کیوں آتا ہے بڑھاپا؟
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
نومبر 2017


انگریزی میں کہاوت ہے :
Change is the law of Nature.
یعنی تبدیلی قدرت کا قانون ہے۔ کائنات میں کسی شے کی مجال نہیں کہ اس قانون کی خلاف ورزی کرے۔ ہر پل، ہرلمحہ، ہر شے تغیّر پذیر ہے۔ ثبات اگر کسی شے کو ہے تو وہ خود تغیّر ہے۔
انسان کا بوڑھا ہونا (Aging) بھی قدرت کا قانون ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انسان میں کئی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں طبعی (Physical) ، عضویاتی (Physiological) نفسیاتی (Psychological) ، جذباتی (Emotional) ، ذہنی (Mental) اور سماجی (Social) نوعیت کی ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں گویا کثیر الابعادی (Multidimensional) ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ابعاد بڑھتی عمر کے ساتھ تنزل پذیر ہوتے ہیں اور کچھ ترقی پاتے ہیں۔ مثلاً درازی عمر کے ساتھ کسی شے یا واقعہ کے لئے ردّعمل (Reaction) سست پڑتا جاتا ہے جب کہ دنیا کا علم، معلومات اور دانش مندی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ عمر دراز ہونے کے باوجود بعض لوگوں میں جسمانی، دماغی اور سماجی قوتوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
بڑھاپا انسانی زندگی کا ایک اہم پڑاؤ ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ انسان میں حیاتیاتی تبدیلیاں (Biological Changes) آتی ہیں۔ بڑھاپا دور رس اثرات و نتائج کا پیش خیمہ ہے۔ اس عمر میں انسان کو طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ سو بیماریوں کی ایک بیماری بڑھاپا ہے۔ دنیا میں روزانہ تقریباً ایک لاکھ افراد بڑھاپے سے متعلق امراض کا شکار ہوکر جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
وقت مسلسل چلنے والی چیز ہے۔ نہ اسے روکا جاسکتا ہے اور نہ اس کی رفتار کو کم کیا جاسکتا ہے۔ گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑانا تو خیر ناممکنات میں سے ہے۔ وقت کی گردش سے ہی دن اور رات کا تعین کیا جاتا ہے۔ کل اور آج میں وقت ہی تمیز کرتا ہے۔ اسی طرح عمر کا تعین بھی گزرتے ہوئے وقت کی پیمائش سے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر عمرکا تعین تاریخ پیدائش سے کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اس کی تاریخ پیدائش ایک اہم واقعہ ہوتی ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ انسان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کا گراف تغیر پذیری کی خصوصیت رکھتا ہے۔ پیدائش سے لے کر جوانی تک یہ گراف صعودی (Ascending) خاصیت پیش کرتا ہے۔ جوانی سے بڑھاپے تک یہ گراف افقی (Horizontal) خاصیت کا حامل ہوتا ہے اوربڑھاپے سے بڑھاپا اور موت تک یہ گراف نزولی (Descending) رجحان پیش کرتا ہے۔

درازی عمر کو مختلف زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے:
 
1۔ کائناتی درازی عمر (Universal Ageing)
درازی عمر کے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں میں رونما ہونے والے مشترک تغیرات مثلاً بینائی کا کمزور ہونا، قویٰ کا مضمحل ہونا، جلد کا جھری دار ہوجانا وغیرہ۔

2۔ امکانی درازی عمر (Probobilistic Ageing)
بڑھتی عمرت کے ساتھ کسی ایک فرد میں ہونے والے تغیرات مثلاً بالوں کا جلد سفید ہوجانا، ذیابیطس ٹائپ 2 میں مبتلا ہوجانا، ذاتی اور سماجی حالات کے دباؤ کے تحت دل کی یا دماغ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجانا وغیرہ۔

3۔ سماجی درازی عمر (Social Ageing)
کسی سماج میں درازی عمر کے تعلق سے پائے جانے والے رجحانات اور توقعات مثلاً بڑھاپے میں کوئی سماج اپنے افراد سے کیسی تبدیلیوں کی توقع کرتا ہے۔( ان کے لباس، رہن سہن اور مذہبی رجحانات میں ہونے والی تبدیلیاں)۔

4۔ حیاتیاتی درازی عمر (Biological Ageing)
کسی فرد کی بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی ساخت میں تبدیلی، اس کی حیاتیاتی درازی عمر کہلاتی ہے۔

5۔ قریبی درازی عمر (Proximal Ageing)
کسی فرد پر پڑنے والے ماضی قریب کے واقعات وحادثات اور احوال و کوائف کے اثرات قریبی درازی عمر کے ذمہ دار ہیں۔

6۔ بعید درازی عمر (Distal Ageing)
درازی عمرکے ساتھ دو افراد میں فرق کو ان کی ابتدائی عمر میں تلاش کیا جاسکتا ہے مثلاً ان میں سے کوئی ایک بچپن میں پولیو میں مبتلا ہوگیا تھا یا ماضی بعید میں اسے ٹی بی یا جذام جیسے مرض نے گھیرلیا تھا۔ تو اب ان دونوں افراد میں درازی عمر کے ساتھ نمایاں فرق نظر آئے گا۔
درازی عمر (Aging) کے عمل کو ان زاویوں سے دیکھنے پر یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ کسی فرد کی تاریخی عمر (Chronological Age) اس کی کارکرد گی کی عمر (Functional Age) سے مکمل طور پر مطابقت نہیں رکھتی۔ ایک ہی عمر کے دو افراد میں جسمانی اور دماغی اعتبار سے نمایاں فرق ہوسکتا ہے۔
دنیا کے مختلف سماجوں اور ملکوں میں درازی عمر کے الگ الگ پیمانے ہیں مثلاً سرکاری ملازمتوں میں ہمارے ملک میں وظیفہ یابی (Retirement) کی عمر 58 اور 60 سال ہے جب کہ مغربی ممالک میں 65 ، 70 سال ہے ۔ ٹرین اور بس میں سفر میں عمر دراز لوگوں کے لئے مراعات (Concession) کے الگ الگ پیمانے ہیں۔

آبادیِ عمر دراز (Population Ageing)
سماج میں عمر دراز لوگوں کی آبادی میں اضافے کو آبادئ عمر دراز کہتے ہیں۔ آبادی عمر دراز کے وجود میں آنے کی دو اہم وجوہات ہیں: انسان کی اوسط عمر میں اضافہ اور شرح اموات میں کمی۔
سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی اور جدید طریقۂ علاج کے بل بوتے سائنسدانوں نے بہت سے موذی امراض پر فتح پائی ہے۔ بہت سے امراض کے خلاف مدافعتی ٹیکے بڑے پیمانے پر استعمال ہورہے ہیں۔ زندگی کی محافظ دوائیوں (Life Saving Drugs) کے استعمال نے انسانوں کی اوسط عمر میں اضافہ کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ عوام میں شرح اموات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان سب کے نتیجے میں بوڑھوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔
بڑھتی عمر کے نمایاں اثرات سماج میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ نوجوان بہت فعال ہوتے ہیں۔ وہ سیاسی اور سماجی بیداری و تبدیلی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ تعلیم اور سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی نوجوانوں کی کوششوں کا ہی ثمرہ ہے۔ چھوٹے، بڑے اور سنگین ہر قسم کے جرائم میں نوجوانوں کی حصہ داری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ سماج میں ہر طرح کی اچھائی اور برائی کا سہرا نوجوانوں کے سرجاتا ہے۔ اس کے برحلاف بڑھتی عمر کے ساتھ آدمی میں جوش و خروش کم ہوتا جاتا ہے۔ دلچسپی کے میدان سکڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہر شے اپنی دل کشی کھوتی جاتی ہے:
وہی ہے شاہد وساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
عمر دراز لوگوں کی دلچسپیوں اور ضرورتوں کا گراف لگاتار گرتا جاتا ہے۔ وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے خاندان، سماج اور حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔

بوڑھا ہونے کا عمل
علمِ حیاتیات (Biology) کی رو سے کسی خاندان میں بڑھاپے یعنی درازی عمر کا عمل(Senescence) کا مطلب ہے اس کے افعال اور صلاحیتوں میں بتدریج کمی اور تنزلی کا واقع ہونا۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہ کمیاں بڑھتی ہی جاتی ہیںیہاں تک کہ وہ جاندار موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔ بوڑھا ہونے کے عمل کو سمجھنے کے لئے بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

1۔ خلوی تقسیم میں تخفیف کا نظریہ
اس نظریے کے مطابق بڑھاپے کو دو سطحوں پر دیکھا جاتا ہے ایک خلیاتی بڑھاپا اور دوسرے جاندار کا ایک اکائی کے طور پر بوڑھا ہونا۔ 1961 میں لینورڈ ہیفلک (Leonard Hayflick) نے عام خلیہ کی تجربہ گاہ میں افزائش (Culture) کے دوران دریافت کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ کس طرح اس میں خلوی تقسیم کا عمل محدود ہوجاتا ہے۔ اس مظہر یعنی خلوی تقسیم میں تخفیف کے عمل کو ہیفلک لِمِٹ(Hayflick Limit) کا نام دیا گیا ہے۔ یہی ایک عام خلیہ کا بوڑھا ہونا ہے۔ انسان کا ایک زندہ خلیہ 50 مرتبہ تقسیم ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد اس کے خلوی تقسیم سے گزرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ سائنسداں اس کی وجہ جاننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ خلوی تقسیم کو محدود کرنے والا یہ عمل SF یعنی Senescent Factor کہلاتا ہے۔
جانداروں کا جسم بے شمار خلیات سے مل کر بنتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ جانداروں کے خلیات بڑھاپے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تمام خلیات میں یہ عمل بہ یک وقت واقع ہوتا ہے اور جاندار ایک اکائی کے طور پر بوڑھا ہوتا ہے اس مظہر کو Organismal Senescence کہتے ہیں۔

2۔ آزاد برق پاروں کا نظریہ
بڑھاپے کو انگیز کرنے میں آزاد برق پاروں (Free Radicals) کا اہم رول ہے۔ آزاد برق پارے نہ صرف فضا میں بلکہ انسان کے جسم میں بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

یہ برق پارے ہمارے خلیات سے الیکٹرون حاصل کرنے کے لئے مسلسل ان پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ الیکٹرون حاصل کرکے وہ متعلقہ سالمات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس عمل میں خلیہ کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہے،خاص کر خلوی تقسیم کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور وہ 50 مرتبہ تقسیم ہونے کے بعد مرجاتا ہے۔

3۔ ڈی،این،اے (DNA) کی تباہی کا نظریہ
اس نظریے کے مطابق شعاع پاشی (Radiation) ، دوائیاں، دیگر کیمیائی مادے اور وائرس DNA کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ DNA کی تباہی دور رس نتائج کی حامل ہے مثلاً خلوی تقسیم کا رک جانا اور کینسر کا لاحق ہونا وغیرہ۔

4۔ جین کے ضائع ہونے کا نظریہ
بڑھتی عمر کے ساتھ انسانوں میں اوسطاً ہر سال 0.6 فیصد DNA ضائع ہوتا رہتا ہے۔ DNA کے ساتھ Genes بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔ جین موروثی خصوصیات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ عضویاتی افعال کو کنٹرول کرنے میں جین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ مشہور مصنف برنارڈ ایل اسٹرچلیر(Bernard L. Strechler) کے مطابق جین کا ضائع ہونا بڑھاپے کی سب سے اہم وجہ ہے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سارے نظریات موجود ہیں جو بڑھاپے کے وقوع کی تشریح کرتے ہیں لیکن کسی بھی نظریے کو حتمی طور پر قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ انسان کی تمام خرابیوں، کمزوریوں اور بیماریوں کا منبع بڑھاپا ہے۔ بڑھاپے میں تمام تر صلاحیتوں میں گراوٹ کے ساتھ ساتھ قوتِ مدافعت بھی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اعمال و افعال میں ہم آہنگی کا فقدان ہوجاتا ہے۔ کوئی عضو اعتدال پر نہیں رہ پاتا:
مضمحل ہوگئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
بعض ماہرین بڑھاپے کو ایک مرض تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بعض Genes جو بڑھاپے کے عمل کے ذمہ دار ہیں، اگر ان کو کنٹرول کرلیا جائے تو بڑھاپے کے مرض کا علاج کیا جاسکتا ہے اور اس کی روک تھام بھی کی جاسکتی ہے۔

بڑھاپا: ایک بن بلایا مہمان
جوش ملیح آبادی نے بڑے شوخ انداز میں کہا تھا :
مرضی ہو تو سولی پہ چڑھانا یارب
سوبار جہنم میں جلانا یارب
معشوق کہیں ’’آپ ہمارے ہیں بزرگ‘‘
ناچیز کو یہ دن دکھانا یا رب
معلوم ہوا کہ کوئی شخص بوڑھا ہوناپسند نہیں کرتا۔ ہمیشہ جوان رہنے کے لئے سو سو جتن کرتا رہتا ہے۔ لیکن بڑھاپا وہ بن بلایا مہمان ہے جو ایک بار آنے کے بعد واپس جانے کا نام نہیں لیتا۔ مولانا حالی نے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھا تھا:
دنیا عجیب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں آنی جانی دیکھی
جو آکر نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکر نہ آئے وہ جوانی دیکھی

مذہب اور بڑھاپا
عام طور پر بڑھتی عمر کے ساتھ انسان مذہب میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ وہ دنیا سے دور اور دین سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنا بچپن کھیل میں کھوتے ہیں اور جوانی نیند بھر سوتے ہیں، انہیں بڑھاپا دیکھ کر رونے کی نوبت آجاتی ہے۔ سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بچپن سے ہی مذہب کی آغوش میں پناہ پکڑلیتے ہیں۔ ان کی جوانی اور بڑھاپا دونوں خوش گوار گزرتے ہیں۔ دنیاداری اور دین داری کے بین بین ریاکاری کا وجود بھی پایا جاتا ہے۔ ریاکاری ایک طاقتور محرک ہے جو انسان کو دکھاوے کی عبادتوں میں مشغول کردیتا ہے۔ اس طرح انسان دنیا کو تو دھوکہ دے سکتا ہے مگر اپنے رب کو نہیں۔ غنی اعجاز نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
لوگ خوش ہیں اسے دے دے کے عبادت کا فریب
وہ مگر خوب سمجھتا ہے خدا ہے وہ بھی
اللہ تعالیٰ کو اخلاص سے کی گئی عبادت مطلوب ہے۔ عمر دراز لوگ جب خود کو اخلاصِ نیت کے ساتھ دین کے حوالے کردیتے ہیں تو اللہ بھی ان کا حامی و ناصر ہوجاتا ہے۔ ان کا بڑھاپا کسی پر بوجھ نہیں ہوتا۔ وہ ہنستے مسکراتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
قرآن اگرچہ سائنس کی کتاب نہیں ہے، تاہم فطرت کے سربستہ رازوں کا ایک مرقع ہے۔ سورہ التین (95) میں اللہ تبارک و تعالیٰ انجیر اور زیتون اور کوہ طور اور امن والے شہر مکہ کی قسم کھاکر ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کردیتے ہیں۔‘‘(آیات 5- 4

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360522
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development