لیزر کے کرشمے
واپس چلیں

ڈاکٹرعتیق مفتی
دسمبر 2010


انسان نے جب سے تصاویر اور ڈرائنگ کو دو پیمائشوں میں یعنی لمبائی اور چوڑائی کے لحاظ سے بنانا شروع کیا، اس کی جبلت میں ان تصاویر میں تیسری پیمائش کو شامل کرنے کا تصور ہمیشہ سے ہی بسا رہا۔ یعنی وہ ایسی تصاویر بنانے کا متمنی رہا جس میں لمبائی اور چوڑائی کے علاوہ اس چیز کی موٹائی یا گہرائی کو بھی شامل کیا جاسکے، تاکہ اس کی تصاویر یا ڈرائنگ بالکل اصلی چیزوں کی طرح ٹھوس شکل میں اس کے سامنے آجائے اور اگر وہ چاہے تو اس کی پچھلی طرف بھی جھانک کر اس کے متعلق کچھ اندازہ کرسکے۔ اس کی تکمیل کے لئے سائنس دانوں نے تین پیمائشوں والی (3-D) فلمیں بنائیں جو کہ آپ میں سے بھی متعددحضرات نے 1950ء اور 1960ء کے درمیانی وقفے میں ایک خاص قسم کی عینکوں کی مدد سے دیکھی ہوں گی۔ گویہ فلمیں کسی چیز کے ٹھوس پن کا احساس تو ضرور دیتی تھیں مگر اس کی تیسری پیمائش کی تمامتر خوبیوں کو پورے طور پر اجاگر نہ کرسکتی تھیں۔ مثلاً ان تصاویر میں چیزوں کی گہرائی یا موٹائی کو پچھلی طرف سے جھانک کر نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ 1960ء کے بعد لیزر کی ایجاد نے اس خلا کو پر کرنے میں کافی مدد دی کیونکہ لیزر کی شعاعوں کی مدد سے ایک ایسی فوٹوگرافی معرض وجود میں آگئی ہے جسے ہولو گرافی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی گو ابھی ریسرچ کے نشیب و فراز سے گزر رہی ہے مگر پھر بھی آہستہ آہستہ اپنی فنی مشکلات پر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے پیمانے پر ایسی تصاویر مل سکتی ہیں جن میں چیزوں کے ٹھوس پن کا احساس اتنا قوی ہوتا ہے کہ بعض مرتبہ دیکھنے والے کا دل اس قدر چاہتا ہے کہ وہ اس کو چھونے کی کوشش کرنے کے لئے بے اختیار اپنا ہاتھ بڑھانے لگتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اس قسم کی فلمیں بنانے میں ابھی چند ایک دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر خیال ہے کہ شاید ہم اسی صدی میں ہی ایسے ٹیلی ویژن دیکھنے لگ جائیں گے جن کی تصاویر میں چیزوں کی لمبائی، چوڑائی اور موٹائی کے لحاظ سے ایک ٹھوس پن کا احساس ہونے لگے گا۔
ہولوگرافی کے اصول کو سمجھنا کچھ اتنا مشکل نہیں ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ روشنی کی لہریں خلا یا ہوا میں دباؤ (Compression) اور تلطیف (Rarefaction) یا لطیف تہہ در تہہ تہوں کے عمل سے مل کر بنتی ہیں۔ ان تہوں کے اندر کے تمام ذرات کی حالت کو اگر ایک گراف کی صورت میں پیش کیا جائے تو وہ نشیب و فراز سے مل کر ایک چلتے ہوئے سانپ کی شکل کی طرح بنتی ہے۔ یعنی ایک لہر کی طرح جیسے کے شکل میں دکھلایا گیا ہے۔ کسی ایک وقت میں اگر ان موجوں کے ذرات کی حالت کو غور سے دیکھا جائے تو ان میں سے بعض تو نشیب میں واقع ہوں گے اور بعض فراز میں۔ یہاں یہ اصطلاح قابل ذکر ہے کہ اگر تمام کے تمام ذرات کی حالت یا ہےئت (Phase) ایسی ہوکہ یا تو وہ تمام کے تمام نشیب میں ایک ہی حالت میں ہوں یا فراز میں ایک ہی حالت میں۔ تو ایسی صورتحال کے لئے ہم یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں کہ تمام کے تمام ذرات ایک ہی فیز یا ہےئت میں ہیں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ لیزر سے نکلنے والی روشنی کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے کہ اس میں تمام کے تمام ذرات ایک ہی ہےئت میں ہوتے ہیں۔ لہذا آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ لیزر کی شعاعوں کی اس خصوصیت کو کس طرح ہولوگرافی یا تین پیمائشی فوٹو گرافی کے فن میں استعمال کیا جاتا ہے۔
جب کسی چیز یا تصویر پر روشنی کی شعاعیں پڑتی ہیں تو وہ اس سے منعکس ہوکر آنکھ میں چلی جاتی ہیں۔ جہاں پر آنکھ کے پردے پر وہ اس چیز کا ایک عکس بناتی ہیں۔ سائنس دانوں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ چیز سے منعکس ہونے کے بعد روشنی کی مقدار میں تبدیلی اور روشنی کے مختلف رنگوں کے امتزاج کے بعد اس کا عکس آنکھ کے کیمرے پر پڑتا ہے۔ مگر جہاں تک چیز کے مختلف زاویوں سے آنے کا تعلق ہے وہ اس عکس سے معلوم نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عکس میں گہرائی کی پیمائش عنقا ہوتی ہے کیونکہ ٹھوس یا گہرائی کا تصور دینے کے لئے منعکس شدہ شعاعوں کا مختلف ہےئت میں ہونا لازمی شرط ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ابتدائی طور پر جو روشنی کسی چیز پر ڈالی جائے وہ سب کی سب ایک ہی ہےئت میں ہو تاکہ منعکس ہونے کے بعد جو جو ہےئت کا اختلاف منعکس ہونے کی وجہ سے ان شعاعوں میں پیدا ہوا ہے اس کا موازنہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہولوگرافی میں تصویر کشی کے لئے جس روشنی سے چیزوں کو منوّر کیا جاتا ہے وہ سب ایک ہی ہےئت میں ہوتی ہے یعنی لیزر سے لی جاتی ہے۔
جب روشنی کی لہریں روشنی کے منبع سے نکل کر کسی چیز پر پڑتی ہیں تو اس سے منعکس ہونے کے بعد مشاہدہ کرنے والے انسان کی آنکھ کی طرف چل پڑتی ہیں۔ اس چیز سے منعکس ہونے کے عمل میں اس کے مختلف حصوں سے ٹکرانے کی وجہ سے لہروں کے ذرات کی ہےئت یا فیز اس چیز کی شکل وصورت کے لحاظ اور مطابقت سے بدل جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ منعکس شدہ لہریں جب آنکھ کے پردہ پر پڑتی ہیں تو ان میں اس چیز کی شکل و صورت کے لحاظ سے تبدیلی آچکی ہوتی ہے جس کو اگر آنکھ پر کھ سکتی تو اس سے اس چیز کے مختلف حصوں کا مختلف زاویوں سے احساس ہوجاتا اور ہم اس کی موٹائی یا ٹھوس پن کا احساس کرلیتے مگر بد قسمتی سے یہ آنکھ کی سکت سے باہر ہے۔ لہذا اس تبدیلی ہےئت کو جانچنے کے لئے ایک نیا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جسے تداخل (Interference) کا نام دیا جاتا ہے جو شکل سے کافی واضح ہوجائے گا۔
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک لیزر سے نکلنے والی روشنی کی شعاعوں کو جو سب کی سب ایک ہی ہےئت یا فیز میں ہوتی ہیں، لیزرسے نکلنے کے بعد دو حصوں میں منقسم کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ شکل سے واضح ہوتا ہے۔ ایک حصہ تو سیدھا کیمرے کی طرف چلا جاتا ہے لیکن دوسرا ایک شیشے کی مدد سے اس چیز پر ڈالا جاتا ہے جس کی ہولو گراف بنانا مقصود ہوتی ہے۔ اس چیز سے منعکس ہونے کے بعد اس منعکس شدہ روشنی کے ذرات میں اس چیز کی شکل و ہےئت کی مناسب سے ہےئت یعنی فیز کی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے یعنی اب تمام کے تمام ذرات ایک ہی ہےئت میں نہیں رہتے بلکہ منعکس کرنے والی شے کی شکل و صورت کے لحاظ سے مختلف ہوجاتے ہیں۔اب اس منعکس شدہ روشنی کو دوبارہ ایک شیشے کی مدد سے پہلی والی روشنی میں جوکہ کیمرے کی طرف جارہی تھی ،اس میں ملا دیاجاتا ہے۔ جہاں جہاں پہلی روشنی اور منعکس شدہ روشنی کے ذرات ایک ہی ہےئت میں ہوں گے وہاں ان کا باہمی عمل زیادہ ہوجاتا ہے اور جہاں وہ مختلف ہےئت میں ہوں گے وہاں وہ ایک دوسرے کے اثر کو زائل یا کم کردیں گے۔ یہ عمل بالکل اس طرح ہوتا ہے جس طرح کہ دو ساتھ ساتھ رکھی ہوئی رسیوں کو لہروں کی شکل میں گھمایا جائے تو دونوں رسیوں کے نشیب و فراز ایک دوسرے سے مل کر کہیں سے رسیوں کے نشیب کو بڑا بنادیتے ہیں اور کہیں سے کم۔ گویا اب پہلے حصے کی غیر منعکس شدہ روشنی اور دوسرے حصہ کی منعکس شدہ روشنی بھی اس طرح امتزاج کرکے روشنی کم اور زیادتی والی پٹیاں یعنی تداخلی پٹیاں (Interference Pattern)سی بنادے گی۔ گو ان پٹیوں میں سے اس چیز کی شکل نظر نہیں آتی مگر ان پٹیوں میں اس چیز کی شکل ضرور پنہاں ہوتی ہے۔
اب سب سے اہم مرحلہ یہ ہے کہ اس چھپی ہوئی تصویر کو کیسے دیکھا جائے۔ اس کا ایک بالکل آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر اس فوٹو گراف یا ہولوگرام کو دوبارہ ایک لیزر کے سامنے رکھیں تو لیزر کی روشنی جب ان تداخلی پٹیوں میں سے ہوکر نکلے گی تو اس لحاظ سے اس کی مقدار میں کمی یا بیشی واقع ہوجائے گی۔ لہذا اگر آپ اس فوٹو گراف کے دوسری طرف دیکھیں گے تو آپ کو ایک تین پیمائش کی ہو بہو تصویر نظر آئے گی جیسا کہ شکل میں دکھایا گیا ہے۔ جوں جوں آپ لیزر کی پوزیشن کو تبدیل کرتے جائیں گے، توں توں اس فوٹو گراف کے نئے نئے زاوےئے اجاگر ہوتے جائیں گے۔ حتیٰ کہ یہ ایک مکمل ٹھوس شکل کی تصویر نظر آئے گی۔
ہولوگرافی کے استعمالات ابھی پوری طرح اجاگر نہیں ہوئے مگر بھر بھی اسے آجکل ایسے کارخانوں میں استعمال کیا جارہا ہے جہاں کل پرزے بنائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک اچھے پرزے کا ہولو گرام بنالیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد کے تیار ہونے والے پرزوں کو اس ٹھوس تصویر پر رکھ کر نئے تیار شدہ پرزوں کی خامیوں کو نوٹ کرلیا جاتا ہے۔ موٹر گاڑیوں کے نئے ماڈل سوچنے والے بھی اپنی سوچ کی گاڑیوں کے ماڈل بناکر اس کے ہولوگرام بنالیتے ہیں۔ اور پھر ان کو ہر آڑھے ترچھے زاوےئے سے دیکھ کر ان کے ڈیزائنوں میں ترمیم کرسکتے ہیں۔ ہولوگرافی کا ایک عمدہ مصرف یہ بھی ہے کہ اگر آپ نے کہیں کوئی خفیہ معلومات بھیجنی ہوتو اس کا ہولوگرام بناکر اس شخص کو بھیج دیا جائے جو اسے لیزرکی روشنی میں رکھ کر خفیہ معلومات (انفرمیشن) پڑھ سکتا ہے۔
آخر میں اس چیز کی بھی وضاحت کردینی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اب ایسے ہولوگرام تیار ہونے لگ گئے ہیں جن کو دیکھنے کے لئے لیزر کے بجائے عام روشنی ہی استعمال ہوتی ہے۔

لیزر۔پیمائش کا نیا ذریعہ
لیزر تشخیص و تجویز اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں توبخوبی اپنا سکہ منوا چکا ہے لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں دنیا کے تمام کاروبار اور ترقی کا انحصار مستند اور صحیح پیمائش پر ہے کیونکہ جب تک کسی چیز کی صحیح پیمائش نہیں ہوسکے گی اسے استعمال میں لانا ممکن نہیں ہوتا لہذا ان مقاصد کے لئے لیزر کی شعاعوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کرکے نہ صرف صحیح پیمائش کی جاتی ہے بلکہ ان پیمائشوں سے طرح طرح کی ایجادات بھی معرض وجود میں آرہی ہیں جن کا مختصر سا حال مندرجہ ذیل ہے۔

1۔ زمینی سروے اور بر اعظموں کی حرکت کی پیمائش
آپ نے اکثر زمینی سروے کرنے والے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ کسی دو مقامات کو غیر متحرک تصور کرلیتے ہیں۔ جیسے کہ شکل میں مقام ا اور ب ہیں۔ اب کوئی اور مقام ج چن لیا جاتا ہے اور اس طرح ایک تکون کی شکل بن جاتی ہے۔ اگر کسی جگہ کا رقبہ معلوم کرنا ہو تو ایسی تکون کے رقبے کو بڑھا کر اس جگہ کا رقبہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر تیسری نامعلوم جگہ کا فاصلہ معلوم کرنا درکار ہوتو اس تکون کے بازوؤں اور درمیانی زاویوں کی مدد سے تیسرے مقام کا فاصلہ معلوم کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ تو زمینی سروے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اگر اسی اصول کو ذرا مختلف طریقے پر دیکھا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مقام ا اور ب غیر متحرک ہیں لیکن مقام ج کسی متحرک جگہ پر واقع ہے۔ لہذا اس حالت میں خیالی تکون اب ج کے بازو اور زاوےئے مقام ج کی حرکت کی وجہ سے بدلتے رہیں گے اوراس کی حرکت کو تکون کے زاویوں اور بازوؤں کی تبدیلی کی وجہ سے ناپا جاسکتا ہے۔ اسی اصول کو اب براعظموں کی حرکت اور رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ سے سائنس دانوں کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ مختلف بر اعظم اپنی اپنی جگہ حرکت کرتے ہوئے دو سے چار سینٹی میٹر سالانہ کی رفتار سے پھسلتے جارہے ہیں۔ لہذا وہ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا براعظم پھسل بھی رہے ہیں یا نہیں اور اگر پھسل رہے ہیں تو ان کے پھسلنے کی رفتار کیا ہے۔
ان دونوں مقاصد یعنی زمینی سروے اور براعظموں کے پھسلنے کی رفتار کے لئے لیزر کو بڑی آسانی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان طریقوں کی وضاحت شکل سے بخوبی واضح ہوجائے گی۔ زمین سے کچھ فاصلے پر ایک سیٹلائٹ میں لیزر رکھ دیا جاتا ہے جو زمین کی طرف اپنی شعاعیں بھیجتا ہے۔ اگر زمینی سروے درکار ہوتو دو مقام ا اور ب اور تیسرا مقام ج لیزر کی شعاعوں کی مدد سے تکون بنانے کے کام آتا ہے۔ اور اگر بر اعظموں کی حرکت کا اندازہ کرنا ہوتو ا اور ب مقام دو ایسے براعظموں پر رکھ لئے جاتے ہیں جو غیر متحرک تصور کئے جاتے ہیں اور تیسرا مقام ج اس کی حرکت کا اندازہ بتلا دیتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ طریقہ تو ایک پرانا اور مستند طریقہ ہے پھر اس میں لیزر کا کیا کمال ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ پہلے یہ سروے زمین پر ہی واقع مقامات پر کیا جاتا تھا مگر اب سیٹلائٹ کی وجہ سے خیالی تکون کا رقبہ کافی بڑا بن گیا ہے۔ لہذا پیمائش بجائے چھوٹے پیمانے کے بڑے پیمانے پر کی جانے لگی ہے اور دوسرے اگر سیٹلائٹ سے یہ کام ریڈیائی لہروں سے لیا جائے تو وہ شاید اس قدر مستند پیمائش کا کام نہ کرسکیں کیونکہ ریڈیائی لہریں فضا میں سے گزرنے پر انحراف اور انعطاف کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں لیزر کی شعاعیں دور دور تک بغیر پھیلے اور انعطاف کے کار آمد رہتی ہیں۔

لیزر راڈر اور دشمن کی تنصیبات کا کھوج اور فاصلہ
دشمن کی تنصیبات کا سراغ لگانا اور ان کو تباہ کرنا فوجی نظام کا اولین کام سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے لیزر اپنی خصوصیات کی بدولت دفاعی آلات میں زیادہ سے زیادہ اہمیت حاصل کرتا جارہا ہے۔ لیزر کو بطور راڈر اور دشمن کی تنصیبات کا کھوج اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے دو طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ایک لیزر کو زمین پر رکھ کر اس کی شعاعوں کو دشمن کی تنصیبات کی طرف بھیجا جاتا ہے جو کہ ان تنصیبات سے منعکس ہوکر واپس آجاتی ہیں اور لیزر کے پاس ہی پڑے ہوئے الیکٹرانک آلات کی مدد سے ان کے جانے اور آنے کا وقت معلوم کر لیا جاتا ہے۔روشنی کی رفتار آنے جانے کے وقت کو مد نظر رکھ کر دشمن کی تنصیبات کا فاصلہ معلوم ہوجاتا ہے یا اس کو ایک اور طریقے پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جیسا کہ شکل میں دکھلایا گیا ہے۔ اس کا اصول یہ ہوتا ہے کہ زمین پر رکھے ہوئے ایک لیزر سے شعاعیں دشمن کی تنصیبات کی طرف بھیجی جاتی ہیں جہاں سے وہ منعکس ہوجاتی ہیں۔ اگر اس وقت فضا میں اپنا ہی کوئی ہوائی جہاز اڑ رہا ہو تو وہ ان منعکس شدہ شعاعوں کو الیکٹرانک آلات کی مدد سے وصول کرلیتا ہے اور اس طرح ہوائی جہاز میں سوار لوگو ں کو دشمن کی تنصیبات اور ان کی پوزیشن کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ لہذا وہ ہوائی جہاز سے ہی راکٹ یا بم پھینک سکتے ہیں۔
یہ دونوں طریقے دراصل بالکل وہی اصول ہیں جن پر راڈربنائے جاتے ہیں۔ ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ راڈر میں برقناطیسی لہریں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ راستے میں موسمی تغیرات کی وجہ سے اتنی صحیح اور عمیق پیمائش کا پتہ دینے سے قاصر ہوجاتی ہیں اس کے مقابلہ میں لیزر اپنی خصوصیات کی بنا پربر قناطیسی لہروں کی نسبت کہیں زیادہ تسلی بخش کام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دشمن کی تنصیبات اگر ایک ہی سمت میں قریب قریب واقع ہوں یا مقامی درختوں اور عمارتوں پر سے برقناطیسی لہروں کے منعکس ہونے کہ وجہ سے وہاں ایک گونج (echo) سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے برقناطیسی لہروں سے حاصل کردہ پیمائش میں کئی دفعہ غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں لیزر کی شعاعیں ان نقائص سے برقناطیسی لہروں کی نسبت کافی پاک ہوتی ہیں۔

3۔ لیزر جائرو اسکوپ (Laser Gyroscope)
لیزر جہاں زاویوں اور فاصلوں کی پیمائش کے لئے استعمال ہو رہے ہیں، وہاں گردش (Rotation)کی پیمائش کے لئے بھی کافی کار آمد ثابت ہورہے ہیں۔ ان سے بنی ہوئی گردش پیما (Gyroscope) عام گردش پیما آلات سے کہیں زیادہ مستند اور مستعد ثابت ہورہی ہیں۔ شکل میں ایک جائرو اسکوپ کا اصول بتلایا گیا ہے۔ اس کا اصول کچھ اس طرح ہے کہ لیزر کی شعاعوں کے راستے کو ایک رنگ کی شکل کا بنایا جاتا ہے۔ دونوں سروں پر نیم شفاف آئینے کچھ اس طرح سے لگائے جاتے ہیں کہ لیزر کی شعاعیں ایک بند گھیر (Close Path) میں سے گزرتی ہیں۔ ایک شعاع گھڑی کی سوئیوں کی سمت میں جاتی ہے اور دوسری گھڑی کی سوئیوں کی مخالف سمت میں اگر تو ہوائی جہاز یا سمندری جہاز یا کوئی اور متحرک شے جہاں یہ نصب ہے اپنی حرکت کو کسی تبدیلی کے بغیر جاری رکھے گی تو اس صورت میں دونوں شعاعیں اپنی اپنی مسافت میں یکساں وقت لیں گی لیکن جونہی اس جہاز یا متحرک شے کی حالت میں تبدیلی واقع ہوگی تو یہ بند گھیر میں کچھ گردش ہوگی جس کی وجہ سے ایک شعاع کا فاصلہ دوسری شعاع کی نسبت چھوٹا ہوجائے گاجس کی وجہ سے ان دونوں شعاعوں کی فریکوینسی یا تعدد میں فرق پڑجائے گا اس تعدد کے فرق کا یا تو الیکٹرانکس کے آلات سے پتہ چلا لیا جاتا ہے یا ان کو ایک منشور کی مدد سے اکٹھا کرکے روشنی کی پٹیاں بنالی جاتی ہیں جن میں گردش کی وجہ سے تغیرو تبدل بڑا واضح حالت میں دیکھا اور پیمائش کیا جاسکتا ہے۔

لیزر کی دنیا ۔ اگلا قدم
لیزر کی ایجاد نے جب 1960ء میں جنم لیا تو اس پر اس وقت اس مثل کی مصداق ہوتی تھی کہ ’’بچے کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں‘‘ اور ہوا بھی کچھ یوں ہی۔ 49 سال کے اس قلیل عرصہ میں یہ ایجاد انسانی عقل و خرد کی منزلوں کو کہاں سے کہاں تک لے گئی ہے۔ اس صدی کا ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ کاریگر لیزر کی تابانیوں سے سرشار بھی ہورہا ہے اور اس کی مزید پنہاں خوبیوں کی تلاش میں مگن اور سرگرداں بھی ہے۔ جہاں دفتر میں میز پر بیٹھا ہوا ایک معصوم سا ٹائپسٹ اپنی ٹائپ شدہ غلطیوں کو ربڑ کے بجائے محض ایک بٹن دباکر لیزر کی شعاع سے مٹا دیتا ہے۔ وہاں دیو ہیکل ہوائی جہاز بنانے والا کاریگر اس کے پرزوں کو رتی برابر صحیح جگہ پر لگانے اور بڑی بڑی دھاتوں کو کاٹنے کا کام بھی لیزر ہی کی مدد سے لے رہا ہے۔ جہاں ڈاکٹر آنکھ کے پردوں کے اندر نقصان شدہ اور معلق پردوں کو سینے پر ونے کا کام لیزر شعاعوں سے لیتا ہے۔ وہاں ماہر انجینئر بڑے بڑے راڈر اور ٹیلی فون کے لامحدود چینل سے سیاروں تک کی پیغام رسانی کا کام بھی اسی سے لیتا ہے۔ جہاں دند ان ساز دانتوں کے چھوٹے چھوٹے ناکارہ ریزوں کو تندرست دانتوں سے جدا کرنے کے لئے لیزر کا سہارا لیتا ہے وہاں کپڑوں کی لاتعداد تہوں کو کاٹ کر سوٹ بنانے کا کام بھی درزی لیزر ہی سے لیتا ہے۔ لیکن کیا لیزر کی منتہا یہی کچھ ہے یا ابھی اسے اور پروان چڑھنا ہے؟ اس کا جواب کچھ مشکل نہیں کیونکہ بقول ڈاکٹر شالو ابھی تولیزر کی ابتداء ہے یہ اس کی انتہا نہیں ہے۔ اس کی انتہا تو دراصل وقت اور ٹیکنالوجی کا دھارا ہی مقرر کرے گا۔ مستقبل کی باتیں خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر مستقبل قریب کا کچھ اندازہ تو اس کا خلیفہ یعنی بنی نوع انسان بھی لگا سکتا ہے۔ مستقبل کی ریسرچ میں لیزر کا کیا مقام ہوگا اس کے متعلق مختصراً کچھ یوں کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ کی ریسرچ میں لیزر دو طریقے پر کارہائے نما یاں انجام دے سکے گا جو اپنی چھپی ہوئی خوبیوں کے ساتھ انسانی زندگی میں مزید انقلابات لائیں گے۔ اولاً یہ کہ لیزر کی مدد سے ہم روشنی کو مزید زیادہ سے زیادہ ایجادوں میں کہیں بہتر طریقے پر استعمال کرسکیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ روشنی کی شعاعیں مادّہ کے ساتھ کس طرح سے عمل پیرا ہوتی ہیں۔ موخز الذکر علم کے کئی دور رس نتائج نکلنے کے امکانات ہیں۔ مثلاً لیزر سے حاصل شدہ توانائی کی مقدار اگر ایک مربع سینٹی میٹر میں ایک ہزار ملین واٹ (1000 Million Watt) ہوتو یہ برقی توانائی کے لحاظ سے ایک سینٹی میٹر میں دس لاکھ وولٹ کے برابر تصور ہوتی ہے اور اگر لیزر کی اس توانائی کو ایک عد سے کی مدد سے کسی نہایت ہی چھوٹی جگہ پر مرکوز کردیا جائے تو اس توانائی کی مقدار ایک ملین وولٹ کے برابر ہوجاتی ہے اور یہ توانائی کچھ اتنی ہی ہے جتنی کہ ایٹم کے اندر الیکٹرون اور نیوکلئیس (مرکزے) کے درمیان جکڑنے والی توانائی ہے لہذا اس توانائی کی مدد سے ہم ایٹم کے اندر ہلچل مچاکر اور ایٹم کو توڑکر اس کی پنہائیوں میں بھی جھانک سکیں گے۔ جو اب تک سائنس دانوں کی پہنچ سے دور ہیں اور جب انسان ایٹم کے اندر صرف محدود حد تک ہی جھانک کر اس قدر دانا اور طاقت ور بن گیا ہے تو مزید ایٹم کے اندر جانے سے خدا جانے اور کیا کیا مزید نئی راہیں دریافت ہوں گی۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں کے سرپر پلازمہ بنانے کا جنون کچھ اس طرح سوار ہے جس طرح زمانہ قدیم میں الکیمی کے سر پر سونا بنانے کا تھا اور ہو بھی کیوں نہ جس طرح سونے کی طاقت سے زمانہ قدیم کو یک لخت پلٹا جاسکتا تھا اسی طرح پلازمہ بنانے اور اس کے کنٹرول کرنے سے اکیسویں صدی کی دنیا ایک لامتناہی جست کے ساتھ کہیں سے کہیں جاسکتی ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پلازمہ آخر ہے کیا شے؟ مختصراً یوں سمجھئے کہ اگر ایٹم چند ایک الیکٹرون کو توانائی دے کر ایٹم سے علیحدہ کردیا جائے تو باقی ماندہ ایٹم ایک ایسی عبوری حالت میں پایا جاتا ہے جسے پلازمہ کہتے ہیں۔ اور یہ حالت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اس میں یہ ایٹم ایک دوسرے سے مل کر ایک انتہائی وسیع توانائی کا منبع بن سکتے ہیں مثلاً ہائیڈروجن بم اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ فی الحال ایسی توانائی کا کوئی خاطر خواہ محرک ایجاد نہیں ہوسکا جو کہ ایٹم سے اس کے الیکٹرون کو جدا کرکے پلازمہ کو ہماری مرضی کے مطابق بناسکے۔ لیکن خیال ہے کہ لیزر کی توانائی کو مرکوز کرکے یا کیو سوئچنگ (Q-Switching)کی مدد سے اس قدر توانا بنایا جاسکے گا کہ وہ ایٹم کے چند الیکٹرون کو ان سے جدا کرکے پلازمہ بنانے میں ہماری مدد کرسکے گا۔ اور اس طرح سائنس دانوں کی سب سے کٹھن مشکل آسان ہوجائے گی اور وہ اپنے زمانے کی ناقابل تسخیر دیوار کو پھلانگ کر ایک نئے دور کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
روشنی کی رفتار اور اس کی ایتھر میں سے مسافت کا مشاہدہ سب سے پہلے مائکلسن اور مورلے نے کیا جو بعد میں چند ایک ناگزیر خامیوں کی بناپر آئن اسٹائن کے لئے ایک کھلا میدان چھوڑ گیا جس کی بناپر اس نے اپنی تھیوری آف ریلیٹیویٹی(نظریہ اضافیت) پیش کی۔ یہ تھیوری گو نظریاتی اعتبار سے تو نہایت معتبر اور مستند سمجھی جاتی ہے مگر اس کو عملی طور پر ثابت کرنے میں چند ایک دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ خیال ہے کہ لیزر کی شعاعوں کی مدد سے اس تھیوری کے عملی ثبوت کی فراہمی میں کافی مدد ملے گی اور اس طرح دنیا نے جو انقلابات نیوٹن کے کلیات حرکت، میکسویل کی الیکٹرومیگنیٹک تھیوری اور شروڈ نگر کی کوانٹم میکانکس کی وجہ سے دیکھے اسی طرح کا ایک اور انقلاب آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹیویٹی) کی وجہ سے رونما ہوگا۔ اس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں کیا ہوں گے اس کا جواب اس وقت دینا کچھ ایسا ہی مشکل ہے جس طرح نیوٹن کے کلیات حرکت سے پہلے ان کی وجہ سے سائنس کی دنیا میں جو انقلاب واقع ہوا ہے اس کی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی تھی۔
جب بھی کوئی ایجاد اس دنیا میں اپنا سر اٹھاتی ہے تو اس وقت اس ایجاد کے استعمال کرنے والوں کے پیش نظر دوہی مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس ایجاد سے بنائے ہوئے آلات کے استعمال کو وسیع سے وسیع تر بنایا جائے اور دوسرے اس کی قیمت میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے آج کل دنیا کے گوشے گوشے میں ریسرچ اور ترقی دینے کا بازار سرگرم ہے اور خدا کا شکر ہے کہ ماہرین کو اپنے ان مقاصد میں کہیں زیادہ کامیابیاں نصیب بھی ہوئی ہیں لیکن حضرت آدمؐ کی یہ اولاد اس وقت تک نچلا بیٹھنے کا ارادہ نہیں رکھتی جب تک کہ گھر کے چولہے کی دیا سلائی سے لے کر بڑے بڑے کارخانے کا نظام بھی لیزر ہی سے نہ چلنے لگے اور سچ تو یہ ہے کہ ریسرچ اور ترقی کی یہ دوڑ اگر اسی طرح جاری رہی تو ہم انشاء اللہ اسی صدی کے آخر تک اس دنیا میں قدم رکھنے میں شاید کامیاب ہوجائیں گے جو آجکل محض تخیّل کی دنیا ہی نظر آتی ہے۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360328
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development