سفید سونا
واپس چلیں

چودھری محمد اشرف
دسمبر 2009


دودھ ازمنۂ قدیم سے انسانی استعمال میں ہے۔ یہ دودھیل جانوروں کے دودھ دینے والے غدودوں (Glands) سے قدرتی طور پر خارج ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ماقبل تاریخ سے استعمال میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعض فوائد اور خواص اب بھی منظر عام پر آرہے ہیں۔ جب کبھی دودھ کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے عام طور پر گائے اور بھینس کا دودھ مراد لیا جاتا ہے حالانکہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے سب سے پہلے بکری اور اس قبیل کے دوسرے جانوروں کا دودھ استعمال کیا جاتا تھا۔ اب بھی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بکری کا دودھ دوسرے دودھ کے مقابلہ میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ دودھ ایک عام نام ہے حالانکہ مختلف دودھیل جانوروں کے دودھوں میں کافی فرق ہوتا ہے۔
وہ اقسام جن کے بچے جلد بڑھتے ہیں ان کے دودھ میں لحمیات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی بچہ عموماً چھ ماہ میں اپنا وزن دوگنا کرتا ہے جبکہ بھینس کا بچہ چنددنوں میں دوگنا وزن حاصل کرلیتا ہے اس لئے بھینس کے دودھ میں انسانی دودھ کی نسبت زیادہ لحمیات ہیں۔ قدرت کا یہ اصول ہے کہ ہر ذی حیات کو اس کی ضرورت کے مطابق خوراک ملتی ہے اس لئے مختلف اقسام کے دودھ میں لحمیات کی مقدار مختلف ہے۔
دودھ کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ یہ انتہائی سفید ہوتا ہے حالانکہ بغور مشاہدہ سے یہ منکشف ہوگا کہ مختلف جانوروں کے دودھ حتیٰ کہ سال کے مختلف ایام میں دودھ کی رنگت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔دودھ کی رنگت نیلی مائل سفید سے زردی مائل سفید ہوتی ہے وہ دودھ جن میں روغنی اجزاء کی کمی ہوگی ان کی رنگت نیلی مائل سفید ہوگی جبکہ دوسری اقسام کے دودھ زردی مائل سفید ہوں گے، زرد رنگت کی وجہ کیروٹینی (Carotene)اجزاء کی موجودگی ہے جو بعد میں حیاتین الف میں تبدیل ہوجاتے ہیں یہ اجزاء چونکہ روغن میں حل پذیر ہوتے ہیں اس لئے جانوروں کی چربی میں عام پائے جاتے ہیں جہاں سے یہ دودھ میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ جب جانوروں کو سبز چارہ کھلایا جاتا ہے تو دودھ میں کیروٹینی اجزاء زیادہ ہوتے ہیں لیکن جب ان کو خشک چارہ دیا جاتا ہے تو ان اجزاء میں کمی آجاتی ہے۔ یہ بات آپ کے مشاہدہ میں ہوگی کہ جب دودھ سے روغنی اجزاء علیحدہ کر لئے جاتے ہیں تو اس کی رنگت نیلی ہوجاتی ہے اور اس دودھ کو Skim Milk یا سپر ٹیا دودھ کہا جاتا ہے۔
دودھ کی بحیثیت خوراک اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس میں مختلف قسم کے نمکیات پائے جاتے ہیں جن میں زیادہ اہم کیلشیم اور فاسفورس کے نمکیات ہیں۔ یہ نمکیات انسانی ہڈیوں اور دانتوں کے نشو ونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان نمکیات کی مقدار دودھ کے مختلف نمونوں میں مختلف ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ وہ چراگاہیں ہیں جہاں جانور چرتے اور بڑھتے ہیں۔ جس چراگاہ میں جس نمک کی مقدار زیادہ ہوگی وہی نمک دودھ میں زیادہ مقدار میں ہوگا۔ نہ صرف دودھ میں بلکہ دودھ کے دوسرے مرکبات میں بھی یہ موجود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نشوونما کے لئے نہ صرف دودھ کی اہمیت ہے بلکہ دوسرے مرکبات بھی ہماری صحتمندی اور تندرستی میں وہ کردار ادا کرتے ہیں جو دودھ کرتا ہے۔ اس لئے دودھ کے علاوہ لسی، دہی، گھی، بلائی وغیرہ بھی عام استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہماری خوراک کے اہم اجزاء پانی، لحمیات، شوگر روغنیات اور نمکیات ہوتے ہیں اور یہ سارے مرکبات دودھ میں بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں اسی لئے دودھ کو ایک مکمل خوراک تسلیم کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دودھ کے یہ اجزاء دوسری تمام خوراکوں کے مقابلہ میں زیادہ زود ہضم ہوتے ہیں جس سے یہ جلد ہمارے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دودھ کی اس خوبی کے متعلق تھوڑی سی بحث دلچسپی کا باعث ہوگی۔


خوراک ہمارے جسم میں درج ذیل کردار ادا کرتی ہے۔
1۔ یہ ہمارے درجۂ حرارت کو قائم رکھتی ہے۔
2۔ ہمارے اعصاب کو کام کے لئے قوت فراہم کرتی ہے۔
3۔ ہماری بافتوں کی بڑھوتری اور مرمت کا کام کرتی ہے۔
4۔ ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی کے لئے ضروری نمکیات مہیا کرتی ہے۔
5۔ ہمارے مختلف اعضاء کے صحتمندانہ کردار کے لئے حیاتین اور دوسری ضروریات مہیا کرتی ہے۔


یہ تمام ضروریات دودھ سے بخوبی پوری ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ بات البتہ یاد رکھنی چاہئے کہ دودھ ساری عمر کی غذائی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ دودھ صرف اس وقت تک ضروری ہوتا ہے جب تک کہ بچہ دوسری خوراک کھانے کے قابل نہیں ہوجاتا مگر دودھ عمر بھر ہماری خوراک کے ایک جز کی صورت میں بہر حال استعمال میں رہنا چاہئے۔ جب آدمی بڑی عمر کا ہوجاتا ہے تو دودھ کی پھر ضرورت پڑجاتی ہے۔ بڑھاپے میں ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے دودھ سے حاصل ہونے والے کیلشیم اور دوسرے نمکیات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ پوری اور مناسب خوراکوں کے لئے ساری عمر دودھ کا استعمال مفید ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی خوراک ایسی نہیں جو ہماری صحت کے لئے اتنی مفید ہو جتناکہ دودھ۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ ہماری خوراک کے بجٹ کا 44% حصہ صرف دودھ پر خرچ ہونا چاہئے۔ چونکہ ہماری تندرستی کے لئے دودھ نہایت اہم ہے اس لئے وہ تمام حضرات جن کے ذمہ دودھ کی پیداوار‘ سپلائی وغیرہ ہے ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ دودھ کو آلائش وغیرہ سے بچائیں اور صحیح حالت میں صارفین تک پہنچائیں۔

دودھ کے لحمیات
لحمیات انتہائی پیچیدہ مرکبات ہوتے ہیں جب یہ ٹوٹتے ہیں تو ان سے امینو ایسڈ (Amino Acid) وجود میں آتے ہیں۔ لحمیات کی اہمیت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس میں سے کس قسم کے امینو ایسڈ کتنی مقدار میں برآمد ہوتے ہیں مسکی ایک عام خوراک ہے اس کی لحمیات کا نام ’’زین ‘‘ ہے۔ اس کی ٹوٹ پھوٹ سے جو امینو ایسڈ مہیا ہوتے ہیں ان میں لائی سین (Lysine) اور ٹرپٹوفین(Tryptophane) نہیں ہوتے اور یہ امینو ایسڈ ہماری نشو ونما کے لئے ناگزیر ہیں چنانچہ اگر کوئی فرد صرف مسکی پر گزارہ کرے تو اس کی صحت یا نشو ونما میں کمی رہ جائیگی۔ اس کے مقابلہ میں دودھ میں نہ صرف تمام ضروری امینو ایسڈ ہوتے ہیں بلکہ ان کی مقدار بھی عام خوراک کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی لحمیات اعلیٰ قسم کی ہوتی ہیں اس لئے دودھ ہماری صحت اور ہماری بافتوں کی مرمت کے لئے بہت ضروری ہے۔ وہ بچے جو بڑھ رہے ہوتے ہیں ان کو بڑوں کے مقابلے میں لحمیات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لئے انہیں دودھ کی مناسب مقدار ضرور ملنی چاہئے۔ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی دودھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ ان کی ہڈیاں وغیرہ مضبوط رہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں۔ دودھ عام خوراک اور پھل وغیرہ کے ساتھ بھی استعمال کرنا چاہئے تاکہ ساتھ خوراک کے اجزا میں کسی قسم کی کمی نہ رہ جائے۔

روغنیات
خوراک میں روغنی اجزا جسم کو حرارت پہنچانے کے کام آتے ہیں دودھ کے روغنی اجزامعیاری لحاظ سے دوسرے تمام روغنیات سے برتر اور مختلف ہوتے ہیں۔ ان روغنی اجزاء کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جانور کو کس قسم کی خوراک دی جارہی ہے۔ اگر جانور گھاس یا نرم خوراک کھاتے ہیں تو روغنی اجزا بھی نرم ہوتے ہیں اگر جانور بنولہ وغیرہ کھاتے ہیں تو یہ اجزا سخت ہوں گے۔ دودھ کے روغنی اجزا میں بہت سی حیاتین، رنگ دار مادے اور کئی مرکبات ہوتے ہیں جس سے دودھ کی نشو ونمائی قوت میں بدر جہا اضافہ ہوجاتا ہے۔ روغنیات کے اہم عناصر کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن ہوتے ہیں اور یہ عناصر کاربوہائیڈریٹ (مٹھاس) میں بھی مل جاتے ہیں لیکن یہ جسم کو مٹھاس کے مقابلہ میں زیادہ کلوریز مہیا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں حیاتین الف(A)، د(D) اور ای(E) بھی دودھ کے روغنیات میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ دودھ جس میں روغنی اجزا زیادہ ہوتے ہیں اس میں دوسرے دودھ کے مقابلہ میں ان حیاتین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔

دودھ اور اس کی مٹھاس (Lactase)
دودھ کی مٹھاس سوائے دودھ کے اور کہیں سے بھی مہیا نہیں ہوسکتی اور یہ مٹھاس ہماری نشوونما کے لئے بہت اہم ہوتی ہے ۔ اس کی اہمیت چینی سے کسی صورت میں بھی کم نہیں ہوتی لیکن اس کے کئی خواص ایسے ہوتے ہیں جو ہماری صحت کے لئے لازمی ہیں۔ اس مٹھاس میں مفید بکٹیریا(Bacteria) نشوونما پاتا ہے۔ اور پھر دہی میں بھی مٹھاس ہوتی ہے جو ہماری لمبی عمر کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ صحت کے لئے دہی کی اہمیت صرف اس مٹھاس کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ مٹھاس عام اور سستی ہوجائے تو یقیناًیہ انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہوگی۔
نمکیات
دودھ میں کیلشیم اور فاسفورس کافی مقدار میں ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ انسانی جسم میں بآسانی جذب ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کو زیادہ دودھ تجویز کیا جاتا ہے۔ غذائی ماہروں کا خیال ہے کہ عمدہ صحت کے لئے ہماری خوراک میں تقریباً ایک گرام چونا بھی ہونا چاہئے اور چونے کی یہ مقدار آدھ کلو دودھ سے مہیا ہوجاتی ہے، فاسفورس ہمارے دانتوں اور ہڈیوں کا اہم جز ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے خون کی کار کردگی بھی اس عنصر پر منحصر ہے۔ یہ قدرت کا ایک بڑا عطیہ ہے کہ یہ دولازمی عنصر دودھ میں معتدبہ طور پر موجود ہوتے ہیں اور ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ یہ فوری طور پر ہمارے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دودھ میں اگرچہ تمام نمکیات تو نہیں پائے جاتے مگر تمام ضروری نمکیات ایسی حالت میں ملتے ہیں کہ ہمارا جسم انہیں فوراً قبول کر لیتا ہے۔

حیاتین (Vitamins)
دودھ میں نشوونماکی خاصیت اس میں موجود حیاتین کی وجہ سے ہے۔ دودھ میں اکثر حیاتین ہوتے ہیں۔ اس لئے دودھ ہماری تندرستی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگرچہ تمام حیاتین دودھ میں نہیں پائی جاتیں لیکن اس اکیلے میں اتنی حیاتین ہوتی ہیں جو دنیا کی کسی دوسری خوراک میں نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ یہ حیاتین دوسرے اجزا کے ساتھ ایسے منسلک ہوتی ہیں جو کسی اور خوراک میں نہیں ملتیں۔ حیاتین الف دودھ کے روغنی اجزا میں ہوتی ہے۔ اس لئے یہ مکھن کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچ جاتی ہے۔ جانور چارہ کھاتے ہیں جس سے انہیں حیاتین ب (Vit-B) حاصل ہوتی ہے اور یہ دودھ کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح گائے کے دودھ سے ہمیں حیاتین ج (Vit-C) بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اگر دودھ کافی دیر پڑا رہے تو حیاتین ج ضائع ہوجاتی ہے جس سے دودھ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ دودھ اگر ریفریجریٹر میں کئی دن پڑا رہے تو بھی یہ حیاتین ضائع ہوجاتی ہے۔ اگر دودھ میں تابکاری اشعاع سے حیاتین د (Vit-D) کی مقدار بڑھائی جائے تو بھی حیاتین ج ضائع ہوجاتی ہے۔ اگر دودھ کو یکدم ٹھنڈا (Pasteurise) کرلیا جائے تو یہ حیاتین کافی مقدار میں بچ جاتی ہیں۔ اگر دودھ کو تانبے یا لوہے کے برتن میں رکھا جائے تو بھی یہ حیاتین ضائع ہوجاتی ہے۔ انسان کو بعض اوقات Pellagraکی بیماری لاحق ہوجاتی ہے جس سے اعصاب میں تکالیف اور بدہضمی کی شکایت ہوجاتی ہے۔ یہ حیاتین Niacineکی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے یہ حیاتین دودھ میں زیادہ نہیں ہوتی لیکن اگر دودھ کو سبزیوں اور گوشت کے ہمراہ استعمال کیا جائے تو آدمی کافی حد تک اس بیماری سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس بحث سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہماری زندگی میں دودھ کی کتنی اہمیت ہے۔
صحتمند جانور کا دودھ بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ دودھ اگر ایسے استعمال کرنے کو جی نہ چاہے تو اس میں کئی ایک خوشبوؤں کا اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کا طبیعت پر خوشگوار اثر پڑسکے۔
دودھ ایک زود ہضم خوراک ہے۔ اس کی لحمیات روغنی اجزا اور مٹھاس کا 99%حصہ ہضم ہوجاتا ہے جبکہ کسی دوسری خوراک کی لمحیات 80یا 90فیصد سے زیادہ ہضم نہیں ہوپاتیں اس کے علاوہ دودھ ایک ایسی خوراک ہے جس کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوتا۔ عام خوراک میں کئی قسم کی ہڈیاں وغیرہ ہوتی ہیں جو پھینک دی جاتی ہیں۔ دودھ میں کوئی ایسا جزو نہیں ہوتا جو بیکار سمجھ کر پھینک دیا جائے۔ عام خوراک ایسی ہوتی ہے جسے استعمال سے پہلے پکانا پڑتا ہے جس سے ہمارے اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دودھ کو اصلی حالت میں استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ خوبی دوسری کسی خوراک میں نہیں ملتی۔ دودھ جتنی پسندیدہ خوراک اور کوئی نہیں۔ تمام دودھ ایک جیسے نہیں ہوتے بلکہ ان کی اہمیت میں بعض اجزا کی زیادتی یا کمی سے فرق آجاتا ہے۔ وہ دودھ جس میں روغنی اجزا6فیصد (6%) ہوتے ہیں اس کی طاقت دوسری قسم کے دودھ جس میں یہ اجزا صرف 3فیصد ہوتے ہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کم روغنی اجزا والا دودھ زیادہ اجزا والے کی نسبت کمتر خیال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں بکری یا گائے کا دودھ بھینس کے مقابلہ میں زیادہ عمدہ خیال نہیں کیا جاتا۔
اگر جانوروں کو خوراک اور چارہ سائنسی اصولوں پر دیا جائے تو دودھ کا معیار کافی حد تک قائم رکھا جاسکتا ہے۔ لیباریٹریز کے تجربات کی روشنی میں ہم نہ صرف دودھ کی مقدار بڑھاسکتے ہیں بلکہ اس کا معیار بھی بین الاقوامی معیار کے برابر لاسکتے ہیں۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368784
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development