اُس موڑ سے شروع کریں پھر یہ زندگی
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
جون 2017

’’زندگی ایک سفر کا نام ہے، امید کو معنی و مفہوم دینے کا سفر، ڈھلان سے اونچائی کا سفر، مجبوری سے ہمت کا سفر، محدود سے لامحدود کا سفر، گر کر سنبھلنے کا سفر، ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کا سفر‘‘۔ یہ الفاظ ہیں مہامنڈ یشور اور ناگری کے جن کا مشن ہے ماحول کو بچانے اور اس کے نقصان کی تلافی کرنے کے لئے ہزاروں کلومیٹر کا پیدل سفر! یہ وشنو دیوی سے کنیا کماری تک 4500 کلومیٹر کا سفر ہے۔ اس سفر کا مقصد ہے عوام میں ماحولیات سے متعلق بیداری پیدا کرنا، ماحول کو ہونے والے نقصان اور اس کی تلافی کے طور طریقوں کی جانکاری فراہم کرنا، عوام میں ذمہ داری کا احساس جگانا وغیرہ، ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں یقیناً یہ ایک سنگ میل ہے۔ اس سفر کے دوران پانچ کروڑ پودے لگانے کا پروگرام ہے۔ 15 اگست 2016 سے شروع ہونے والا یہ پروگرام پورے ایک سال تک چلے گا۔ ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں یہ دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک یقینی طور پر اس پروگرام سے تحریک حاصل کریں گے۔ سیاست اور خود غرضی کو بر طرف کرتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ ساری دنیا میں ایسے ہی پروگرام چلائے جائیں تو یہ کرۂ ارض ، ہماری یہ پیاری زمین ایک بار پھر زندگی گزارنے، بلکہ زندگی شروع کرنے کے لئے ایک مثالی جگہ بن جائے گی اور ہم کہہ سکیں گے:

اس موڑ سے شروع کریں پھر یہ زندگی
ہر شے جہاں حسین تھی، ہم تم تھے اجنبی


عالمی یومِ ماحول
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1972 میں عالمی یوم ماحول کی شروعات کی، موقع تھا ’’انسانی ماحول پر اسٹاک ہوم کانفرنس‘‘ (Stockholm Conference on the Human Environment) کا۔ ’’عالمی یوم ماحول‘‘ کے ساتھ ساتپ اقوام متحدہ نے United Nations Enviromnet Program یعنی UNEP کا بھی اعلان کیا۔ عالمی یوم ماحول ہر سال 5 جون کو ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم ماحول کے لئے اقوام متحدہ نے ذیل کے مطابق ایجنڈا ترتیب دیا ہے:
(1)ماحول اور اس کی تفصیلات کو انسانوں کی زندگی کا حصہ بنانا۔
(2) ماحول کے تحفظ کے لئے شہریوں کو خصوصی اختیارات دینا اور ان کی معاشی مدد کرنا۔
(3) بدلتے ہوئے ماحول کے لحاظ سے عوام کی سوچ میں تبدیلی لانا۔
(4) ماحول کے تحفظ کے لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے دنیا بھر میں عوام میں ساجھے داری (Partnership) کو یقینی بنانا۔
عالمی یوم ماحول کو ساری دنیا میں ایک تہوار کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ اس پروگرام کو رنگین اور پر اثر بنانے کے لئے سڑکوں پر ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ طرح طرح کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں کئی طرح کے انعامی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں مثلاً مضمون نگاری، گلوکاری، نمائش، بحث و مباحثہ، تقریر وغیرہ۔ ملکوں اور ریاستوں کے سربراہ اس دن کو منانے کے لئے فعال ہوجاتے ہیں۔ وہ میڈیا میں اپنے پیغام نشر کرتے ہیں، نئے نئے پروگراموں اور اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں، ماضی میں کئے گئے کاموں کا جائزہ پیش کرتے ہیں اور ماحول کے تحفظ و ترقی میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ممالک اور ریاستیں ٹکراؤ کی صو رت حال کو ٹالنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ جنگ کی صورت میں ماحول کو ہونے والے نقصان سے بچایا جاسکے۔ عالمی پیمانے پر اہم اور دور رس نتائج کے حامل سمجھوتے کئے جاتے ہیں اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آلودگی
عالمی یوم ماحول کے موقع پر ہونے والی یہ ساری سرگرمیاں ماحول کو بگاڑنے والی آلودگیوں کو ٹارگٹ کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ آلوگی کیا ہے؟ ہر وہ شے جو ماحول میں شامل ہوکر انسانی، حیوانی اور نباتی صحت کے لئے مضر ہو، آلودگی کہلاتی ہے۔ ہمارا ماحول بہت سارے علاقوں اور اکائیوں کو محیط ہے، لہذا آلودگی بھی کئی قسم کی ہے، ہوائی آلودگی، پانی کی آلودگی، زمین کی آلودگی اور صوتی آلودگی۔
اللہ علیم و حکیم نے اپنے علم اور حکمت سے پہلے تو زمین کو قابل رہائش بنایا، پھر انسان کو اس پر اتارا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لئے اس میں خیر و شر، دونوں طرح کے مزاج رکھے(سورہ الشمس:8 )۔ لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے اللہ کی اتاری ہوئی نعمتوں کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنے کے بجائے اسراف کی راہ اختیار کی، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہہ دیا تھا:
3
(سورۃ الاعراف 31:)
(یعنی کھاؤ، پیو لیکن اسراف نہ کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
ان لوگوں نے چاہتوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کو پار کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا تھا:
3
(سورۃ الاعراف 56:)
( یعنی زمین میں، اس کی حالت کی درستگی کے بعد بگاڑ پیدا نہ کرو۔)
لیکن انسان کی فطرت ہے کہ جس کام سے اسے منع کیا جاتا ہے، وہ اسے ضرور کرتا ہے۔ لہذا وقتی مفاد کی خاطر دوررس نتائج بد کی حامل سرگرمیوں کو اس نے انجام دیا اور دے رہا ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے ہونے والے ماحولی نقصانات ناقابل تجدید ہوتے ہیں۔ اب جو کچھ ماحولی وراثت بچی ہے اسی کو سنبھال کر رکھنے اور ہوشیاری اور کفایت شعاری سے اس کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ سوچتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں لیکن اس سے آگے ہم ذرا بھی نہیں سوچتے۔
لفظ ’’آلودگی‘‘ کا انگریزی متبادل Pollution ہے جو لاطینی کے لفظ Pollutionem سے مشتق ہے۔

ماحولیاتی آلودگی
صنعتی ملکوں اور سماجوں میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنجیدہ اور گمبھیر مسئلہ بن کر ابھری ہے۔ ان سماجوں نے کل حیاتی انواع کی زندگی کو سہارنے والے نظاموں کو اپنے مفاد کے لئے بے جا طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے کرۂ ارض کا ماحولی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ قدرتی وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال، غلط استعمال اور ناقص بندوبست وغیرہ ماحولی نظام کے توازن کو بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ سائنسی نقطۂ نظر سے آلودگی کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے:
’’ماحول میں ناگوار اور ناپسندیدہ تبدیلی جو انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر طبعی، کیمیائی یا حیاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ ہوا، پانی اور زمین میں ہونے والی یہ تبدیلی انسانی، حیوانی اور نباتی زندگی کے لئے نقصان دہ اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔‘‘
ماحولیاتی آلودگی کی وجوہات جو اکثر بیان کی جاتی ہیں، یہ ہیں:
(1) انسانی آبادی میں بے قابو اضافہ
(2) صنعتوں کا تیزی سے بڑھنا
(3) غیر منصوبہ بندشہری آبادکاری
(4) سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقی

ہوا کی آلودگی
ہوا کی آلودگی کی وجہ سے اس (ہوا کے) اجزائے ترکیبی میں عالمی سطح پر تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ یہ تبدیلی صنعتی علاقوں میں بڑے پیمانے پر واقع ہوتی ہے۔ ہوائی آلودگی صنعتوں اور کارخانوں، تھرمل پاور اسٹیشنوں، گھریلو احتراق (ایندھن کا جلنا) وغیرہ کے نتیجے میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ہوتی ہے۔ زیادہ تر گیسی اور ذراتی آلائندے ایندھن کے جلنے سے ہوا میں شامل ہوتے ہیں۔ لکڑی اور کوئلے کے جلنے سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور راکھ کے ذرات شامل ہوجاتے ہیں۔ سواریوں میں جلنے والے ایندھن سے سیسہ، کاربن مونوآکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈز ہوا میں شامل ہوتی ہیں۔ ہوا میں موجود سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کے آکسائیڈز تیزابی بارش (Acid Rain) کے ذمہ دار ہیں۔ کاربن مونو آکسائیڈ ایک زہریلی گیس ہے۔ یہ خون کی آکسیجن لے جانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گیس ہیٹرز (Gas Heaters) اور کوئلے کی کانوں وغیرہ سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائیڈ کی زہر آلودگی سے ہر سال کئی اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ سواریوں کے ایندھن کے احتراق سے خارج ہونے والا سیسہ خون میں ہیموگلوبن کی تیاری کو متاثر کرتا ہے۔ ریفریجریشن اور ایر کرافٹ میں استعمال ہونے والے Propellants میں کلوروفلورو کاربنس (CFCs) موجود ہوتے ہیں جو اوژون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ صنعتی کاموں مثلاً دھماکہ (Blasting) ، چھید کرنا (Drilling)، پیسنا (Grinding) اور خشک کرنا (Drying) وغیرہ کے نتیجے میں ہوا میں ٹھوس اور مائع ذرات شامل ہوجاتے ہیں۔سانس کے ذریعے یہ ذرات پھیپھڑوں میں پہنچ کر مختلف امراض پیدا کرتے ہیں۔ ہیموگلوبن آکسیجن کی بہ نسبت نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کو زیادہ آسانی سے جذب کرلیتا ہے۔ لہذا سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچنے والی نائٹروجن ڈائی آکسائڈ کی 80 سے 90 فیصد مقدار خون میں جذب ہوجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خون کی آکسیجن لیجانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ گیس پھیپھڑوں کی بافتوں کو کمزور کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں پھیپھڑے کے کینسر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے امغائی سیما (Emphysema) نامی مرض بھی لاحق ہوتا ہے۔ اس مرض میں پھیپھڑوں کی مہین ہوائی تھیلیاں (Alveoli) پھٹ جاتی ہیں اور پھیپھڑوں میں واقع ہونے والا آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تبادلہ متاثر ہوتا ہے۔ یہ گیس یعنی نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ برون چائٹس(Bronchitis) اور برنکو نمونیا نامی امراض بھی پیدا کرتی ہے۔ سورج کی روشنی میں یہ گیس ہائیڈروکاربنس کے ساتھ تعامل کرکے اوژون پیدا کرتی ہے۔ اوژون بہت ہی زہریلی گیس ہے اور اس سے دمہ (Asthma) کا مرض لاحق ہوتا ہے۔

پانی کی آلودگی
پانی کی آلودگی پانی کے معیار (Quality) کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے۔ پانی کی آلودگی ماحولیاتی نظام کے توازن کو بگاڑ کر انسانوں اور دوسرے جانداروں کی صحت کو زبردست نقصان پہنچاتی ہے۔ غیر نامیاتی، نامیاتی اور حیاتی مادوں کی شمولیت پانی کو آلودہ کرتی ہے۔ مختلف فیکٹریوں، کاغذ کی ملوں، شکر کی ملوں، چمڑے کو رنگنے کے کارخانوں اور شہری و دیہی علاقوں سے خارج ہونے والا گندہ پانی ندیوں میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ندیوں کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔

زراعت میں استعمال ہونے والی حشرات کش (کیڑے مار) دوائیوں اور غیر نامیاتی کھادوں کے بارش کے پانی کے ساتھ ندیوں میں شامل ہونے سے بھی ان کا پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ ان کھادوں میں موجود نباتات کے لئے غذائی مادے (نائٹریٹ اور فاسفیٹ) پانی کے ذخیروں کو ’’مالا مال (Enrich) کردیتے ہیں۔ پانی کے مالا مال ہونے کے نتیجے میں جھیلوں اور پانی کے دوسرے ذخیروں میں Eutriphication کا عمل واقع ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں کائی (Algae) کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور پانی میں حل شدہ آکسیجن میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ سمندروں میں چلنے والے آئیل کے ٹینکروں سے ہونے والے رساؤ سے سمندری پانی آلودہ ہوجاتا ہے۔ یہ تیل پانی کی سطح پر پھیل کر آکسیجن کی رسد کو منقطع کردیتا ہے۔ سمندری حیوانات کی سانس کی نالیوں میں پہنچ کر یہ تیل عمل تنفس کو متاثر کرتا ہے۔ آبی آلودگی کی وجہ سے نقصان دہ کیمیائی مادے مثلاً DDT (جس کا استعمال اب بالکل محدود کردیا گیا ہے) ہماری غذائی زنجیر میں شامل ہوجاتے ہیں۔

صوتی آلودگی
شور شرابہ صوتی آلوگی یعنی آواز کی آلودگی کہلاتا ہے۔ ایسی آواز جس کی خواہش نہ ہو یعنی Unwanted Sound کو شور کہتے ہیں۔ کوئی آواز دل کش ہے یا شور، اسے ذیل کے امور طے کرتے ہیں:
(1) آواز کی شدت (Loudness)
(2) آواز کی مدت (Duration)
(3) آواز کا زیروبم (Rhythm)
(4) سننے والے کا موڈ

صوتی آلودگی کا فوری اثر سماعت پر ہوتا ہے۔ شور سماعت پر اثر انداز ہوتا ہے اور بہرے پن کا سبب بن سکتا ہے۔ بے چینی، پریشانی، تشویش، گھبراہٹ، BP کا بڑھنا اور خوف صوتی آلودگی کے نتائج ہیں۔ صوتی آلودگی کی وجہ سے دل کے دھڑکنے کی شرح بڑھ جاتی ہے، خون کی نالیاں سکڑنے لگتی ہیں، نظامِ انہضام بگڑ جاتا ہے اورآنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔
آواز کی شدت ڈیسی بل (dB) نامی اکائی میں ناپی جاتی ہے۔ قابل سماعت آواز کی شدت 10 dB طے کی گئی ہے۔ کان میں سرگوشی 20 dB کی ہوتی ہے، عام بات چیت میں آواز کی شدت 35-600 dB ہوتی ہے۔ 80 dB اور اس سے زیادہ شدت کی آواز صوتی آلودگی میں شمار کی جاتی ہے۔ وہ سماعت کو متاثر کرتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت(WHO) نے شہروں میں محفوظ آواز کی شدت 45 dB طے کی ہے۔

PM 10 اور PM 2.5
PM کا مطلب ہے Particulate Matter یعنی ذراتی مادہ۔ اعداد 10 اور 2.5 ہوا میں آزادانہ تیرتے ہوئے ذرات کے قطر کو مائکرومیٹر (Mm) میں ظاہر کرتے ہیں۔ 10 Mm سے کم قطر والے ذرات RSPM کہلاتے ہیں یعنی Respirable Suspended Particulate Matter یعنی سانس کے ذریعہ تنفس میں داخل ہونے والا ذراتی مادہ۔ یہ مادہ اگر 2.5 Mm سے کم قطر کا ہو تو وہ سانس کی نالی سے بڑھ کر پھیپھڑوں کی مہین ہوائی تھیلیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے شدید امراض، ٹیومر اور کینسر کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔

تابکاری آلودگی
تابکاری آلودگی (Radioactive Pollution) زندگی کو سہارا دینے والے تمام نظاموں کو بے انتہا نقصان پہنچاتی ہے۔ چند بھاری عناصر کے مرکزوں کے ٹوٹنے کے عمل میں الفا اور بیٹا ذرات اور گاما شعاعیں بہت تیز رفتار ی سے خارج ہوتی ہیں۔ انسانی سرگرمیوں مثلاً تابکاری مادوں کو کانوں (Mines) سے باہر نکالنا، ان کی تخلیص (Refining) کرنا، پُرامن اور جنگی مقاصد کے لئے ان کا استعمال اور طب میں ان کا بڑھتا ہوا استعمال تابکاری آلودگی کا موجب ہے۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کی جانچ کے دوران کئے جانے والے دھماکوں سے بھی تابکاری آلودگی پھیلتی ہے۔ نیوکلیائی توانائی کے مراکز، نیوکلیائی ایندھن اور تابکار ہم جا (Isotopes) کی تیاری میں بھی تابکاری آلودگی پھیلتی ہے۔ تمام قسم کے جاندار تابکاری آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔ طویل عرصے تک یا بار بار تابکاری کے زیر اثر آنے سے انسانوں میں کینسر اور لیوکیمیا لاحق ہوتا ہے اور نوعی تبدل (Mutation) کا خطرہ بھی بنا رہتا ہے۔

مٹی کی آلودگی اور زمین کی تباہی
مٹی کی آلودگی میں حشرات کش و جراثیم کش ادویات، کیمیائی کھادیں، صنعتی فضلہ، کان کنی کافضلہ، نمکیات، تابکار مادے، ٹن، لوہا، سیسہ، پارہ، ایلمونیم اور پلاسٹک شامل ہیں۔ حشرات کش ادویات مٹی میں پائے جانے والے خوردبینی جانداروں کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ انسان کی غذائی زنجیر میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ زہریلے بیکار مادے مٹی کو کاشت کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ نقصان دہ دھاتیں مثلاً آرسینک اور ادھاتوں کے فلورائیڈ اگر مٹی میں موجود ہوں تو وہ نہ صرف فصلوں کو آلودہ کرتے ہیں بلکہ زیر زمین پانی کو بھی آلودہ کردیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مٹی کی آلودگی زمین کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔اس کے نتیجہ میں بنجر زمین آہستہ آہستہ ریگستان میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جنگلات کی کٹائی(Deforestation)
جنگلات کی کٹائی معیشت، زندگی کے معیار اور ماحول کے مستقبل کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ہمارے ملک میں جنگلات کی کٹائی کے محرکات ذیل کے مطابق ہیں:
(1) انسانوں اور مویشیوں کی آبادی کا دھماکہ
(2) عمارتی لکڑی اور نباتی ایندھن کی بڑھتی مانگ
(3) زراعتی علاقوں میں توسیع
(4) چراگاہوں کی بڑھتی مانگ
(5) عمارتوں کی بے پناہ تعمیر
کسی ملک کی بقا کے لئے اس کی زمین کا 33 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہونا ضروری ہے۔ لیکن عاقبت نا اندیشانہ رویے کے نتیجے میں جنگلات کی اندھا دھند کٹائی ذیل کے نقصانات کو دعوت دے رہی ہے:
(1) زمین کا کٹاؤ (Erosion)
(2) سیلابوں کی شدت
(3) خشک سالی
(4) قیمتی جنگلاتی زندگی کا نقصان

ہمارے ملک میں ہر سال کم و بیش 1.5 ملین ہیکٹر جنگلات کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں ہر سال ایک فیصد زمین بنجر ہوجاتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی بارش میں 3 سے 4 فیصد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔

جنگلات کی بازیافت (Aforestation)
بگڑے ہوئے ماحول کو اور زیادہ بگڑنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کی تمام حکومتیں دونکاتی پروگرام پر عمل کریں:
(1) جنگلات کی کٹائی پر سختی سے روک لگائیں
(2) خالی اور بنجر زمینوں پر دوبارہ جنگلات اگائیں۔
اس طرح جنگلات کی بازیافت سے ماحول کا عدم توازن آہستہ آہستہ اعتدال پر آجائے گا۔ حیاتی تنوع دوبارہ قائم ہوگا، مٹی اور پانی کا تحفظ ہوسکے گا، سیلابوں میں کمی واقع ہوگی، قحط سالی سے نجات ملے گی۔ سنامی کا خطرہ ٹلے گا، جنگلات اور پہاڑی علاقوں کے قبائلی پرسکون زندگی گزار سکیں گے اور ہم سب سکون و چین کا سانس لے سکیں گے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک وسیع سماجی جنگلاتی پروگرام کی ضرورت ہے۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360391
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development