جل ہے تو کل ہے۔۔!
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
مئی 2017

اس کرۂ ارض پر ہوا کے بعد سب سے زیادہ اہم اور ضروری شئ پانی ہے۔ پانی ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مفت عطا کی ہے، بے مانگے مہیا کی ہے۔ پانی آدمی کا سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ پانی ہماری تمام ضروریات کی تکمیل کے لئے لازمی ہے۔ ہماری غذا، صحت، حفظان صحت، صفائی و پاکیزگی، توانائی وغیرہ تمام کی تمام پانی کی مرہون منت ہیں۔ پانی کا مناسب انتظام (Management) وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ پانی کے بغیر نہ تو سماج کا وجود ممکن ہے اور نہ معیشت و ثقافت کا۔ انسانی ضروریات کے لئے پانی کی فراہمی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے لیکن پانی سے متعلق مسائل اور ان کا حل اکثر مقامی حیثیت کا حامل ہے۔ ہمارا قدرتی ماحول ہمیں صاف ستھرا، پینے کے قابل پانی مہیا کرتا ہے۔ حیاتی تنوع (Bio-diversity) قدرتی ماحول کی اس صلاحیت میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
پینے کے قابل صاف پانی کی فراہمی کے لئے قائم ’’حیاتی تنوع کے لئے اجتماع‘‘ (Convention on Biolgical Diversity) اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ قدرتی ماحول اور حیاتی تنوع میں تال میل پھرسے بحال کیا جائے۔ صاف پانی کی فراہمی دنیا سے غریبی (Poverty)کو ختم کرنے میں مددگار ہوگی۔ انسانی ضروریات اور ماحول کی ضروریات بظاہر ایک دوسرے کی متضاد ہیں مثلاً انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جنگلات کو صاف کرتا چلا جارہا ہے جب کہ قدرتی ماحول جنگلات کے علاقے میں توسیع چاہتا ہے۔ اسی طرح پانی کی تقسیم میں بھی انسان کی بالادستی قدرتی ماحول کو کمزور کررہی ہے۔ انسان اور قدرتی ماحول کے اس ٹکراؤ میں ایک طرفہ نقصان کی صورتِ حال بنی ہوئی ہے۔ بظاہر تو یہ نقصان قدرتی ماحول کو پہنچ رہا ہے لیکن انسان کے وجود کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی ماحول سے جوڑ رکھا ہے، گویا قدرتی ماحول کی تباہی خود انسان کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام خود انسان کررہا ہے!
حیاتی تنوع کا پانی سے گہرا تعلق ہے۔ پانی کا تعلق ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے بھی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی کے باوجود آج بھی دور دراز کے علاقوں میں صاف پانی کے لئے لوگ اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ پانی کی فراہمی میں خرچ کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ وہ وقت جو روزی روٹی کمانے میں صرف ہونا چاہئے، پانی کی تلاش میں خرچ ہوجاتا ہے۔ پانی کا ناقص انتظام کسی علاقے یا کسی ملک کی غریبی کا اشاریہ ہے۔
انسان کی بنیادی ضرورت ایسا صاف ستھرا پانی ہے جس کے نتیجے میں فوری یادیر سے ہونے والی بیماریاں لاحق نہ ہوں۔ ہم غذا کے بغیر ہفتوں زندہ رہ سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر خشکی (Dehydration) کے سبب ہم دو دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔
سطح زمین کا 71 فیصد حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے لیکن پھر بھی قابل استعمال پانی کی کمی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پانی کی بڑی مقدار نمکین ہے۔ کل پانی کا صرف 2.5 فیصد حصہ صاف ستھرے اور قابلِ استعمال پانی پر مشتمل ہے۔ اس میں سے بھی 1.5 حصہ قطبین کے علاقوں میں برف کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح صرف ایک فیصد صاف ستھرا قابلِ استعمال پانی انسانو ں کو میسّر ہے۔ پانی کی یہ قلیل مقدار بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں غیر یکساں طور پر بکھری پڑی ہے۔ 2.8 بلین لوگ یعنی دنیا کی 40 فیصد آبادی پانی کی قلت سے دوچار ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے نتیجے میں پانی کی مزید قلت یقینی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اشیائے ضروریہ (بشمول پانی ) کی قلت دراصل آبادی میں اضافے کی وجہ سے نہیں بلکہ مینیجمنٹ میں خامیوں کی وجہ سے ہے۔ نئے مطالعوں کے مطابق آبادی میں اضافے کے علاقے افریقہ، جنوبی ایشیاء، مغربی ایشیاء اور جنوبی امریکہ کے کچھ حصے ہیں۔ پانی کی قلت سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے افراد کی تعداد ایک بلین ہے۔ تقریباً دو بلین لوگ ہرسال ڈائریا میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان میں 70 فیصد بچے ہوتے ہیں۔ گندہ پانی میں ڈائریا کے علاوہ دوسری بیماریوں کے جراثیم بھی پائے جاتے ہیں۔ پانی کے نامناسب مینجمنٹ کی وجہ سے ملیریا کو بھی پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ اسے برتنوں اور ٹنکیوں میں اسٹور کرکے رکھتے ہیں۔ یہ جمع کیا ہوا پانی مچھروں کو پنپنے کے لئے سازگار حالات مہیا کرتا ہے۔ مچھر ملیریا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔
چھوٹے بچوں کو صاف پانی کی صحیح مقدار نہ ملے تو ان میں نمو (Growth) متاثر ہوتی ہے۔ بچوں میں نموکی یہ کمی مستقل نوعیت کی ہوتی ہے۔ ان کی مناعت (Immunity) بھی متاثر ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی شرح اموات بڑھ جاتی ہے۔ غیر معیاری پانی، صفائی اور حفظان صحت سے لاپرواہی اور پانی کے انتظام میں خامیوں کی وجہ سے بچوں اور ان کی ماؤں کا وزن گھٹ جاتا ہے۔
انسان کو روزانہ پینے کے لئے صرف 3 سے 4 لیٹر پانی درکار ہے۔ یہ مقدار ہمارے ماحول پر بوجھ نہیں ہے۔ پینے کے علاوہ دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہونے والے پانی کی مقدار میں بہت زیادہ تفاوت پایا جاتا ہے۔ پانی کا اسراف انسانوں کی معاشی حالت پر منحصر ہے۔ زراعت، صنعت اور توانائی کی پیداوار پانی کی سب سے زیادہ مقدار استعمال کرنے والی اکائیاں ہیں۔ عالمی سطح پر صرف زراعت کے لئے 70 فیصد پانی درکار ہے۔ مستقبل میں پانی کے ذخیروں پر اور زیادہ بوجھ پڑنا یقینی ہے۔ ان حالات میں آب و ہوا کی تبدیلی (Climate Change) ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ۔۔۔۔
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

پانی کا دور (Water Cycle)
پانی کے صحیح مینجمنٹ کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ پانی ہمارے ماحول میں کس طرح گردش کرتا ہے۔ پانی زمین کی سطح کے اوپر اور نیچے لگاتار گردش کرتا رہتا ہے۔ پانی کی گردش یعنی برف کا پگھل کر پانی میں تبدیل ہونا اور پانی کا بھاپ بن کر فضا میں شامل ہوجانا اور پھر بادل بن کر بارش کی شکل میں واپس زمین پر آجانا ہے۔ اس لحاظ سے دریاؤں، سمندروں،جھیلوں، تالابوں اور کنوؤں وغیرہ کا بظاہر تھما ہوا پانی بھی گردش میں رہتاہے۔ گردش سے مرادپانی کا بہنا نہیں بلکہ اس کا تبدیلی مکان ہے۔ پانی کے ذخیروں کی سطح پر عمل تبخیر (Evaporation) واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پانی بخار (بھاپ) کی شکل میں فضا میں شامل ہوجاتا ہے۔ نباتات بھی اپنے مختلف حصوں خاص کر پتوں میں پائے جانے والے مسامات (Pores) کے ذریعہ پانی کو بخار کی شکل میں خارج کرتے ہیں، یہ عمل تبخیر نباتی (Transpiration) کہلاتا ہے۔ پانی مادے کی تینوں حالتوں ٹھوس، مائع اور گیس کی شکل میں پایا جاتا ہے۔ سمندروں کے اوپر پانی اکثر بخارات کی شکل میں موجود رہتا ہے، جس کے نتیجے میں بادل بنتے ہیں، یہ بادل سمندراور زمین (خشکی) دونوں جگہ برستے ہیں۔ بارش کی وجہ سے پانی کے اس دور میں جاندار شامل نہیں ہوتے اس لئے اسے ’’ارضی آبی دور‘‘ کہتے ہیں۔ پانی کی دوسری قسم کے دور میں جاندار شامل ہوتے ہیں۔ نباتات مٹی سے پانی جذب کرتے ہیں۔ یہ پانی کو شعاعی ترکیب (Photosynthesis) کے لئے خام شے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نباتات کے ہوائی حصوں سے تبخیرِ نباتی کے دوران پانی بخارات کی شکل میں خارج ہوکر فضا میں شامل ہوجاتا ہے اور پھر بارش کی شکل میں زمین پر واپس آجاتا ہے۔ یہ ’’حیاتی آبی دور‘‘ کہلاتا ہے۔

حیاتی تنوع (Bio-diversity)
نباتات، حیوانات، خوردبینی جانداروں اور ماحولی نظاموں (Ecosystems) میں پائے جانے والے تفاوت کو حیاتی تنوع کہتے ہیں۔ حیاتی تنوع پانی کی گردش کا ذمہ دار ہے۔ ایک گلاس پانی جو ہم پیتے ہیں، کئی ماحولی نظاموں سے گزرکر ہم تک پہنچتا ہے۔ قدرتی ماحول، جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی گئی ہو، ہمیں قابلِ استعمال پانی مہیا کرتا ہے۔ یہ پانی جھرنوں، جھیلوں اور کنوؤں وغیرہ میں جمع ہوتا ہے۔ پانی کی رسد سائنسی زبان میں ’’خدمت‘‘ (Service) کہلاتی ہے جو ہمارا قدرتی ماحول ہمیں مہیا کرتا ہے۔ حیاتی تنوع قدرتی ماحول کی خدمت مہیا کرنے کی صلاحیت کو قائم رکھتا ہے۔ حیاتی تنوع پانی کے مکرر دور (Recycling) کے ذریعے قدرتی ماحول کو خدمت مہیا کرنے کے قابل بناتا ہے۔
جنگلات کی مٹی بارش کے پانی کو فوراً جذب کرلیتی ہے۔ یہ پانی کو نہ صرف ذخیرہ کرکے رکھتی ہے بلکہ پانی کے معیار اور خوبی (Quality) کو بھی برقرار رکھتی ہے۔ جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں مٹی ڈھیلی پڑجاتی ہے، پھر اس میں کٹاؤ (Erosion) کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے زمین کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، ساتھ ہی پانی کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ جنگلات حیاتی تنوع سے مالامال ہوتے ہیں۔ چھوٹے بڑے شہر اپنی پانی کی ضرورت کے لئے اسی حیاتی تنوع پر انحصار کرتے ہیں۔ مٹی، نباتات اور حیوانات نہ صرف پانی کے دور کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ اسے خالص اور صاف کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
مرطوب زمین (Wetland) کے نباتات فاسفورس اور نائٹروجن جیسے نقصان دہ مادوں کو جذب کرلیتے ہیں اور انہیں پینے کے پانی تک پہنچنے نہیں دیتے۔ یہ نباتات پانی سے زہریلے مادوں مثلاً وزنی دھاتوں (Heavy Metals) کو پانی سے نکال کر اپنی نسیجوں (Tissues) میں جمع کرلیتے ہیں۔
پینے کے پانی کی قلت اکثر انسانی برتاؤ کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ جن علاقوں میں اس کی سخت قلت ہے وہاں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ماہرین نے دو متبادل ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ پانی سے نمک اور دوسری کثافتوں اور آلائشوں کو دور کرنے کے لئے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور دوسرے، قدرتی ماحول کی تجدید کی جائے۔ جدید ٹکنالوجی انسان سے اس کی غلطیوں اور زیادتیوں کی قیمت وصول کرتی ہے۔ دوسری طرف قدرتی ماحول کی تجدید کے لئے زر مہیا کرنے کی بہ نسبت کچھ کرنے کی خواہش ضروری ہے۔ یہ تجدیدی عمل کفایتی ہونے کے ساتھ پُر اثر اور دیرپا بھی ہے۔ دنیا کے مال دار ممالک میں بھی اس تجدیدی عمل کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
پینے کے پانی کا مسئلہ وقتی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ حیاتی تنوع کی حفاظت اور ترقی نہ صرف انسانوں کے پینے کے پانی کے مسئلے کو حل کرے گی بلکہ نباتات اور حیوانات کی مختلف انواع کو بھی تحفظ مہیا کرے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حیاتی تنوع اور پانی ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔
انسان کی فطرت بھی عجیب ہے۔ ایک طرف تو وہ پینے کے لئے صاف پانی کی وافر مقدار چاہتا ہے لیکن دوسری طرف حیاتی تنوع سے اُسے خدا واسطے کا بیر ہے! اس معاملے میں انسان کی نفسیات بھی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ انسان کی نفسیات نہایت پیچیدہ ہے۔ اس کی انا اسے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے سے روکتی ہے۔ اکثر وہ اپنی غلطیوں پر نا دم و پشیمان بھی ہوجاتا ہے لیکن غلطیوں کے ازالے کے لئے عملی قدم اٹھانے کے بجائے وہ خود کو سزا دینا پسند کرتا ہے۔ تکلیف اٹھاکر بھی اپنی ٹوپی کو ترچھی رکھنا چاہتا ہے۔۔۔۔

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم، مشکل پسِ مشکل آجائے

 

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360309
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development