ذیابیطس جینا مرنا تیرے سنگ
واپس چلیں

ایس،ایس،علی
نومبر 2013


’وفا داری‘ اعلیٰ ترین قدروں میں سے ایک ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف (Praise) کی جائے کم ہے۔ اس کی تعریف (Definition) ہر شخص اپنے معیار اور تجربے کے مطابق کرسکتا ہے، لیکن اس کے بارے میں غالبؔ نے صرف ایک مصرع میں ایسا کچھ کہہ دیا ہے کہ اب اس سے آگے کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ کہتے ہیں:
’’وفاداری بہ شرط استواری اصلِ ایمان ہے‘‘
وفاداری کی یہ جامع تعریف حرف بہ حرف ایک قدیم مرض جنابِ ذیابیطس پر صادق آتی ہے۔ یہ صاحب جب کسی کے ساتھ ہو لیتے ہیں تو اس کے ساتھ بڑا ہی مضبوط عہدو پیماں باندھ لیتے ہیں۔ یہ عہد و پیماں یک طرفہ ہی سہی، عمر بھر ساتھ نبھانے کا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو ان کا ساتھ پسند نہ آئے اور آپ ان کے ساتھ بے اعتنائی برتنے لگیں تو انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ آپ کی بے وفائی کو بھی خاطرمیں نہیں لاتے۔ زندگی بھر آپ کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں۔ ان کا بس ایک ہی نعرہ ہوتا ہے:
’’(آپ کی) جان جائے پر وچن نہ جائے۔‘‘
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ خفیہ تدبیریں کرکے،ان کے نام کی سپاری دے کر یا غیر ملکی ایجنٹوں کے بل پر انہیں اپنے سے دور کردیتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ پھر سے لوٹ آتے ہیں، یہ سوچ کرکہ:

شاید مجھے نکال کر پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

حضرت ذیابیطس کا آپ کے ساتھ زندگی بسر کرنا طفیلی (Parasitic) نوعیت کا نہیں ہے۔ وہ طفیلیہ (Parasite) کہلانا پسند نہیں کرتے۔ انہیں تو فخر ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ہم باشی (Symbiosis) کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ آپ کے ساتھ ہم باشی کی ایسی مثال پیش کرتے ہیں کہ جس کے آگے کائی (Algae) اور پھپھوند (Fungi) کی ہم باشی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ آپ کو وقت کا پابند بناتے ہیں۔ نظام الاوقات (Time-Table)کے ساتھ زندگی گزارنا سکھاتے ہیں۔ ورزش کرکے چاق چوبند رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ’’کُلوا وَاشربوا وَلاَ تسرفوا‘‘ یعنی کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو، کا سبق سکھاتے ہیں۔ اب ایسے وفادار اور ہمدرد و ’ہم راز‘ ساتھی سے ڈرنا کیسا؟ بلکہ آپ کو تو اپنے اندر ان کی وفاداری کے بالمقابل ’جاں نثاری‘ کی صفت پیدا کرنی چاہئے!! اور آپ انہیں مرض (Disease) کیوں سمجھ رہے ہیں؟ یہ تو ایک مختلف طرزِ زندگی (A Different way of Life) ہے!! لہذا۔۔۔۔۔
جیو جی بھر کے۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا ہٹ کے۔۔۔۔

ذیابیطس کیا ہے؟
غذا کے طور پر ہم جو کچھ کھاتے ہیں اس کا بڑا حصّہ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتاہے۔ ہاضمے کے دوران کاربوہائیڈریٹس، گلوکوز کی شکل میں خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ گلوکوز توانائی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ گلوکوز انسولن (Insulin) نامی ہارمون (Hormone) کی مدد سے جسمانی خلیات میں جذب ہوجاتا ہے۔ یہاں اس کا تجزیہ ہوتا ہے اور توانائی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہمارے جسم میں انسولن سے متعلق کوئی پرابلم ہے تو پھر گلوکوز جسمانی خلیات میں جذب ہونے نہیں پاتا اور خون میں اس کا ارتکاز (Concentration) بڑھ جاتا ہے۔ اس حالت کا نام ذیابیطس (Diabetes) ہے۔
ہمارے جسم میں لمبے پتّے کی شکل کا ایک عضو ہوتا ہے جسے لبلبہ (Pancreas) کہتے ہیں۔ لبلبہ کا اہم کام انسولن کی تالیف کرنا ہے۔ لبلبہ میں موجود Islets of Langerhans نامی حصوں میں Beta Cell ہوتے ہیں جو انسولن تیار کرتے ہیں۔انسولن ایک ہارمون (Hormone) ہے جس کا کام خون میں موجود گلوکوز کو جسمانی خلیات میں جذب ہونے میں مدد کرنا ہے۔ انسولن کیمیائی طور پر ایک پروٹین ہے جس کا سالمی ضابطہ یہ ہے:
C256 H381 N65079 S6
کئی وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں کچھ لوگوں میں لبلبہ انسولن پیدا کرنا بند کردیتا ہے۔ اس کی وجہ سے لاحق ہونے والے ذیابیطس کو Type 1 Diabetes کہتے ہیں۔
بعض دوسرے لوگوں میں لبلبہ مناسب مقدار میں انسولن پیدا نہیں کرتا یا پھر انسولن کی ٹھیک طور پر پروسیسنگ نہیں ہوپاتی۔ اس حالت کو Type 2 Diabetes کہتے ہیں۔
بعض خواتین میں حمل کے دوران انسولن کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ اس حالت کو Gestational Diabetes کہتے ہیں۔

ذیابیطس کی تاریخ
مصر کے قدیم مسودات (1500 ق م) جن میں پہلی بار امراض کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں ذیابیطس بھی شامل ہے۔ ان مسودات میں ذیابیطس کی شناخت ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’بہت زیادہ پیشاب کا آنا‘‘ سب سے پہلے ذیابیطس کی جس قسم کا ذکرکیا گیا وہ Type 1 Diabetes ہے۔ ہندوستانی معالجوں نے بھی لگ بھگ اسی دوران اس مرض کی شناخت کی اور اسے مدھومیہ (Madhumeha) کا نام دیا، جس کے معنی ہیں Honey Urine یعنی شہد آلود پیشاب۔
اس مرض کے لئے لفظ Diabetes پہلی بار 230 ق م میں Appollonius of Memphis نے استعمال کیا۔ Diabetes کے لفظی معنی ہیں To Pass Through یعنی نکل جانا۔ اس میں اشارہ ہے بار بار پیشاب آنے کی طرف۔
Type 1اور Type 2 کی شناخت پہلی مرتبہ ہندوستانی معالجوں سُشروتا (Sushruta) اورچَرک (Charaka) نے 400-500 ق م میں کی۔ انہوں نے Type 1 کا رشتہ بچپن سے جوڑا اور Type 2 کی وجہ موٹاپے کو بتایا۔
اٹھارویں صدی کے ابتدائی سالوں میں Briton John Rolle نے Diabetes کے ساتھ لفظ Mellitus جوڑدیا۔ تاکہ یہ مرض ایک دوسرے مرض Diabetes Insipidus سے ممتاز ہوسکے۔ اس دوسرے مرض میں بھی مریض کو بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے لیکن ذیابیطس کی دوسری علامتیں نہیں پائی جاتیں۔ آج بھی اکثر ذیابیطس کے لئے Diabetes اور Diabetes Mellitus دونوں اصطلاحات مستعمل ہیں۔
Joseph Von Mering اور Oscar Mincowski نے 1889 میں ذیابیطس کے مرض میں لبلبہ کا رول دریافت کیا۔ انہوں نے جب علاج کے دوران ایک کتے کا لبلبہ نکال لیا تو اس کتے میں جلد ہی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہوگئیں اور جلد ہی مرگیا۔
1910میں Edward Albert Sharpeg نے دریافت کیا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں ایک کیمیائی مادے کی کمی پائی جاتی ہے جو لبلبہ تیار کرتا ہے۔ اس نے اس کیمیائی مادے کا نام انسولن تجویز کیا۔ Insulin کے معنی ہیں Island ۔ لبلبہ میں موجود Islets of Langerhans میں پائے جانے والے Beta Cells یہ مادہ پیدا کرتے ہیں۔
ذیابیطس کا موثر علاج 1921 اور 1922 میں ممکن ہوا جب کینیڈا کے Frederick Banting اور Carles Best نے انسولن کو علیحدہ (Isolate) کرکے اس کی تخلیص کی۔ اس کے بعد 1940 میں زیادہ پر اثر انسولن تیار کی گئی۔

ذیابیطس کی اقسام
ذیابیطس کو چار قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(1) Type 1 ذیابیطس
(2) Type 2ذیابیطس
(3) Gestational ذیابیطس
(4) ذیابیطس کی کچھ دوسری مخصوص اقسام

Type 1 ذیابیطس
اس حالت میں لبلبہ کے Islets of Langerhans کے Beta Cells ختم ہوجاتے ہیں۔ Beta Cells انسولن تیار کرنے والے خلیات ہیں۔ ان کے ختم ہوجانے سے جسم میں انسولن کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔
ابھی تک کسی ایسی احتیاطی تدبیر (Prventive Measure) کا پتہ نہیں چلا ہے جس کے اختیار کرنے سے Type 1 ذیابیطس سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ اس کے شروعاتی دور میں مریض اکثر صحت مند ہوتا ہے۔ وہ انسولن کے لئے حسّاس ہوتا ہے اور اس میں انسولن کی اثر پذیری مناسب ہوتی ہے۔
بچوں کے علاوہ بالغ اور عمر دراز لوگ بھی Type 1 ذیابیطس کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن ماضی میں اسے بچوں کی ذیابیطس کے طور پر جانا جاتا تھا۔ Type-Iکے مریضوں میں Hyperglycemia کی حالت پائی جاتی ہے یعنی خون میں گلوکوز کے ارتکاز کا بڑھ جانا۔

Type 2 ذیابیطس
ذیابیطس کے کل مریضوں میں تقریباً 90 فیصد Type 2 کے مریض ہوتے ہیں۔ ایسے مریض انسولن کے لئے مزاحم (Insulin Resistant) ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ انسولن کی تالیف بھی کم ہوتی ہے۔ جسمانی خلیات کی انسولن کے لئے اثر پذیری میں کمی کیوں واقع ہوتی ہے، اس کی وجہ ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی ہے۔ اس میں بھی Hyperglycemia کی حالت پائی جاتی ہے۔ اس کے شروعاتی دور میں انسولن کی اثر پذیری متاثر ہوتی ہے۔ اس دور میں متاثرہ اثر پذیری کو دوائیوں کے ذریعے بحال کیا جاسکتا ہے۔ ان دوائیوں کی مدد سے جگر کے ذریعہ گلوکوز تیار کرنے کے عمل کو بھی سست کیا جاسکتا ہے۔

Gestational ذیابیطس
یہ Type 2 سے ملتی جلتی ہے۔ اس میں بھی انسولن کے رساؤ میں کمی اور اسکی اثر پذیری میں خلل نوٹ کیا جاتا ہے۔ یہ حالت 2 سے 5 فیصد حاملہ عورتوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ حالت وضع حمل کے بعد خود بہ خود ختم ہوجاتی ہے۔یہ حالت پوری طرح قابلِ علاج ہے لیکن علاج میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ 20 سے 50 فیصد عورتیں جو اس حالت میں مبتلا ہوتی ہیں وہ مستقبل میں Type-2 ذیابیطس کا شکار ہوجاتی ہیں۔
Gestational ذیابیطس کے علاج میں لاپرواہی، ہونے والے بچے اور ماں دونوں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ بچے میں Macrosomid یعنی اس کے وزن میں اضافہ، دل اور دماغ کے پیدائشی امراض، ہڈیوں اور عضلات کی نامکمل نشوونما، خون کے سرخ ذرات کو نقصان اور دوسری بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔


ذیابیطس کی کچھ اور قسمیں
(1) Prediabetes:۔
یہ وہ حالت ہے جس میں مریض کا گلوکوز لیول نارمل سے زیادہ ہوتا ہے، لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ اسے Type-1 یا Type-2 ذیابیطس کہا جاسکے ۔ یہ لوگ کئی سال اسی حالت میں گزارتے ہیں۔ بالآخر Type-2 ذیابیطس کا شکار ہوجاتے ہیں۔

(2) LADA:۔
یہLatent Autoimmune Diabetes of Adults کا مخفف ہے۔ یہ بالغ لوگوں میں پائی جانے والی حالت ہے جس میں ان کی تشخیص غلطی سے Type-2 ذیابیطس کے لئے ہوتی ہے جبکہ وہ دراصل Type-1 میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ مغالطہ مریض کی عمر کی وجہ سے ہوتا ہے۔

(3) MRD:۔
یعنی Malnutrition Related Diabetes۔ 1991میں WHO نے اس قسم کا انکشاف کیا۔ خوراک میں غذائی اجزاء کی کمی کی وجہ سے لبلبہ کی نشوونما ٹھیک طور پر نہیں ہونے پاتی، جس کے نتیجے میں انسولن کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے۔ اسی طرح جسمانی خلیات کی نموبھی ٹھیک طور پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی انسولن جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں۔

علامات
ذیابیطس کی علامات یہ ہیں:
(1) وزن میں کمی واقع ہونا (Weight Loss)۔
(2) بار بار پیشاب آنا (Polyuria)۔
(3) پیاس کا بڑھ جانا (Polydipsia) ۔
(4) بھوک کا زیادہ لگنا (Polyphagia)۔

Type-1 ذیابیطس میں یہ علامات تیزی سے ظاہر ہوتی ہیں، چند ہفتوں یا چند مہینوں میں۔ Type-2 ذیابیطس میں یہ علامات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ علامات ظاہر بھی نہیں ہوتیں۔

ذیابیطس کے اثرات
(1) زیادہ عرصے تک خون میں گلوکوز کا ارتکاز رہنے کی وجہ سے آنکھ کا عدسہ (Lens) گلوکوز کو جذب کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ساخت تبدیل ہوجاتی ہے اور بینائی متاثر ہوتی ہے۔
(2) جلد پر سرخ دھبے ظاہر ہوتے ہیں
(Diabetic Dermadromes)
(3) تیز رفتار گہری سانسیں
(Kussmaul Breathing)
(4) متلی (Nausea)
(5) قے(Vomiting)
(6) پیٹ میں درد (Abdominal Pain)
(7) ہوش وحواس میں تبدیلی
(Altered Consciousness)

پیچیدگیاں
ذیابیطس کی تمام اقسام میں طویل عرصے کے بعد پیچیدگیاں (Complications) پیدا ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ یہ عرصہ 10 سے 20 سال تک کا ہوسکتا ہے۔
(1) سب سے اہم پیچیدگی خون کی نالیوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ دل تک جانے والی اور دل سے نکلنے والی خون کی نالیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ یہ مرض (Cardiovascular Disease) کہلاتا ہے۔ دل کا دورہ پڑنے کا بھی امکان ہوتا ہے۔

(2) ذیابیطس سے خون کی مہین نالیاں یعنی شعریات (Capillaries) بھی متاثر ہوتی ہیں۔ آنکھ کے پردے شبکیہ (Retina) میں پائی جانے والی شعریات اس سے متاثر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں بصارت متاثر ہوتی ہے اور اندھاپن بھی آسکتا ہے۔ اس مظہر کو (Diabetic Retinopathy) کہتے ہیں۔

(3) ذیابیطس گردوں (Kidneys) پر بھی اثر انداز ہونے والا مرض ہے۔ اس کی وجہ سے گردوں کی نسیجیں (Tissues) متاثر ہوتے ہیں۔ پیشاب میں گلوکوز کے علاوہ پروٹین کا اخراج ہونے لگتا ہے۔ اس حالت کو (Diabetic Nephropathy) کہتے ہیں۔ زیادہ عرصے تک یہ حالت برقرار رہے تو Dialysis کی نوبت آجاتی ہے۔

(4) ذیابیطس کے نتیجے میں ایک اہم پیچیدگی عصبی نظام (Nervous System) کا متاثر ہونا ہے جس میں خاص طور پر پیر متاثر ہوتے ہیں۔ عصبی نظام کے متاثر ہونے کا عمل Diabetic Neuropathy کہلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیروں کا سُن یا شل ہوجانا (Numbness) ، جھُرجھُری (Tingling)، تکلیف (Pain) اور جلد کو نقصان پہنچنا شامل ہیں۔ پیروں میں اعصاب (Nerves) کے علاوہ خون کی نالیاں (Blood Vessels) بھی متاثر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پیروں میں ناسور (Ulcers) پیدا ہوجاتے ہیں جن کا علاج مشکل ہوتا ہے اور ناسور Gangrene میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ گینگرین ہونے کی صورت میں پیر کو بچایا نہیں جاسکتا، اسے کاٹ کر الگ کرنا (Ampulation) ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ Diabetic Neuropathyمیں عضلات کی جکڑن، شدید تکلیف اور عضلات کا کمزور ہونا شامل ہے۔

وجوہات
ذیابیطس کی وجوہات اس کی قسم(Type) پر منحصر ہوتی ہیں:
(1) Type-1:۔ اس قسم کی ذیابیطس لاحق ہونے میں موروثی خصوصیات اہم رول ادا کرتی ہیں۔ یہ قسم ایک نسل سے دوسری نسل میں کسی حد تک منتقل ہوتی ہے۔ پھر اگر اسے مناسب حالات مل گئے تو وہ فعال ہوجاتی ہے۔
Type-1 میں Coxsackie B4 Virus کا انفکشن اہم ہے۔ اس کے علاوہ ایک موروثی عنصر HLA Gentype بھی اس مرض کو فعال کردیتا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ Type-1 کا تعلق طرزِ زندگی سے نہیں ہے!

(2) Type-2 :۔ ذیابیطس کی اس قسم میں طرزِ حیات کا اہم رول ہے۔ دوسری وجہ جینیات (Genetics) ہے۔
طرزِ حیات میں موٹاپا (Obesity) پہلی وجہ ہے جو Type-2 کو مدعو کرتی ہے۔ اگر کسی شخص کا BMI یعنی Body Mass Index تیس (30) سے اوپر ہو تو وہ موٹاپے کا شکار مانا جاتا ہے۔ دوسری وجوہات میں جسمانی ورزش سے بے اعتنائی، غیر معیاری غذا کا استعمال، دباؤ اور تناؤ (Stress) اور شہریانہ (Urbanization) وغیرہ شامل ہیں۔
شکر اور میٹھی چیزوں کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا مرض لاحق نہیں ہوتا لیکن یہ طرزِ زندگی ذیابیطس کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔ غذا میں تیل اور چربی کا زیادہ استعمال بھی ذیابیطس کو مدعو کرتا ہے۔ اسی طرح سفیدچاول کا استعمال بھی ذیابیطس کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔

تشخیص
ذیابیطس کی تشخیص کا سب سے آسان اور قابلِ اعتبار طریقہ خون کی جانچ ہے۔ فاقہ (Fasting) کی حالت میں خون میں گلوکوز کی مقدار 70-90 mg/dl ہونی چاہئے۔ یاپھر کسی بھی وقت (Random) جانچ کروائیں تو 70-140 mg/dl ہونی چاہئے۔ کھانا کھانے کے دو گھنٹے بعد یہ مقدار 140mg/dlہونی چاہئے۔یہ اعداد و شمار نارمل بلڈ شوگر کے ہیں۔ ان سے زیادہ میں Hyperglycemia اور کم میں Hypolycemia کی حالت واقع ہوتی ہے۔

علاج
ذیابیطس کے سلسلے میں علاج (Cure) سے زیادہ مناسب لفظ بندوبست (Management) ہے۔
ذیابیطس ایک مزمن(Chronic) مرض ہے۔ دوسرے امراض کی طرح اس کا کوئی حتمی علاج نہیں ہے۔ اس کو Manage کرنے میں ساری توجہ خون میں موجود گلوکوز یعنی بلڈ شوگر کو نارمل سے قریب رکھنے پر ہوتی ہے۔ بلڈ شوگر اگر نارمل ہے تو اس حالت کو Euglycemia کہتے ہیں۔ اس عمل میں اس بات کو یقینی بنانا پڑتا ہے کہ بلڈ شوگر نارمل سے کم نہ ہو۔ ذیابیطس کے Management میں غذا، جسمانی ورزش، انسولن کے انجکشن اور منہ کے ذریعہ لی جانے والی دوائیاں شامل ہیں۔
ذیابیطس کے تعلق سے مریض کی تعلیم، سوجھ بوجھ اور عملی شمولیت بہت ضروری ہے۔ جو مریض اپنی بلڈ شوگر کو نارمل کے قریب Manage کرکے رکھتے ہیں ان میں آئندہ کی پیچیدگیوں کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔
ذیابیطس کو تحریک دینے والے محرکات کا بندوبست بھی ضروری ہے۔سگریٹ نوش، کولسٹرول کی اونچی سطح ، موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر وغیرہ پر قدغن لگانا ضروری ہے۔جسمانی ورزش کا فقدان بھی ایک محرک ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کواپنے پیروں کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کے لئے ہر وقت پاپوش (Foot Wear) کا استعمال لازمی ہے تاکہ پیروں کو السر سے بچایا جاسکے۔

طرزِ زندگی
ایک بار ذیابیطس کی تشخیص ہوجائے تو اس بات کو قبول کرلینا چاہئے کہ ’’اب جینا ہے ترے سنگ‘‘ اب اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔ اپنے معالج کی صلح کے مطابق غذا کا استعمال، بامعنی ورزش، وقفے وقفے سے بلڈ شوگر کی جانچ، پیروں کی حفاظت، آنکھوں کی جانچ، بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا، ذہنی تناؤ سے دور رہنا، موٹاپے سے بچنا یعنی اب کھانے کے لئے جینا نہیں بلکہ صرف زندہ رہنے کے لئے کھانا ہے۔ عبادات اور ذکرواذکار میں مشغول ہونا تاکہ ذہنی وقلبی سکون حاصل ہوسکے۔

دوائیاں
Type-1 کے لئے انسولن زیادہ کارگر ہے جب کہ Type-2 کے علاج کے لئے Metformin کافی موثر ثابت ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ Aspirin کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جانوروں میں ذیابیطس
کتّوں اور بلّیوں میں ذیابیطس پایا جاتا ہے۔ درمیانی عمر کے جانور اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ نر کتوں کی بہ نسبت مادہ کتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ نر بلیاں مادہ بلیوں کی بہ نسبت اس مرض کی زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ ان جانوروں میں ذیابیطس کی علامات انسانوں میں پائی جانے والی علامات سے مشابہ ہوتی ہیں لیکن انسانوں کی طرح ان میں پیچیدگیاں نہیں پائی جاتیں۔ علاج اور Management بھی انسانوں کی طرح ہے۔

کیا ذیابیطس کا مکمل علاج ممکن ہے؟
Type-1ذیابیطس پر مکمل فتح حاصل کرنے کے لئے زور و شور سے تیاریاں شروع ہیں۔ آسٹریلیا کے ڈاکٹر Gary Deed اس مطالعے میں بہت پر امید ہیں۔ ان کے مطابق آئندہ 5-10 سالوں میں Type-2 کا مکمل علاج ممکن ہوسکے گا۔ فی الحال سامنے آنے والے نئے معاملوں میں مرض کے شروعاتی دور میں ہی اسے روک دینے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ قوت مدافعت کا نظام (Immune System) زیادہ قوی بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے تاکہ لبلبہ کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاسکے۔ دوسری طرف لبلبہ کی کارکردگی میں اضافے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ لبلبہ کا تبادلہ (Transplantation) یا پھر انسولن تیار کرنے والے Beta Cells کے تبادلے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ اسی طرح Stem Cells کو Beta Cell میں تبدیل کرنے کی تکنیک کھوجی جارہی ہے۔
Type-2کے مکمل علاج کے لئے جو کوششیں ہورہی ہیں ان میں عوامی صحت کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ اس میں وزن کو کم کرنا اور باقاعدہ ورزش کو بہت مفید پایا گیا ہے۔ کچھ مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ صرف 30 منٹ کی ورزش Type-2 کے امکانات کو 60 فیصد تک کم کردیتی ہے۔

خطرے کی گھنٹیاں
کچھ علامات ہیں جنہیں ہم خطرے کی گھنٹیاں (Warning Signals) کہہ سکتے ہیں۔ اگر یہ یا ان میں سے چند ظاہر ہوجائیں تو ہمیں چوکنا (Alert) ہوجانا چاہئے۔

(1) Type-1:۔ شدید پیاس، بار بار پیشاب کا آنا، مسلسل بھوک، دھندلانظر آنا، اچانک وزن میں کمی، متلی، قے، انفکشن، تھکاوٹ۔

(2) Type-2 :۔ شدید پیاس، بار بار پیشاب کا آنا، تھکاوٹ، زخموں کا دیر سے مندمل ہونا، خارش، جلد کا انفکشن، دھندلانظر آنا، موڈ میں بار بار تبدیلی۔

غلط فہمیاں
(1) ’’شکر اور مٹھائیاں کھانے سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہوتا ہے‘‘۔ بالکل غلط بات ہے۔ شکر کا استعمال ذیابیطس کی وجہ نہیں ہے۔
(2) ’’ذیابیطس کے مریض چاکلیٹ اور مٹھائی نہیں کھاسکتے۔‘‘ غلط۔ کبھی کبھار چاکلیٹ اور مٹھائی کم مقدار میں کھائی جاسکتی ہے۔
(3) ’’ذیابیطس کے مریضوں کو خاص قسم کی خوراک کھانی چاہئے۔‘‘اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سادہ کھانا جس میں چربی اور کاربوہائیڈریٹ کی مقدار کم ہو، ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مناسب ہے۔
(4) ذیابیطس کا مرض ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔‘‘ ذیابیطس متعدی (Contagious) مرض نہیں ہے۔ مریض کے رابطے میں رہنے والوں کو یہ مرض لاحق نہیں ہوتا۔
(5) ’’بعض لوگوں کو ذیابیطس کا مرض صرف چھوتا ہے۔‘‘ غلط فہمی ہے۔ ذیابیطس کے سلسلے میں بارڈر لائن یا ہلکا (Mild) جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس کی ہر قسم خطرناک ہے۔ اگر علاج میں لاپرواہی برتی گئی تو پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ مرض جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

عالمی یومِ ذیابیطس
2010 میں دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 285 ملین تھی، جس میں 90 فیصد Type-2 کے مریض تھے۔ ذیابیطس کا مرض وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔ 2030 تک اس کے مریضوں کی تعداد دوگنی ہونے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ یہ مرض ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ بہت عام ہے جہاں خاص کر Type-2 کے مریض زیادہ ہیں۔ لیکن اس مرض کے پھیلاؤ کی رفتار ایشیااور افریقہ میں زیادہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں اس کے پھیلاؤ کی وجہ شہریانہ (Urbanization) اور طرزِ زندگی میں تبدیلی ہے، خاص کر مغربی طرز کی غذا کا استعمال۔
ان تمام باتوں کے مد نظر International Diabetes Fedrationاور WHO نے 14 نومبر کو عالمی یومِ ذیابیطس (World Diabetes Day) منانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی شروعات 1991 سے ہوئی۔ عالمی یومِ ذیابیطس کی تقریبات سال بھر چلتی رہتی ہیں لیکن 14 نومبر کا دن Frederick Banting کے یوم پیدائش کی یاد دلاتا ہے جس نے Charles Best کے ساتھ ذیابیطس کے علاج کے لئے جو تصور پیش کیا تھا، اس کے نتیجے میں 1922 کو انسولن کی دریافت سامنے آئی۔
عالمی یوم ذیابیطس کے لئے مختلف تھیم تجویز کئے جاتے ہیں جو ذیابیطس سے متعلق اہم موضوعات کا آئینہ دار ہوتے ہیں، مثلاً ذیابیطس اور حقوق انسانی، ذیابیطس اور طرزِ زندگی، ذیابیطس اور موٹاپا، ذیابیطس اور غرباء، بچوں میں ذیابیطس، بالغ لوگوں میں ذیابیطس وغیرہ۔2009-2013 کے لئے جس تھیم کا انتخاب کیا گیا وہ یہ ہے:
Diabetes: Education and Prevention
(ذیابیطس : تعلیم اور علاج)
ذیابیطس کے Logo کے طور پر نیلے رنگ کا دائرہ تجویز کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے عالمی یومِ ذیابیطس کو منانے اور عوام میں ذیابیطس کی آگاہی اور واقفیت کے لئے رضا کار ادارے اور افراد تاریخی اور اہم عمارتوں پر نیلے رنگ کی روشنی کرتے ہیں۔

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   368783
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development