گدھ موت کی نہیں، پاکیزگی کی علامت
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
ستمبر 2017

مردارخور ہونے کی وجہ سے گدھ ایک ناپسندیدہ پرندہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہی ناپسندیدہ اور راندۂ درگاہ پرندہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں نہایت اہم رول ادا کرتا ہے۔ گدھ مردہ جانوروں کے سڑتے گلتے اجسام کو کھاکر گزارا کرتا ہے، اس لئے اسے موت کی علامت (Symbol of Death) سمجھا جاتا ہے۔ تبت میں اسے مرنے والوں کی روحوں کو لے جانے والا کہا جاتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر لوگ گدھ سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن وہ بیچارہ تو زبانِ حال سے بس یہی کہتا ہے:

لاکھ نفرت کریں وہ ہم سے، عداوت رکھیں
خوش رہیں شاد رہیں، ان کو دعا دیتے ہیں

ہمارے ماحول کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھنے کی خدمت پر مامور ہونے کی وجہ سے اسے بے لوث خاکروب کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس کے اس اہم کردار کو اجاگر کرنے کی خاطر بین الاقوامی گدھ واقفیت کادن سال میں ایک مرتبہ ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ انسانوں کی مختلف سرگرمیوں کے نتیجے میں اس غریب کی بہت کم انواع باقی بچی ہیں۔ گدھ کو کراہیت کا نمائندہ خیال کرتے ہوئے اس کے تحفظ کی جانب غفلت برتی جاتی ہے۔ لیکن اب ساری دنیا میں ماہرین طیور، ماہرین ماحولیات اور رضا کار تنظیمیں گدھ کو بچانے اور اس کی انواع و آبادی میں اضافے کے لئے کوشاں ہیں۔ بین الاقوامی یومِ گدھ واقفیت ہر سال 3 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔
گدھ کی تین انواع، Gyps Bengalensis, Gyps Indicuh اور Gyps Tenuirostris پہلے سے ہی ’’شدید خطرے میں‘‘ (Critically Endangered) قرار دی جاچکی ہیں۔ گذشتہ بیس برسوں میں بھارت میں گدھ کی آبادی میں بیحد کمی واقع ہوئی ہے۔ سرخ سر والا گدھ جسے ایشیائی شاہ گدھ (Asian King Vulture) ، ہندوستانی سیاہ گدھ (Indian Black Vulture) اور پانڈیچری گدھ بھی کہا جاتا ہے، اب ’’شدید خطرے میں‘‘ آگیا ہے۔ اور اسے IUCN کی سرخ فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ (IUCN = International Union for Conservation of Nature) ۔
حالیہ برسوں میں گدھ کی آبادی میں تیز رفتار تخفیف نوٹ کی گئی ہے اور مستقبل میں اس کے اور شدید ہونے کا امکان ہے۔ گدھ کی آبادی میں گراوٹ کا سب سے اہم محرک مویشیوں کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا Diclofenac ہے۔ مرنے کے بعد بھی جانوروں کے جسم میں یہ دوا کافی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ ان مردہ جانوروں کے سڑتے گلتے اجسام کو کھانے کی وجہ سے گدھ جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ حالاں کہ اس دوا کو 2006 میں ممنوع قرار دیا جاچکا ہے۔ مگر آج کے دور میں کون کس کی سنتا ہے! گدھ کے رہائشی علاقوں میں انسانوں کی گھس پیٹھ بھی گدھوں کی آبادی میں کمی کی ایک اہم وجہ ہے۔
سرخ سر والا گدھ
سرخ سر والے گدھ (Red Headed Vulture) کا سائنسی نام Sarcogyps Calvus ہے۔ اس کی گردن گہری سرخ یا نارنجی رنگ کی ہوتی ہے جس پر بال نہیں ہوتے۔ گردن کے علاوہ بالوں سے خالی سر اور پاؤں بھی سرخ ہوتے ہیں۔ اس کی چونچ اور پورا جسم سیاہ رنگ کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے انڈین بلیک کنگ ولچویر کہتے ہیں۔ جب یہ پرندہ اڑان بھرتا ہے تو اس کے بازوؤں کے اندرونی حصوں میں سفید رنگ کی پٹی نظر آتی ہے۔ اس کی رانوں اور چونبچ کی بنیاد پر سفید رنگ کے دھبے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خصوصیات اس گدھ کی خاص پہچان ہیں۔
گدھ کی ایک دوسری قسم New World King Vulture ہے جس کا سائنسی نام Sarcoramphus Papa ہے۔یہ سرخ سر والے گدھ سے یک لخت مختلف ہے۔ یہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ IUCN کی ’’سب سے کم درجہ کی‘‘ (Least Concerned) جماعت میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی آبادی کم ہے لیکن یہ طویل و عریض نشیبی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔
گدھ عام طور پر زراعتی دیہی یا نیم صحرائی علاقوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بھارت کے بندیل کھنڈ علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ دیہاتوں کے مضافات میں بھی گدھ اپنی رہائش اختیار کرتا ہے۔ جن علاقوں میں گوشت خور شکاری حیوانات مثلاً ببر، شیر، چیتا، بھیڑیا وغیرہ پائے جاتے ہیں وہاں گدھ بھی پایا جاتا ہے۔ ان شکاری حیوانات کے شکار کے باقیات پر یہ گزر بسر کرلیتا ہے۔ ان حیوانات کی پناہ گاہوں مثلاً مدھیہ پردیش میں بندھاؤ گڑھ نیشنل پارک، اترپردیش میں دودھوانیشنل پارک، راجستھان میں کمبل گڑھ کی پناہ گاہ اور ٹمل ناؤ میں نیلگری نارتھ فارسٹ ڈیوژن کے آس پاس بھی گدھ پائے جاتے ہیں۔

ہندوستانی شاہ گدھ
ہندوستانی شاہ گدھ (The Indian King Vulture) دوسرے گدھوں کی طرح Carrion Feederہی ہے۔ یعنی مردہ جانوروں کے سڑتے گلتے گوشت پر گزارا کرنے والا پرندہ ہے تاہم یہ Cannibalistic رویہ بھی ظاہر کرتا ہے یعنی اپنی ہی نوع کے دوسرے گدھ کو کھاجاتا ہے۔ بندھاؤ گڑھ نیشنل پارک میں ستیندر ناتھ تیواری نامی شخص نے ایسے ہی ایک معاملے کی رپورٹ کی ہے۔ اس نے دیکھا کہ ہندوستانی شاہ گدھو ں کی ایک ٹولی لمبی چونچ والے گدھ کے مردہ جسم کو کھا رہی تھی۔ہندوستانی شاہ گدھ اکثر اکیلا ہی یا پھر کبھی کبھی دوسرے گدھوں کے ساتھ اونچے درختوں کی سوکھی شاخوں پر بسیرا کرتا ہے۔

گھونسلے بنانے کا موسم
سرخ سر والے گدھ نومبر سے مئی کے دوران اونچے اونچے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں۔ گھونسلے بنانے کے لئے وہ نیم، پیپل ، ہالدار، برگد اور ببول وغیرہ جیسے درختوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک موسم میں مادہ صرف ایک انڈا دیتی ہے۔ انڈے اور اس میں سے نکلنے والے چوزے کی دیکھ بھال نر اور مادہ دونوں مل کر کرتے ہیں۔ اکثر دونوں گھونسلے کو غیر محفوظ چھوڑ کر غذا کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ لیکن وہ گھونسلے سے زیادہ دور نہیں جاتے۔ وہ 500 سے 700 میٹر کی دوری سے ہی لوٹ آتے ہیں۔ ان کے گھونسلے کے ساتھ کسی دوسرے پرندے نے چھیڑ چھاڑ کی تو وہ اسے چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔

گدھ کو لاحق خطرے
انسان کی دست درازی سے آج کوئی بھی مخلوق محفوظ نہیں ہے۔ گدھ بھی اس ظلم و بربریت سے اچھوتا نہیں ہے۔ گدھ کی آبادی میں تیز رفتار تنزلی کی وجوہات ذیل کے مطابق ہیں۔
(1) شہری آبادی سے سٹے علاقوں اور جنگلات کی تباہی کے نتیجے میں گدھوں کے مسکن بھی تباہ ہوگئے ہیں۔ اب انہیں گھونسلے بنانے اور غذا کے حصول کے لئے علاقے میسر نہیں ہیں۔
(2) ڈائکلوفینیک (Diclofenac) نامی ڈرگ گدھ کی آبادی پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔
(3) شہروں اور قصبوں کے مضافاتی علاقوں میں موجود خاکدان یعنی کچرا جمع کرنے کے میدان (Dumping Grounds) کبھی گدھوں کے مسکن اور غذا کے مراکز ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ میدان ختم ہوتے جارہے ہیں اور گدھوں کو ہر دو طرح سے نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی آبادی متاثر ہورہی ہے۔
(4) مویشی پالن کے جدید طریقوں اور فضلے کو مینیج کرنے کی نئی تکنیکوں کے سبب بھی گدھوں کا حُقہ پانی بند ہوچکا ہے۔
(5) سڑکوں اور ریل کی پٹریوں پر حادثات کا شکار ہونے والے مردہ جانوروں کو کھاتے ہوئے اکثر گدھ خود حادثات کا شکار جاتے ہیں۔
(6) جنگلوں اور محفوظ پناہ گاہوں میں شکاری اور گوشت خور حیوانات کی آبادی میں کمی بھی گدھ کے لئے فالِ بد ثابت ہورہی ہے۔ اب انہیں شکاری حیوانات کے شکاروں کے باقیات نصیب نہیں ہوتے۔
(7) بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالنے والے گڈریے جہاں کہیں سے گزرتے ہیں، درختوں کی شاخیں کاٹ کر اپنے جانوروں کو کھلاتے ہیں۔ ان کی زد میں گِدھوں کے آشیانے بھی آجاتے ہیں۔
(8) مضافاتی علاقوں کے بڑے بڑے درخت ترقیاتی منصوبوں کے تحت بڑی بے دردی سے کاٹ دئے جاتے ہیں۔ لیکن درختوں کی بازآباد کاری کا کوئی منصوبہ پیش نظر نہیں ہوتا۔ ان حالات میں اب گدھوں کے سامنے صرف ایک ہی سوال ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ بقول منصور اعجاز ؔ
میرا مسکن نہ ٹھکانہ، نہ کوئی راہ گزر
میں کوئی سر پھری آوارہ ہوا ہوں جیسے

بے تعلقی کا شکار
برڈ لائف انٹرنیشنل نامی ادارے کے مطابق سرخ سروالا گدھ 1988 تک ’’انتہائی لا تعلقی کا شکار‘‘ (Least Concerned) تھا۔ پانچ برس کا مختصر عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ 1994 اسے’’ خطرے سے قریب‘‘ (Near Threatened) کی فہرست میں شامل کرلیا گیا۔ پھر 2004 میں اسے ’’خطرے میں‘‘ (Threatened) اور 2007 میں ’’شدید خطرے میں‘‘ (Critically Threatened)کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ گدھ کا یہ بیس سالہ سفر(1988تا 2007 ) انتہائی مایوس کن رہا۔ گدھ اپنی اس بدنصیبی کی داستاں مرزا غالبؔ کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسمان اپنا
اس بے سبب دشمنی کے چلتے 1930 ء تک سرخ سروالا گدھ جو کبھی کیرالا میں ایک عام پرندہ تھا، اب کہیں نظر نہیں آتا، سوائے Wayonad Wildlife Sanctuary کے۔

ہمارے شعراء کا موقف
بے تعلقی ایک چیز ہے، لیکن اظہار بے زاری اور تنفرکسی بھی زاویے سے مناسب نہیں۔ ہمارے شعراء نے اس غریب کی رسوائی اور اس کے خلاف اشتعال انگیزی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے! مثلاً جمیل الرحمٰن فرماتے ہیں:
ایک بڑے سے پیڑ کے اوپر کچھ گدھ بیٹھے اونگھ رہے ہیں
سانپوں جیسی آنکھیں میچے، خون کی خوشبو سونگھ رہے ہیں
اسی طرح مراق مرزا کہتے ہیں:
ہاتھوں میں لئے امن کا پرچم یہ مسیحا
گدھ ہیں انہیں غلطی سے کبوتر نہ سمجھنا
اور یہ کہ:

عفونت خیر ہیں تیرے ارادے
یہ گدھ اس کی گواہی دے رہے ہیں
(قیصر زیدی)

گدھ کا تحفظ
گدھ کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سمت سست روی سے ہی سہی، کام ہورہا ہے۔ ذیل کے سرکاری وغیر سرکاری ادارے گدھ کے تحفظ کے لئے دل و جاں سے مشغول ہیں:
(1) Madhya Pradesh State Biodiversity Board
(2) Indian Biodiversity conversation Society
(3) Vulture Conservation, Awareness and Interaction Campaign, Nepal
گدھ کے تحفظ اور اس کی گمشدہ انواع کی بازیافت کے لئے ضروری ہے کہ شہرں، قصبوں اور دیہاتوں سے باہر کچرے کے ڈمپنگ گراونڈ ز دوبارہ قائم کئے جائیں تاکہ گدھ مردہ جانوروں کو کھاکر اپنی غذائی ضرورت پوری کرسکیں۔ مضافاتی علاقوں میں تیزی سے بڑھنے والے اونچے درختوں کو اگانا بھی ضروری ہے تاکہ گدھوں کے لئے مناسب مسکن مہیا ہوسکے۔
گدھ کاتحفظ اور اس کی بازآباد کاری اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ خدائی خدمت گار ہے، وہ گلتے سڑتے مردہ جانوروں کو کھاکر ہمارے ماحول کو صاف ستھرا رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے کی گئی ماحول کی صفائی کو آنکا جائے تو اس کا تخمینہ کروڑوں روپے میں جاتا ہے۔ گدھ کا معدہ انتہائی تیزابی ہوتا ہے جو اس کی غذا میں موجود خطرناک اور زہریلے جراثیم کو ختم کردیتا ہے۔
گدھ کے ان اوصافِ حمیدہ کو منظر عام پر لانے کے لئے 3 ستمبر 2009 کو جنوبی افریقہ کے Birds of Prey Program کے تحت بین الاقوامی یوم گدھ واقفیت منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ گدھ کے تحفظ ، اس کی نگہداشت اور اس کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں ان ساری کوششوں کے باوجود گدھ کو ہم سے یہ شکایت ہے کہ بقول غنی اعجاز :

ادھوری ناشنیدہ داستاں ہوں
کہ شاید میں سماعت پر گراں ہوں

 

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368757
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development