کیوں لگتی ہے بھوک
واپس چلیں

ایس، ایس، علی
دسمبر 2017


انسان کا دماغ اللہ تعالیٰ کی قوتِ تخلیق اور صنّاعی کا اعلیٰ ترین شاہکار ہے۔ صدیوں سے اس کا مطالعہ کیا جارہا ہے اور تاقیامت کیا جاتا رہے گا۔ دماغ کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ علمائے سائنس اور ماہرین دماغ کی رائے یہ ہے کہ انسانی دماغ کی مثال ایک عظیم لق و دق صحراکی سی ہے اور اس کے بارے میں ہمارا آج تک کا علم اور مطالعہ ایسا ہے گویا ہم ابھی اس صحرا کے کنارے پر کھڑے ہیں!
تاہم سائنسدانوں اور محققین نے دماغ کے بارے میں اتنی ساری معلومات بہم پہنچادی ہیں کہ دماغ چکرا جاتا ہے! لیکن اب دماغ کی قصیدہ خوانی یہیں روک دینی چاہئے ورنہ جنابِ دل روٹھ جائیں گے، اور ان کا روٹھنا۔۔۔ارے توبہ۔۔۔!
وہی ہے شاہد وساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
ہمارے جسم کے زیادہ تر اعمال وافعال کو ہمارا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ کے مختلف حصوں میں مختلف حِسّی مراکز پائے جاتے ہیں۔ مطالعے کی غرض سے دماغ کو ذیل کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے:
* بڑا دماغ (Cerebrum)
* تھالامس (Thalamus)
* ہائپوتھیلامس) (Hypothalamus
* وسطی دماغ (Midbrain)
* پونس (Pons)
* نِخاع مستطیل/ سرِ حرام مغز
(Medula Oblangata)
* چھوٹا دماغ (Cerebellum)
Thalamus اور Hypothalamus کو ملاکر Diencephalon کہا جاتا ہے۔ اسی طرح Midbrain ، Pons اور Medula Oblangata کو یکجاکرکے Brain Stem کہتے ہیں۔
بڑے دماغ میں مرکز ماجرہ، مرکز سامعہ، مرکز شامہ، درد اور دباؤ وغیرہ کے مراکز ہوتے ہیں۔ چھوٹے دماغ میں عضلات کی حرکت، چیزوں کو پکڑنے ، ہم آہنگی وغیرہ کے مراکز پائے جاتے ہیں۔
ہائپوتھیلامس(Hypothalamus) میں بھی بہت سے مراکز ہوتے ہیں۔ مثلاً پیاس کا لگنا، بھوک کا لگنا، جسمانی تپش اور نیند وغیرہ۔
بھوک لگنا یعنی بھوک کا احساس ایک اشارہ ہے جس کے ذریعے ہائپوتھیلامسنظام انہضام کو مطلع کرتا ہے کہ اب جسم کو ایندھن یعنی خوراک کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے معدے میں ہلکی ہلکی ٹیس محسوس کرتے ہیں جو بھوک کی ٹیس (Hunger Pang) کہلاتی ہے۔ یہی بھوک کا احساس ہے کھانا کھالینے پر ختم ہوجاتا ہے۔ معدے میں غذا کی ایک متعین مقدار پہنچ جانے کے بعد ہائپوتھیلامسپھر سے اشارہ جاری کرتا ہے اور ہمیں شکم سیری (Satiety) کا احساس ہوتا ہے، اور ہم کھانا روک دیتے ہیں۔ یہ دونوں اشارے ہائپوتھیلامس کے دو الگ الگ مراکز سے نکلتے ہیں۔ ان دونوں مراکز کو اجتماعی طور پر Apistate کہتے ہیں۔
بھوک کا لگنا یا نہ لگنا کئی عوامل پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ عوامل حیاتیاتی (Biological)بھی ہیں اور طبعی (Physical) بھی۔ کھانے کی خواہش یا اشتہا کو بھوک کہتے ہیں۔ ہائپوتھیلامس کھانے کے رویے کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ چوہوں پر کئے گئے تجربات سے یہ نتائج اخذ کئے گئے کہ اگر ہائپوتھیلامس کے درمیانی حصّے کو نقصان پہنچایا جائے تو چوہے خوب کھانے لگتے ہیں اور موٹے ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر ہائپوتھیلامس کے نچلے حصّے کو نقصان پہنچایا جائے تو وہ کھانے سے انکار کردیتے ہیں اور فاقہ کشی کی موت مرجاتے ہیں۔ لیکن انسانوں میں ہائپوتھیلامس کا رول چوہوں کے مقابلے کم اہمیت کا حامل ہے، کیوں کہ انسانوں میں کھانے پینے کے محتاط فیصلے بھی کئے جاتے ہیں۔

بھوک اور اشتہا
بھوک (Hunger) اور اشتہا (Appetite) میں فرق ہے۔ بھوک یہ نہیں دیکھتی کہ ہم کیا کھا رہے ہیں ۔ اس کی کوشش تو بس یہ ہوتی ہے کہ کچھ غذا معدے میں پہنچ جائے۔ طبعی اشارے بھوک کے احساس کو جگاتے ہیں مثلاً خالی معدہ کی ٹیس، خون میں شکرکی سطح کا گرنا اور دوسری میٹوبولک (Metabolic) تبدیلیاں۔ سِیروٹونِن(Serotonin) اور دوسرے ہارمونس ان اشاروں کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ یہ ہارمونس ہائپوتھیلامس کے خاص مراکز میں تیار ہوتے ہیں۔
بھوک کے برخلاف اشتہا ہمیں اس وقت بھی کھانے کے لئے اکساتی ہے جب ہمارا پیٹ بھرا ہو۔ اشتہا یعنی غیر ضروری طور پر کھانے کی خواہش کئی عوامل پر منحصر ہوتی ہے مثلاً دعوت میں مدعو کیا جانا یا کسی کی دعوت کرنا، کھانا بنانے کے طور طریقے، غذا کا رنگ، اس کی خوشبو، اس کا ذائقہ، اس کو پیش کرنے کے انداز، محبت ویگانگت، کھانے کے لئے اصرار، کھانا بنانے والے کی شہرت، پکوان کی پیشگی اطلاع وغیرہ۔ اشتہا کا انحصار طبعی عوامل کی بہ نسبت نفسیاتی عوامل پر زیادہ ہوتا ہے۔ دماغ میں پایا جانے والالِمبک نظام (Limbic System) اشتہا یعنی کھانے کی نفسیات کو کنٹرول کرتا ہے۔

یہ سسٹم ہمارے جذباتی رویّے اور سیکھنے کی صلاحیت کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ اپنے پسندیدہ پکوان کا محض تصور یا ذکر ہی اشتہا کو جگانے کے لئے کافی ہے۔

چند دوسرے عوامل
حقیقی بھوک کے مقابلے میں رسم و رواج اور عادات و اطوار کے زیر اثر کھانے کی مقدار کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ یہی عوامل یہ بھی طے کرتے ہیں کہ آدمی 24 گھنٹوں میں کتنی مرتبہ کھائے۔ ہارمونس بھی بھوک کے میکنیزم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں پیپٹائڈس (Peptides) کا رشتہ بھوک سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جدید مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی کہ دماغ میں تیار ہونے والا ہارمون نیوروپیپٹائڈس۔وائی (Neuropeptide-Y) بھوک کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس ہارمون کو سمجھنے کے لئے گہرا مطالعہ کیا جارہا ہے۔ مستقبل میں نیوروپیپٹائڈس۔وائیہاضمہ اور بھوک کے مسائل، امراض اور خامیوں و کمیوں کو سمجھنے اور ان کا علاج کرنے میں مدد کرے گا۔

کھانے کے لئے جینا یا جینے کے لئے کھانا
آپ کسی بھی شخص (بلا لحاظِ جنس و عمر) سے یہ سوال کیجئے کہ وہ کھانے کے لئے جیتا ہے یا جینے کے لئے کھاتاہے، تو اس کا جواب یہ ہوگا ’’میں تو صاحب صرف جینے کے لئے تھوڑا بہت کھالیتا ہو۔‘‘ لیکن اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی شریر مسکراہٹ اور چہرے پر خفت و خجالت کے آثار آپ آسانی سے پڑھ لیں گے!

بھوک سے متعلق ہمارے رویّے
بھوک سے متعلق ہماری نفسیات کو یہ کہاوت بڑی وضاحت سے اجاگر کرتی ہے:
’’بھوکے شریف سے اور پیٹ بھرے رذیل سے ڈرنا چاہئے۔‘‘
ان دو انتہاؤں کے بین بین بھوک پر کئی گئی تحقیق سے اور کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک عام آدمی جو درمیانی ڈیل ڈول اور وزن کا ہو، کھانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا، وہ اتنا ہی کھاتا ہے جتنااس کی جسمانی ضرورت کے لئے کافی ہو۔ اس کے بر خلاف موٹے اور اوور ویٹ (Over Weight) اشخاص ہر وقت کھانے پر آمادہ رہتے ہیں۔ کھانے کی خوشبو ان کی بھوک کو بڑھادیتی ہے اور اگر کھانا ذائقہ دار بھی ہو تو ان کا رک پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک عام آدمی اسی وقت کھاتا ہے جب اسے بھوک لگتی ہے۔
کئی بار تو لوگ دوسری وجوہات کی بناپر بھی کھاتے ہیں۔ ان کے کھانے کا تعلق نہ تو بھوک سے ہوتا ہے اور نہ مقررہ وقت سے مثلاً کچھ اپنا اکیلا پن دور کرنے یا بوریت کو مٹانے کے لئے بے ضرورت کھاتے ہیں۔کچھ لوگ راتوں کو اٹھ کر بھی کھاتے ہیں۔ بعض لوگ دورانِ سفر لگاتار کھاتے رہتے ہیں، کسی پھیری والے کو خالی نہیں جانے دیتے۔ کھانا کھانے میں نظام الاوقات (ٹائم ٹیبل) کی پابندی نہ کرنا، بے ضرورت کھانا، ضرورت سے زیادہ کھانا وغیرہ ایسی عادتیں ہیں جن کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ جذباتی تحفظ کی کمی کو اس رویے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد انسان سب سے پہلے بھوک کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کا اولین احساس بھوک کا احساس ہے۔ اس کے اظہار کے لئے بچہ روتا ہے۔ ضرورت پوری ہوجانے پر وہ مطمئن ہوجاتا ہے۔ یہی رویہ زندگی بھر اس کا ساتھ دیتا ہے۔

کتنا بے بس ہے آدمی!
بھوک کے احساس پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔ بھوک لگنے کے بعد آدمی جلد سے جلد کھانا کھا لینا چاہتا ہے۔ البتہ رمضان المبارک کے روزوں کے دوران آدمی کی نفسیات یکسر تبدیل ہوجاتی ہے۔ سماج پر سایہ فگن روحانی ماحول آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اللہ کے حکم کی بجا آوری کا پختہ عزم اس کی قوتِ ارادی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور وہ آسانی سے بھوک اور پیاس پر قابو پالیتا ہے۔ لیکن عام دنوں میں یہ ممکن نہیں ہے۔ بھوک کی شدت آدمی کو توڑکر رکھ دیتی ہے۔ بھوک کی شدت میں اگر سامنے کھانا آجائے تو اعصاب کی مضبوطی اور قوتِ ارادی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں ڈھکوسلہ ثابت ہوتی ہیں!
بھوک پیاس اور دوسری جبلتوں پر قابو پانے کے لئے ہم بھی مولانا حالیؔ کی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ سکتے ہیں:
دنیا میں ایک شے مرے پرور دگار دے
یعنی کہ میرے دل پہ مجھے اختیار دے

لیکن عام مشاہدے کی بات تو یہ ہے کہ چاہے ہمارا پیٹ بھرا ہوا ہی کیوں نہ ہو، خوشبودار ، خوش رنگ اور خوش ذائقہ پکوان سامنے آجائیں اور ان کے ساتھ گرم گرم سموسے اور شامی کباب بھی ہوں تو۔۔۔۔
نہ جانے دیکھ کے کیوں ان کو یہ ہوا احساس
کہ میرے دل پہ انہیں اختیار آج بھی ہے

نوٹ
  • رسالے میں شائع شدہ تحریروں کو بغیر حوالہ نقل کرنا ممنوع ہے۔
  • قانونی چارہ جوئی صرف دہلی کی عدالتوں میں کی جائے گی۔
  • رسالے میں شائع شدہ مضامین میں حقائق واعداد کی صحت کی بنیادی ذمہ داری مصنف کی ہے۔
  • رسالے میں شائع ہونے والے مواد سے مدیر،مجلس ادارت یا ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تک ویب سائٹ دیکھنے والوں کی تعداد   369047
اس ماہ
Designed and developed by CODENTICER development