بے خودی لے گئی کہاں ہم کو۔۔!
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
اپریل 2017


18دسمبر2007کو قطر کی ملکہ اور امیرقطر کے ایماء پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ریزولیوشن 62/139پاس کیا جس کے مطابق 2؍اپریل کے دن کو عالمی یوم بے ابلاغی بیداری (World Autism Awareness Day)کے طورپر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام میں بے ابلاغی (Autism) سے متعلق معلومات فراہم کرنا ہے۔ بے ابلاغی یعنی آٹزم کے مریض بچوں اور بالغوں کے علاج کا انتظام کرنا اور ان سے ہمدردی کا برتاؤ کرنا اور انہیں سماجی دھارے میں شامل کرنا بھی اس اہم دن کے مقاصد ہیں۔ بے ابلاغی کے مریض ذہین بھی ہوتے ہیں۔ ان کی ذہانت کی شناخت کرکے ان کی تربیت کرنا اور ان کے لیے لائحہ عمل کرنا ضروری ہے۔ دنیا بھر میں موجود سیکڑوں انجمنیں اس کام میں جٹی ہوئی ہیں۔ یہ انجمنیں آٹزم کے مریضو ں کے لیے وقف ہیں۔
 
آٹزم کیا ہے؟
آٹزم ایک دماغی بے قاعدگی (Mental Disorder)ہے جو بچوں میں سماجی، جذباتی اور برتاؤ کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ آٹزم میں بچوں کو لوگوں کے ساتھ ردعمل اور ابلاغ (Communication)میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آٹزم کی دوسری علامتوں میں کسی کام یا بات کو باربار دہرانا، کسی خاص بات یا سرگرمی میں بہت زیادہ دلچسپی لینا اور دوسری باتوں اور سرگرمیوں کو نظرانداز کرنا شامل ہے۔ آٹزم کی علامات عام طورپر بچوں میں تین سال کی عمر کے آس پاس ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں اور پھر تاحیات قائم رہتی ہیں۔ یہ بے قاعدگی لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ پائی جاتی ہے۔
لفظ Autism، لاطینی لفظAutoسے بنا ہے جس کے معنی ہیں Self یعنی خود، آپ یا اپنی ذات، جس کا مفہوم ہے اپنے آپ کو آس پاس کی دنیا سے الگ کرلینا،خود کو اپنی ذات تک محدود کرلینا۔
امریکی ماہرنفسیات لیو کینر) (Leo Kannerنے سب سے پہلے اس بے قاعدگی کی 1943میں شناخت کی۔ ابتدا میں آٹزم کو Schizophreniaکی ایک قسم سمجھا جاتا تھا مگر 1960سے اسے ایک الگ بے قاعدگی کے طورپر سمجھا جانے لگا۔ آٹزم، سائیکوسس (Psychosis)کی طرح کوئی دماغی یا نفسیاتی مرض نہیں ہے۔ جدید ماہرین نفسیات نے آٹزم کی علامت کا ایک سلسلہ دریافت کیا ہے جسے) (Spectrumکا نام دیاگیا ہے۔
آٹزم کی وجوہات، تحقیق کا ایک وسیع علاقہ ہے۔ اس تحقیقی میدان میں نزاع واختلافات کی بھی کافی گنجائش ہے۔ گہرے مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ آٹزم، دماغی کارکردگی میں بعض بے قاعدگیوں کا نتیجہ ہے۔ اکثرمعاملوں میں بے قاعدگی جینی (Genetic)نوعیت کی ہوتی ہے۔
آٹزم کا شکار بچے کی پرورش کرنا، خاندان کے لیے ایک زبردست چیلنج ہوتا ہے۔ اس کی تربیت ایک صبرآزماکام ہے۔ آٹزم کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔ البتہ دوائیاں اور تھیراپی علامات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ آٹزم کے زیادہ تر مریضوں کو زندگی بھر سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ بعض مریض بڑی حدتک نارمل زندگی جینا سیکھ لیتے ہیں۔

آٹزم کا پھیلاؤ
1990سے آٹزم میں مبتلا ہوئے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے 1990کی دہائی میں تین ہزار بچوں میں ایک بچہ آٹزم کا شکار پایا گیا۔ لیکن اب اندازہ لگایا جارہا ہے کہ ہر 500بچوں میں ایک بچہ اس کاشکار ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ 150بچوں میں ایک بچہآٹزم اسپکٹرم (Austism Spectrum)ہوتا ہے۔ یعنی اس میں آٹزم کی ایک یا ایک سے زیادہ علامات پائی جاتی ہیں۔
آٹزم کے جدید طریقے ایجاد ہوچکے ہیں جن کے ذریعے آٹزم کی کم سے کم علامات والے بچوں کی بھی شناخت کی جاسکتی ہے۔ لیکن علاج اور مینجمنٹ کی جدید سہولیات کے باوجودآٹزم کاپھیلاؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب سماج اور میڈیا میں بھی آٹزم کے پھیلاؤ پر فکرمندی ظاہر کی جارہی ہے۔ گذشتہ پندرہ برسوں میں آٹزم کی تشخیص میں خاصی ترقی ہوئی ہے۔
محققین کا گمان ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحولی حالات کے نتیجے میں آٹزممیں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن ماحولیاتی محرکوں مثلاً زہریلے کیمیائی مادے، ٹیکے، آلائندے (Pollutants)، غذائی اشیاء، والدین کا نشہ آور اشیاء کا استعمال اور متعددی امراض کے بردار وغیرہ کے آٹزم میں اثرانداز ہونے کا کوئی مواد (Data)موجود نہیں ہے۔
ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوپایا ہے کہ لڑکیوں کی بہ نسبت لڑکے آٹزم میں چارگنا زیادہ کیوں مبتلا ہوتے ہیں۔ لیکن آٹزم میں مبتلا لڑکیاں، لڑکوں کی بہ نسبت زیادہ شدید علامات ظاہر کرتی ہیں اور وہ ذہنی طورپر زیادہ کمزور ہوتی ہیں۔
آٹزم کی علامات
 
(A) سماجی مشکلات
آٹزم کی علامات میں سماجی مشکلات سب سے نمایاں ہیں۔ پیدائش کے بعد دوسرے یا تیسرے مہینے میں ایک عام بچہ قدرتی طورپر لوگوں کے مکالموں کا ردعمل مسکراکر کرتا ہے۔ اس مسکراہٹ کی عدم موجودگی بچے میں آٹزم کی پہلی علامت تسلیم کی جاتی ہے۔ ایسے بچے اپنے پرورش کرنے والوں سے آنکھ کا تعلق نہیں جوڑپاتے اور نہ ہی ان کی آواز، ان کی حرکات وسکنات (Gestures)کی نقل کرپاتے ہیں۔
آٹزم کے شکار بچے اپنی تفریح (Enjoyment)کو دوسروں کے ساتھ شیئر نہیں کرپاتے مثلاً ایک آٹزم بچہ کسی شور مچانے والے یا موسیقی بکھیرنے والے کھلونے سے کھیلتے وقت مسکراتا ہے، قہقہہ بھی لگاتا ہے لیکن اپنے آس پاس کے لوگوں سے اپنا یہ تجربہ شیئر نہیں کرتا، بس اکیلا ہی اس کا لطف اُٹھاتا ہے۔
آٹزم کی علامات میں بنیادی سماجی علامت یہ ہے کہ بچہ مناسب حرکات وسکنات نہیں کرپاتا کہ جن سے وہ اپنا مافی الضمیربیان کرسکے۔ وہ کسی شے کی طرف اشارہ کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ جیسے جیسے یہ بچہ بڑا ہوتا ہے وہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ دوستی قائم نہیں کرپاتا۔ وہ دوسروں کے جذبات واحساسات کو محسوس نہیں کرسکتا، نہ ہی کسی کو تکلیف یا پریشانی میں دیکھ کر اس کی مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ ہمدردی کے دو بول بولنا بھی اسے نہیں آتا۔
 
(B) ابلاغی مشکلات:
آٹیزم میں مبتلا بچے ابلاغ (Communication) کی ہر دو قسم کی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ یعنی نہ تو وہ اپنی بات بول کر اور نہ اشاروں یا حرکات وسکنات کے ذریعے دوسروں تک پہنچاپاتے ہیں۔ اکثر یہ بچے عام بچوں کی بہ نسبت بہت دیر میں بولنا سیکھتے ہیں یا پھر زندگی بھر بول نہیں پاتے۔ بے ابلاغ بچے جب بات کرنا سیکھتے ہیں تووہی الفاظ اور جملے دہرادیتے ہیں جو ان سے کہے جاتے ہیں۔اس طرح کا برتاؤ Echolaliaکہلاتا ہے۔ یہ بچے اکثر کسی فلم یا ٹی وی سیریل کے لمبے لمبے مکالمے جوں کے توں دہراسکتے ہیں۔ وہ اکثر اسم ضمیر(Pronoun)کے استعمال میں غلطی کرتے ہیں مثلاً اگر انہیں کیک چاہیے تو وہ اپنے پاس موجود شخص سے کہیں گے ’’آپ کو کیک چاہیے‘‘ ۔
 
(c) غیرمعمولی برتاؤ
محدود دلچسپی اور افعال کو دہرانے کا برتاؤآٹزم کی اہم علامات میں سے ہے۔ یہ مسائل 4سے 5برس کی عمر کے آٹزم والے بچوں میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ان بچوں میں شدید دلچسپی کی چیزوں میں ڈائناسور، ٹرین، بس، کارٹون فلمیں اور سیریلس کے کردار وغیرہ ہوتے ہیں۔ کسی شے کو ایک مکمل اکائی کے طور پر لینے کے بجائے اس کے مختلف حصوں میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں، مثلاً کھلونا کار کو دوڑانے کے بجائے اس کے کسی ایک پہیے کو لگاتار گھمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ بچے اپنے روزمرہ کے کاموں (Routine) میں ذرا سی بھی تبدیلی برداشت نہیں کرتے، مثلاً اگر انہیں ناشتے میں ابلا ہوا انڈا، دودھ اور بریڈ دیا جاتا ہے تو وہ ایک دن بھی ان میں تبدیلی برداشت نہیں کرتے،یا اسکول سے واپس آتے وقت اسکول بس نے ذرا سا بھی راستہ تبدیل کرلیا تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔یہ بچے اپنی جسمانی حرکات کو اکثر دہراتے رہتے ہیں مثلاً گول گول گھومنا، کودنا، ہاتھوں کولہراناوغیرہ۔ یہ بچے جب پریشان (Upset)یا مشتعل (Excited)ہوتے ہیں تو اپنے آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں مثلاً اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹنا یا سر کو دیواروں سے ٹکرانا وغیرہ۔
 

(D) دماغی معذوری اور ساونت صلاحیت:
1990سے پہلے آٹزم میں مبتلا بچوں میں سے ایک تہائی بچوں کی تشخیص دماغی معذور (Mentally Retarded)کے طورپر کی جاتی تھی۔ آٹزم کی تشخیص کے جدید طریقوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آٹزم میں مبتلا بچے جو دماغی معذوری کا بھی شکار ہیں، ان کی تعداد ایک زبانی سے کم ہے۔ آٹزم بچوں کی دماغی صلاحیتوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ بہت سے بچوں میں زباندانی کی صلاحیت (Verbal Intelligence)کی کمی پائی جاتی ہے، یعنی وہ الفاظ کو سمجھنے اور ان کو استعمال کرنے سے معذور ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ بچے جو Asperger's Syndromeمیں مبتلا ہوتے ہیں وہ زباندانی کی صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر غیرزباندانی کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ خاص کر وہ ’’وجہ اور اثرکے رشتے (Cause and Effect Relationship)کو نہیں سمجھ پاتے مثلاً وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کسی روتے ہوئے بچے کو جب اس کی ماں دودھ پلانے لگتی ہے تو بچہ خاموش کیوں ہوجاتا ہے۔ آٹزم کے شکار بچوں کی صلاحیتوں میں تفاوت پائے جانے کی وجہ سے ہر بچے کی آگہی جانچ (Intelligence Test)کرنا ضروری کام ہے۔
آٹزم میں بعض لوگ محفوظ صلاحیت (Preserved Ability)کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی خاص علاقے میں ان کی صلاحیت کافی ترقی یافتہ ہوتی ہے مثلاً بہت سارے لوگوں کے فون نمبر یاد رکھنا، دن اور تاریخیں یاد رکھنا، قدرتی مناظر کی تصویرکشی کرنا وغیرہ۔ یہ محفوظ یا ترقی یافتہ صلاحیتیں ساونت صلاحیتیں (Savant Skills)کہلاتی ہیں۔ ایسے مریض بے ابلاغی ساونت (Autistic Savants)کہلاتے ہیں۔
 
(E) بعض دوسری علامات:
بعض آٹزم بچے ایسی علامات ظاہر کرتے ہیں جو آٹزم کی تشخیص میں مدد نہیں کرتیں۔ حواس خمسہ کی کارکردگی میں شدت ایک اہم علامت ہے مثلاً خود کے یا کسی اور کے کپڑوں کی بناوٹ (Texture)پر ردعمل کا اظہار۔ مختلف آوازوں اور بو (Smell)کے لیے ردعمل وغیرہ ۔ بعض آٹزمبچے اپنے لیے لباس یا لانڈری سے آئے کپڑوں پر لگے Labelsاور Tagsکو برداشت نہیں کرتے اور انہیں فوراً نوچ کر پھینک دیتے ہیں۔ بعض بچے بیت الخلاء (Toilet)کے فلش کی آواز یا بارش کے پانی کی آواز سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ وہ خوشبو (Perfume)اور دسترخوان پر سجے پکوانوں کے لیے بھی شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
ان بچوں میں پیٹ درد، بدہضمی اور ڈائریا کی شکایتیں اکثر پائی جاتی ہیں۔ ان میں بہت ساری اشیاء کے لیے الرجی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ مناعت یعنی قوتِ مدافعت (Immunity)کی کمی کے بھی شکار ہوتے ہیں۔

آٹزم کی تشخیص:
زیادہ تر آٹزم بچے کی واضح علامات ظاہر نہیں کرتے۔ اس لیے معالج اور ماہرنفسیات کو چاہیے کہ ان بچوں کی گہرائی کے ساتھ قدرپیمائی (Evaluation)کریں تاکہ واضح خطوط پر ان کا نظم کیا جاسکے۔ بعض تشخیص ذیل کے مطابق ہیں:
(A) Asperger's Syndrome Test
(B) PDD-NOS Test
(C) Rett Syndrome Test
(D) Distinctness of Autism Test
(E) Childhood Disintegrative Disorder Test
 
آٹزم کی وجوہات
(A) ابتدائی نظریات:
محققین وماہرین ابھی تک آٹزم کی کوئی مخصوص وجہ دریافت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق دماغی بے قاعدگیاں اور جین (Genes)آٹزم کے محرک ہیں۔
اصطلاح Autismسب سے پہلے 1911میں سوئٹزرلینڈ کے ماہرنفسیات یوجین بلولیرو (Eugen Bleuler)نے بالغوں میں Schizophreniaکی مشترک علامات کو ظاہر کرنے کے لیے تجویزپیش کی۔ شیز و فرے نیا (Schizophrenia) ایک دماغی مرض ہے جس میں آدمی سماج اور حقیقت سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔
امریکی ماہرنفسیات لیوکینر (Leo Kanner)نے 1943میں اصطلاح Autismکو جدید تحقیقات کے حوالے سے پیش کیا۔ اس کے مطابق یہ مرض بچوں میں پایا جاتا ہے جسے اس نے (An Extreme Autistic Aloneness)یعنی شدید بے ابلاغی تنہائی کہا۔ کینر اوراس کے ہم عصروں نے آٹزم کو شیزوفرے نیا Schizophrenia کی ایک ذیلی قسم سمجھا اور اسے سائکوسس کے زمرے میں رکھا۔
1943میں لیوکونرکے نظریے کی اشاعت کے فوراً بعد یہ نظریہ منظرعام پر آیا کہ پیدائش کے بعد نومولود کو اس کی ماں کے بدن کی حرارت اور توجہ نہ ملنے کی وجہ سے بچوں میں یہ مرض لاحق ہوتا ہے۔ اسی طرح پرورش میں لاپرواہی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ اس نظریہ کو برونوبیت ا للحم (Bruno Bettelheim) نے تقویت پہنچائی ۔ یہ آسٹریلیا کا بچوں کا ماہر نفسیات تھا۔ اس سلسلے میں اس نے اپنے نومولود سے بے پرواہ ماں کے لیے Refrigerator Mother کی اصطلاح ایجاد کی۔ بچے کی پرورش میں اس کی والدہ کی لاپرواہی کوآٹزم کی وجہ بتانے کے نتیجے میں بے شمار خاندانوں میں شدید مسائل کھڑے ہوگئے۔ بعد میں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔
1970میں ایک نیا نظریہ سامنے آیا۔ سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ آٹزم کا تعلق شیزوفرے نیا سے نہیں ہے اس لیے یہ سائیکوسس نہیں ہے۔ اب آٹزم کا تعلق اعصابی عدمِ توازن (Neurological Abnormality) سے جوڑا گیا۔ اب اس نظریے کو لے کر تحقیق کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیاہے۔
(B) جینی وجوہات (Genetic Causes)
جڑواں بچوں میں DNAبالکل یکساں ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بے ابلاغی کا شکار ہوجائے تو دوسرے بچے میں بھی بے ابلاغی کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جینی بے قاعدگیاں(Genetic Disorders)بھی بچوں میں بے ابلاغی کی وجہ ہوتی ہیں۔
(C) دماغی بے قاعدگیاں
تحقیق کا ایک علاقہ یہ بھی ہے کہ پیدائش سے قبل جب بچے کا دماغ ماں کے رحم میں تیار ہوتا ہے تو اس وقت اس میں کیا بے قاعدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو آخرکار بچے میں آٹزم پیدا کرتی ہیں۔ دماغ میں پیدا ہونے والاسیروٹونِن جو ایک نیورو ٹرنسمیٹرہے، اس تحقیق کا مرکز بنا ہواہے۔
(D) انفکشن اور ڈرگس
حمل کے دوران Valporateجیسی بعض دوائیاں استعمال کرنے والی خواتین یا وہ خواتین جنہیں حمل کے دوران Rubellaوغیرہ کا انفکشن ہوجائے تو پیدا ہونے والے بچوں میں آٹزم کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

آٹزم کا علاج:
ابھی تک آٹزم کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ 1970تک عام طورپر آٹزم سے متاثر بچوں اور بالغوں کو مخصوص اداروں میں رکھا جاتا تھا جہاں ان کی دیکھ بھال، پرورش اور تعلیم کا معقول انتظام ہوتا تھا۔ لیکن اب ان افراد کو ان کے گھروں میں ہی رکھا جاتا ہے۔ اب بہت سے آئنسٹک یعنی بے ابلاغی بالغ افراد آزادانہ زندگی گزارنے لگے ہیں، البتہ بعض اوقات انہیں مدد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان دنوں بے ابلاغی کے علاج کے نام پر مختلف انداز میں ان کی دیکھ بھال (Management) کا نظم کیا جاتاہے مثلاً انفرادی تعلیم، ابلاغی آلات (Communication Tools)، برتاؤ کا مینجمنٹ اور دوائیوں کا استعمال ۔ آئنسٹک بچوں کی تربیت کے لیے والدین، استادوں اور تھیراپی کے ماہرین کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔

آئنسٹکبے ابلاغی بچوں کی تعلیم
آئنسٹک بچوں کی تعلیمی ضروریات متنوع ہوتی ہیں۔ بعض بچوں کو تمام تعلیمی سہولتوں سے مزین کلاس روم چاہیے تو بعض کو عوامی اسکولوں کے بھرے کمرے اپیل کرتے ہیں۔ تمام آئنسٹک بچوں کو کسی ایک طرح کے تعلیمی رویے اور پروگرام کے تحت مشغول نہیں کیا جاسکتا۔ ہر آئنسٹک بچہ استاد کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ ہر ایک بچے کی پسند اور ناپسند اور ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ لہٰذا تربیت یافتہ استادوں کا دوستانہ اور ہمدردانہ سلوک ان بچوں پر مثبت طور پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

آئنسٹک بالغوں کی زندگی
آئنسٹک بالغ اپنی زندگی میں کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے یہ اس کی زباندانی کی صلاحیت اور عقل مندی پر منحصر ہے۔بعض افراد جنہیں زاید عملی آٹزم (High Functioning Autism)میں مبتلا مانا جاتا ہے، آزادانہ طورپر، بغیرکسی کی مدد کے اپنی زندگی کامیابی کے ساتھ گذار سکتے ہیں اور اپنے کام یا پیشے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، مثلاً وہ مویشیوں کے علاج کے ماہر ہوتے ہیں، ریاضی میں مہارت رکھتے ہیں، اچھے مصنف بھی ہوسکتے ہیں وغیرہ۔مثلازِمۂ ایسپرجر(Asperger's Syndrome) میں مبتلا بعض افراد یاداشت کے مسائل پر قابو پانے اوردوسروں کے جذبات کو سمجھنے کے لیے خصوصی لائحہ عمل تیار کرلیتے ہیں اور اس طرح اپنی خامیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شدید قسم کی آٹزم کے بالغ مریضوں کو اپنے خاندان، دوستوں اور سماج کے خصوصی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ۔۔۔۔۔۔

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا

 

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368434
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development