بال کی کہانی
واپس چلیں

ڈاکٹر ریحان انصاری
دسمبر 2012


بال ایسی شئے ہے جو تمام جانداروں میں صرف ممالیوں (دودھ پلانے والوں) کے جسم پر پایا جاتا ہے۔ یہ جلد کی بیرونی سطح سے نکلنے والی ریشہ دار ساخت ہے۔ جوڑ دار پیروں والے کیڑوں وغیرہ میں بھی ایسی ساختیں جسم سے باہر نکلتی ہیں مگر انھیں بال نہیں کہا جاتا کیونکہ ان کی بناوٹ دوسری قسم کی ہوتی ہے۔ انسان کے علاوہ دیگر تمام چوپایوں اور ممالیوں کے جسم کے بال کے لیے ایک مشترک اصطلاح ’’فر‘‘ Fur استعمال کی جاتی ہے۔جیسے بندر، گلہری، گھوڑا، ریچھ، بلی، کتا، چوہے، کنگارو وغیرہ کے فر ہوتے ہیں۔
فیشن پرستی کے اس دور میں بیوٹی پارلر اور ہیئرڈریسنگ کے پیشے سے وابستہ افراد کو جس مخصوص حصۂ بدن سے سب سے زیادہ رغبت ہے، وہ بال ہے۔ بال کے زیب و زینت کے جتن پر صدیوں سے بے حساب دولت خرچ ہوتی آئی ہے۔اور اب تو کچھ سِوا ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں روپوں کے خرچ سے فیکٹریوں میں بالوں کی دیدہ زیبی اور کنڈیشننگ کے لیے سامان تیار کیے جاتے ہیں کیونکہ بالوں کا تعلق بالکل شخصی (انفرادی) ہے۔ یہ شخصیت کو باوقار اور بارعب بنانے میں بڑے مددگار ہیں۔ مگر بال حقیقتاً جاندار جسم کا ایک بے جان لیکن مفید حصہ ہے۔ویسے تو یہ کھال کا ایک حصہ ہے مگر آئیے ہم آج اس کی بھی کھال اتارنے کی کوشش کریں۔ مضمون ہٰذا میں ہم اس کی ساخت، کیفیتوں کے بارے میں نیز بال کی چند عام مگر پریشان کن بیماریوں کا تذکرہ کریں گے۔

دوطرح کے بال:
ہمارے جسم پر دو طرح کے بال ہوتے ہیں۔*روویں: Hair) Vellus ( یہ باریک، ہلکی رنگت کے ہوتے ہیں اور ہاتھ پیر کے پنجوں کے علاوہ تقریباً پورے جسم پر موجود ہوتے ہیں۔ *مکمل بال: Hair) (Terminal یہ گھنے اور گہرے رنگ کے ہوتے ہیں۔سر، چہرہ، شرمگاہ، بغل اور جوارح (بازوؤں اور پیروں) پر موجود ہوتے ہیں۔
بال اور پسینے کے غدود ہمارے جسم کے سب سے بڑے عضو جِلد کے ذیلی اعضاء ہیں۔ یہ جلد کی بیرونی سطح (Epidermis) میں پائے جاتے ہیں۔بال کے ساتھ ہی ملحق ہوتے ہیں غدودِ دْہنیہ (Glands Sebaceous) جن سے ایک روغنی مادّہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ جلد کی ملائمت، چمک نیز دیدہ زیبی اسی روغنی مادّہ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ادبی زبان میں اسے ’جلد کا نمک‘ کہا جاتا ہے۔ بال جلد کی بیرونی تہہ میں موجود نلکی نما گہرائی والی ساخت سے باہر آتا ہے۔ اسے کیسہ (Follicle)کہتے ہیں۔ غدودِ دہنیہ اور کیسے کی سطح جلد کی بیرونی تہہ کے ساتھ مسلسل ہوتی ہے جبکہ ان کی اندرونی سطح کو جلد کی بیرونی تہہ کی نچلی سطح سے گوشت کا ایک معمولی سا لچھّا جوڑتا ہے، جسے Pili Arrectorکہتے ہیں۔ سردی لگنے یا شدید جذبات اور خوف کے عالم میں عصبی تحریکات کے زیرِ اثر گوشت کے یہ لچھّے بالوں اور روؤں کو کھڑا کر دیتے ہیں۔

ساخت اور نمو:
*ساختی اعتبار سے بال دراصل بے جان خلیات پر مشتمل ہوتا ہے جسے کیریٹین (Keratin)کہتے ہیں۔ یہ ایک سخت اور ریشہ دار پروٹین مادّہ ہے۔جسے آپ جلد کی بیرونی سطح (موٹی چمڑی)، بال، ناخن، درندوں اور پرندوں کے پنجوں، چوپایوں کے سینگ اور کھر وغیرہ میں آسانی کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ بال کی جڑوں میں جس جگہ ان کی نمو کا عمل انجام پاتا ہے وہ حصہ جاندار ہوتا ہے۔اسے Bulb Hairکہتے ہیں۔یہیں سے بال کچھ دور تک بڑھتے ہیں اور پھر کریٹین شدہ (Keratinise)ہو جاتے ہیں۔ ان کے خلیات ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح چسپاں رہتے ہیں کہ انھیں علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ بال کی ساخت میں بیرونی قشر (Cortex)میں خلیات چھوٹے اور مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبکہ اندرونی حصہ مغز (Medulla) قدرے لمبے، بڑے اور نسبتاً ڈھیلے خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے درمیان اکثر خالی جگہیں بھی پائی جاتی ہیں۔ بالوں کو اْگانے والے سبھی کیسے (Follicles) پیدائش کے وقت ہی مستحکم ہو چکے ہوتے ہیں، بعد میں کوئی نیا کیسہ نہیں بنتا۔ تولید سے قبل بچے کے جسم پر انتہائی باریک، بے رنگ اور نرم روویں ہوتے ہیں جنھیں Lanugoکہتے ہیں۔یہ پیدائش سے پہلے ساتویں یا آٹھویں ماہ میں رحمِ مادرمیں ہی جھڑ جاتے ہیں۔نومولود کے سر پر نرم و نازک بال اور ہاتھ اور پیروں کے پنجوں کے علاوہ پورے بدن پر روویں پائے جاتے ہیں۔ چہرے، بغل اور شرمگاہ کے بال بلوغت کی عمر میں براہِ راست جنسی ہارمون کے زیرِ اثر بڑھتے ہیں۔ اس وقت یہ ہارمون سر اور بازوؤں وغیرہ کے بالوں پر بھی اثر کرتے ہیں۔ پیدائشی طور پر جنسی معذور یا خصی کردہ افراد میں مذکورہ مقامات پر بال نظر نہیں آتے۔ حتیٰ کہ انھیں ہارمون کے انجکشن دینے کے بعد ہی وہاں بال ظاہر ہوتے ہیں۔ *اسی طرح یہ بات کہ زیادہ بالوں کی موجودگی جنسی ہارمون کی زیادتی کا مظہر ہے؛ سائنسی تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہوئی ہے۔ بالوں کا پیٹرن، رنگ، پھیلاؤ اور تقسیم وغیرہ (مرد و زن میں) موروثی طور پر متعین ہوتے ہیں۔ بال کی جڑیں جلد کے نیچے پائی جانے والی چربی کی تہہ کے اوپری حصہ میں ہوتی ہیں اور ان میں خون اور اعصاب کی سپلائی ہوتی ہے۔ بال کی نمو تقریباً21 ملی میٹر فی ماہ کی رفتار سے ہوتی ہے۔ بھنوؤں ، بازوؤں اور بدن کے دیگر حصوں کے بال تقریباً ہر چھ ماہ کے وقفے تک بڑھتے ہیں، پھر ان کی نمو رک جاتی ہے اور دوبارہ چھ ماہ بعد یہ نموپذیر ہوتے ہیں۔نمو کے رک جانے کے وقفے کو حالتِ وقوف (Resting Phase) کہتے ہیں۔ سر کے بالوں میں دس فیصد بال ہمیشہ وقوف کی حالت میں پائے جاتے ہیں۔اس حالت میں رہنے والے بال بہت آسانی کے ساتھ جڑ سے اکھیڑے جاسکتے ہیں۔یہی بال کنگھی کرنے یا نہانے کے وقت جھڑا کرتے ہیں۔جبکہ نمو کی حالت میں رہنے والے بال اکھیڑنے پر دردناک ہوتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ایسے افراد جن میں بالوں کی نمو کا وقفہ حالتِ وقوف کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے وہ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بال بہت جھڑتے ہیں۔ جب تک جھڑنے اور نئے بال نکلنے کا دور مسلسل جاری رہتا ہے تب تک گنجا پن نہیں ہوتا۔ پچاس سے سو بالوں کا ہر روز جھڑ جانا ایک معمول ہے۔ ہر بال کی اوسط عمر تین تا چھ سال ہے۔اس کے بعد وہ جھڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ نیا بال اْگتا ہے۔ چند اہم حالات میں بھی بال اکثر تیزی کے ساتھ جھڑنے لگتے ہیں۔ جیسے نفاس (بچے کی پیدائش کے بعد)، بہت تیز بخار یا بڑا آپریشن، کوئی کہنہ مرض، خون کو پتلا بنانے والی دوائیں Anticoagulants استعمال کرنا اور لمبے عرصہ تک شدید ذہنی تناؤ کے حالات۔

بال سفید ہونا:
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بال کا سفید ہونا بھی ایک عام حالت ہے۔ بالوں کو رنگ دینے کا ذمہ دار ایک رنگین مائینہ (پِگمینٹ) ہوتا ہے جسے ’مِلانِن‘ (Melanin) کہتے ہیں۔ملانن براؤن سے سیاہ رنگ تک متغیر ہوتا ہے اور جلد میں موجود مخصوص خلیات مِلانوسائٹس (Melanocytes) میں ایک پیچیدہ کیمیائی عمل کے نتیجہ میں تیار ہوتا ہے۔ جب یہی کیمیائی عمل سست پڑ جاتا ہے تو رفتہ رفتہ بالوں میں موجود ملانن ختم ہو جاتا ہے اور بال سفیدی مائل ہو جاتے ہیں۔ملانن بالوں کو رنگین کرنے کا ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ ایک حفاظتی جزو ہے۔ سورج کی الٹراوائلٹ (ماورائے بنفشی) شعاعوں کو جذب کر کے اس کے نقصاندہ اثرات سے جسم اور جلد کو محفوظ رکھتا ہے۔ عمر کے لحاظ سے بالوں کا سفید ہونا اکثر موروثی خصوصیات کے سبب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر معاون عوامل میں مسلسل ذہنی تناؤ، قلبی امراض، ہائپرتھائرائیڈزم اور دیگر پیچیدہ امراض شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات اکثر آئی ہے کہ شہر میں رہنے والوں کے بال دیہاتوں کی آبادی کے مقابلے میں کچھ جلد سفید ہونے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید مندرجہ بالا عوامل کے علاوہ نلوں میں سپلائی ہونے والا کلورین پاشیدہ (Chlorinated) پانی ہے۔ جس میں شامل کلورین گیس رنگ کاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

بالوں کو متاثر کرنے والے امراض
واضح رہے کہ یہ باتیں صرف ’’بالوں‘‘ سے متعلق ہیں۔ جلدی امراض (جو بالوں کو متاثر کرتے ہیں) سے متعلق نہیں ہیں۔

یاد رکھنے کے نکات:
*بالوں کا معاملہ بالکل انفرادی ہے * جسم پر بال دو قسم کے ہوتے ہیں؛ روویں اور پختہ بال *بال جلد کی بیرونی تہہ میں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ غددِ دْہنیہ ( Sebaceous Gland) ملحق ہوتے ہیں جن سے روغنی مادہ خارج ہوتا ہے۔ *بال بے جان خلیات پر مشتمل پروٹین (کیریٹین) ہے۔ *بالوں کو اگانے والے سبھی Folliclesپیدائش کے وقت ہی مستحکم ہو جاتے ہیں اور بعد میں نئے Folliclesنہیں پیدا ہوتے۔ *بلوغت کی عمر میں بال جنسی ہارمون کے زیرِ اثر بڑھتے ہیں۔ *بالوں کا پیٹرن، رنگ، پھیلاؤ، تقسیم وغیرہ موروثی طور پر متعین ہوتے ہیں۔ *سر کے بالوں میں دس فیصد بال ہمیشہ وقوف کی حالت میں ہوتے ہیں اور طبعی طور سے یہی جھڑا کرتے ہیں۔ *بالوں کی رنگت کا ذمہ دار ایک رنگین جزو ہے جسے مِلانِن Melanin کہتے ہیں۔
بال شخصیت پر اس قدر اثر انداز ہوتے ہیں کہ سبھی کو صبح کے معمولات میں انھیں سنوارنے کی فکر بھی ہوتی ہے۔ البتہ چند امراض انھیں گھیرتے ہیں تو یہ فکرمند کر دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ جس بات کی تکلیف عام ہے وہ ہے بالوں کا جھڑنا!۔ یہ ایک ایسی وجہ ہے کہ جو بالوں کے تمام ہی امراض میں مشترک ہے۔ اس کے ساتھ جو علامات جڑی ہوئی رہتی ہیں وہ مختلف اور متغیر ہیں۔ ان تمام علامات کو ایک ساتھ لکھا جاتا ہے تاکہ آگے کی گفتگو مربوط رہے۔

علامات:
بالوں کا جھڑنا، گنجا پن (سعفہ)، بالوں کا ضرورت سے زیادہ اْگنا، کڑک پن، روکھا پن، بھوسی، کھردرا پن، سفیدی، موٹا پن، چپچپا پن، مستورات میں چہرے پر بال اْگنا، باریک بال وغیرہ۔
بال کی حالتوں اور ظاہری کیفیتوں کے ساتھ یہ دو عنوانات لگے ہوئے ہیں کہ بالوں کا جھڑنا یا بالوں کی زیادتی۔ ان میں بھی زیادہ پریشان کن جھڑنا یا گنج ہے۔ گنج کی تعریف یہ ہے کہ جن جگہوں پر بال عموماً اْگنا چاہیے وہاں وہ نہ اْگیں یا وہاں سے غائب ہونے لگیں۔ اور بالوں کی زیادتی سے مراد یہ ہے کہ جن جگہوں پر روویں ہونا چاہیے وہاں بھی یہ بال میں تبدیل ہو جائیں۔
آئیے ہم ترجیحی بنیاد پر بالوں کے جھڑنے پر پہلے گفتگو کریں:

(1) بالوں کا جھڑنا:
اسے طبی اصطلاح میں سعفہ، عام زبان میں گنج اور انگریزی یا جدید طب میں ایلوپیشیا Alopecia کہتے ہیں۔ یہ ایک عام حالت ہے۔ اکثر سر اور داڑھی کے علاقوں تک محدود رہتی ہے۔نادر طور پر پورے بدن پر بھی مل سکتی ہے۔ اس کے اصلی اسباب نامعلوم ہیں۔ البتہ مطالعہ کی روشنی میں اس کی چند توجیہی علامات بتائی جاتی ہیں جنھیں (معاون) اسباب بھی کہہ سکتے ہیں۔جیسے عمومی طور پر بالوں کا باریک ہونا اور گنج پیدا ہونا؛ اچانک بال کثرت سے گرنے لگیں؛ اکثر تھائیرائیڈ (دَرقیہ) غدد کا فعل بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے اور کم یا زیادہ ہو جاتا ہے تو ہارمون کی پیدائش متاثر ہوتی ہے، اس حالت میں بال کا اْگنا متاثر ہوتا ہے اور بال جھڑنے لگتے ہیں؛ کینسر کی دوائیں اور علاج؛ مرض آتشک؛ خون میں فولاد کی کمی (انیمیا)؛ وزن کا تیزی سے گھٹنا؛ چند مناعتی (اِمیونولوجیکل) امراض؛ کچھ جلدی امراض جیسے داد؛ کہنہ زخم کا نشان (Scar)؛ جل جانا (حرقہ)؛ تابکاری کے نتیجہ میں جلد کا متاثر ہونا؛ دْنبل؛ ہرپِس ڑوسٹر؛ وغیرہ۔
مردوں میں نظر آنے والا گنج عموماً درجِ بالا کسی بھی سبب سے نہیں ہوتا بلکہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ مردانہ ہارمون ’اینڈروجن‘ ہی ہوتا ہے جس کی مقدار (کم یا زیادہ نہیں بلکہ) طبعی بھی رہ سکتی ہے اس کے باوجود وہ گنج کا سبب بنتا ہے۔ اکثر موروثی دیکھا گیا ہے۔ سِن رسیدہ مردوں میں ملتا ہے لیکن نوجوانوں میں بھی پایا جاسکتا ہے۔ شاذونادر یہ عورتوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے۔یہ لاعلاج حالت ہے۔
عموماً سو سے ڈیڑھ سو بال روزانہ جھڑا کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ اوسط سے زیادہ جھڑنے لگیں اور تیزی سے جھڑیں تو سبب کو تلاش کرنا ہوگا۔پانچ اہم اسباب گنائے جاتے ہیں: نفاس (بعد وضعِ حمل)، شدید بخار والا مرض، کوئی بڑا آپریشن، کہنہ مرض کی موجودگی، خون کو پتلا رکھنے والی دواؤں (اینٹی کوئیگولنٹ) کا استعمال، شدید ذہنی و نفسانی صدمہ... ان میں سے سبب کوئی بھی ہو مگر بال کے جھڑنے کی ابتداء4 سبب کی پیدائش کے کوئی دو یا تین مہینوں کے بعد ہوتی ہے اور تین تا چھ ماہ تک جاری رہتی ہے۔ سبب رفع ہو جانے کے بعد یہ حالت رجوع کر لیتی ہے اور طبعی طور پر اچھی ہو جاتی ہے۔گنج کے برخلاف اس میں گرے ہوئے بالوں کی جگہ نئے بال اْگ آیا کرتے ہیں۔

(2) ایلوپیشیا ائیرئیٹا
( Alopecia Areata)
سر، داڑھی یا جلد کے اوپر گولائی لیے ہوئے حصوں سے جب بال غائب ہونے لگتے ہیں تو اسے ’ایلوپیشیا ائیرئیٹا‘ کہتے ہیں۔ کبھی کبھار پورا سر بالوں سے خالی ہو جاتا ہے (Areata Totalis)اور کسی کسی میں پورا جسم بالوں سے عاری ہو جاتا ہے Alopecia Universalis) (یہ اس کی مزید دو اقسام ہیں۔پانچ تا پچیس برس کی عمر میں عموماً ملتا ہے اور پینتالیس برس کے بعد کم ملتا ہے۔دونوں جنسیں یکساں متاثر ہوتی ہیں۔اچھا ہونے کے باوجود متعدد بار ہو سکتا ہے۔ اس میں بال جڑوں سے اگنے کے فوراً بعد ہی بڑھنا بند ہو جاتا ہے۔وہ جگہ چکنی اور گنجی نظر آتی ہے۔ اس کا علاج اسٹیرائیڈ کے استعمال سے ممکن ہوتا ہے لیکن طبیب کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔ اگر یہ گنج سر یا چہرے وغیرہ پر مختلف جگہوں پر ہوں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کا گھیرا بڑھتے بڑھتے اڑوس پڑوس کے حلقے ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں اور بڑا (گنجا) حلقہ بنا لیں۔ A.Totalisلاحق ہوتا ہے تو بھنووں اور پلکوں کے بال بھی جھڑ جاتے ہیں؛ A.Universalisلاحق ہو تو پورے بدن کے بال غائب ہو جاتے ہیں۔ ایلوپیشیا ائیرئیٹا کو علاج کے لیے داد اور آتشکی گنج سے تفریق کرنا چاہیے۔
عموماً 80 فیصدی مریض علاج سے اچھے ہو جاتے ہیں البتہ علاج طویل مدت بھی لے سکتا ہے۔ کبھی تو سال بھر بھی لگ جاتا ہے۔ اگر متعدد حلقے پیدا ہوتے رہے تو علاج قدرے مشکل ہوتا ہے۔ خصوصاً دورانِ بلوغت اس کی ابتدا ہوتی ہے تو اچھا ہونا مشکل خیال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح totalis A.Tیں بھی علاج سے خاطرخواہ فائدہ نہیں ملتا اور A.Universalisمیں تو یہ مایوس کن ہی رہتا ہے۔

(3) بالوں کی زیادتی : Hirsutism
بدن کے جن مقامات پر روویں ہوتے ہیں ان کی جگہ پختہ بال نظر آنے لگیں تو اسے ’’شعرانیت‘‘ (ہرسوٹزم) کہتے ہیں۔یعنی بالوں کی کثرت۔ جلد پر بعض پیدائشی مسوں کے اوپر ایسے بال ملا کرتے ہیں۔لیکن جب یہ جسم پر پھیلے ہوئے ہوں تو اسی حالت کو اس عنوان کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں دونوں میں مل سکتی ہے مگر مردوں میں اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔عموماً بلوغت کو پہنچنے والی نیز بڑی عمر کی عورتوں میں یہ کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔اس کا سب سے عام اظہار اوپری ہونٹ کے اوپر یعنی مونچھ کے علاقے میں ہوتا ہے۔اس کے علاوہ داڑھی کے علاقے میں بھی ظاہر ہوتے ہیں۔یہ چند چھٹ پٹ بالوں سے لے کر مکمل داڑھی کی شکل تک بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔بڑھی ہوئی صورت میں بال بازوؤں اور ٹانگوں کے علاوہ سینے، پیٹ اور پیٹھ پر بھی ملتے ہیں۔ایسے افراد غددی (Endocrinal) مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے Pituitary, Adrenal اور Ovariesجیسے غدود کے امراض اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس میں بالوں کی زیادتی کی علامت کے ساتھ متعلقہ مرض کی دیگر علامات بھی لازمی طور پر ملیں گی۔ اس لیے ایسے مریضوں کی باریک بینی کے ساتھ تفتیش و تشخیص کرنی چاہیے۔ہر مطلوبہ ٹیسٹ لازمی طور سے کیا جانا چاہیے۔

علا ج اور حاصلِ گفتگو
اوپر کی گفتگو سے آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ علاج کے ذریعہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جاسکتا۔ البتہ گنج کے علاقوں میں بالوں کو دوبارہ اْگانے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ اس طرح مریض کو بھی پْرامید رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی نفسیاتی حالت مددگار رہے۔ مایوسی کا شکار ہونے سے نئے بالوں کے اْگنے میں مشکل ہوتی ہے۔ گنج کے علاقے میں رگڑنا، کھرچنا، کنگھی سے رگڑنا، مالش کرنا، لوشن یا کریم لگانے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے نئے اْگنے والے بال ٹوٹ ٹوٹ کر گر جایا کرتے ہیں۔ اسٹیرائیڈ (Steroids) استعمال کروا کے بالوں کو دوبارہ اْگنے میں مدد کی جاتی ہے۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   360368
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development