مولانا ابوالکلام آزاد سائنس کے آئینہ میں
واپس چلیں

شاہد رشید
نومبر 2011

مولانا آزاد نے امام ابن تیمیہ کے متعلق تحریر فرمایا۔
ایمانِ کامل اور مقام عزیمت علم و عمل کا چراغ جہاں کہیں رکھا جائیگا اجالا ہوجائے گا۔۔۔۔۔ مورنے کہا میرا چمن میرے ساتھ ہے۔ باغ وبہار کا محتاج نہیں۔ جہاں کہیں پروں کو کھول دوں گا ایک تختۂ چمن کھل جائیگا۔ یہی حال مومنِ کامل اور صاحبِ علم وعملِ حق کا ہے۔ وہ کسی زماں ومکاں کا محتاج نہیں۔ جہاں کہیں بھی جائیگا، روشنی پھیلائیگا۔
(تذکرہ)
مولانا آزاد کی یہ تحریر خود ان پر صد فی صد صادق آتی ہے۔ جس موضوع پر مولانا قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کردیتے تھے۔ انہوں نے علم طبیعات، کیمیا، حیاتیات، طب، جغرافیہ، علم فلکیات پر ایسی سیر حاصل تحریر یں لکھی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مولانا نے قوم کی اصلاح کے لئے اور قوم میں علمی اور سائنسی شعور پیدا کرنے کے لئے مختلف رسائل کا اجرا کیا۔ ماہنامہ لسانِ صدق کا پہلا شمارہ 20نومبر 1903 میں شائع ہوا تھا۔ ہفت روزہ الہال کا پہلا شمارہ 13جولائی 1912 کو منظر عام پر آیا اور 18نومبر1914 کو بند ہوا۔ ایک سال بعد نومبر1915کو پندرہ روزہ البلاغ کا اجرا ہوا۔ اور3 اپریل1916 کو اس کا سفر اختتام پزیر ہوا۔ یہ تمام پرچے سیاسی تحریک کے لئے مختص نہیں تھے۔ کیونکہ اس زمانہ میں کانگریس کی انگریزوں کے خلاف تحریک میں وہ کشش ہی نہیں تھی جو مولاناآزاد کو اپنی طرف متوجّہ کرسکے۔ اپنے مضامین کے ذریعہ مولانا توہم پرستی کا سدِّباب اور قوم میں سائنسی شعور بیدار کرنا چاہتے تھے۔
مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اصرار پر 15جنوری 1947کو وزراء کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ ہم سب جانتے ہیں وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ اور وہ اس عہدہ پر اپنی وفات 22فروری 1958 تک فائز رہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں قدرتی وسائل اور سائنسی تحقیقات کے شعبہ کا بھی نگراں مقرر کیا گیا تھا۔ آزادی کے فوراً بعد مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کا انتقال ہوگیا تھا اور وزیرِ اعظم کو مولانا آزاد کے مشوروں کی ہمیشہ ضرورت رہی۔ ملک کی ترقی سائنس اور تکنیکی مہارت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی اس لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ آج دنیا ہندوستان کی ترقی پر انگشت بدنداں ہے اس کی بنیاد میں سائنسی بصیرت رکھنے والے وزیر ک تعلیم اور زیرکہ وزیر اعظم ہیں۔ وزیرِ تعلیم کی حیثیت سے ان کی سائنسی خدمات، اظہر من الشّمس ہیں۔ ان کے وزیرِ تعلیم رہتے ہوئے فنی تعلیم کے لئے
Indian Council of Technical Education کا قیام عمل میں آیا۔
University Grants Commission (UGC)قائم ہوا۔
Council for Scientific and Industrial Research جسے عرف عام میں CSIRکہا جاتا ہے کی تجدید ہوئی اس کا آغاز 1942میں ہوچکا تھا Indian Institute of Science میں مختلف شعبہ جات کے لئے فنڈ کی فراہمی ہوئی۔ اسی کے تحت Aeronoatical Engineering ، Internal Combustion Engineering، Metallergy، Voltage Engineering، Power Engineering،
Chemical Engineering کے خصوصی شعبے قائم کئے گئے۔ سیکنڈری (Secondary) اور اعلیٰ تعلیم (Higher Education) میں سائنسی تعلیم کی طرف توجہ دی گئی۔ اور ریسرچ سینٹر (Research Centre) قائم کئے گئے۔ کالج اور یونیورسٹیوں میں فن وسائنس کے پوسٹ گریجویٹ شعبوں کا قیام عمل میں آیا اور ریسرچ سینٹروں کو منظوری دی گئی۔ ان قابلِ قدر کاموں کے سلسلے میں مولانا کا ایک خطاب ملاحظہ فرمائیں۔
وزارتِ تعلیمات کا جائزہ حاصل کرتے ہی پہلا فیصلہ جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلی فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی اکثر ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔۔۔۔ میں اس دن کا منتظر تھا اور اب بھی ہوں جب ہندوستان میں فنی تعلیم کی سطح اتنی بلند ہوجائے کہ باہر سے لوگ ہندوستان اس غرض سے آئیں گے کہ یہاں اعلیٰ سائنس اور فنی تعلیم و تربیت حاصل کریں۔
(کتاب التذکرہ۔ ہمایوں کبیر ص 131)
مولانا آزاد کو اس بات کا شدّت سے احساس تھا کہ ملک کی معاشی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ طلبا وطالبات کو سائنسی وفنّی تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے جو لائحہ عمل اختیار کیا تھا اس کے ثمرات آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ وہ خواب جو مولانا نے ساٹھ سال پہلے دیکھا تھا آج وہ شرمندۂ تعبیر ہوا ہے۔ آج ہماری یونیورسٹیوں اور فنی تعلیم کے اداروں میں بیرون ملک طلبہ کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
مولانا آزاد نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ انہوں نے قوم میں مذہبی وسیاسی شعور پیدا کرنے کے لئے مضامین لکھے انہوں نے سائنسی مضامین کے ذریعہ توہم پرستی کا سدِّباب اور قوم میں سائنسی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ قوم کو تحریک آزادی اور آزاد ہندوستان میں ان کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے لئے انہوں نے مختلف رسائل واخبارات نکالے۔ لسانِ صدق کے اجراء کا مقصد بیان کرتے ہوئے مولانا تحریر کرتے ہیں۔
’’اردو ابھی مشرقی زبانوں سے پیچھے ہے اور اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ علوم وفنون کے ترجمے کا اردو میں سلسلہ قائم نہیں ہوا ہے۔ اور صرف تعلیم کی جانب اب تک توجہ رہی اس کے علاوہ اردو میں عمدہ تصانیف کی بھی بڑی کمی ہے۔ سوائے چند مشہور مصنّفوں کے، جن کا نام انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے اور کسی قابل شخص کے قلم سے عمدہ تصنیف نہیں نکلتی۔ بر خلاف اس کے مخرب اخلاق ناولوں کی اور فضول کتابوں کی اس قدر کثرت ہے کہ شاید فارسی زبان کے کتب عشقیہ نظم ونثر بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں کافی تعداد ایسے اہلِ قلم کی موجود ہے جس کی کوششوں سے عمدہ کتابیں تصنیف ہوسکتی ہیں لیکن عام میلان دیکھ کر وہ اس کی توقع نہیں کرسکتے۔
(مولانا ابوالکلام آزاد۔ شخصیت اور کارنامے
مرتبہ خلیق انجم ص 120)
اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مختلف رسائل کے اجراء کا مقصد قوم کی اصلاح و ترقی تھا۔ قوم میں عملی وسائنسی شعور پیدا کرنا اور آزاد ہندوستان میں قوم کا مستقبل پیشِ نظر تھا۔

اردو کا سب سے کم عمر صحافی
مولانا آزاد بارہ برس کی عمر میں ہفتہ وار اخبار ’’المصباح‘‘ کے مدیر ہوئے۔ اس میں علمی و تاریخی مضامین و سوانح شائع ہوتے تھے۔ اس میں مدیر کے قلم سے امام غزالی کے علاوہ نیوٹن وکشش ثقل پر بھی مضامین لکھے گئے تھے۔ ایک رسالہ ’’مرقع عالم‘‘ ہر دوئی سے شائع ہوتا تھا۔ اس میں مولانا کا مضمون ’’علوم جدیدہ اور اسلام‘‘کے عنوان سے شائع ہوا تھا اپنے عریضہ میں مولانا مدیر کو لکھتے ہیں:
’’میں نے اس خیال سے کہ جب ’’مرقع عالم‘‘ میں سائنس کے تراجم شائع ہورہے ہیں تو ان خرابیوں کا انسداد بھی ضرور بالضرور ہونا چاہئے یہ مضمون’’ علوم جدیدہ اور اسلام ‘‘ آپ کے پرچے کے لئے بھیجا ہے۔
(خطوطِ ابوالکلام آزاد)
لسان صدق میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اردو زبان جب ہی ترقی کرسکتی ہے اور علمی زبان بن سکتی ہے جب کہ اس میں باضابطہ تراجم علوم وفنون کا سلسلہ قائم کیا جائے۔ جدید علوم کے ہر صیغہ میں مبسوط اور جامع کتابیں ترجمہ کی جائیں۔
(لسّانِ صدق)

ان اقتباسات سے مولانا کے سائنسی شعورکا اندازہ ہوتا ہے۔ نوبت رائے نظر کی زیر ادارت ماہنا مہ ’’خدنگِ نظر‘‘ لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا۔ 1903میں مولانا آزاد اس کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنائے گئے اس کا تذکرہ ’’آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی‘‘ میں اس طرح ہے:
’’سال بھر کے بعد خدنگِ نظر میں نثر کا حصّہ اور بڑھایا گیا تو اس حصہ کی ایڈیٹری بھی میرے متعلق کردی گئی اور اب زیادہ اہتمام اور پابندی سے اس کے لئے مضامین مرتب کرنے لگا۔ مولانا شبلی مرحوم نے اسی کے ایک مضمون کی بنا پر مجھے خط لکھا تھا جو عکس ریز یعنی ضؤ غیر مرئی کی تاریخ انکشاف اور حقیقت پر لکھا تھا۔
(عبد الرزاق ملیح آبادی ص 280)

مولانا آزاد ایک ماہر طیوریات کے مانند
علم حیوانات کی وہ شاخ جس میں پرندوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے آرنتھولوجی (Ornithology)کہلاتی ہے اس میں پرندوں کی ساخت ان کی حرکات وسکنات، ان کے ماحول، ان کے عادات و اطوار، ان کی جماعت بندی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ پرندوں کی مجامعت (Mating)،انڈوں کا سینا، بچوں کی پرورش وغیرہ کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ پرندوں کی ہجرت، ان کے ہجری سفر کا مطالعہ ، ان کی معاشی اہمیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے مختلف پرندوں پر مضامین لکھے ہیں۔ انہوں نے زمانۂ قدیم میں کبوتروں کی ڈاک کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا تھا۔ اس کی پہلی قسط ماہنامہ ’’خدنگ نظر ‘‘ کے مئی 1902کے شمارہ میں شائع ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں :
’’پچھلے زمانے میں جس حیرت ناک طریقے سے جلد خبر کے پہنچ جانے کا ذریعہ پیدا کیا گیا تھا واقعی بات یہ ہے کہ وہ ریل سے کہیں زیادہ تعجب خیز ہے۔ کیونکہ ریل کی ایجاد کتنی ہی حیرت انگیز کیوں نہ ہو مگر فی نفسہ ریل اس قابل نہیں ہے کہ اسے عقل تعجب کی نگاہ سے دیکھے۔ چند قوتوں کا اجتماع عجیب وغریب سرعت پیدا کرسکتا ہے یہ کوئی تعجب کرنے والی بات نہیں ہے۔ مگر ایک ایسی جاندار مخلوق جس میں نہ تو عقل ہو نہ فراست ہو نہ قوّت ممیزہ ہو، ایسے ایسے کام کرے جو انسانی قواعد کے شایاں ہیں۔ نہایت ہی تعجب خیز امر ہے!!! اور اس کام کے دریافت کرنے والے کی عجیب وغریب اور حیرت ناک فراست اور خدا داد قوتِ عقلی ثابت ہوتی ہے‘‘۔

اس مضمون میں مزید آگے تحریر فرماتے ہیں:
’’جس حیوان کے ذریعہ سے یہ کام لیا گیا تھا وہ ہمارے عربک لٹریچر میں ’’انبیاء و الطیر، خطما والطیر، ملائکہ الملوک کے مقدس ناموں سے موسوم ہے۔ اور عام زبانوں میں اسے کبوتر کہتے ہیں۔ جس کی ظاہری صورت میں کوئی وجہ انتقال ذہنی کی نہیں پائی جاتی۔ کیا کوئی شخص کبوتر کی بھولی بھالی صورت دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ اس سادی صورت میں اس قدر فراست کا مادّہ کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہے؟ موجد کی اس لیاقت پر عش عش کرنا چاہئے‘‘۔

مولانا آزاد نے اپنے مضمون میں کبوتروں کے مختلف انواع، ان کی عادات واطوار، ان کی تربیت، ان کا شجرۂ نسب وغیرہ پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ اس مضمون کی دوسری قسط جون 1902کے ’’خدنگ نظر‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں وہ تحریر کرتے ہیں۔
’’وہ کبوتر ویسے ہی کبوتر ہوں گے جیسے کہ آج کل شیرازی کبوتر ہوا کرتے ہیں۔ یقیناًان کی صورت بھی ایسی ہی ہوگی۔ شہر موصل میں ایک قسم کے کبوتر ہوتے تھے جن کا نام وہاں کی اصطلاح میں ’’مناسیب‘‘ ہے۔ یہ کبوتر فطرتاً بہ نسبت اور کبوتروں کے انسان سے مانوس اور چالاک ہوتے ہیں۔ انہیں سے یہ کام لیا جاتا ہے۔‘‘

مزید لکھتے ہیں:
’’ناصر الدین باللہ نے بغداد میں اور فاطمی خلفاء نے مصر میں ایسے شعبے قائم کئے تھے جس میں کبوتروں کی تربیت کی جاتی تھی اور ان کا شجرۂ نسب بھی یہاں محفوظ رکھا جاتا تھا‘‘۔ مولانا آزاد نے بلبل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ ذیل کا اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’ہر ملک کی فضا طبیعتوں میں ایک خاص طرح کا ذوق پیدا کردیا کرتی ہے ہندوستان کا عام طبعی ذوق بلبل کی نواؤں سے آشنا نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ ملک کی فضا دوسری طرح کی صداؤں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کے پرندوں کی شہرت طوطا اور مینا کے پروں اڑی اور دنیا کے عجائب میں سے شمار کی گئی‘‘
بلبل کی جگہ یہاں کوئل کی صدائیں کام آئیں اور اس میں شک نہیں کہ اس کی کوک درد آشنا لوگوں کو درد والم کی چیخوں سے کم محسوس نہیں ہوتی۔
بلبل کی نواؤں کا ذوق تو ایران کے حصے میں آیا ہے۔ موسم بہار میں باغ وصحرا ہی نہیں بلکہ ہر گھر کا پائیں باغ ان کی نواؤں سے گونج اٹھتا ہے۔ بچے جھولے میں ان کی لوریاں سنتے سنتے سو جائیں گے۔ اور مائیں اشارہ کرکے بتلائیں گی کہ دیکھ یہ بلبل ہے جو تجھے اپنی کہانی سنارہی ہے۔ جنوب سے شمال کی طرف جس قدر بڑھتے جائیں گے یہ افسونِ فطرت بھی زیادہ عام گہرا ہوتا جاتا ہے۔
(غبار خاطر 204-205)

پرندے بھی بات کرتے ہیں ۔ہمارے یہاں مشہور ہے کہ صبح کے وقت پرندے بھی اللہ تعالیٰ شانہٗ کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہیں۔ چڑیوں کا چہچہانا، کوئل کا کوکنا کبوتر کی غٹرغوں طوطوں کا شور ایک طرح کے آپسی مواصلات ہیں۔ مولانا آزاد پرندوں کی قافیہ سنجی کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’یہ جو کہا مرغانِ باغ قافیہ سنجی کرتے ہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہے۔ واقعہ ہے میں نے ایران کے چمن زاروں میں ’’ہزار‘‘ کو قافیہ سنجی کرتے خود سنا ہے۔ ٹہر ٹہر کر لے بدلتی جائیگی اور ہرلے ایک ہی طرح کے اتار پر ختم ہوگی۔ جو سننے میں ٹھیک ٹھیک شعروں کے قوافی کی طرح متوازن اور متجانس محسوس ہونگے۔ گھنٹوں سنتے رہئے ان قافیوں کا تسلسل ٹوٹنے والا نہیں آواز جب ٹوٹے گی ایک ہی قافیہ پر ٹوٹے گی۔
(غبار خاطر ص 205)
ہندوستان میں بلبلیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں۔ ان کی شکل کیسی ہوتی ہے اور یہاں بلبل کی کتنی قسمیں پائی جاتی ہیں ان پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
’’ہندوستان کے پہاڑوں میں پہاڑی بلبل کا ترنّم نینی تال، کانگڑا میں زیادہ سنا جاسکتا ہے۔ مسوری اور شملہ کی چٹانی فضا اس کے لئے کافی کشش پیدا نہیں کرسکتی تھی۔ ہندوستان میں عام طور پرچار قسم کی بلبلیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خوش نوا قسم وہ ہے جس کے چہرے کے دونوں طرف سفید بوٹے ہوتے ہیں اور اسی لئے آج کل نیچرل ہسٹری کی تقسیم میں اسے White Cheeked کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ شیاما کو عام طور پر بلبل نہیں سمجھا جاتا لیکن اسے بھی میدانی سرزمین کا بلبل ہی تصور کرنا چاہئے۔ مغربی یوپی اور پنجاب میں اس کی متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں۔‘‘
(غبارِ خاطر)

قلعہ احمد نگر میں پائی جانے والی بلبلوں کے بارے میں مولانا رقم طراز ہیں:
’’اس وقت تک بلبلوں کے تین جوڑے یہاں دکھائی دیتے ہیں۔ تینوں معمولی پہاڑی قسم کے ہیں جنہیں انگریزی میں White Whiskered کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک نے تو پھول کی ایک بیل میں آشیانہ بھی بنالیا ہے۔ دوپہر کو پہلے بالکل خاموشی رہے گی پھر جونہی بس کچھ دیر لیٹنے کے بعد اٹھوں گا اورلکھنے کے لئے بیٹھونگا معاً ان کی نوائیں شروع ہوجائیں گی۔ گویا انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ یہ وقت ہے جب ایک ہم سفر اپنے دل وجگر کے زخموں کی پٹیاں کھولتا ہے اس لئے نالہ و فریاد کے پیہم چرکے لگانا شروع کردیں۔
(غبارِ خاطر۔ص 207)

غبارِ خاطر میں چڑیا چڑے کی کہانی کے نام سے مولانا کا ایک خط مذکورہے اس میں مولانا نے چڑیوں کے گھونسلے بنانے کے عمل کا مشاہدہ کیا ہے۔ چڑیوں کے گھونسلے بنانے کی وجہ سے گھاس پھوس کمرے میں چاروں طرف پھیل جاتے تھے اس سے پریشان ہوکر چڑیوں کو بھگانے کی ناکام کوشش مولانا کر چکے تھے۔ لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ تھک ہار کر مولانا کو ان ننّھے پرندوں سے سمجھوتا کرنا پڑا۔ اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
’’ایک دن خیال ہوا کہ جب صلح ہوگئی تو چاہئے کہ پوری صلح ہو۔ یہ ٹھیک نہیں کہ رہیں ایک ہی گھر میں اور رہیں بیگانوں کی طرح۔ میں نے باورچی خانے سے تھوڑا سا کچّا چاول منگوایا اور جس صوفہ پر بیٹھا کرتا ہوں اس کے سامنے دری پر چند دانے چھٹک دئے ۔ پھر اس طرح سنبھل کر بیٹھ گیا جیسے ایک شکاری دام بچھا کر بیٹھ جاتا ہے‘‘
(غبارِ خاطر)

اس کے بعد بڑی تفصیل سے مولانا نے پرندوں کے دانہ چگنے ان کی حرکات وسکنات اور عادت واطوار کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک ماہر طیور کے مانند گھنٹوں بغیر حرکت کئے بیٹھ کر پرندوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں:
’’جونہی ان کے قدموں کا رخ دانوں کی طرف پھرا میں نے دم سادھ لیا۔ نگاہیں دوسری طرف کرلیں اور سارا جسم پتھر کی طرح بے حس وحرکت بنالیا۔ گویا آدمی کی جگہ پتھر کی ایک مورتی دھری ہے۔ کیونکہ جانتا تھا کہ اگرنگاہِ شوق نے مضطرب ہوکر ذرا بھی جلد بازی کی، تو شکار دام کے پاس آتے آتے نکل جائیگا۔ یہ گویا ناز حسن اور نیاز عشق کے معاملات کا پہلا مرحلہ تھا۔
(غبارِ خاطر۔ ص 222-223 )
دھیرے دھیرے چڑیاں مولانا سے بے خوف ہونے لگیں اور مولانا اپنے تجربات کو مزید آگے بڑھانے لگے۔ پہلے سگریٹ کے ٹین میں دانے رکھے ٹین کو دھیرے دھیرے قریب کیا۔ پھر ہاتھ کی ہتھیلی پر دانے رکھے اس طرح پرندوں کا مشاہدہ قریب سے قریب تر ہوکر کیا۔ اور اس کے لئے جس صبر وتحمّل کی ضرورت ہوتی ہے وہ مولانا میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خود رقم طراز ہیں:
بہر حال رفتہ رفتہ ان آہوانِ ہوائی کو یقین ہوگیا کہ یہ صورت جو ہمیشہ صوفے پر دکھائی دیتی ہے آدمی ہونے پر بھی آدمیوں کی طرح خطرناک نہیں ہے۔ دیکھئے محبت کا افسوں جو انسانوں کو رام نہیں کرسکا وحشی پرندوں کو رام کرلیتا ہے۔۔۔۔

مزید لکھتے ہیں:
۔۔۔۔عجب نہیں اپنے جی میں کہتے ہوں یہاں صوفہ پر ایک پتھر پڑا رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی آدمی بن جاتا ہے‘‘
(غبارِ خاطر۔ص 220-221)
قلعہ احمد نگر کے پرندوں کے مولانا نے نام بھی رکھے تھے سب سے حسین چڑیا کو وہ موتی کہتے تھے۔ ایک جگہ اسے مادام قلعہ احمد نگر کے نام سے موسوم کیا ہے۔ دو اور چڑیوں کا نام انہوں نے ملّا اور صوفی رکھا تھا۔ مولانا نے چڑیوں کا مٹی میں نہانا، اپنے بچوں کے لئے غذا کی فراہمی، چڑیاکا اپنے بچے کو اڑنا سکھانا دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ انگریزی ادیب اور پرندوں کے دوست Malcom McDonald چڑیا چڑے کی کہانی پڑھنے کے بعد لکھتے ہیں
اس میں چڑیوں کی عادت واطوار پر ایسے صحیح مشاہدات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مولانا کا اسی طرف میلان طبع ہوتا تو وہ ایک ممتاز ماہرِ حیوانات ثابت ہوتے۔۔۔۔
(کتاب التذکرہ۔ ہمایوں کبیر)

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360254
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development