوتی ہے جو ہضم ہوکر جسم میں جذب ہوتے ہیں، جسمانی نُمو میں اضافہ کرتے ہیں، توانائی مہیا کرتے ہیں اور مختلف جسمانی افعال پر قابو رکھتے ہیں۔ ان کیمیائی مادوں کو ’’غذائی اجزاء ‘‘ کہتے ہیں غذا ان اجزاء کے وسیلے سے جسمانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔ غذا چھ اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے:

(1) کاربوہائیڈریٹ (شکری مادے)
(2) پروٹین (لحمی مادے)
(3) چربی (Fats)
(4) وٹامن (حیاتین)
(5) معدنیات (Minerals)
(6) پانی

صحت کو برقرار رکھنے کے لئے مناسب غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمر، جنس اور طبعی حالات کے لحاظ سے غذائی اجزا میں تنوع کا ہونا ضروری ہے۔ ایسی مناسب غذا سائنس کی اصطلاح میں متوازن غذا (Balanced Diet) کہلاتی ہے۔ لہذا متوازن غذا وہ ہے جس سے عمر، جنس اور طبعی حالات کے لحاظ سے تمام غذائی اجزاء مناسب مقدار میں ملیں۔
انسانی صحت اور اقوام متحدہ
اقوام متحدہ (UN) اپنے قیام (24 اکتوبر 1945 ) سے ہی انسانی صحت کی بہتری کے لئے کوشاں ہے۔ جان لیوا بیماریوں سے چھٹکارا اور بہتر صحت UN کی اولیت میں شامل ہے۔ لہذا 2 دسمبر 2013 میں اس ادارے نے فیصلہ کیا تھا کہ سال 2016 کو ’’دالوں کا بین الاقوامی سال‘‘ (International Year of Pulses) کے طور پر منایا جائے گا۔
سال بھر چلنے والی اس تقریب کا مقصد عوام کو دالوں کی اہمیت سے واقف کروانا ہے۔ دالیں پروٹین اور دوسرے غذائی اجزاء کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ پروٹین اور دالوں کی اہمیت کے ساتھ ساتھ دالوں کی کاشت کرنے والے کسانو ں کے مسائل کو بھی زیر بحث لانا ایک مقصد ہے۔ یہ مسائل مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح دالوں کی کاشت میں جدید وسائل اور ٹکنالوجی کا استعمال اور دالوں کی کوالٹی میں اضافے پر بھی توجہ دی جائے گی۔

دالیں (Pulses)
ساری دنیا میں اور خاص کر ہمارے ملک میں دالیں غذا کا ایک اہم حصّہ ہیں۔ دال کو انگریزی میں Pulse کہتے ہیں۔ لفظ Pulse ، لاطینی کے Puls سے مشتق ہے جو یونانی کے Poltos سے آیا ہے۔ دال کو اکثر Grain Legume بھی کہا جاتا ہے۔ Grain کے معنی غلہ یا اناج کے ہیں اور Legume کا مطلب ہے ایسے پھلی دار پودے جن کی جڑوں میں گانٹھیں پائی جاتی ہیں۔ ان گانٹھوں میں نائٹروجن کا تعین کرنے والے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح تمام قسم کے پھلی دار پودے Leguminous Plants کہلاتے ہیں۔ یہ پودے یک سالہ (Annual) ہوتے ہیںیعنی ایک ہی موسم میں ان کا دورِ حیات مکمل ہوجاتا ہے۔ ان پودوں میں پھلیاں (Pods) لگتی ہیں جن میں مختلف جسامت، رنگ اور شکل و صورت کے ایک سے لے کر بارہ تک بیج (دانے) ہوتے ہیں۔ یہ بیج غذا کے طور پر مختلف طریقوں سے استعمال کئے جاتے ہیں:
(1) پھلیوں میں بیج جب پختہ ہوجائے ہیں تو وہ سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ ان میں پانی کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ بیجوں کو اسی حالت میں کھایا جاتا ہے۔ مثلاً چنا، مٹر، مونگ، ارہر وغیرہ۔
(2) پھلیوں میں بیج جب سوکھ جاتے ہیں تو انہیں الگ کرکے پکالیا جاتا ہے۔
(3) پھلی دار پودوں کے بیج دو دالہ (Dicotylidonous) ہوتے ہیں۔
دال ملوں میں ان بیجوں کو توڑ کر دونوں دالیں الگ کرلی جاتی ہیں۔ اس طرح حاصل شدہ دالوں کو پکاکر بطور غذا استعمال کیا جاتا ہے۔
نائٹروجن کا تعین (Fixation of Nitrogen) کرنے کی خصوصیت کی وجہ سے فصلوں کی ادلابدلی (Crop Rotation) میں پھلی دار پودے اہم رول ادا کرتے ہیں۔ سال 2016 کو دالوں کے بین الاقوامی سال (IYP-2016) کے طور پر منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان فصلوں کی اہمیت اجاگر کی جائے۔
دالیں قدیم ترین زمانے سے بطور غذا استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ انڈس وادی کی تہذیب (3300 ق م) کے دوران راوی ندی (پنجاب) کے اطراف دالوں کی کاشت کی جاتی تھی۔ اسی طرح مصر کے اہرام میں مسوری تہذیب (Lentil Civilization) دریافت کی گئی۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک دیہات میں تو پتھر کے زمانے (Stone Age) کے مٹر کے بیج دریافت کئے گئے۔
ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا دالوں کی پیداوار کرنے والا (Producer) ملک ہے۔ ساتھ ہی یہ دالوں کا سب سے بڑا صارف (Consumer) بھی ہے۔ ہندوستان کے بعد پاکستان، کینیڈا، برما، آسٹریلیا اور امریکہ ترتیب وار دالوں کے پیداواری ممالک ہیں۔ یہ ممالک ہندوستان کو بڑے پیمانے پر دالیں برآمد (Export) کرتے ہیں۔ لیکن اب کینیڈا دالو ں کا سب سے بڑا سپلائر بن کر ابھررہا ہے۔ دنیا میں دالوں کے سالانہ بیوپار میں کینیڈا کا حصہ 35 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ عالمی سطح پر دالوں کامارکیٹ 60 ملین ٹن کا ہے۔
دالیں صرف پروٹین کا خزانہ ہی نہیں بلکہ یہ ہمیں کاربوہائیڈریٹ ریشہ (Fibre)، وٹامن اور معدنیات (Minerals) بھی مہیا کرتی ہیں۔ دسترخوان پر موجود (100 گرام دال میں مختلف اجزاء کی یومیہ قدر (Daily Value) ذیل کے مطابق ہے:
(1) پروٹین 18 فیصد
(2) ریشہ 30 فیصد
(3) Folate (فولک ایسڈ) 43 فیصد
(4) مینگنیز 52فیصد
دالوں میں کولیسٹرول بالکل نہیں پایا جاتا۔ چربی اور سوڈیم بہت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ دالوں میں موجود پروٹین اچھی صحت کو قائم رکھنے او رکولسٹرول کو کم کرنے میں بڑی حد تک مددگار ہے۔

پروٹین
دالوں کا سب سے اہم اور کارآمد جزو پروٹین (Protein) ہے۔ پروٹین وہ نامیاتی مرکبات (Organic Compounds) ہیں جن میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن پائے جاتے ہیں۔ کچھ پروٹین میں گندھک اور فاسفورس بھی موجود ہوتے ہیں۔ کچھ مخصوص قسم کے پروٹین میں لوہا اور�آیوڈین بھی ہوتے ہیں۔
پروٹین ہمیں مختلف نباتی اور حیوانی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔نباتی ذرائع میں پھلیاں اور دالیں ہیں جیسے چنا، مونگ، مسور، سیم، سویا بین اور ارہر کی دال۔ اسی طرح سخت چھلکے والے اور روغنی بیج مثلاً مونگ پلی، اخروٹ، کاجو، بادام اور تل وغیرہ۔ حیوانی ذرائع میں گوشت، مچھلی، مرغی، انڈے، دودھ اور دودھ کے حاصلات وغیرہ شامل ہیں۔
پروٹین بڑے سائز کے حیاتی سالمے (Biomolecules) ہوتے ہیں اسی لئے یہ Macromolecules کہلاتے ہیں۔ یہ ایک یا ایک سے زیادہ لمبی زنجیروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ زنجیریں امینو ایسڈ (Amino Acid) کی ہوتی ہیں۔ پروٹین جانداروں کے جسم میں بہت سارے اہم افعال کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ہماری غذا چھ اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر جزو اپنی جگہ انتہائی اہم ہے۔ لیکن اپنی گونا گوں خصوصیات کی بناء پر پروٹین کو دیگر اجزاء پر فوقیت حاصل ہے۔ پروٹین کے افعال میں جسمانی نشوونما اور اس کی برقراری سب سے اہم ہے۔ جسم میں واقع ہونے والے تمام کیمیائی تعاملات پر خامرے (Enzymes) قابو رکھتے ہیں۔ خامرے دراصل پروٹین ہی ہوتے ہیں۔متعدی امراض سے حفاظت کرنے والے دفاعی جسیمے (Antibodies)بھی پروٹین ہی ہوتے ہیں۔ پروٹین کے ہر گرام سے 4 کیلوری توانائی حاصل ہوئی ہے۔ جب غذا میں کاربوہائیڈریٹ اور چربی نہ ہو تو پروٹین کو توانائی کے آخری ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اُف یہ رسوائی!

اپنی تمام تر خوبیوں اور فضائل کے باوجود دال اپنی فطرت میں بڑی شریر (Notorious) واقع ہوتی ہے۔ اپنی اسی فطرت کے بل بوتے اس نے ادب (Literature) میں بھی جگہ بنالی ہے۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے:
"Every little bean is heard as well as seen!"یعنی ہر قسم کی دال نہ صرف نظر آتی ہے بلکہ بولتی بھی ہے! یہ ہماری غذائی نالی میں پہنچ کر گیسیں پیدا کرتی ہے۔ دالوں میں موجود ریشہ (Fibre) ناقابل ہضم کاربوہائیڈریٹ اور Oligo-saccharides پر مشتمل ہوتا ہے۔ معدہ اور چھوٹی آنت کی رطوبتیں انہیں شکر کے چھوٹے چھوٹے سالمات میں تقسیم نہیں کرپاتیں۔ یہ بغیر کسی تبدیلی کے بڑی آنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں مخصوص قسم کے بیکٹیریاان کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا انہیں توڑکر میتھین (Methane) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ گیسیں اوپر چڑھ کر منہ کے ذریعے اور نیچے اتر کر مقعد کے ذریعے خارج ہوجاتی ہیں، اکثر بہ آواز بلند اور ناگوار بدبو کے ساتھ!!
آج کل دال کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، اس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پھر بھی اگر آپ کو کسی کی تحقیر کرنا مقصود ہو تو اسے ’’دال خور‘‘ کہہ دینا کافی ہے! اگر کوئی شخص آپ کے سامنے ڈینگیں مار رہا ہے، شیخی بگھار رہا ہے تو اس کا منہ بند کرنے کے لئے اتنا کہہ دینا کافی ہے ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ اپنے شناساؤں میں اپنی انکساری کا اظہار کرنا ہو تو دال دلیہ پر گزارا کرنے کی دہائی دیجئے۔آپ کسی کو’’گیٹ آؤٹ‘‘ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہہ نہیں سکتے تو شائستہ انداز میں اسے ’’دال‘‘ پیش کر دیجئے اور اس کے ساتھ ’’ف‘‘ اور ’’عین‘‘ کا اضافہ کرتے ہوئے کہہ دیجئے ’’دال ف عین ہوجا‘‘۔
دال کی اوقات اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب کسی خاندان کا تنازعہ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت دال جوتیوں میں بٹتی نظر آتی ہے!!
طنز و مزاح نگار بھی شریر ہوتے ہیں۔ دل لگی کے پردے میں نشتر زنی کرتے ہیں۔ کسی بھی موقع پر وہ اپنی شرارت سے باز نہیں آتے۔ فیاض خاں افسوسؔ مرحوم اپنی ظریفانہ شاعری (شرارت؟) کے لئے کافی مقبول تھے۔ دال نے انہیں بھی اپنی طرف متوجہ کیا تھا:
چلنے لگتی ہے تو پھر کچھ بھی چلالیتے ہیں لوگ
غیر کے چولہے پہ دال اپنی گلا لیتے ہیں لوگ

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360446
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development