غبارِ خاطر میں سائنسی عناصر
واپس چلیں

ڈاکٹر وہاب قیصر
نومبر 2009


مولانا ابوالکلام آزاد کی شاہکار تصنیف غبار خاطر پہلی بار 1946 ء میں شائع ہوئی ۔ اب تک اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ اس عرصے میں اہل علم و ادب نے اس سے متعلق مختلف اندازسے اظہار خیال کیا ہے ۔ بعض حضرات اس کو کئی لحاظ سے بہت اہم کتاب قرار دیتے ہیں تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا آزاد کی تصانیف میں یہ اول درجے کی تصنیف نہیں ہے ۔ کسی کے خیال میں کہنے کو تو یہ خطوط کا مجموعہ ہے لیکن دو ایک کو چھوڑ کر ان میں مکتوب کی صفت کسی میں نہیں پائی جاتی ۔کوئی کہتا ہے کہ یہ فرضی مکتوب الیہ کے نام فرضی خطوط ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ یہ خطوط مولانا آزاد نے خود اپنے ہی نام لکھے تھے ۔کچھ لوگ اس کو مجموع�ۂ مکاتیب ہی نہیں مانتے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قلعہ احمد نگر میں مولانا آزادکے سامنے یہ سوال رہا ہوگا کہ قید خانے میں اپنا وقت کیسے گزاریں ۔ چنانچہ وہاں انہوں نے جو بھی تحریر کیا غبار خاطر میں اس کو پیش کیا ۔ کسی کے خیال میں غبار خاطر کی ادبی صنف کا تعین بڑا مشکل امر ہے ۔ اگراس کو خود کلامی سمجھیں تو بات نہیں بنتی ۔ کسی کی نظر میں ایام اسیری میں مولانا آزاد کا غبار خاطر لکھنا ایک دلچسپ مطالعہ ہے ۔ کچھ لوگ اس کو تصنیف نہیں بلکہ ادبی تخلیق مانتے ہیں ۔ کسی کے مطابق غبار خاطر بیک وقت ادب ‘ تاریخ اور ثقافت کا حسین دلنواز پیکر ہے ۔ کوئی اس کو ان کا ادبی کارنامہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں مولانا کی شخصیت ‘ افتاد مزاج ‘ ان کے ذوق ‘ ان کی دلچسپیوں اور مشاغل ‘ فلسفہ ‘ مذہب ‘ فنون لطیفہ اور تاریخی معلومات کے متعلق اس میں بڑے دلکش اشارے ملتے ہیں ۔ کسی نے اس کو مولانا آزاد کی نثر کا نقط�ۂ عروج تصور کیا ہے تو کسی کے خیال میں غبار خاطر مولانا کی اصل نثر سے بہت دور ہے ۔
غبار خاطر اور اس میں مولانا آزاد کی نثر ‘ انشاپردازی اور اسلوب سے متعلق اہل دانش و بینش کے اور بھی کئی خیالات آئے دن ہماری نظر سے گزرتے رہتے ہیں ۔ یہاں ہمارے پیش نظر غبار خاطر بقول مولانا آزاد ان خطوط کا مجموعہ ہے جن کو انہوں نے قلعہ احمد نگر میں دوران اسیری اپنے عزیز دوست حبیب الرحمن خاں شروانی کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا جو رہائی کے بعد کتاب کی شکل میں شائع ہوا ۔ سائنس کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جب ہم نے اس کا مطالعہ کیا تو ہمیں مختلف خطوط میں راست طورپر سائنس اور سائنسی نظریات کے حوالے نظر آئے ۔ بلکہ کئی مقامات پر مولانا آزاد کے برتاؤ میں سائنسی ادراک ‘ سائنسی مزاج اور سائنسی رویے کا اظہار بھی نظر آیا ۔ زیر نظر مقالے میں سائنس کے انہی عناصر کا احاطہ مقصود ہے ۔
اکیسویں صدی کو پہنچنے تک انسان نے اپنے آپ کو ‘ماحول کو اور کارخانۂ فطرت کو سمجھنے میں جو منازل طے کیے ہیں ۔ اس کا بھرپور جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب جب بھی انسانی کھوج نے اس سمت میں کوئی نئی دریافت عمل میں لائی ہے وہ اپنے دامن میں کھوج اور دریافت کی ان گنت راہیں کھول دی ہیں جن پر ساری دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کے بے شمار کھوجیوں کو نکلنا پڑا ۔ اس طرح یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا ۔ مولانا آزاد اسی بات کو غبار خاطر کے بارہویں خط مورخہ 17 اکتوبر1942 ء میں یوں بیان کرتے ہیں :
’’ ہم اس الجھاؤ کو نئے نئے حل نکال کر سلجھانے کی جتنی کوششیں کرتے ہیں ‘ وہ اور زیادہ الجھتا جاتا ہے ۔ ایک پردہ سامنے دکھائی دیتا ہے ‘ اسے ہٹانے میں نسلوں کی نسلیں گزار دیتے ہیں ‘ لیکن جب وہ ہٹتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ‘ سو پردے اور اس کے پیچھے پڑے تھے اور جو پردہ ہٹا تھا ‘ وہ فی الحقیقت پردے کا ہٹنا نہ تھا ‘ بلکہ نئے نئے پردوں کا نکل آنا تھا ۔ ایک سوال کا جواب ابھی مل نہیں چکتا کہ دس نئے سوال سامنے آکھڑے ہوتے ہیں ۔ ایک راز ابھی حل نہیں ہوچکتا کہ سو نئے راز چشمک کرنے لگتے ہیں ۔ ‘‘ (صفحہ ۔ 110 )

مولانا آزاد اس سمت میں کی گئی تحقیقات پر البرٹ آئین اسٹائن کی کتابThe Evolution of Physics یعنی ’’علم طبیعیات کا ارتقا ‘‘ کا حوالہ دیتے ہیں اور اس معاملہ میں مقراطیس کے زمان�ۂ قبل مسیح سے لے کر آج تک مادہ اور اس کے جواہرات و سالمات کی تحقیق کا علم طبیعیات کے عصری نظریےQuantum Theory کو پیش نظر رکھ کر جائزہ لیتے ہیں ۔ جس میں وہ اسی بات کا اظہار کرتے ہیں کہ پچھلی جتنی گتھیاں اس ضمن میں سلجھتی گئی ہیں اتنی ہی نئی نئی گتھیاں پیدا ہوتی گئیں۔
مولانا آزاد غبار خاطر میں اپنے خط نمبر6 مورخہ 11 اگست 1942 ء میں مذہب اور عقیدے کے معاملے میں کبھی فلسفہ کو پیش نظر رکھ کر بات کرتے ہیں تو کبھی سائنس کا حوالہ دیتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی وہ کسی نتیجہ پر پہنچ نہیں پاتے ۔ جیسے وہ لکھتے ہیں :
’’ سائنس عالمِ محسوسات کی ثابت شدہ حقیقتوں سے ہمیں آشنا کرتا ہے اور مادی زندگی کی بے رحم جبریت(Physical Determinism) کی خبر دیتا ہے ۔اس لیے عقیدہ کی تسکین اس کے بازار میں بھی نہیں مل سکتی ۔ وہ یقین اور امید کے سارے پچھلے چراغ گل کردے گا ‘ مگر کوئی نیا چراغ روشن نہیں کرے گا ۔
پھر اگر ہم زندگی کی ناگواریوں میں سہارے کے لیے نظراٹھائیں تو کس کی طرح اٹھائیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بندنہیں کرسکے گا ۔ سائنس ثبوت دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا ۔ لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے‘ اگرچہ ثبوت نہیں دیتا ۔ اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لیے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے ۔ ہم صرف ان ہی باتوں پر قناعت نہیں کر لے سکتے جنھیں ثابت کرسکتے ہیں اور اس لیے مان لیتے ہیں ۔ ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں ثابت نہیں کرسکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے ۔ ‘‘
(صفحہ 37 تا 38 )

مولانا آزاد نے نظریہ ارتقاسے متعلق غبار خاطر کے ایک خط مورخہ 28 اکتوبر1942 ء میں ماہرین حیاتیات ڈارون اور لائیڈ مارگن کے تحقیقی مطالعہ کو اساس بناکر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے ۔ اس خط میں انہوں نے کائنات کی حرکت اور اس کے پھیلنے سے متعلق ماہرین فلکیات کے عصری نظریات کو استدلال کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ جیسے وہ لکھتے ہیں :
’’ کائنات ساکن نہیں ہے ‘ متحرک ہے اور ایک خاص رخ پر بنتی اور سنورتی ہوئی بڑھی چلی جارہی ہے ۔ اس کا اندرونی تقاضہ ہر گوشہ میں تعمیر و تکمیل ہے ۔ اگر کائنات کی اس عالمگیر ارتقائی رفتار کی کوئی مادی توضیح ہمیں نہیں ملتی ‘ تو ہم غلطی پر نہیں ہوسکتے ۔ ‘‘
(صفحہ 128 )

صدیوں سے فلسفیوں اور سائنس دانوں کے لیے مادہ سے متعلق جو تصورات اور نظریات زیر بحث رہے ہیں ان پر الکٹران کی دریافت ‘ بیسویں صدی میں کس طرح اثر انداز ہوئی ہے ۔ اس کے بارے میں اسی خط میں وہ آگے لکھتے ہیں :
’’ اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مادہ کی نوعیت کے بارے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی نے جو عقائد پیدا کیے تھے ‘ وہ اس صدی کے شروع ہوتے ہی ہلنا شروع ہوگئے اور اب یکسر منہدم ہوچکے ہیں ۔ اب ٹھوس مادہ کی جگہ مجرد قوت نے لے لی ہے اور الکٹران (Electron) کے خواص و افعال اور سالمات کے اعدادی و شماری انضباط کے مباحث نے معاملہ کو سائنس کے دائرہ سے نکال کر پھر فلسفہ کے صحرا میں گم کردیا ہے ۔ سائنس کو اپنی خارجیت (Objective) کے علم و انضباط کا جو یقین تھا ‘ وہ اب یکسر متزلزل ہوچکا اور علم پھر داخلی ذہنیت (Subjective) کے اس ذہنی اور کلیاتی مقام پر واپس لوٹ رہا ہے ‘ جہاں سے نشات جدیدہ کے دور کے بعد اس نے نئی مسافرت کے قدم اٹھائے تھے ۔ ‘‘
(صفحہ 128 تا129 )

وقت کیا ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ نہ کوئی لغت اس کے لفظی معنی بتلاسکتی ہے اور نہ کوئی ماہر طبیعیات اس کی راست طورپر تعریف کرسکتا ہے ۔ کیوں کہ سائنس کی زبان میں وقت کوئی مطلق اکائی نہیں ہے ۔ یہ ایک طبیعی مقدار ہے جو وقوع پذیر ہونے والے کوئی دو واقعات کے درمیان کے انتظار کو ظاہر کرتی ہے ۔ یہ وقت ہی ہے جس کی بنا پر زمانہ ماضی ‘ حال اور مستقبل میں منقسم ہوتا ہے ۔ مولانا آزاد نے غبار خاطر کے اپنے ایک خط مورخہ 15 جون 1943 ء میں زمان�ۂ ماضی ‘ حال اور مستقبل پر بحث کی ہے ۔ انہوں نے بتلایا کہ ’حال ‘ کچھ نہیں ہوتا ۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ یا تو ’ ماضی ‘ ہوتا ہے یا ’مستقبل ‘۔ ’حال‘ کا اگر ہم پیچھا کرنا چاہیں تو وہ ہماری پکڑ میں نہیں آتا بلکہ لمحوں میں وہ ’ ماضی ‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اس طرح یا تو ہمارے پاس ماضی ہوتا ہے یا مستقبل ہوتا ہے ۔ سائنس کی زبان میں گزرے ہوئے دو واقعات کا درمیانی وقت ماضی ہوتا ہے اور اسی طرح آئندہ گزرنے والے دو واقعات کا درمیانی وقت مستقبل ہوتا ہے ۔
غبار خاطر میں مولانا آزاد کا ایک خط ’’ چڑیا چڑے کی کہانی ‘‘ مورخہ 17 مارچ1943 ء شامل ہے جس کا تسلسل ان کے دوسرے خط 18 مارچ1943 ء میں بھی قائم رہا ۔ قلعہ احمد نگر میں پہلے ہی سے بسیرا کیے ہوئے چڑے اور چڑیاؤں کے غول کے شب و روز کے مشاہدہ کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ کیا گیاہے ۔ ان میں پرندوں کی جسمانی ساخت ‘ عادات و اطوار اور حرکات و سکنات کا تفصیلی مطالعہ ملتا ہے ۔ ان کا گھونسلا بنانا ‘ بچوں کی پرورش کرنا اور انہیں اڑنا سکھانا جیسے امور کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیاہے ۔ یہ سب وہ مشاہدات ہیں جو عام طورپر ماہر طیوریات(Orinthologist) کیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ نامور انگریزی ادیب اور پرندوں کے دوست Malcom McDonald غبار خاطر کے خط ’’ چڑیا چڑے کی کہانی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’ ۔۔۔۔۔۔ اس کہانی میں وہی لطافت و ظرافت موجود ہے جو عام طورپر مولانا کی تحریر و تقریر میں پائی جاتی ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ اس میں چڑیوں کے عادات و اطوار پر ایسے صحیح مشاہدات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مولانا کا اس طرف میلان طبع ہوتا تو وہ ایک ممتاز ماہر حیوانات ثابت ہوتے ۔ ‘‘
(کتاب التذکرہ ۔ ہمایوں کبیر ۔ صفحہ 216 )

Malcom McDonald کی اس رائے کی توثیق بین الاقوامی شہرت کے حامل ہندوستانی ماہر طیوریات ڈاکٹر سالم علی نے اپنے ایک لکچر میں کی تھی ۔ وہ ’’ چڑیا چڑے کی کہانی ‘‘ کے حوالے سے مولانا آزاد کے بارے میں کہتے ہیں :
"The intimate familiarity fanned his interest in the sparrows and promoted him to record his penetrating observations on the temperament, idiosyncrasies, social behaviour and marital relations of each individual, with an insight that would do justice to a trained naturalist."
(India's Maulna, Centenary
Vol. I, Page 31-32)

مولانا آزاد اپنے خط ’ ’ حکایتِ زاغ و بلبل ‘‘ مورخہ 2 مارچ 1943 ء میں بتلاتے ہیں کہ پنڈت نہرو اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہوں نے قلعہ احمد نگر میں باغبانی کی تھی اور اس کی جوتفصیل بیان کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پودوں کی نشوونما ‘ ساخت ‘ درجہ بندی ‘ ان کے پھلنے پھولنے وغیرہ کا علم رکھتے تھے ۔ عام طور سے باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ‘ پودوں اور پھولوں سے متعلق جزوی معلومات رکھتے ہیں ۔ لیکن باغوں میں لگائے جانے والے موسمی پودوں ‘ ان کی اقسام ‘ ان کے نام اور ان پر کھلنے والے خوشنما پھولوں سے متعلق ان کا مشاہدہ بڑا وسیع تھا اور ان کے بارے میں مولانا تفصیلی جانکاری رکھتے تھے ۔ گویاکہ وہ ماہر باغبانی یا نباتیات ہوں ۔
اسی خط میں پودوں کو پانی دینے اور ان کی نشوونما کے لیے قلعہ میں قید رہنماؤں نے کیا کیا سائنسی تدابیر پیش کیں ‘ اس سے متعلق وہ لکھتے ہیں :
’’ اس کے بعد آب پاشی کا مرحلہ پیش آیا ‘ اور اس پر غور کیا گیا کہ کیمسٹری کے حقائق سے فنِ زراعت کے اعمال میں کہاں تک مدد لی جاسکتی ہے ۔ اس موضوع پر اربابِ فن نے بڑی بڑی نکتہ آفرینیاں کیں ‘ ہمارے قافلہ میں ایک صاحب بنگال کے ہیں ۔ جن کی سائنٹفک معلومات ہر موقع پر ‘ ضرورت ہو یا نہ ہو ‘ اپنی جلوہ طرازیوں کا فیاضانہ اسراف کرتی رہتی ہیں ۔ انہوں نے یہ دقیق نکتہ سنایا کہ اگر پھولوں کے پودوں کو حیوانی خون سے سینچا جائے تو ا ن میں نباتی درجہ سے بلند ہوکر حیوانی درجہ میں قدم رکھنے کا ولولہ پیدا ہوجائے گا ‘ اور ہفتوں کی راہ دنوں میں طے کرنے لگیں گے ۔ لیکن آج کل جب کہ جنگ کی وجہ سے آدمیوں کو خون کی ضرورت پیش آگئی ہے اور اس کے بینک کھل رہے ہیں ‘ بھلا درختوں کے لیے کون اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگا ! ایک دوسرے صاحب نے کہا ‘ یہاں قلعہ کے فوجی میس میں روز مرغیاں ذبح کی جاتی ہیں ‘ ان کا خون جڑوں میں کیوں نہ ڈالا جائے ! اس پر مجھے ارتجالاً ایک شعر سوجھ گیا ۔ حالاں کہ شعر کہنے کی عادت مدتیں ہوئیں ‘ بھلا چکا ہوں :
کلیوں میں اہتزاز ہے پروازِ حسن کی
سینچا تھا کس نے باغ کو مرغی کے خون سے
اگر مرغی کی جگہ بلبل کردیجیے ‘ تو خیال بندوں کی طرز کا اچھا سا شعر ہوجائے گا :
غنچوں میں اہتزاز ہے پرواز حسن کی
سینچا تھا کس نے باغ کو بلبل کے خون سے ‘‘
(صفحہ 195 تا 196 )

مولانا آزاد نے اپنے چودھویں خط مورخہ5 دسمبر1942 ء میں انیسویں صدی کی ابتدا میں بخارا پر روسیوں کے محاصرہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے جنگ میں آتش فشانی کی تکنیک سے متعلق ابن فضل اللہ اور نویری کے حوالے سے جو لکھا ہے ‘اس میں چند سائنسی اصطلاحات پر روشنی ڈالی ہے ۔ ایک اصطلاح ’’ منجنیق‘‘سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ یہ لفظ یونانی زبان کے ایک لفظ سے ماخوذ ہے۔ اسی لفظ سے انگریزی زبان میں Mechanic ‘ فرانسیسی زبان میں Mechanicus اور جرمن زبان میں Mechanikus اصطلاحیں اخذ کی گئی ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ عربی زبان میں مٹی کے تیل کے لیے ایک لفظ ’’ نفط ‘‘ استعمال ہوتا ہے جس سے انگریزی زبان میں Neptha اور Nephthlene جیسی کیمیائی اصطلاحیں عالم وجود میں آئیں۔
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مولانا آزاد کو سائنس اور سائنسی علوم سے جو دلچسپی اور تعلق خاطر تھا اس کی وجہ سے سائنس کا تذکرہ ‘ سائنس کے نظریات اور سائنس کا برتاؤ غبار خاطر کے خطوط میں جگہ جگہ در آیا ہے ۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360363
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development