حکمتِ صف
واپس چلیں

ڈاکٹر غلام کبریا خان شبلی
دسمبر 2013


سنُریہِم آیاتِنا فی الاٰفاق وفی اَنفُسِہِم حتّی یتبیّنَ انَّہٗ الحق
اللہ قادروقدیر فرماتا ہے کہ (مفہوم) عنقریب ہم انہیں آفاق اور خود ان کے نفس میں ہماری آیاتِ قدرت دکھائنگے تاکہ وہ جان لیں کہ یہ (قرآن) حق ہے۔ پھر فرمایا من یوتَ الحکمۃَ فقد اوتِیَ خیراً کثیرا (مفہوم) جن کو حکمت (آیات اللہ کا علم و ادراک) عطا ہوا انہیں خیرِ کثیر سے نوازا گیا۔
جیسے جیسے سائنسی (حکمت) آفاق وانفس، کائناتِ کبیر و صغیر میں آیات اللہ کو منکشف کرتی جارہی ہے۔ قولِ ربّی مرحلہ وارپورا ہوتا جارہا۔ چہارسو ایک آواز جو سوال بھی ہے اور اعلان بھی یعنی فبِایَّ آلاءِ ربِّکُمَا تُکَذِّبٰن بلند سے بلند تر اور اس کی لَے تیز سے تیز ہوتی جارہی ہے۔ جس کے ارتعاش سے اذہان وقلوب مرتعش ہورہے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’بتاؤ تم اپنے رب کی کن کن آیاتِ رحمت کو جھٹلاؤگے سورۂ رحمٰن اللہ رحمٰن الرّحیم کی رحمت بے کنار کے بیان میں ہے۔ جس کی رو سے موت بھی اللہ کی رحمت کا مظہر ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر انسان کا روحانی ارتقاء ممکن نہیں جس کے لئے ایک اور ہی جہاں چاہئے۔ موت اسی جہاں میں داخلہ کا ویزا ہے۔ بیشک تمام تعریفیں اور شکر اللہ ارحم الرّاحمین ہی کو سزاوار ہیں۔
ایک دعا ہے ’’ربِّ زِدنی علما‘‘ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔ دوسری دعا ہے جس میں یہ توضیح ہے کہ یہ علم کیسا ہو ’’الہمَّ ارزُقنی علماً نافعاوُّ عملاً صالحا‘‘ اے اللہ ایسا علم عطا کر جو نفع بخش ہو جو مجھ میں عملِ صالح کی تحریک اور ذوق پیدا کردے۔اور یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک مجھے اشیاء کی حقیقت وماہیت کا علم نہ ہوجائے تاکہ میں نافع وضار میں تمیز کر سکوں۔ لہذا ’’الہمَّ ارنی الاشیاء کما ہی‘‘ اے میرے اللہ! مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسی کہ حقیقتاً وہ ہیں یعنی ’’حقیقت الاشیاء‘‘ کا علم عطا فرما۔
’’العلم‘‘ کی عطا و بخشش کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ربِّ کائنات نے اپنے مجوّزہ خلیفہ کو ’’علم الاسماء‘‘ سے نوازکر بغرضِ امتحان فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہ علم حضرت آدم ؑ کو بغیردُعا مانگے ملا تھا۔ گویا یہ خاص عطیۂ ایزدی تھا۔ یہی عظیم عطیہ جب عالمِ ملکوت سے خلیفۃ الارض حضرت آدم ؑ کے ساتھ عالمِ ناسوت میں وارد ہوا تو نسلِ آدم ؑ کے لئے درج بالا دعاؤں کی شکل میں ڈھل کر ’’علمِ حقیقت الاشیاء‘‘ کہلایا۔ بشری سطح پر یہ انسانی علم کا درجۂ کمال یا معراج ہے۔ اشرف المخلوقات کی سند پر اسی علم کی مہر لگی ہوئی ہے۔ سطورِ ذیل اسی علم کے تعاقب کی ایک طالب علمانہ کوشش ہے۔ وما توفیقی الّا باللّٰہ۔
یوں تو سائنس کا ہر طالب علم اور ماہنامہ سائنس کا ہر قاری توانائی (Energy) کے مفہوم سے بقدرِ علم واقف ہے۔ اس کا اعادہ صف بندی کے سائنسی اصولوں میں اس کے کردار کی وضاحت کے لئے مفید ہوگا۔
پانی اپنی نوعیت و ماہیت کے اعتبار سے ایک شئے ہے۔ مگر سیال، برف اور بخار یا عام سائنسی زبان میں مائع، ٹھوس اور گیس پانی کے تین بہروپ ہیں۔ اسی طرح بہ اعتبارِ نوعیت توانائی کی اصل ایک ہی ہے۔ مگر اپنے مختلف افعال کے اظہار کے لئے یہ کئی رنگ بدلتی ہے۔ اس کی مختلف قسموں میں سے چند یہ ہیں:۔ نوری توانائی، شمسی توانائی، حراری توانائی، برقی، مقناطیسی، جوہری، بادی، آبی، حرکی اور مخفی توانائیاں وغیرہ۔ یہ ذخیرہ بھی کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً شمسی توانائی شمسی تختیوں (Solar Panels)میں ، برقی توانائی Inverters میں ، مقناطیسی توانائی مقناطیس میں، کیمیائی توانائی مختلف کیمیائی مادوں میں۔ یہ توانائیاں ایک دوسر ے میں تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔مثلاً شمسی توانائی، نوری، حراری، حرکی اور کیمیائی توانائیوں میں، حراری توانائی نوری توانائی میں، برقی توانائی مقناطیسی اور مقناطیسی توانائی برقی توانائی میں، بادی ، آبی اور تمام ہی توانائیاں حرکی توانائی میں ۔
زیرِ نظر تحریر میں توانائی کی جن دو اہم خصوصیات کی وضاحت مقصود ہے وہ ہیں :ایک توانائی کے بہاؤ کا اصول اور توانائی کا میدان (Field) اور دوسرا انتقالِ توانائی کے طریقے۔
جس طرح ہوا یا پانی زیادہ دباؤ سے کم دباؤ یا اونچی سطح سے نچلی سطح تک بہتے ہیں تا وقت کہ دباؤ یا سطح یکساں نہ ہوجائیں۔ توانائیوں کے بہاؤ میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ روزمرہ کے مشاہدات ہی سے مثالیں لیجئے۔ آہن گر کی بھٹّی سے نکلے ہوئے سرخ لوہے کو اگر پانی میں ڈبودیا جائے تو پانی کا درجۂ حرارت بڑھے گا اور لوہے کا کم ہوگا جب تک کہ دونوں کا درجۂ حرارت یکساں نہ ہوجائے ۔ ہم گرم چائے کو ٹھنڈا ہونے کے لئے رکھ دیں تو یہ اس حد تک ٹھنڈی ہوگی جتنا کہ کمرہ کا درجۂ حرارت ہوگا۔ ذرا اور بڑے پیمانہ پر اس اصول کو پھیلاکر دیکھئے۔ اگر سائنسی انکشافات درست ہیں تو سورج کا درجۂ حرارت تین کروڑ ساٹھ لاکھ سینٹی گریڈ ہے۔ جبکہ پلوٹو کا منفی C-150 ہے۔ لہذا سورج سے توانائی کا انتقال یا بہاؤ اس وقت تک جاری رہیگا جب تک کہ پلوٹو سے بھی آگے جہاں تک سورج کا حلقۂ اثر ہے حرارت یکساں نہ ہوجائے۔ یہی اصول اور زیادہ بڑے پیمانے پر تمام مادّی کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اسے ’’قانونِ ناکارگی (Law of Entropy)‘‘ کہا جاتا ہے۔ توانائی کا یہ لین دین اس وقت تک جاری رہیگا جب تک توانائی دہندہ یا معطی اور وصول کنندہ یا عطیہ کے یا بندہ کا درجہ حرارت یکساں نہ ہوجائے۔ تب توانائی کا بہاؤ رک جائیگا اور تمام سائنسی عمل رک جانے سے زندگی ختم ہوجائے گی اور ایک عظیم تصادم (Big Crunch) کے نتیجہ میں کائنات فنا ہو جائے گی۔ ( مزید تفصیلات کے لئے میرا مقالہ ’’کائنات اور خالقِ کائنات‘‘ سائنس شمارہ 176 ،ستمبر 2008،صفحہ۔13 دیکھئے) یہ توانائی کے لین دین اور بہاؤ کے اصول کا طریقہ کار ہے۔
ہر توانائی کا ایک خاص حلقۂ اثر ہوتا ہے۔ جسکی وسعت کا انحصار اس کی قوّت و شدّت پر ہوتا ہے۔ اسی کو توانائی کا میدان کہا جاتا ہے۔ اسکولوں میں پڑھنے والے برق اور مقناطیس کے کم شدّت والے میدانوں سے واقف ہیں۔ شدّت کے ساتھ میدان کی وسعت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ گویا دونوں تناسب راست میں ہوتے ہیں۔ مثلاً چاند کے مقابلہ میں زمین کی قوّتِ کششِ ثقل چھ گُنا زیادہ ہے اسی لئے اس کا حلقۂ اثر بھی چاند کی کشش کے مقابلہ میں چھ گُنا وسیع ہے۔
انتقالِ توانائی کے دو معروف ذرائع ہیں۔ ایک براہِ راست لمس یا اتصال یا Conduction اور دوسرا بغیر چھوئے بالاہی بالا توانائی کا نفوذ یعنی امالہ Induction لوہے کی کسی چھڑ کو مقنانے کے دونوں ہی طریقے اسکولوں کی تجربہ گاہوں میں عملاً سکھائے جاتے ہیں۔ روز مرہ کی زندگی میں موسمِ سرما میں دھوپ میں بیٹھنے سے حراری توانائی کا حصول بذریعہ امالہ ہوتا ہے۔
توانائیوں کے انتقال، ارتکاز اور ایک دوسرے میں تبدیلی کی بھی روزمرہ میں کئی مثالیں ہیں مثلاً تاریکی میں نوری توانائی کا اپنی شدّت کے بقدر اپنے حلقۂ اثر تک انتقال، محدّب عدسہ کے ماسکہ پر شمسی حراری توانائی کا ارتکاز جس سے کاغذ کا پرزہ جل اٹھتا ہے۔ صورت و صوت کا برقاطیسی توانائی میں تبدیل ہونا مثلاً فلم، ٹی وی، سی ڈی۔
اب تو بینکوں اور اہم سرکاری اداروں میں الارم سے ملحق برقاطیسی لہروں کے جال کو مخصوص زیریں سرخ (Infera Red) عینکوں کے ذریعہ دیکھا بھی جاسکتا ہے گویا غیر مرئی شعاعوں کو مرئی شکل میں دیکھنا ممکن ہوگیا ہے۔ اب ایسے زیریں سرخ کیمرے مستعمل ہیں جو کسی واقعہ (حادثات یا جرائم) کے بعد آٹھ منٹ کے اندر اس کی تصویر لے سکتے ہیں۔ گویا حرکات و سکنات کا لہری وجود جائے واقعہ پر آٹھ منٹ تک موجود رہتا ہے۔ یہی نہیں اب تو عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جارہا ہے کہ ہمارا ہر اچھا یا بُرا قول و فعل، خیال، سوچ، فکر، نیت وارادہ تک اپنا ایک لہری وجود (Wave Form) رکھتا ہے۔ جو فضائے بسیط میں کہیں محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ (کہیں یہی ہمارا نامۂ اعمال تو نہیں؟ واللہ اعلم)۔ اسی سے انتقالِ خیال (Telepathy) سے انتقالِ توانائی کی مثال کا جواز نکلتا ہے۔ جس کی ایک قسم عملِ تنویم (Hypnotism) بھی ہے۔ جس میں ’معمول ‘پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے۔ تنویم کی اصل ’’نوم‘‘ یعنی نیند ہے۔
عملِ تنویم کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ عامل اپنا کوئی خیال یا حکم معمول کے ذہن میں ڈال دیتا ہے۔ اسے اصطلاحی زبان میں تجویز یا مشورہ (Suggestion) کہا جاتا ہے ۔ایسا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جبکہ معمول کی قوّتِ ارادی یا بہ الفاظِ دیگر اسکا برقاطیسی میدان عامل کی قوّتِ ارادی یا برقاطیسی میدان سے کمتر وکمزور ہو( توانائی کے بہاؤ کا اصول )۔ اس طرح معمول وہی کچھ کہتا یا کرتا ہے جس کا حکم عامل اسے دیتا ہے۔ یہ اثر انفرادی بھی ہوسکتا ہے اور اجتمائی بھی(مثال ساحرانِ فرعون) اور Telepathy کے ذریعہ دور دراز فاصلہ پر بھی۔ یہ امر عامل کی قوّت ارادی یا برقاطیسی میدان کی وسعت پر منحصر ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عربی زبان میں تنویم کو ’’تنویمِ مقناطیسی ‘‘کہا جاتا ہے۔ یعنی اس نفسیاتی عمل کی بنیاد مقناطیسی لہروں پر ہے۔ ہر علم کی طرح عملِ تنویم کے بھی روشن وتاریک، نافع وضار یا مثبت ومنفی دو پہلو ہیں۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ نفسیاتی معالج (Psychiatrist) کے ذریعہ ناقابلِ علاج کہنہ امراض مثلاً دق و سل (T.B. & Pthesis) ، وجعِ مفاصل (R.Arthitis) ، دمہ (Asthama) ، فشار الدّم (B.P.) وغیرہ سے نجات مل جاتی ہے۔ مجرموں سے حقیقت اگلوائی جاسکتی ہے کیونکہ غنودہ حالت (Trans) میں معمول جھوٹ نہیں بولتا اور منفی پہلو یہ ہے کہ معمول کے راز جان کر اسے بلیک میل کیا جاسکتا ہے۔ معمول کو جرائم کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ اس سے قتل بھی کروایا جاسکتا ہے۔
ہر زندہ جسم کروڑوں خلیات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جنہیں زندہ رہنے کے لئے ہوا، پانی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ حاصل شدہ غذا کی مخفی توانائیوں کو یہ خلیہ کئی پیچیدہ کیمیائی عملوں سے گزار کر قابلِ استعمال کئی قسم کی توانائیوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ جن کی مدد سے جسم زندگی کے تمام افعال انجام دیتا ہے۔ یہ توانائیاں لہروں کی شکل میں اپنی شدّت وقوّت کے اعتبار سے جسم سے باہر اپنا ایک حلقۂ اثر قائم کرلیتی ہیں۔ اس حقیقت کا مضبوط اور بہترین ثبوت Electromagnetic Cardio Gram ہے جو دل کے خلیات سے خارج ہونے والی برقاطیسی توانائی کی گرافک شکل ہے اور جو کاغذ پر حاصل کی جاتی ہے۔ یہ دل کی صحت کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔ جسم سے خارج ہونے والی توانائی کی حرارتی شکل کوتھرمامیٹر سے ناپا جاسکتا ہے۔
درج بالا تمہیدِ طولانی کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسے ناقابلِ تردید منطقی، تجرباتی شواہد اور دلائل پیش کئے جائیں جن سے یہ ثابت ہوجائے کہ جسم سے باہر بقدرِ شدّت و قوّت جسم سے خارج ہونے والی تمام توانائیاں لہری شکل میں اپنا ایک حلقۂ اثر قائم کر لیتی ہیں ۔ جسے ہم اس شخص کی برقاطیسی توانائیوں کا ’’ہیولا یا لہری ہمزاد‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی ’’ہیولا‘‘ اولیاء الرّحمٰن میں روحانی قوّت بن کر معجزات وکرامات دکھاتا ہے اور اولیاءِ شیطان میں یہی ہیولا منفی اثرات کے ساتھ استدراج بن جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے قدیم زمانے سے دیومالائی دیوتاؤں، صالحین اور ہیروز کے مجسّموں اور تصویروں میں ان کے سروں کے گرد ایک روشن ہالہ بنایا جاتا رہا ہے۔ توانائی کے اس علامتی (Symbolic)اظہار میں اس قدر تواترو تسلسل بلا وجہ نہیں اسے Aurora یا Aura کہتے ہیں۔ اس میں اور ہمارے نورانی برقاطیسی ’’ہیولے ‘‘ میں کچھ رشتہ تو ہے۔
سورہ رحمٰن کی آیت ’’فبِایّ آلاءِ ربِّکُمَاتُکَذِّبٰن(مفہوم) تم اپنے رب کی کن کن آیات کو جھٹلاؤگے‘‘ اللہ ارحم الرّاحمین کی رحمتوں کی لامحدودیت ظاہر کرتی ہے۔ جن میں سے ایک حکمتِ صف بندی بھی بصورت نعمت و رحمت ہے۔ سیرتِ پاکؐ کے تذکروں میں یہ بات تاکیدی حکم کے درجہ میں ملتی ہے کہ عبادت گاہ میں بطور عبد معبود کے حضور بر سرِ خاک عاجزانہ سرافگندی ہو یا رزم گاہ میں بطور مجاہد فی سبیل اللہ والہانہ سرفروشی و سربلندی ہو گویا نماز ہو یا جہاد آنحضرتؐ بنفسِ نفیس صفوں کو سید ھافرماتے اور کندھے سے کندھا ملاکر اس طرح صف بندی کی تلقین فرماتے کہ صف میں کہیں ٹیڑھاپن یا رخنہ نہ رہ جائے۔ اس حکمت کے سماجی اور معاشرتی فوائد تو علمائے کرام نے گنائے ہیں۔ مثلاً شاہ وگدا کی تفریق کی نفی، مہتروکہتر میں مساوات کا قیام، اُنس ومحبت کے جذباتِ عالیہ کا فروغ وغیرہ ۔ مگر سائنسی تناظر میں سائنسی نکتۂ نظر سے صف بندی میں مضمر سائنسی اثرات اور ان کی افادیت کا مطالعہ غالباًکسی نے نہیں کیا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّل یہ کہ قدما جو دین و سائنس کے جامع تھے، کے دورِ سعید میں توانائی کی قسمیں اور ان کے خواص و اثرات پردۂ خفا میں مستور تھے۔ اب جبکہ توانائی کی کار فرمائیوں کی نقاب کشائی ہوچکی ہے تو ہمارے جدید علماء نے (الاّماشاء اللہ) سائنس کو الحادی ٹھہراکر مومنین کے لئے اسے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا ہے۔ پھر صف بندی کی حکمت کا عرفان کیسے ہو؟
چونکہ یہ مادّی دنیا عالمِ اسباب ہے۔ اور یہاں بسنے والے اسباب ہی سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے سنّتِ الٰہی یہ رہی ہے کہ وہ معجزات کے لئے بھی اسباب ہی کو اپنا واسطہ (Medium)بناتا ہے تاکہ ناظرین اسباب میں غیر معمولی ، غیر فطری تبدّل، تغیّر اور تصرّف، جن کے حدوث پرفانی انسان کسی طور قادر نہ ہو، دیکھ کر کسی اعلیٰ وبرتر فوق البشر قادر وتواناہستی یعنی اللہ کے وجود کے قائل ہوجائیں۔ اس سنّت کے تحت اللہ قادرِ مطلق کبھی اسباب کی فطری خصوصیات کو سلب کرکے اپنی مشیّت کا اظہار کرتا ہے۔ مثلاً آگ کی فطرت جلانا ہے مگر جب خلیل اللہ نارِ نمرود کی گود میں پہنچتے ہیں تو اسے حکم ہوتا ہے ’’یا نارُ کونی برداًوُّسلاماً علیٰ ابراہےۂ‘‘ اور آگ تعمیلِ حکم میں گلستاں بن گئی یا اپنے کلیم اللہ کے لئے پانی اپنی فطرت کے خلاف دو مائع دیواروں کے درمیان خشک راستہ پیدا کردیتا ہے اور فرعون وجنودہٗ کی غرقابی کے لئے دونوں دیواروں کو حسبِ سابق ملادیتا ہے۔
اللہ قوی وتوانا کبھی اپنی قدرت کے اظہارکے لئے اسباب کی فطری خصوصیات کو ہزاروں ، لاکھوں گُنا مضاعف کرکے انہیں شدید تر بنا دیتا ہے۔ مثلاً طوفانِ نوح ؑ کے لئے آبی قوّت کو مضاعف کرنا، قومِ ہود ؑ کے لئے بادِ سموم ، علیٰ ھٰذا لقیاس کسی کے لئے زلزلہ، آتش فشاں، خوفناک چنگھاڑ، ختم المرسلینؐ کی مدد کے لئے احزاب میں زبردست آندھی ۔کبھی اللہ مسبّب الاسباب، اسباب کے واسطہ کے بغیر محض اپنی قدرت کاملہ وحکمتِ بالغہ کے ذریعہ معجزہ نمائی کرتا ہے۔ مثلاً زمین کو آباد کرنے کے لئے آدم ؑ وحوّا ؑ کی، قومِ صالح ؑ کی فرمائش پراونٹنی کی، یہود کی ہدایت کے لئے مسیح ؑ کی پیدائش۔
رب العٰلمین نے اپنی بے پایاں رحمت اور بے کنار کرم کے صدقہ قیامت تک کے عوام النّاس کی ہدایت کے لئے رحمتِ عالم عبدہٗ ورسولہٗ اور ابلاغِ نظام کے لئے کلام ہدایت کو واسطہ بنایا۔ جو اسباب سے تعلق کے باوجود رہتی دنیا تک اپنے آپ میں معجزۂ الٰہی ہیں۔ نہ ایسا اکمل البشرآپؐ سے پہلے کوئی ہوا تھا نہ تا قیامت کوئی ہوگا۔ نہ ایسی مکمل ومقدّس کتابِ ہدایت کسی سابقہ رسول پر نازل ہوئی نہ قیامت تک ایسی کوئی دوسری کتاب نازل ہوگی۔ کیونکہ ختم المرسلین ؐ کے بعد بابِ رسالت اور نزولِ وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ایسے رسول جس کے اخلاقِ حسنہ کی شہادت خود بھیجنے والے احکم الحاکمین نے دی ہے۔ اور ایسی کتاب جس کی حفاظت کا ذمہ خود صاحب کتاب نے لیا ہے۔ کیا ایسا رسولؐ اور ایسی کتاب اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے زندہ وپائندۂ معجزات نہیں؟؟
آنحضرتؐ نے اپنی ودیعت کی گئی کئی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت یہ بھی بتائی کہ’’مجھے رعب و داب کے ذریعہ فتح ونصرت دی گئی ہے ۔‘‘ نیز یہ کہ ’’میری دھاک ایک ماہ کی مسافت تک کام کرتی ہے۔‘‘ یہاں پیدل یا سوار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ قیاس ہے کہ یہ مسافت سواری کے ذریعہ ہو۔ اس طرح آپؐ کے برقاطیسی میدان کا حلقۂ اثر آپؐ کے شایانِ شان بہت وسعت اختیار کرجاتا ہے۔ یہ رعب و دبدبہ اور ہیبت ووقار ، دولت وحشمت، تیغ وسنان اورلشکر و سپاہ کا محتاج نہ تھا بلکہ آپؐ کے اقوال وافعالِ پاکیزہ کی غیر معمولی قوّتِ تاثیر کا معجزہ تھا۔ آپؐ کے منزّہ ومزکی ، طاہرومطہّر بے مثال کردار نے آپؐ کے گرد جو قوی ترین برقاطیسی میدان پیدا کیا تھا، یہ رعب ودبدبہ اسی کا عملی مظہر تھا۔ بے شک اللہ نے آپؐ کو جسمانی قوّت بھی عطا فرمائی تھی جس کے بل پر اپنے ہم عمر ابو جہل کو لڑکپن میں پچھاڑا تھا۔ مگر بعداز بعثت مکّہ کے مشہور پہلوان رکانہ کو متواتر تین مرتبہ خاک چٹانا بذریعہ اتصالِ جسمانی آپؐ کے اسی طاقتور برقاطیسی میدان کا کرشمہ تھا۔ میرے ناقص مطالعہ کی حد تک کہیں یہ مذکور نہیں کہ آپؐ نے فنِ کشتی کے داؤپیچ کسی ماہرِ فن سے سیکھے ہوں۔ مکّی دور ہی میں جبکہ آپؐ دولت و حشمت اور لشکر وسپاہ سے تہی دامن تھے۔ آپؐ کے ایک حکم پر آپؐ کا جانی دشمن ابوجہل بے چوں وچراتا جرکا قرض ادا کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ آپؐ کے برقاطیسی میدان کا بذریعہ امالہ اثر تھا۔ سفرِ ہجرت میں سراقہ بھی اسی امالہ کے اثر کا مزا چکھ چکا تھا۔
یہاں مدنی دور کے چند معجزات کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ وضاحت کے لئے اتصال یا امالہ کو قوسین میں لکھا ہے۔ غزوۂ خندق میں وہ چٹان جو کسی سے نہ ٹوٹ سکی وہ آپؐ کی چند ضربوں سے پارہ پارہ ہوگئی۔ (اتصال براہ کُدال)
غزوۂ خیبر میں حضرت علیؓ کا مرضِ آشوبِ چشم آنحضرت ؐ کا لعابِ دین مبارک لگانے سے فوراً دور ہوگیا۔(اتصال)
غزوۂ حنین میں حضرت خالدؓ بن ولید کے پیر کا زخم لعابِ دہنِ مبارک لگانے سے مندمل ہوگیا۔( اتصال)
یہاں ایک سائنسی حقیقت کا جاننا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ لعابِ دہن میں اس شخص کے D.N.A. ہوتے ہیں جس کا وہ لعاب ہو۔ نشانِ انگشت کی طرح D.N.A. کو بھی شناختی نشان کے طور پر عالمی سطح پر قانونی مانا جاتا ہے۔ آنحضرتؐ کے لعابِ مبارک میں آپؐ کے D.N.A. تھے۔ جنمیں آپؐ کا برقاطیسی اثر موجود تھا۔ کیونکہ یہ آپؐ کے وجود کا حصّہ تھا۔ اگر لعابِ مبارک لگانا ’’اتصالی‘‘ عمل تھا تو دَم کرنا بھی ’’امالائی‘‘ عمل تھا کہ یہ بھی آپؐ کے بابرکت وجود کا حصّہ تھا۔
یہودی ابورافع کے قتل کے بعد حضرت عبداللہؓ بن عتیک زینہ سے گر پڑے تھے۔ ان کے پیر کی ہڈّی ٹوٹ گئی تھی۔ آنحضرتؐ کے دستِ شفا کے لمس سے ٹھیک ہوگئی۔ (اتصال)
غزوۂ خیبر میں سلمہؓ بن اکوع کے زخمی پیر پر آپؐ نے تین مرتبہ دَم کیا تو انکا زخمی پیر اچھا ہوگیا۔ (امالہ)
حضرت عثمانؓ بن ابی العاص کے نسیان کے مرض کو آنحضرتؐ نے ان کے سینہ پر دستِ شفا پھیر کر (اتصال) اور ان کے منہ میں دَم کرکے (امالہ) دور کیا۔
محمدؓ بن حاطب بچپن میں جل گئے تھے۔ آنحضرتؐ نے اپنا لعاب مبارک لگایا (اتصال) اور دُعا دَم کی(امالہ)۔ وہ تندرست ہوگئے۔
ایک صاحب جُنون کا شکار ہوئے تو آنحضرتؐ کے دستِ شفا سے جھاڑنے سے شفا پائی (اتصال)
یہ تو صرف آنحضرتؐ کے معجزات کا ذکر ہوا۔ اولیاء اللہ کی کرامات کی بنیاد میں بھی اسی برقاطیسی ہیولے کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً چشتی ؒ اور جادوگر جے پال کا معرکہ یا اونٹوں کے نہ اٹھنے کی بات یا حضرت فرید گنج شکرؒ کا شکر کو نمک اور پھر نمک کو شکر میں تبدیل کردینے کی کرامات۔
امید ہے کہ درج بالا مُدلّل منطقی بحث اور ناقابلِ تردید امثال کے ذریعہ یہ امر اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا ہوگا کہ ہرفرد کے خارج میں اس کا ایک برقاطیسی لہری ہیولا ہوتا ہے۔ جس کی قوّت وشدّت کا انحصار اس کے کردار اور اعمال پر ہوتا ہے۔ ان ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں اب یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ آنحضرتؐ صف بندی کو اتنی اہمیت دیتے تھے۔ اور اس پیمبرانہ عمل کی تہہ میں کون سی حکمت پوشیدہ تھی؟
نماز یا جہاد کے لئے جب افراد صف بند ہوتے ہیں تو سب کے کندھے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ہر فرد کا برقی مقناطیسی ہیولا اپنے پڑوسی کے ہیولے میں نہ صرف یہ کہ ضم ہوتا ہے بلکہ توانائی کے بہاؤ کے قانون کے تحت ایک دوسرے پر اتصال کے ذریعہ اثر بھی کرتا ہے۔ اس طرح پوری صف کا ایک مجموعی طاقتور برقاطیسی ہیولا وجود میں آتا ہے۔
رکوع وسجود کے وقت ہر صف اپنی اگلی و پچھلی صف سے قریب تر ہوتی ہے اس حال میں تمام صفوں کا امالہ کے ذریعہ ایک اور زیادہ طاقتور اجتماعی ہیولا تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح کمزور برقاطیسی میدان والے نمازی افراد کی نمازیں بھی بہتر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح اجتماعی دُعا کے وقت اس برقاطیسی میدان میں ’’آمین بالجہر‘‘ کی صوقی لہریں شامل ہوکر زیادہ پُر قوّت ہوجاتی ہیں۔ اور ان کی قبولیت کا پختہ تر یقین اور رسائی کی امید پیدا ہوتی ہے۔ عیدین اور حج کے موقعہ پر اس کی شدّتِ تاثیر کا اندازہ کیجئے۔
جہادی صف میں پورے لشکر کا برقاطیسی میدان فداکار مجاہدین کے جذبۂ جاں سپاری اور جوش جہاد کو بڑھاتا ہے اور میدانِ کارزار میں مجاہد کے اُس نعرۂ تکبیر کا جو دلِ وجودمیں زلزلہ ڈال دیتا ہے، وہی اثر ہوتا ہے جو مساجد میں ’’آمین بالجہر‘‘ کا ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے تجربہ کی بات ہے کہ نقارہ کی بلند صوتی لہروں کی دھمک کو ہم اپنے دل کی دھڑکنوں میں اترتی ہوئی محسوس کرتے ہیں۔
چندنصائح اور تہذیبی وثقافتی رسوم کے پسِ پشت بھی یہی لہری فلسفہ موجود ہے مثلاً نصیحت کی جاتی ہے کہ نیک اور صاحب کردار لوگوں کی صحبت اختیار کرو کہ صحبتِ صالح ترا صالح کُند۔ یہی وجہ ہے کہ بزرگانِ دین کی مجلسِ درس ووعظ میں بیک وقت ہزاروں افراد شریک ہوتے اور بقدر ظرف ان کے وعظ و پند اور کلامِ ہدایت سے فیضیاب ہوتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ حاجی کے گھر پہنچنے سے پہلے اس سے معانقہ و مصافحہ کرو اور اس سے اپنے لئے دعا کرواؤ۔ کیونکہ گھر پہنچنے سے پہلے حاجی حالتِ مسافرت میں ہوتا ہے۔ ایک تو مسافر کی دعا خود ہی پُر اثر ہوتی ہے ۔ اور سونے پر سہاگا بیت اللہ کا پاک دل و پاک نفس مسافر، جس کے دل و نظر میں بیت اللہ اور روضۂ اقدسؐ کے جانفزانظارے تازہ ہوں۔ جس کی سانسوں میں وہاں کی فضاؤں کی فردوسی مہک باقی ہو اس کے برقاطیسی میدان کی طاقت اور شفافیت کا کیا کہنا۔ جو آپ معانقہ اور مصافحہ کے اتصال کے ذریعہ سے حاصل کررہے ہیں۔ جب حاجی محلّہ کی مسجد میں دورکعت نفل شکرانہ ادا کرتا ہے تو زیادہ سے زیادہ افراد کو ملاقات سے مستفیض ہونے کا زرّین موقعہ ملتا ہے۔
سرِراہ کسی ہمدم دیرینہ سے اچانک ملاقات ہوجائے۔ جسے آپ ملاقاتِ مسیحا ؑ و خضرؑ پر ترجیح دیتے ہوں۔ تو کیسے ٹوٹ کر بار بار گلے لگاتے ہیں اور ہاتھ ملاتے ہیں۔ باہم گلے میں باہیں ڈالے چہروں سے پھوٹتی خلوص کی پھوار میں ایک دوسرے کو نہلاتے ہیں ۔ ان سارے مخلصانہ جذبات کی تہہ میں آپ اسی برقاطیسی میدان کو موجود پائیں گے۔
شیر خوار بچّہ کا برقاطیسی میدان کمزور ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا کردار ابھی نمویافتگی کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس دور میں بچّہ کو لپٹانا، اس پر پیار سے ہاتھ پھیرنا بچہ کی صحت مند ذہنی وجسمانی نشونما کے لئے بے حد مفید و ضروری ہے۔ کیونکہ اس دور میں اس کا برقاطیسی میدان دوسروں پر اثر انداز ہونے کے بجائے پیار کرنے والوں کے میدانوں سے متاثر ہونے کی صلاحیت زیادہ رکھتا ہے۔ بچہ چونکہ ماں کی قربت میں زیادہ رہتا ہے۔ اسی لئے اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ توانائی کے بہاؤ کے اٹل قانون کے تحت ماں کے لئے لازمی ہے کہ وہ پاکیزہ عادات واطوار، نیک سیرت اور اخلاق حسنہ اوربلند کردار کی حامل ہو۔ اسلام اسی لئے بیوی کے انتخاب میں مال ودولت، حُسن و جمال پر نیک سیرت اور بلند کردار عفیفہ کو ترجیح دیتا ہے۔ تاکہ یہی صفاتِ عالیہ شیر مادر میں شیروشکر ہوکر بچّہ کی نمو کا حصہ بنیں۔ گودِ مادر اسی وجہ سے بچہ کا پہلا مدرسہ بنتی ہے۔ اکثر صحابیاتؓ کے تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باوضو ہوکر بچّوں کو دودھ پلایا کرتی تھیں اوراس عمل کے دوران قرآنِ حکیم کی زبانی تلاوت بھی کیا کرتی تھیں۔ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین۔ آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ کا یہ رخ بھی پیشِ نظر رہے کہ آپؐ بچوں کو سلام کرتے، گود میں لیتے، چومتے، سر پر دستِ شفقّت پھیرتے۔ کبھی سواری پر بیٹھا لیتے۔ نواسوں کے لئے تو خود سواری بن جاتے۔ اللہ اللہ! کیا ہی اچھی تھی سواری اور کیا ہی اچھے تھے سوار! صلی اللّٰہ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین۔ آمین۔
کیا آنحضرتؐ برقاطیسی میدان کے رموز و اسرار سے واقف تھے؟ یقینا،مگر اُس زمانہ کی علمی وذہنی سطح کے پیشِ نظر آپؐ نے اس لئے سکوت فرمایا کہ مستقبل میں جب علمی وذہنی سطوح اس قدر بلند ہوجائیں کہ ان میں ان دقیق حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے تو مشیّت الٰہی اس راز کوبھی آشکارا کر دے گی (واللہ اعلم)
برقاطیسی ہیولے کی تربیت کیسے ہو؟ نہایت مختصر الفاظ میں پابندئ شریعت اور رسولِ خاتم ؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی جس قدر زیادہ ہوگی اتنا ہی یہ ہیولا زیادہ وسیع وپُر اثر ہوگا۔ نہ جانے کس صاحبِ فکر و نظر کا قول ہے کہ "Be Clean in Words, Thoughts & Deeds" اسی کو میں ’’عصمتِ فکر وخیال، عفّتِ قلب ونظر اور طہارتِ قول و عمل‘‘ کہتا ہوں۔ عارفِ مشرق کے نزدیک مردِ مومن کی من جملہ علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’ اس کی خواہش قلیل، اس کے مقاصد جلیل‘‘ مختصراً انہی سب فکری وعملی بنیادوں پر پاکیزہ بلند مومنانہ کردار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اور یہی کردار بقدر پاکیزگی کسی شخص کا برقاطیسی میدان یا ہیولا پیدا کرتا ہے۔
یہ بھی کیا حسنِ اتفاق ہے کہ خودی کی تربیت کے بھی بعینہ وہی ذرائع ہیں جو برقاطیسی ہیولے کی تربیت کے ہیں۔ تو کیا فلسفہ جس وصفِ عالیہ کو اپنی زبان میں ’’خودی‘‘سے موسوم کرتا ہے اسی کو سائنس اپنی زبان میں ’’برقاطیسی ہیولا کہتی ہے؟ نام کی حد تک ان میں تفاوت ضرور ہے مگر معنوی سطح پر یہ دونوں ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔خودی کی جو بلندی اور ترفع ہے وہ برقاطیسی ہیولے کے حلقۂ اثر کی کشادگی اور وسعت ہے( العلم عند اللہ)۔
قولِ فیصل:۔ بقول اکبر الہ آبادی
تیرے الفاظ نے کر رکھے ہیں دفتر پیدا
ورنہ کچھ بھی نہیں اللہ کی قدرت کے سوا
وباللہ توفیق

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   370655
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development