میٹرک نظام پیمائش اور ناپ تول میں سہولت
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
جنوری 2017


پیمائش اور ناپ تول کی اکائیوں کے اعشاری (Decimal) نظام کو میٹرک نظام (Metric System) کہتے ہیں۔ یہ نظام لمبائی ناپنے کی اکائی میٹر (Meter) پر منحصر ہے۔ لفظ میٹر یونانی لفظ Metron سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں to measure یعنی ناپنا۔ 1790 کی دہائی میں فرانس میں یہ نظام بذریعہ قانون نافذ کیاگیا۔ فرانس کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے میٹرک نظام کو اپنایا۔ روز مرّہ کے لین دین اور کاروبار میں یہ نظام بہت سہولت بخش اور مفید ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں کے سائنسداں اپنے تحقیقی کاموں میں اسی نظام کا استعمال کرتے ہیں۔

میٹرک نظام میں لمبائی کی اکائی میٹر (Meter)، کمیت (Mass) جسے عام بول چال میں وزن (Weight) کہا جاتا ہے، کی اکائی کلوگرام اور وقت کی اکائی سیکنڈ ہے۔ اسی لئے اسے MKS نظام کہا جاتا ہے۔ لمبائی کی چھوٹی اکائی سینٹی میٹر اور کمیت کی چھوٹی اکائی گرام ہے۔ لہذا چھوٹی اکائیوں کا میٹرک نظام CGS نظام کہلاتا ہے۔

میٹرک نظام سے پہلے دنیا کے بیشتر ممالک میں برطانوی نظام رائج تھا۔ یہ نظام FPS نظام کہلاتا ہے۔ اس میں لمبائی کی اکائی فٹ، وزن کی اکائی پونڈ اور وقت کی اکائی سیکنڈ ہے۔

ایک میٹر 39.37 انچ کے برابر ہے۔ ابتدا میں میٹرک کی تعریف اس طرح کی گئی:

”خطِ استوا ء سے شمالی قطب کے درمیان گزرنے والا خط جو پیرس سے ہوکر گزرے، اس خط کا دس ملین واں حصّہ ایک میٹر کا فاصلہ ہے۔“

بعد میں جب سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ زمین ایک مکمل کرّہ نہیں ہے تو میٹر کی تعریف کو تبدیل کرنا پڑا۔ اب سائنسدانوں نے پلیٹینم اریڈیم کی ایک سلاخ کے سروں پر دو مہین خطوں کے درمیانی فاصلے کو ایک میٹر کا فاصلہ تسلیم کیا۔ لیکن 1960 میں عنصر (Element) کرپٹون سے نکلنے والے سرخ نارنگی نور کی 1,650,763.73 طول موج (Wave Lengths) کو ایک میٹر کا فاصلہ تسلیم کیا گیا۔ سائنس کے جدید تقاضوں کے پیشِ نظر 1983 ء میں ایک میٹر کے فاصلے کی تعریف اس طرح کی گئی:

”خلا میں نور کا 1/299,792,458 سیکنڈ میں طے کردہ فاصلہ“۔


میٹرک نظام کا استعمال

زندگی کے ہر شعبہ میں اور سائنس و ٹکنالوجی کے ہر علاقے میں میٹرک نظام بہت آسانی مہیا کرتا ہے۔ اس نظام میں لمبائی (لمبائی، چوڑائی اور موٹائی)، حجم (جسامت) اور وزن کی پیمائش میں بہت سہولت ہوتی ہے۔


1۔  لمبائی (Length):۔

میٹرک نظام میں فاصلہ ناپنے کے لئے میٹر کو بطور اکائی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم بہت چھوٹے اور بہت بڑے فاصلوں کی پیمائش کے لئے میٹر کی ذیلی اکائیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ لہذا چھوٹے فاصلوں کو ناپنے کے لئے میٹر کو 100 حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ سینٹی میٹر کہلایا۔ مزید چھوٹے فاصلوں کے لئے سینٹی میٹر کو بھی دس حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر حصہ ملی میٹر کہلایا۔ طویل فاصلوں کو ناپنے کے لئے کلومیٹر کی اکائی ترتیب دی گئی جو ایک ہزار میٹر کے فاصلے کے برابر ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے تحقیقی کاموں میں بہت ہی مہین اشیا کی پیمائش کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً جانداروں کے خلیوں، بیکٹیریا اور وائرس کی جسامت کی پیمائش۔ اس مقصد کے لئے ایک بہت چھوٹی اکائی ترتیب دی گئی  جس کا نام ہے اینگسٹروم (Angstrom)۔ ایک اینگسٹروم ایک میٹر کے 10  ارب ویں حصہ کے برابر ہے۔تاہم فلکیات کے تحقیقی کاموں میں بہت طویل فاصلوں کی پیمائش کے لئے میٹر یا کلومیٹر کی اکائیاں ناکافی ہیں۔ اجرام فلکی کے درمیانی فاصلوں کی پیمائش کے لئے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے اس کا نام ہے نوری سال (Light Year) یعنی ایک سال کی مدت میں نور کے ذریعے طے کردہ فاصلہ۔


2۔  حجم (Volume):۔

میٹرک نظام میں کسی شے کا حجم یعنی جسامت (Volume) ناپنے کی اکائی مکعب میٹر (Cubic Meter) ہے۔ چھوٹی اکائی مکعب سینٹی میٹر ہے۔ روزمرہ کے لین دین اور کاروبار میں مائعات مثلاً دودھ، مٹی کا تیل، پیٹرول، ڈیزل وغیرہ اور تجربہ گاہوں میں مائعات کی پیمائش کے لئے استعمال کی جانے والی اکائی لیٹر (Liter) ہے۔ ایک لیٹر 1000 مکعب سم کے برابر ہوتا ہے۔ کاروباری اصطلاح میں ایک لیٹر ایک ہزار ملی لیٹر کے برابر ہوتا ہے۔ مائعات کے بڑے حجم کو ناپنے کے لئے لیٹر اور چھوٹے حجم کی پیمائش کے لئے ملی لیٹر کی اکائیاں استعمال کی جاتی ہیں۔

اکثر ہم بارش کے موسم میں ریڈیو اور ٹی وی پر سنتے ہیں کہ فلاں باندھ (Dam) سے اتنے کیوسک (Cusec) پانی چھوڑا گیا۔ کیوسک پانی کے بہاؤ کی شرح ہے۔ پائپ لائن سے ایک مکعب فٹ فی سیکنڈ پانی چھوڑا جائے تو وہ ایک کیوسک پانی کہلائے گا۔ لیکن یہ اکائی میٹرک نظام کی نہیں بلکہ برطانوی نظام کی ہے۔


3۔  وزن (Weight):۔

میٹرک نظام میں وزن کی بنیادی اکائی گرام (Gram) ہے۔ یہ ایک مکعب سم پانی کے وزن کے برابر ہے۔ وزن کی بڑی اکائی کلو گرام  (Kilogram) ہے۔ایک کلوگرام 1000 گرام کے برابر ہوتا ہے۔ ایک ہزار گرام پانی کا حجم ایک ہزار مکعب سم یا ایک لیٹر ہوتاہے۔ بہت زیادہ وزنی اشیاء کے وزن کی پیمائش کے لئے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے اس کا نام ٹن (Ton) ہے۔ ایک ٹن 1000 کلوگرام پر مشتمل ہوتا ہے۔


تاریخ

1790ء میں میٹرک نظام کے نافذ ہونے سے پہلے دنیا میں پیمائش کا کوئی قابلِ اعتبار نظام موجود نہ تھا۔ قدیم زمانے میں لمبائی کی پیمائش کے لئے قدم، بالشت اور بازو کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یوروپ میں روم کا 2000 سال پرانا نظام رائج تھا۔ خود روم کے مختلف علاقوں میں فٹ اور انچ مختلف لمبائی کے ہوا کرتے تھے۔ فٹ اور انچ کے علاوہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مقامی طور پر مختلف پیمانے مستعمل تھے مثلاً اٹلی کا Cantarello وزن کی پیمائش کے لئے، جرمن کا Metze حجم کی پیمائش کے لئے یا برطانیہ کا Tod وزن کرنے کے لئے۔1700 سے پہلے خود فرانس میں ایک ہزار سے زائد پیمائشی اکائیاں موجود تھیں جن میں شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے اعتبار سے 250,000 فرق پائے جاتے تھے! اس الجھن کو دور کرنے کے لئے 1790 کے دہے میں فرانسسی انقلاب کے دوران سائنسدانوں نے پیمائش کا میٹرک نظام تشکیل دیا۔

1875ء میں امریکہ میں ایک بین الاقوامی قرار دادپاس کی گئی جسے International Treaty of Meter کا نام دیا گیا۔ اس قرارداد میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ میٹرک نظام کو لگاتار جدید سائنسی معلومات کی بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ بہتر اور بے عیب بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے  کے لئے مختلف ممالک میں ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور ان سب کا صدر مقام پیرس کے مضافات میں قائم کیا گیا۔

1900 میں میٹرک نظام کی بنیاد MKS نظام پر رکھی گئی۔ یہاں M سے مراد میٹر، K یعنی کلوگرام اور S بمعنی سیکنڈ۔ بعد ازاں برق مقناطیسی نظام کی اکائی ایمپیئر (Ampere) کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا اور اب یہ نظام MKSA نظام کہلایا۔لیکن چوں کہ روزمرہ میں ایمپیر کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لئے عملی طور پر یہ نظام MKS نظام ہی رہا۔

سائنسدانوں اور قابلِ ذکر حد تک عوام کو بھی چھوٹی پیمائشوں سے ہمیشہ ہی سابقہ پڑتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے چھوٹی اکائیوں کا نظام CGS نظام کے نام سے وجود میں آیا۔ اس نظام میں لمبائی کی چھوٹی اکائی سینٹی میٹر، وزن کی چھوٹی اکائی گرام اور وقت کی اکائی سیکنڈ ہے۔

1960 میں میٹرک نظام کو ایک نیا نام SI دیا گیا جو مخفّف ہے System International کا۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جہاں میٹرک نظام رائج ہے، انہوں نے SI کو قبول کیا۔

ہمارے ملک میں میٹرک نظام مختلف مرحلوں میں 1955 سے 1962 کے دوران نافذ کیا گیا۔



نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   371449
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development