سُوپر بگ ہمارا سب سے بڑا دشمن
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
اگست 2017

لفظ ’’ بیکٹیریا اب ہمارے روز مرہ میں اس طرح داخل ہو چکا ہے کہ اس کے استعمال میں واحد اور جمع کی تفریق باقی نہیں رہی ، یعنی واحد اور جمع دونوں صیغوں میں یہ لفظ یعنی بیکٹیریا استعمال کیا جا رہا ہے ، حالاں کہ یہ لفظ جمع کا صیغہ ہے جس کا واحد بیکٹیریم ہے ۔ اور اردو میں اس کے متبادل کا پتہ تو پوچھیے ہی مت ، اب واحد کے صیغے میں جرثومہ اور جمع کے طور پر جراثیم کا استعمال بہت کم ہو رہا ہے ۔ لفظ ’’جراثیم ‘‘ کے استعمال میں ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس سے مراد صرف بیماریاں پھیلانے والے خور د بینی جاندار لیے جاتے ہیں ۔
بیکٹیریا ہمارے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی ۔ نقصان دہ بیکٹیریا جب ہمیں طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں تو ہم ان کا علاج تمام طور پر اینٹی بایو ٹیکس سے کرتے ہیں ۔ اینٹی بایوٹکس نہایت پُر اثر دوائیاں ہیں اور بیماریوں کے حامل کی قسم کے بیکٹیریا کے خلاف کا ر گر ثابت ہوئی ہیں ۔ لیکن بیکٹیریا بھی بہت چالاک واقع ہوئے ہیں ۔اینٹی بایو ٹکس کے غیر ضروری استعمال ، ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر اپنے طور پر اینٹی بایوٹکس استعمال ، اینٹی بایوٹکس کی آدھی ادھوری خوراکوں کا استعمال کرنے پر بیکٹیریا ان دوائیوں کے خلاف قوت مدافعت (Resistance) پیدا کر لیتے ہیں ، اب وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ان پر ماضی میں استعمال کی گئی اینٹی بایوٹکس کا کوئی اثر نہیں ہو تا ۔ اس حالت میں یہ بیکٹیریا ’’سوپر بیکٹیریا ‘‘ یا ’’سوپر بگ‘‘ (Super bug)کہلاتے ہیں ۔
اینٹی بایوٹکس کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1928 ء میں سرالیکزینڈر فلیمنگ کے ذریعے دریافت شدہ دنیا کی پہلی اینٹی بایوٹک ’’ پینی سلین Penicillin))کے ذریعے ہزاروں زخمی سپاہیوں کی جان بچائی جاسکی ۔ پینی سلین کی ایجاد کے بعد سے آج تک بے شمار اینٹی بایوٹکس دریافت کی گئی ہیں اور تالیف بھی کی گئی ہیں ، مثلاً اسٹرپٹومائسن ، ایری تھرومائسن ، جنٹامائسن وغیرہ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سائنسداں آج تک اینٹی بایوٹکس کے بالمقابل کوئی دوسری دوا ایجاد نہیں کر پائے ہیں !
ایک عام بیکٹیریا جب سوپر بگ میں تبدیل ہو جاتا ہے تو وہ انسانوں میں امراض پیدا کرنے کے علاوہ ایک اور مصیبت کھڑی کر دیتا ہے۔ اس میں موجود اینٹی بایو ٹک مدافع جین دوسرے بیکٹیریا کو بھی سوپر بگ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیتا ہے ۔ اب یہ سلسلہ تیزی سے چل پڑا ہے ۔ Staphyllococcus Aurius ، انفکشن پیدا کرنے والا ایک بیکٹیریا ہے جو جلدی امراض سے لے کر غوینا اور دماغی بخار کا بھی ذمہ دار ہے ، اب سوپر بگ بن چکا ہے ۔ اسی طرح کئی بیکٹیریا جو سوپربگ بن چکے ہیں ، انہیں مجموعی طور پر MRSAیعنی Methecillin Resistant Staphyllococcus Aurius کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بیکٹیریا کی ایک جماعت Enterobacteriaceaeبھی اب سوپر بگ بن چکی ہے جس کے خلاف جدید ترین اینٹی بایوٹکس کی جماعت Carbapenemبھی ناکام ہو چکی ہے ۔ لہذا اب ان بیکٹیریا کو CRE یعنی Carbapenem Resistant Enterobacteriaeae کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

مدافعت پیدا کرنے کے طریقے
سوپربگ میں مدافعت (Resistance) تین طریقوں سے پیدا ہوتی ہے :
(1)بیکٹیریا کی بعض قسمیں قدرتی مدافعتی نظام کی حامل ہوتی ہیں۔
(2) جینی تبدل (Genetic Mutation)۔
(3) کسی دوسری نوع کے بیکٹیریا سے مدافعت کا حصول ۔
مدافعت یا تو اچانک ہی واقع ہو جاتی ہے یا پھر آہیستہ آہیستہ ایک خاص وقفہ میں وجود میں آتی ہے ۔ اس وقفے کے دوران بیکٹیریا بڑے صبر و تحمل سے کام لیتا ہے :
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ

علاج : سوپربگ کے مریضوں کا علاج بہت مشکل ہوتا ہے ۔ یا تو متبادل طریقۂ علاج کو اپنا یا جاتا ہے یا پھر اینٹی بایوٹکس کی طاقتور خوراکیں استعمال کروائی جاتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں علاج مہنگا ہوتا ہے۔ مریض کو ان دوائیوں کے ضمنی اثرات (Side - Effects) کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ اینٹی بایوٹکس کو اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب ضرورت ہو اور وہ معالج کے ذریعے تجویز کی گئی ہوں ۔ معالج کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’ پانچ صحیح ‘‘ (Five Right) کے اصول پر سختی سے عمل کرے :
(1 ) صحیح مریض
(2) صحیح دوا
(3) صحیح خوراک
(4) صحیح طریقۂ کار
(5) صحیح وقت

سوپر بگ کی ایک اہم خاصیت یہ ہے کہ اس اک انفکشن بڑے اسپتالوں اور دیگر اسپتالوں کے ان ڈور مریضوں میں ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اب سوپربگ نے اپنی پہنچ عوامی مقامات اور گھروں تک بنالی ہے ، چنانچہ حال ہی میں دسمبر 2016ء کی سی ڈسی Centre for Disease Control and Prevention) ) کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے کو سور اڈو شہر کے چھ لوگ سوپر بگ سے متاثر ہوئے ۔ ان چھ مریضوں نے گذشتہ ایک سال میں نہ تو کسی قسم کا علاج کروایا اور نہ کسی اسپتال میں داخل ہوئے ۔ اگر سوپربگ اسی طرح انسانی آبادیوں میں دنداناتاپھرے تو یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہوگی ۔ اتنے بڑے پیمانے پر اینٹی بایوٹکس کی رسد مہیا کرنا ناممکن ہوگا ۔ سی ڈی سی کی ایک دوسری رپورٹ کے مطابق سوپر بگ کے شکار مریضوں کی پچاس فی صد تعداد علاج کے دوران ہی فوت ہوجاتی ہے ۔

مزاحمت پیدا کرنے والا جین
ہمارا ملک بھی سوپر بگ کے خطروں سے اچھوتا نہیں ہے ۔ NDM-1 ایک ایسا جین ہے جو ایک عام بیکٹیریا کو اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحم بنا کر سوپربگ میں تبدیل کر دیتا ہے NDM-1 مخفف ہے New Delhi Metallo betalactamase-1 کا ۔ اس جین کو یہ نام اس لیے دیا گای ہے کہ سب سے پہلے 2008ء میں بھارتی نسل کے ایک غیر ملکی میں اس کا انفکشن پایا گیا تھا ۔ بر صغیر ہند و پاک کی آب و ہوا اس سوپربگ کی افزائش کے لیے کافی موزوں ہے ۔ لیکن اب امریکہ اور یوروپ کے کئی ممالک میں بھی NDM-1 نے اپنی پہنچ بنالی ہے۔

اے ایم آر (AMR)
اے ، ایم ،آر یعنی Anti Microbial Resistance یعنی دوائیوں کے خلاف خورد بینی جانداروں میں پیداہونے والی مزاحمت دن بہ دن خطرناک صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال کتنی پریشان کن ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اے ایم آر کی جائزہ کمیٹی نے 2014 ء میں یہ وارننگ جاری کی کہ اگر فوری طور پر مناسب قدم نہیں اٹھائے گئے تو سالانہ دس ملین لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے ۔ عالمی ادارۂ صحت(WHO) کی 2014 ء کی ہی ایک پریس ریلیز کے مطابق AMR سے متعلق یہ تمام باتیں اور تنبیہات پیش گوئیاں نہیں ہیں جو مستقبل میں رونما ہوں گی بلکہ یہ سب آج کی تاریخ میں واقع ہو رہا ہے، دنیا کے ہر حصے میں AMRدنیا کے کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت متاثر کر سکتا ہے ۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں AMRکے تدارک کے لیے کئی پروگرام چلائے جارہے ہیں مثلاً MRSAیعنی Methicillin Resistant Staphylococcus Aureus ، ESBLیعنی Extended Spectrum Betalactamase ، VRE یعنی Vancomycin Resistant Enterococcus اور MBABیعنی Multi Resistant A. Baumannil وغیرہ۔
یہ ساری کوششیں اپنی جگہ لیکن آج کی تاریخ میں سوپربگ کو ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایک بار اگروہ ہمارے عشق میں گرفتار ہوجائے تو پھر اس کا لائحۂ عمل ذیل کے مطابق ہوتا ہے ، بقول جوش ملیح آبادی :
سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360486
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development